(اداریہ) غزہ کی جنگ اور ہمارے سیاسی فلاسفر - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا
غزہ کی جنگ اور ہمارے سیاسی فلاسفر

آج جب یہ تحریر رقم ہورہی ہے اسرائیل اور حماس کی جنگ کو چونتیس دن ہوچکے ہیں۔ جس میں اب تک گیارہ ہزار کے قریب فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اِن میں ساڑھے چار ہزار کے قریب بچے شامل ہیں۔1500 کے قریب یہودی بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔ حماس کے مقابلے میں اسرائیلیوں کا جانی ومالی نقصان اگرچہ بہت کم ہے، لیکن ان کا جانی نقصان 1967ء اور 1973 ءکی عرب اسرائیل دونوں جنگوں سے زیادہ ہے ۔ 7اکتوبر کو صبح صبح حماس کے اسرائیل پر حملے کی اطلاعات آنا شروع ہوئیں۔ جلد ہی ہمارے سیاسی فلاسفروں نے اِس طرح اپنی دانش بکھیرنی شروع کردی کہ یہ تو فلسطینیوں کے  خلاف نائن الیون ہوگیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ تو 9 مئی جیسا معاملہ لگتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ہم خاموشی سے دیکھ اور سن رہے تھے۔ لیکن ہمارا دل ہی نہیں دماغ بھی یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ یہ کوئی فالس فلیگ ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں۔ مثلاًوہ اسرائیل جواپنے ایک شہری کی جان بچانے یااُسے دشمن کی قیدسے چھڑوانے کی بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتا ہے، وہ اپنے کسی سیاسی ایجنڈے کی طرف بڑھنے کے لیے سینکڑوں یہودیوں کوکیسے مروا سکتا ہے ۔ وہ کیسے اپنے اِس تاثر بلکہ دعویٰ کو ختم کرسکتا ہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر ہے۔ وہ کیسے اپنے دفاع کی کمزوریاں یوں سامنے لا سکتا ہے ۔اور آخری لیکن انتہائی اہم بات یہ کہ کیا اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جو چندہفتے پہلے تک عربوں کو امن اورمحبت کے پیغام کے ذریعے بہت بڑا دھوکہ دینے میں کامیاب ہوتا نظر آرہا تھا، اُس نے اپنے اِس شاندار پلان کو خود تباہ کرلیا۔ جس سے عرب پکے ہوئے پھل کی طرح اُس کی جھولی میں گرجاتے اور کسی ایک یہودی کا خون بھی نہ بہانا پڑتا ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اسلام دشمن طاغوتی قوتوں سے کچھ زیادہ ہی مرعوب ہو چکا ہے۔ اگرچہ ہم اِس حوالے سے کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کے شکار تو نہیں ہیں لیکن ہمارا ایمان ہے کہ ذہنی پسپائی اختیار کرکے حریف کی بالادستی کو قبول کرلینا اور اپنی پوزیشن پر مطمئن ہو جانادرحقیقت بدترین اور حتمی شکست ہوتی ہے ۔ فرد ہو، معاشرہ ہو یا قوم ایسی ذہنی صورت حال اُس کی خود ی کو پامال کردیتی ہے ۔ مسابقت اور برتری کا جذبہ معدوم ہو جاتا ہے اور وہ ڈھلوان پر سے پستیوں کی طرف لڑھکنا شروع ہو جاتا ہے اورا نجام اکثر غلامی کی صورت میں نکلتا ہے ۔اگرچہ یہ چند گزارشات ایک خاص پس منظر میں جملہ معترضہ کے طور پر رقم ہوئی ہیں ۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ پورا عالم اسلام ہی مختلف نوع کی غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ہر سطح پر بُری طرح زوال پذیر ہے۔ فلسطینی بھائیوں کی نسل کشی پر مسلمانوں کا بے حسی اور بے حمیتی کا مظاہرہ اس وجہ سے ہے کہ زبان سے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ اُنہیں آخرت کی فکر کرناچاہیے اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دینا چاہیے اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کافر کے لیے تو یہ دنیا سب کچھ ہے۔ لیکن حقیقت میں ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دنیا بھی اپنی اپنی سنوارنا چاہتے ہیں کوئی اجتماعی یا قومی سوچ کسی سطح پر نظر نہیں آتی ۔ اور یہ باتیں تو اب صرف نصاب کی کتابوں میں لکھی رہ گئی ہیں کہ لکڑیوں کا گٹھا اگر بندھا ہوا ہو تو کوئی شخص اپنی قوتِ بازو سے اُسے توڑ نہیں سکتا اور اگر لکڑیاں الگ الگ کردی جائیں تو وہ بڑی آسانی سے توڑ دی جاتی ہیں۔ 1969ء میں صہیونیوں نے مسجدِاقصیٰ کے ایک حصہ کو آگ لگائی تھی جس کا دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید رد عمل سامنے آیا۔ مراکش کے شہر رباط میں عالم اسلام کے رہنما جمع ہوئے اورOIC دجو د میںآئی ۔ لیکن اُس کا نتیجہ کیا نکلا، مسلمان سمجھے ہم نے کرنے والا کام کردیا ہے، اب ہمیں مزید کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ دنیا اِس کاغذی اتحاد سے خوفزدہ ہو جائے گی۔ لہٰذا مسلمانوں نے اس حوالے سے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا۔ لیکن عالم کفر الرٹ ہوگیا۔ اُس نے مسلمانوں کو متحد کرنے کی کوشش کرنے والے دو لیڈروں یعنی شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں مروا دیا۔ شاہ فیصل کو ایک عربی شہزادے نے قتل کردیا اور بھٹو کو فوجی طالع آزما نے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔ علاوہ ازیں مسلمان ممالک کو آپس میں لڑانے کی بھرپور سازشیں شروع کردیں ۔ایران اور سعودی عرب کو ایک دوسرے کے خلاف میدانِ جنگ میں صف آرا کردیا۔
قصہ کو تاہ آج مسلمان ممالک کو یہ طاغوتی قوتیں ایک ایک کرکے تباہ وبرباد کررہی ہیں یا اپنے سامنے سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر رہی ہیں۔ یہ ہے اس امت ِ مسلمہ کا حال اگرچہ ہمیں بہت تردد ہو رہا تھا کہ آج کے عالم اسلام کے لیے امتِ مسلمہ کا لفظ استعمال کریں لیکن جس طرح ایک مسلمان عملاً کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ اسلام کے تمام بنیادی عقائد کو تسلیم کرتا ہے اور قولاً ہی سہی اُن پر وہ ایمان رکھتا ہے تو دنیا میں کسی کو حق نہیں کہ اُس کے اسلام کو تسلیم نہ کرے۔ اِسی طرح تمام تر غیرصالح کرتوتوں کے باوجود ہمیں عالم اسلام کو امت ِ مسلمہ کہنا ہوگا۔
صورت حال یہ ہے کہ فلسطینی مسلمان اِس موجودہ اُمتِ مسلمہ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں اور حماس اِس چھوٹے سے فلسطینی حصہ کا بھی ایک جز ہے جو آج سابقہ امتِ مسلمہ یہود سے برسر پیکار ہے۔ جبکہ یہود کو امریکہ اور یورپ سمیت اکثر عیسائی دنیا کی اخلاقی ،سفارتی ، مالی اور اسلحہ کی بھرپور مدد حاصل ہے۔ با ت آگے بڑھانے سے پہلے سابقہ امتِ مسلمہ یعنی یہود کا تاریخ میں جو کردار رہا ہے وہ مختصراً قارئین کے سامنے لانا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ یہودیوں کا حضرت یعقوب علیہ السلام کے ایک بیٹے یہودہ کے ساتھ آبائی سلسلہ جڑتا ہے ۔ اِسی حوالے سے یہ بنی اسرائیل کہلائے کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں مصر میں آباد ہوئے۔ وہاں حکمرانوں کی حیثیت اختیار کرگئے۔ لیکن پھر ان پر زوال آیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام پریہ ایمان تو لائے لیکن قدم قدم پر اُن سے بے وفائی کرتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر موجودگی میں بچھڑے کو معبود بنا لیا اور انتہا یہ کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں یروشلم میں داخل ہو کر کافروں سے جنگ کرنے کا کہا تو حضرت ہارون علیہ السلام کے سوا سب حکم ماننے سے انکاری ہوگئے۔ اور وقت کے پیغمبر کو جواب دیا کہ تم اور تمہارا خدا جنگ کریں ہم تو ایسا کرنے والے نہیں۔ تب انہیں چالیس سال تک صحرا نوردی کی سزا ہوئی۔ اِسی دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوگیا۔ چالیس سال بعد انہیں یوشع بن نون علیہ السلام کی رہبری میں دوبارہ عروج حاصل ہوا۔ لیکن اس کے بعد بھی یہ اپنی حرکتوں اور سازشوں سے باز نہ آئے ۔ قرآن پاک میں واضح طور پر آیا ہے کہ انہوں نے بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کو جو ان کی اصلا ح کے لیے مبعوث ہوئے تھے، اُنہیں ناحق قتل کیا۔ وہ عہدشکنی، فریب اور دجل میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے دنیا نے ہمیشہ انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا۔ طوالت سے بچنے کے لیے تاریخ کو تیزی سے پھلانگتے ہوئے ہم اٹھارویں صد ی میں آجاتے ہیں۔ جب امریکہ کے صدر بنجمن فریکلین جو امریکہ کے Founding Fathers میں سےتھے۔ اُنہوں نے یہودیوں کو امریکہ میں بسانے کی تجویز کی شد ت سے مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لیے ایک ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ بڑا خطرہ یہودی ہے۔ حضرات، یہودی جس سرزمین پر آباد ہوئے ہیں، انہوں نے اخلاقی سطح اور تجارتی ایمانداری کو پست کر دیا ہے۔ وہ الگ اور غیر مربوط رہتے رہے ہیں۔ وہ جہاں رہتے ہیں اس قوم کا معاشی طور پر گلا گھونٹنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ پرتگال اور اسپین کے معاملے میں ہوا تھا۔‘‘ گویا اپنے لیے یہودیوں کو خطرہ سمجھنے والوں نے اُنہیں نہ صرف عرب کی طرف دھکیل دیا بلکہ اُن کے پشت پناہ بھی بن گئے۔
دونوں عالمی جنگوں میں یہودیوں نے ایک فسادی کا رول ادا کیا اور فریقین کو اشتعال دلا کر جنگ کی آگ بھڑ کائی۔ یہودیوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے:’’ان کے اوپر ذلت تھوپ دی گئی ہے جہاں کہیں بھی پائے جائیں سوائے یہ کہ (انہیں کسی وقت) اللہ کا کوئی سہارا حاصل ہوجائے یا لوگوں کی طرف سے کوئی سہارا مل جائے۔‘‘ اس کی ایک یہ تشریح بھی کی گئی کہ یہ دنیا میں کبھی اپنے بل بوتے پر کوئی ریاست نہیں قائم کرسکیں گے۔ البتہ کسی دوسرے کا سہارا لے کر یہ ممکن ہوگا جیسے کہ اسرائیل اِس وقت امریکہ اور یورپ کے سہارے پر قائم ہے۔ "Give the Devil his Due" کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہودی ایک محنتی اور ذہین قوم ہے، البتہ یہ بات اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ ان کی محنت اور ذہانت کبھی دنیا میں مثبت کاموں میں استعمال نہیں ہوئی۔ عیاری اور سازش اِن کی سرِشت میں شامل ہے۔ بہرحال آج سابقہ امتِ مسلمہ جو اللہ تعالیٰ کی دھتکاری ہوئی اور مغضوب قوم ہے، وہ عیسائی دنیا کے سہارے سے اور اُس کی معیت میں موجود ہ اور حاضر امت ِ مسلمہ کے ایک حصہ پر آگ اور بارود کی بارش کررہی ہے جبکہ باقی امتِ مسلمہ اپنے مسلمان بھائیوں کے جلنے ، مرنے اور تڑپنے کا خاموشی سے نظارہ کررہی ہے۔