(منبرو محراب) اسرائیل کی غارت گری - ابو ابراہیم

9 /

اسرائیل کی غارت گری

عالم اسلام بالخصوص مقتدر طبقات کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟


امیرتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
امت کو اِس وقت فلسطین کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم رہتی دنیا تک ہمارے لیے رہنمائی ہے اس لیے آج ہم قرآن مجید کی چند آیات کی روشنی میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ آپ اور ہم سب جانتے ہیں کہ درندہ صفت اسرائیل اپنی جارحیت اور ظلم و ستم میں آگے سے آگے بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اس وقت تک 10 ہزار سےزائدفلسطینی شہید ہوچکے ہیں ۔ 50 فیصد غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے ۔ افسوس کا لفظ اس موقع پر بے وقعت معلوم ہوتاہے ، اصل میں اپنی بے بسی پر رونا آتا ہے ۔ سوائے اللہ کے کون ہے جو ہماری فریاد کو سن سکتا ہے ۔
اسرائیلی جارحیت کے پیچھے واضح طور پر امریکہ ، بھارت اور مغربی طاقتیں کھڑی ہیں ۔ اس وقت اسرائیل کی باقاعدہ پشت پناہی کی جاری ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں تم آگے بڑھو اور اپنے اہداف حاصل کرو اور اسرائیل کے اہداف میں صرف غزہ کے مسلمانوں کو وہاں سے نکال دینا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل ہدف گریٹر اسرائیل کا قیام ہے جس کے متعلق ان کے وزراء آج بھی کہہ رہے ہیں کہ ہماری سرحدیں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک ہیں ۔ ظاہر ہے اس میں فلسطین ، شام ، عراق ، سعودی عرب کے کچھ علاقے اور کویت سمیت بیشتر مسلم علاقے آتے ہیں ۔ اگر ہمارے عرب ممالک کو اب بھی سمجھ نہ آئے تو آخر کب سمجھ آئے گی ۔ یہود تو مدینہ شریف تک کو گریٹر اسرائیل میں شمار کرتے ہیں ۔(معاذ اللہ) پھر یہ کہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ کو شہید کرکے وہاں تھرڈ ٹمپل تعمیر کرنا بھی ان کے مقاصد میں شامل ہے ۔ وہ اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کی طرف بلا روک ، رکاوٹ کے بڑھ رہے ہیں ۔ ایک روس کبھی کبھی اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے ، کبھی قرارداد ویٹو کر دیتاہے ۔ یا پھر چائنہ کی طرف سے کوئی بات آئی ہے لیکن امت مسلمہ کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آرہا ۔ دوارب مسلمان اور 57 مسلم ممالک دنیا میں موجود ہیں ، ان کے پاس تیل جیسی دولت موجود ہے ، عربوں کے پاس بے شمار دولت ہے ، پاکستان کو ایٹمی طاقت بھی اللہ پاک نے دے رکھی ہے ۔ لکھنے والے نے لکھا اس سب کے باوجود ہم پانی کی ایک بوتل بھی غزہ تک پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ یہ ہماری بے بسی اور رسوائی کا آج عالم ہےاور اس کی وجہ کیا ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا : 
’’(مسلمانو!) اب تم پر جنگ فرض کر دی گئی ہے اور وہ تمہیں گراں گزر رہی ہے۔اورہو سکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرواور وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بری ہو۔اور اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرۃ:216)
قتال کا لفظ ہمیشہ جنگ کے معنی میں آتاہے ۔ یہاں قتال کی فرضیت کا حکم آرہا ہے ۔ مکہ کے 13 برس ہاتھ اُٹھانے کی بھی اجازت نہیں تھی ۔ وہاں صبر کرنے کی تلقین تھی لیکن ہجرت کے بعد قتال کی باقاعدہ اجازت دی گئی ۔
{اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْاط} (الحج:39) ’’اب اجازت دی جا رہی ہے (قتال کی) ان لوگوں کو جن پر جنگ مسلط کی گئی ہے ‘اس لیے کہ ان پر ظلم کیا گیاہے۔‘‘پھر وہاں قتال کا مقصد بھی بیان ہوا ۔ فرمایا :
{وَقٰـتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلہِ ط} (البقرۃ:193)’’اور لڑو ان سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے۔‘‘
ظلم کے خاتمے ، عدل کے نفاذ اور اللہ کی شریعت کےنفاذ کے لیے اگر کبھی جنگ بھی کرنا پڑے تو اسلام نے اس کی اجازت ہی نہیں بلکہ باقاعدہ حکم دیا ہے ۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ جب کسی کے ہاتھ یا پیر میں ایسا مہلک مرض پھیل جائے جس کی وجہ سے ہاتھ یا پیر کاٹنا ضروری ہوجائے تو دل تو نہیں چاہتا مگر باقی جسم کو بچانے کے لیے کاٹنا پڑتا ہے ۔ بالکل اسی طرح جو لوگ انسانیت ، عدل و انصاف اور اسلام کے دشمن بن جائیں ، اللہ کے احکامات کے نفاذ میں رکاوٹیں ڈالیں ، انسانوں کی جانوں ، مالوں  اور عزت و آبرو سے کھیلتے ہوں ایسے فاسد وں اور ظالموں کی اگر بیخ کنی کرنا پڑے تو اس کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ اس کا حکم دیا گیا تاکہ عدل کا نفاذ ہو ، مخلوق خدا کو جینے کا حق ملے اور ان کو شریعت پر عمل کرنے کا موقع ملے۔البتہ جیسے نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج بھی فرض ہیں مگر ان کی ادائیگی کے لیے شرائط ہیں۔ مثلاً نماز کی فرضیت کا حکم بھی قرآن میں ہے لیکن یہ نابالغ پر فرض نہیں ہے، ہر وقت فرض نہیں ہے ، صرف پانچ وقت فرض ہے۔ زکوٰۃ ہر ایک پراور ہر وقت فرض نہیں ہےبلکہ صاحب استطاعت پر سال میں ایک مرتبہ فرض ہے ، حج ہر ایک پر فرض نہیں ہے۔ صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ اسی طرح قتال بھی فرض ہے لیکن کب فرض ہوتا ہے ، کس پر فرض ہے ، کس جگہ فرض ہے ، اس کی تفسیر موقع ، مقام اور وقت کی مناسبت سے آتی ہے ۔ مثلاً اقامت دین کی جدوجہد کے حوالے سے ہم بیان کرتے ہیں ، ڈاکٹر اسراراحمدؒ بیان کرتے رہے کہ جب باطل نظام کے ساتھ ٹکرانے کا مرحلہ آئے گا تو سامنے چونکہ مسلمان ہوں گے اس لیے ہم جان لینے کی بات نہیں کریں گے بلکہ دین کے لیے جان دینے کی بات کریں گے ۔ خروج کے مسئلے پر فقہا ءنے بھی کلام کیا ہے ۔تاہم کفار سے قتال کا معاملہ الگ ہے ۔
کبھی قتال اس مقصد کے لیے بھی ہوتا ہے بڑی عجیب اور حساس مثال سورۃالحجرات میں ہم پڑھتے ہیں:
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ}(الحجرات:10) ’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کر ادیا کرو ۔‘‘
یہ ایمان والوں کے درمیان صلح رہے امن رہے اتنابڑا یہ مقصد ہے کہ اگر کبھی اس کے لیے جنگ بھی کرنا پڑے تو جنگ کی جائے گی اس قتال کے مقاصد میں یہ مقصد بھی ذہن میں رہے گو کہ دو گروہوں کو صلح پر آمادہ کرنے کے لیے پہلے بہت سارے steps ہوں گے قتال آخری بات ہے ان کو سمجھایا جائے ان کا کوئی social boycott کیا جائے گا ان پر کوئی pressure ڈالا جائے گا ۔ حتمی بات یہ ہے اگر ایک زیادتی پر اتر آیاصلح پر آمادہ نہیں ہوتا تو باقی سارے مل کر اس سے جنگ کریں اور اس کو صلح پر آمادہ کریں۔
اگلی آیت میں فرمایا :
’’(اے نبیﷺ!)یہ آپ سے پوچھتے ہیں حرمت والے مہینے میں جنگ کے بارے میں۔کہہ دیجیے کہ اس میں جنگ کرنا بہت بڑی (گناہ کی) بات ہے۔لیکن اللہ کے راستے سے روکنا‘ اس کا کفر کرنا‘ مسجد ِحرام سے روکنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے کہیں بڑا گناہ ہے۔اور فتنہ قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔‘‘ (البقرۃ:217)
اس آیت کا پس منظر ذہن میں رکھئے ۔ جنگ بدر سے پہلے کی بات ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے کچھ مہمات روانہ کی تھیں ۔ ایک ایسی مہم میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک کافر قتل ہوگیا ۔ بعض مفسرین نے لکھا جمادی الثانی کی آخری تاریخ تھی اور دن کا آخری وقت تھا ۔ ادھر رجب کا چاند نظر آگیا ۔ حرمت والے مہینوں میں رجب بھی شامل ہے جن میں قتال نہیں کیا جاتا تھا ۔ جب مسلمانوں کے ہاتھوں کافر کا قتل ہوگیا تو مشرکین نے بڑا طوفان اٹھا دیا۔ بالکل آج ہی کی طرح جیسے دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوکر بعض لوگ طوفان اُٹھا رہے ہیں کہ حماس نے غلط کر دیا ۔ اور تو اور متحدہ عرب امارات کی وزیر مملکت برائے بین الاقوامی امور کہہ رہی ہے کہ حماس کے حملے بڑے گھناؤنے ہیں۔ اسی طرح کچھ ہمارے لوگ بھی باتیں کر رہے ہیں کہ حماس والوں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ، پتا تھا اس کا ری ایکشن کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔ مشرکین نے بھی اسی طرح طوفان اُٹھا دیا کہ مسلمان تو بڑے ظالم ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کیا فتویٰ دیا ؟ اگر حرمت والے مہینوں میں لڑنا بڑا گناہ ہے تو اللہ کے راستہ سے روکنا، اس کا انکار کرنا ، مسجد حرام سے روکنا ، اس کے رہنے والوں کو اس میں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے۔ کفار کو اپنے ایک بندے کا قتل نظر آتا ہے تو یہ سب ظلم جو مسلمانوں پر کر رہے ہیں وہ نظر نہیں آتے ؟
اسی تناظر میں دیکھئے ۔ 75 سال میں یہودیوں نے ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا ، مسجد اقصیٰ کی بار بار بے حرمتی کی ، مسجد اقصیٰ میں نماز سے روکا ، حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے والوں کو شہید کیا ، فلسطینیوں کے معصوم بچے بے دردی سے قتل کر دیے ، فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا ، ان کی زمین ان سے چھین لی اور پوری اُمت مسلمہ بھی سوتی رہے ، مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کو تیار نہ ہو تو بے چارے فلسطینیوں کے پاس سوائے اس کے کونسا راستہ بچتا ہے کہ وہ کچھ تو مزاحمت کریں ۔ لہٰذا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہمیں بات کرنی چاہیے۔ کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ان ظالموں کوظلم کرتے ہوئے شرم نہیں آتی ہے تو مظلوم جو اپنی آزادی کے لیے لڑرہے ہیں ان کو defend کرنے میں ہم کیوں شرماتے ہیں ؟ دنیا جہاں کے بدمعاشوں اور ظالموں کا ساتھ دینے میں ہمیں شرم نہیں آتی تو ان مظلوم فلسطینیوں کے پاس بچا کیا ہے ؟ کیا وہ آزادی کی جنگ نہ لڑیں؟ مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کا فرض اُمت کی طرف سے ادا نہ کریں۔ ان کے اس حق کو ہم کیوں defendنہیں کرتے۔ دفاعی پوزیشن پر جانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں ؟
ہمارے کچھ حضرات کا خیال ہے کہ بھائی تم لوگ جنگ کی باتیں کر رہے ہو۔ تو کیا ساری دنیا ظلم کے لیے جنگ نہیں کر رہی؟ اس امریکہ بدمعاش کو ساری دنیا نے اجازت دی بلکہ اس نے اجازت لی یو این او کے اندر اور اقوام متحدہ کے اصولوں کو توڑتے ہوئے امریکہ نے برطانیہ کے ساتھ مل کر عراق کا کیا حشر کیا اور اس کے بعد کہا کہ Weapons of mass distructionہمیں نہیں ملے۔ اس سے پہلے نائن الیون کا ڈراما رچا یا اس کے بعد افغانستان پر چڑھ دوڑا اور لاکھوں مسلمان شہید کر دیے، لاکھوں اپاہج کر دیے۔ ان ظالموں کو ظلم کرنے کے لیے جنگیں تھوپنے کی اجازت ہے۔ مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی دنیا ان کو اگر اجازت دےتو آپ کے میرے رب نے ظلم کے خاتمے کے لیے اور فتنے کو ختم کرنے کے لیے اور مظلوموں کی داد رسی کے لیے جنگ کا حکم دیا ہے ہم کیوں اتنے ٹھنڈے ہو کر اور معذرت خوانہ رویوں کے اندر جبر قبول کر لیتے ہیں۔ اللہ ہمیں بھی غیرت دینی عطا فرمائے۔ حمیت دینی عطا فرمائے۔ مسلمان امت کا درد اللہ ہمیں عطا فرمائے۔
خدا کی قسم قرآن ایمان والوں کو یہ نہیں سکھاتا ۔ کوئی منافق بن جائے تو بات الگ ہے مگر ایمان والا ہو اور ایمان کا دعوےدار ہو تووہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے گا کیونکہ اللہ قرآن میں اس کا حکم دے رہا ہے ۔
ایک دوسرے زاویے سے بھی ہمیں سوچنا چاہیے۔ اگر آج ہم فلسطینیوں کے حق میں کھڑے نہیں ہوتے ، نہیں بولتے تو کل ہم کس منہ سے کشمیریوں کے حق کی بات کریں  گے ۔ کل کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم اور جبر ہوگا تو ہم کس منہ سے بات کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے : 
’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں‘اور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر جو مغلوب بنا دیے گئے ہیں‘جو دُعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار‘ ہمیں نکال اِس بستی سے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں۔اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے‘ اور ہمارے لیے خاص اپنے فضل سے کوئی مددگار بھیج دے۔‘‘ (النساء:75)
exactly آج کےلیے گویا یہ رہنمائی ہے ۔ اسی طرح ہجرت کے بعد مکہ میں جو مسلمان رہ گئے تھے ان پر مظالم ہو رہے تھے ، کمزور مرد ، عورتیں بچے مدد کے لیے پکار رہے تھے ۔ جبکہ مکہ فتح ہوا تو یہ سارا ظلم ختم ہو گیا ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا جب قتال کی شرائط پوری ہو جائیں تو قتال کرنا فرض ہو جاتاہے ۔ علماء فرماتے ہیں اگر کسی علاقے میں مسلمانوں پر کفارحملہ آور ہو جائیں تو ان مسلمانوں کا دفاع کرنے کے لیے کھڑا ہونا، ان پر مظالم کرنے والوں کے خلاف لڑنا امت پر فرض ہو جاتاہے ۔ البتہ اس میں کچھ فقہی مسائل بھی ہیں ۔ جیسا کہ مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی فرمایا کہ الاقرب فالاقرب والااصول سب سے پہلے لاگو ہو گا کہ جو مسلمان قرب و جوار میں رہتے ہیں ان پران کی صلاحیت اور استطاعت کے مطابق سب سے پہلے قتال فرض ہو جائے گا ۔ اگر ان کا جہاد بھی کافی نہ ہو تو پھر ہوتے ہوتے ساری اُمت پر استطاعت اور صلاحیت کے مطابق فرضیت کا معاملہ آئے گا ۔ جو کچھ نہیں کر سکتا وہ کم از کم دعا تو کر سکتا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے دعاؤں کا اہتمام کیا۔ مگر افسوس کی بات ہے ، شرم سے بھی آگے بڑھ کر ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہمارے بڑے شہروں میں ڈانس پارٹیاں ہورہی ہیں ، کراچی کے elite کلاس کے سکول کی چند باتیں منظر عام پر آچکی ہیں کہ وہاں نیم برہنہ لباس بھی ہے ، شراب کی بوتلیں بھی ہیں اور ڈانس بھی ہے ۔
لاہور میں 28 اکتوبر سے 12 نومبر تک دو ہفتوں  پر مشتمل ایک بڑے فیسٹیول کا اعلان کیا گیاجس میں ناچ گانا، سٹیج ڈرامے اور بہت کچھ بے حیائی کا سامان تھا، پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے زیر اہتمام اس کا اشتہار اخبارات میں شائع ہوا ۔ اگرچہ بعد میں اس میں سے ناچ گانے کو نکال دیا گیا۔وہاںفلسطین میں مائیں، بچے بوڑھےمدد کے لیے پکار رہے ہیں ۔ اے دنیا کے مسلمانو! تم کہاں رہ گئے ؟ اور ڈوب مرنے کا مقام ہے ، بلکہ بے غیرتی کی انتہا ہے۔ یہ لوگ اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں ، بیٹیوں ، ماؤں اور بچوں کے لیے دعا کرنے کے لیے تیار نہیں ؟ روز قیامت اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے ؟ کس منہ سے رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے طالب ہوں گے کہ اپنے مسلم بھائیوں کے بے بس بچوں کی لاشیں دیکھ کر بھی ہمارا دل نہیں پسیجا ۔ جن کے لیے ہسپتال بند کر دیے گئے ، زخمیوں کے علاج کے لیے ادویات تک نہیں ہیں ۔ ان مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے سے بھی ہم رہ گئے ۔
ہم تو اپنے حکمرانوںسے گزارش کر سکتے ہیں ، اللہ کرے میری بات ہمارے آرمی چیف تک پہنچ جائے ، آپ حافظ قرآن ہیں۔ آپ کے بارے میں اچھے تاثرات بعض لوگوں کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب نے بھی ذکر کیا ہے۔ آپ کے پاس طاقت اور اختیار ہے ۔ ہم نہیں کہتے کہ آپ جنگ کا اعلان کر دو ، ایٹم بم چلا دو ۔ ٹھیک ہے مصلحت بھی ہوگی ، حالات کا تناظر بھی ہوگا ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کچھ نہ کرو ، کچھ تو کرو اللہ کے بندو! کم ازکم فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لیے آواز تو اٹھائیں ، چند بڑے مسلم ممالک کے سربراہان مل کر دنیا کو پیغام تو دیں کہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکی جائے ۔کچھ تو ہمارے مسلم حکمران غیر ت مندی کا ثبوت پیش کریں ۔
عرب ممالک کی یہ خوش فہمی ہے کہ خاموش رہ کر وہ بچ جائیں گے ۔ امریکہ سے دوستی ان کی بادشاہتیں بچا لے گی ، قطعا ًنہیں،یہود کا اصل مقصد گریٹر اسرائیل ہے ۔ اگر آج عرب حکمران خاموش رہیں گے تو کل اپنے علاقے اور اپنی بادشاہتیں کیسے بچائیں گے ؟
ایک کالم نگار آصف محمود صاحب نے او آئی سی کے بارےمیں لکھا ہے کہ او آئی سی فلسطین کے مسئلے کے لیے بنی تھی اور باقاعدہ اس کا پورا charter ہے، اس کے کئی آرٹیکلز ہیں۔ جن کاحاصل یہ ہے کہ امت میں کہیں پر بھی کسی کے ساتھ ظلم ہو یا کسی علاقے پر قبضہ ہو جائے تو اس forum سے ہم نے اس کےلیے کوشش کرنی ہے۔ کیونکہ یروشلم پر ابھی یہود کا غاصبانہ قبضہ ہے تو عارضی طور پر ہم اس کا آفس جدہ میں بنا رہے ہیں اور جب یروشلم ہمیں مل جائے گا تو فلسطین کا اصل میں دارالحکومت تو وہ ہو گا جس میں مسجد اقصیٰ ہمارے پاس ہوگی۔ پھر پوری القدس committee الگ ہوگی کہ فلسطینیوں کی اخلاقی اور عسکری طور پر مدد کرنی ہے۔
آج کل فوجی طاقت کے لحاظ سے ممالک میں سب سے اہم پوزیشن پاکستان کی ہے ۔ 1967ء  میں  بن گوریان نے کہا تھا عربوں سے تو ہم نمٹ لیں گے لیکن ہمارا اصل نظریاتی دشمن پاکستان ہے ۔ پھر نیتن یاہو نے بھی کہا کہ ہمیں پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنا چاہیے ۔ پاکستان نے ان دنوں میں میزائل ٹیسٹ کیا ہے اچھی بات ہے اگر یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ ہم ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں، بہترین ایئر فورس اور تربیت یافتہ فوج ہمارے پاس ہے ۔ اگر پاکستان سٹینڈ لے اور تمام مسلم ممالک مل کر آواز بلند کریں تو مسلمانوں کی نسل کشی کا یہ سلسلہ رک سکتا ہے اور فلسطین کے مسلمانوں کو اس سے تقویت ملے گی ۔ مسلم حکمرانوں کے کھڑے ہونے ، غیرت اور حمیت کا ثبوت پیش کرنے سے ان کا دل بھی بڑا ہوگا ۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو غیرت عطا فرمائے ۔ کفار اگر’’ الکفر ملت واحدہ‘‘ کی مانند ہو چکے ہیں تو اُمت مسلمہ کیوں ایک آواز نہیں بن سکتی ۔ اسی کی طرف ہم توجہ دلا رہے ہیں ۔
آخری بات جو ہمیں کہنی ہے وہ یہ ہے کہ ہم پاکستان کو مضبوط کریں ۔ اگر اسرائیل کے ذمہ دار کہہ رہے ہیں کہ ہمیں خطرہ پاکستان سےہے تو پاکستان کے ذمہ داران کو بھی سمجھ جانا چاہیے کہ ہماری کوئی حیثیت ہے ، ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا ہے ، ہمارے پاس ایٹمی قوت ہے ، بہترین فوج ہے ، اگر اسرائیلی اپنے مذہب اور کاز کے ساتھ مخلص ہیں تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے ۔ ہم یہاں اسلام کو نافذ کریں ، تب اللہ کی مدد بھی آئے گی، پھر ہم آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے ، پھر ہم صرف احتجاج نہیں کریں گے ، پریس کلبوں کے سامنے مظاہرے نہیں کریں گے بلکہ پھر توحکومتی سطح پر سیدھا جواب دیا جائے گا ۔ اس کے لیے ہم نے محنت کرنی ہے، اس کے لیے اپنے بچوں کی تربیت کرنی ہے ، ان کے اندر جذبہ شہادت بیدار کرنا ہے ، انہیں اللہ کے دین کی طرف لگانا ہے ۔میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارے مظلوم بھائی بہنوں کی اللہ تعالیٰ مدد کرے، اللہ تعالیٰ ہمیں غیرت دینی عطا فرمائے ، جو فلسطینیوں کے ساتھ مالی تعاون کر سکتے ہیں وہ مالی تعاون بھی کریں ، ہمارے حکمرانوں کے لیے بھی دعا کریں کہ ان کے دلوں میں اللہ غیر ت ڈال دے کہ وہ امت کی امامت کرنے والے بنیں، اللہ تعالیٰ پوری امت کے مقتدر طبقات کو اس کی توفیق دے۔ یہ دعا کرنا ہمارے بس میں ہے، ہم کر سکتے ہیں اوراس سے آگے بڑھ کر کچھ کر سکتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے ۔ آمین یا رب العالمین!