(زمانہ گواہ ہے) اسرائیل فلسطین کی جنگ کا انجام کیا ہوگا؟ - مرتضی احمد اعوان

9 /

مسلمان ممالک جب تک متحد ہوکر غزہ کے مسلمانوں کی مدد کے لیے

عملی اقدامات نہیں کریں گے، چین یا روس سے امید لگانا خام خیالی

ہے: ایوب بیگ مرزا

احادیث کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بالآخر دنیا

کے خاتمے سے قبل کل روئے ارضی پر اسلام غالب ہو کر رہے گا

البتہ اس سے پہلے عالم اسلام بُری طرح زیرِ عتاب رہے گا۔ آصف حمید

نجی اور ریاستی دونوں سطح پر فلسطین کی عسکری تعاون سمیت ہر

طرح کی مدد کرنا او آئی سی کے مینڈیٹ میں شامل ہے: رضاء الحق

اسرائیل فلسطین کی جنگ کا انجام کیا ہوگا؟کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : مرتضیٰ احمد اعوان

سوال:اسرائیل نے تقریباً ایک ماہ سے غزہ پر قیامت ڈھا دی ہے اور مظالم کی انتہا کر دی ہے۔ یونیسف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ہر دس منٹ کے بعد ایک بچہ شہید ہو رہا ہے۔یہ مظالم کہاں تک جا کے رکیں گے ۔ اسرائیل کی اینڈ گیم کیا ہے ؟
ایوب بیگ مرزا: تقریباًایک ماہ ہو چلا ہے اس درندگی کو جو اسرائیل نے شروع کر رکھی ہےاور غزہ پر یقیناً قیامت ڈھا دی ہے اور مغربی کنارے پر بھی سینکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ End game سے بات کا آغاز کروں تو جسے وہ اپنا مسیحا کہتے ہیںاور ہم دجال کہتے ہیں اسےانہوں نے عالمی بادشاہت کے لیے بٹھانا ہے یہ ان کا آخری ہدف ہے اور اس کےتحت ایک عالمی شہنشاہیت قائم کرنا ہے۔ یہ ان کا مقصد ہے۔ ہوگا وہ جو اللہ چاہے گا،اس مقصد کوحاصل کرنے کے لیے یہودیوں نے کئی مراحل طے کرنے ہیں۔ اس میں ان کے کئی مراحل ہیں۔ اس میں آرمیگاڈان ہے ۔پھر وہ اس کے ذریعے گریٹر اسرائیل حاصل کریں گے۔ پھر وہ third temple بنائیں گے۔ اور پھر وہ تخت داؤدی ہے اس پربیٹھ کران کے مسیحا نے حکومت کرنی ہے ۔ان کا پورا ایک نظریہ ہے کہ انہوں نے یوں کام کا آغاز کرنا ہے یہ مراحل طے کرنے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یہ ہمارے بعض مسلم رہنماؤں اور مسلم سکالرز کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ اگر ہمارا اظہار پرُامن طریقے سےہو یعنی ہم سمجھوتا کریں اور ہم اس طرح کے کام نہ کریں جس طرح کے حماس نے کیا ہے تو بڑا اچھی طرح معاملہ چل سکتا ہے۔یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے کہ مسیحا کو تخت داودی پربٹھانا اور اس کے لیے انہوں نے یہ سارے مراحل طے کرنے ہیں اوراس کے لیے کہیں انہیں پیار محبت سے کرنا پڑے، کہیں مذاکرات کرنے پڑیں، کہیں پیغامات کا تبادلہ کرنا پڑے اور کہیں جنگ و جدل کرنا پڑے وہ ہر طریقہ اپنائیں گے۔ وہ اپنے اس ہدف سے کسی طور پر نہیں ہٹیں گے کہ انہوں نے اپنے مسیحا کو یہ درجہ دینا ہے۔ لہٰذا ہم مسلمانوں کو یہ بات ذہن میں رکھ کر ان سے معاملات کرنا چاہیےکہ وہ بالآخر یہ چاہتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ ان کے گریٹر اسرائیل میں صحر ائے سینا کا ایک حصہ، مدینہ منورہ کا ایک حصہ اور عراق بھی آتا ہے جب تک وہ اس کو حاصل نہیں کرے گا وہ اپنے اس مذہبی عقیدے پر عملی جامہ کیسے پہنائے گا۔ لہٰذا اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہم مسلمان اس کے اس ہدف کے راستے میں رکاوٹ بنیں۔
آصف حمید: احادیث کے حوالے سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ اینڈ گیم تو اصل میں اسلام کا بول بالا ہی ہے اور دنیا کے خاتمے سےقبل کل روئے ارضی پر اسلام کا پرچم سربلند ہوگا، ان شاءاللہ! احادیث میں ہی آتا ہے کہ دجال کا مقابلہ بھی مسلمان کریں گے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ مل کر اور یہودی دجال کے پیروکار ہیں اور اسی کے ساتھ ان کو اللہ تعالیٰ نیست و نابود کرے گا ۔ یہودی سب سے پہلے تو یہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل ہر طرح کے غیراسرائیلیوں سے پاک ہو جائے۔ حالیہ یو این او کا اجلاس ہوا اس میں نیتن یاہو نے جو نقشہ دکھایا تھا اس میں کہیں فلسطین کا وجود نہیں تھا۔وہ نقشہ ٹوٹل اسرائیل دکھارہا ہے جس میں غزہ اور ویسٹ بینک بھی شامل ہے تو ان کا پہلا قدم یہ ہے کہ ایک دفعہ ہم یہ کام تو پہلے پوری طرح کر لیں۔ گریٹر اسرائیل کا نقشہ پچھلے کئی دہائیوں سے منظر عام پرآیا ہوا ہے۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جو ابراہام ایکارڈ آیا تھا اس کے اندر بھی جو package دیا جا رہا تھا وہ یہی تھا کہ یہاں سے فلسطینی اپنا گھر بارچھوڑیں ان کو ہم کسی اورجگہ آباد کرتے ہیں اور وہاں universities بھی ہوں گی اور امن بھی ہو گا اور تمام ٹیکنالوجی دے دیں گے اسرائیل کے لیے خالی کر دیں۔ فلسطینیوں نے اس کو مسترد کیا کہ ہم نہیں کریں گے ظاہری بات ہے مذہبی دینی جذبات بیت المقدس کے ساتھ وابستہ تھے۔ اسرائیل کو لگتا ہے اس معاملےمیں ایک موقع مل گیا ہے۔ جو بھی واقعات ہوئے کہ حماس نے حملہ کیا ظاہری بات ہے حماس اور فلسطینی بھی تنگ آئے ہوئے ہیںروز روز کا ظلم و ستم جو اسرائیل کی طرف سے ہو رہا ہے۔ پھر پوری دنیا کے مسلمان اس پر خاموش تھے یعنی انہوں نے یہ دیکھا کہ یہ تو ایک نارم بن گیا کہ ہم مرتے ہیں کچھ بھی نہیں ہوتا تو لہٰذا انہوں نے ایک initiative لیالیکن اس کے counter کے طور پر جو ہو رہا ہے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے اور کہ اسرائیلی اس جگہ کو خالی کروا کے غزہ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اوروہ فلسطینیوں کو بسنے نہیں دیں گے۔ بہرحال یہ کھیل تو انہوںنے کی ہے۔ لیکن وہ اپنی کھیل میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ ایک اللہ تعالیٰ کی بھی تدبیرچل رہی ہے کہ اس پورے واقعے نے پوری دنیا کے مسلمانوں اور بہت بڑی تعداد میں غیر مسلموں کے دل میں اسرائیل کے لیے نفرت پیدا کر دی ہے جو اسرائیل شاید نہیں سوچ پایا تھا جس طرح کی تصاویر غزہ میں شہید کیے جانے والے بچوں کی آ رہی ہیں وہ ظاہر کر رہی ہیں کہ اب اسرائیل اور اسرائیلیوں کا مقام جو کبھی west میں تھا تو اب کم از کم اس کو humanitarian level کے اوپر ضرور condemn کیا جائے گا الا یہ کہ جو بے ایمانی کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہوئے ہوں۔ پھر مسلمان عوام میں اب اسرائیل کے خلاف جذبات بہت بھڑک چکے ہیں اگر اسرائیل آگے بڑھتا چلا گیا توپھر عوام بڑی تعداد میں نکلیں گے اوریہ معاملات جوں جوں آگے بڑھیں گے یہ چیزیں اسرائیل کے لیے دنیاوی لحاظ سے مشکلات پیدا کریں گے۔
سوال: وہاں پر نیتن یاہوکی پوری حکومت ، یہاں تک کہ ان کےمذہبی رہنما بھی فلسطین سے مسلمانوں کو خالی کروانا چاہ رہے ہیں اور وہاں پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔ یہ جو حالیہ جارحیت چل رہی ہے کیا یہ سات اکتوبر کے واقعات کا ردعمل ہے یایہ سب کچھ پہلے سے پلان کا حصہ تھا؟
رضاء الحق:غزہ سے مسلمانوں کو نکال کر مصر یا کسی اور جگہ آباد کرنایہ2006ء سے ہمارے سامنے ان کا منصوبہ موجود ہے۔اسرائیل کامعروف تاریخ دان ایلان پایائی نے 2006ء میں ایک کتاب لکھی:
"Ethnic Cleansing of Palestine"
یعنی اس نے فلسطین کی نسل کشی اور ان کو وہاں سے نکال باہر کرنے کا پورا ایک اسرائیلی منصوبہ بیان کیا۔ پھر ابھی حال ہی میںاسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیرجنرل ایلیزروزبام نے اس چیز کا تذکرہ کیا کہ صہیونی reservist (یعنی وہ آباد کار جو فوج کا حصہ ہیں) میں تین لاکھ کو موبلائز کردیا گیا ہے ایک لاکھ غزہ کے محاصرے میں اس وقت باقاعدہ حصہ لے رہے ہیں اور پھرسوشل میڈیا کے اوپر کچھ posts بھی آئیں کہ ان کو اسرائیلی فوج کے حکام اسلحہ تقسیم کر رہے ہیں۔ ابھی اسرائیل نے وہاںپر زمینی فوجی کارروائی شروع نہیں کی لیکن بہرحال وہاں پر چھاپے مار رہے ہیں۔ جو فضائی حملے ہیں وہ علیحدہ ہیںجو مغربی کنارہ ہے وہاں بھی تقریباً اب تک دو سو کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔یہ آباد کار ہی کر رہے ان کےمعروف رباعی مائنس فریڈمین اور دیگر مذہبی رہنمائوں کی سوچ یا نظریات کو دیکھیں تو اس کے مطابق فلسطینی انسان نہیں ہیںانسان نما حیوان ہیں اور یہ آپ کو تلمود اور تحریف شدہ تورات میں بھی یہی نظر آتا ہےنیتن یاہو نےیہ بھی کہا کہ ہماری جنگ "childern of light against childern of darkness" ہے۔باقاعدہ بچوں کا ذکر کیا اور بچوں کی کس بڑی تعداد میں 2000ء سے لے کے2016ء تک اسرائیل بمباری کر کے وحشیانہ طور پر شہید کر چکا ہے۔ یہ سات اکتوبر سے بہت پہلے کی بات ہے ۔ اسرائیل کے جتنے آپ کو وزیراعظم نظر آتے ہیں ان سب نے باقاعدہ فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کا بحیثیت وزیر اعظم بھی پرچار کیا، اپنے mission کو آگے بڑھایا۔ اُن کی اپنی ideology ہے اس کو آگے بڑھایا۔جو انتفادہ الاقصیٰ ہے تقریباً 2000ء کے بعد اس کا آغاز ہوا ۔اس وقت سے لے کے 2016ءکی مارچ تک تقریباً ڈھائی ہزار بچوںکو شہید کیا جا چکا ہے تیرہ ہزار سے زائد کو زخمی کیا گیا تقریبا ساڑھے پانچ سو کے قریب اپنی جیلوں میں قید کیا گیا اور مرد ، عورتیں اور بوڑھے تو اس کے علاوہ ہیں۔اسرائیل نے2006ء میں لبنان پر حملہ کیا تو حزب اللہ نے بہرحال اچھا جواب دیا اور اسرائیلی مار کھا کے روتے ہوئے واپس آ رہے تھے۔لیکن بہرحال اسرائیل نے 2007،2009 ،2015ء، 2016، 2017، 2020،2021اور اب 2023ء میں غزہ پر حملے کیے اور ساڑھے آٹھ ہزار سے زیادہ لوگوں کو شہید کیا۔پچاس سے ساٹھ فیصد عمارتیں تباہ کیں۔ جن میں سترفیصد بچے اور عورتیں ہیںپھر اسرائیلی فلسطینیوں کو غزہ بدر کر کےصحرائے سینا کےکیمپوں میں جا کے قید کرنا چاہ رہے ہیں ۔وہ بھی ایک قید خانہ ہوگا۔ ابھی مصر اس کو resist کررہاہے، اس کی ایک بنیادی وجہ بھی سمجھ لیں۔ ایک تو وہ کہتا ہے کہ بلاوجہ لوگ ہمارے پاس آئے ہیں پناہ گزین ،ہم ان کو کیوں host کریں۔ بہرحال ہمارے مسلمان ممالک کا ایک المیہ ہے کہ ان کے اندر اُمت کا درد ختم ہوتا جا رہا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ حماس کے بارے میں خاص طور پر جب حماس1987ءمیں قائم کی گئی تھی تو الاخوان کے ساتھ اس کے کچھ تانے بانے تھے تو مصر کو وہ بھی ایک خطرہ ہے کہ حماس اخوان کی ساتھی ہے اور جنرل سیسی توالاخوان کے صدر مرحوم محمد مرسی کا تختہ الٹ کے آیا ہوا ہے۔ یعنی ان کواپنے اقتدار کی فکر اور یہی آپ کو تمام مسلمان ممالک میں کم و بیش دکھائی دیتاہے۔
سوال: ایک مہینہ ہو چکا ہے تقریبا ًاسرائیل کی جارحیت جاری ہے۔ یو این او کا کردار کیاہے ؟ اس کی سیکیورٹی کونسل آج تک ایک قرارداد اسرائیل کے خلاف منظور نہیں کروا سکی ۔اس کی کیا وجہ ہے ؟
ایوب بیگ مرزا: ویسے تو دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ ہی جسے کہتے ہیں : "might is right" کہ طاقت ہے وہی ٹھیک ہے وہی سچ ہے ۔اس کی جھلک تو دنیا کی تاریخ میں ہر سطح پہ نظر آتی ہے کہ بڑا طاقتور ملک چھوٹے ملک پر حملہ کر دیتا ہے۔ ایسا ہوتا رہا ہے لیکن خود مغرب والوں نے ہی ایسے ادارے بنائے، پہلے اپنے ملک کے اندر بنائے کہ تمام معاملات قانون اور ضابطے کے مطابق چلیں، پھر انہیں عالمی سطح پہ وہ لےآیا کہ ہر چیز کے لیے ضابطے ہوں اور معاملات بجائے طاقت کے ضابطےکے تحت چلیں، یہ چیز مغربی ممالک نے داخلی سطح پر تو دیانتداری سے کی ۔ لیکن جو انہوں نے عالمی ادارے بنائے۔ انہوں نے بہت بڑی ڈنڈی ماری اورمار رہے ہیں وہ ان اداروں کو خالصتا ًاپنے مفادات کےمطابق استعمال کیا۔ اگرچہ یہ ویٹو کا مسئلہ اورسکیورٹی کونسل کا مسئلہ اب ان کے گلے کی ہڈی بناہوا ہے کیونکہ روس اور چین بھی ہیں اور وہ بھی بعض اوقات امریکہ اور یورپ کے کسی مفاد کے خلاف ویٹو کر دیتے ہیں لیکن وہاں شروع میںانہوں نے رکھا ہی اس لیے تھا تا کہ مغربی ممالک اور امریکہ اپنے مقاصد کے مطابق کام کر سکیں ۔انہوں نے ہمیشہ سلامتی کونسل کی ایسی قرارداد کو ویٹو کر دیا جو ان کے ملکی مفادات کے مطابق نہ تھا اس کا کوئی تعلق اس سے نہیں حق اور سچ کیا ہے۔ اب تو یہ حالت بن گئی ہے کہ یہ عالمی ادارے اقوام متحدہ، یونیسیف سکیورٹی کونسل، جنرل اسمبلی وغیرہ سب ان کے غلام ہیں ۔ وہ ان کےاشارے پر چلنے پر مجبور ہیں۔ ان کا خرچ سب انہوں نے اٹھایا ہوا ہے اور ان کو اپنے مفادات کے مطابق چلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ غزہ میں جو معاملہ ہو رہا ہے یہ آپ دیکھیے گا اس وقت تک سکیورٹی کونسل کوئی جنگ بندی کی قرارداد منظور نہیں کرائے گی جب تک غزہ میں فلسطینیوں کی قوت کو ملیا میٹ نہیں کر دیں گے۔ جب یوگو سلاویہ کے ٹکڑے ہوئے تو کیا ہوا جب تک مسلمانوںکے ساتھ شدید ظلم ہوتا رہا تو صرف ہمدردیاں دکھائی جارہی تھیں۔ جب دیکھا کہ جتنا ہم چاہتے تھے کر چکے ہیں تو پھر اس کے مطابق ایسی قرارداد لے کے آئے جس کے تحت قتل و غارت بند ہو جائے۔ سکیورٹی کونسل کی ان کے ضابطے کے تحت کوئی حیثیت ہے لیکن جنرل اسمبلی کی تو بس ایک محض قرارداد ہوتی ہے جو پاس ہو جاتی ہے جس کا آپ سمجھ لیں کہ تھوڑا سا اخلاقی سا دباؤ ہوتا ہے لیکن وہ نافذنہیں کی جا سکتی، اصل مسئلہ ہوتا ہےسکیورٹی کونسل کا اور اسرائیل کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سکیورٹی کونسل کو بھی جوتی کی نوک پر رکھتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اس نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے کہا ہے کہ استعفادو تم نےغزہ کے حق میں بیان دیا ہے تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم جاری کرتے ہیں وہ ان اداروں کے پیچھے چھپ کر وہ حکم جاری کرتے ہیں اور اپنے مفادات کے تحت دنیا کو چلاتے ہیں۔
سوال: یو این او کی جنرل اسمبلی نے انسانی بنیادوں پر ایک قراردادبھاری اکثریت سے منظور کروائی ہے۔ جس میں ایک سو بیس ممالک نے اس کے حق میں ووٹ دیا ہے، چودہ نے اس کی مخالفت کی ہے، پاکستان سمیت پینتالیس ممالک نے حصہ نہیں لیا۔لیکن پھر بھی یہ قرارداد بہرحال منظور ہوئی ہے۔کیا اس کی کوئی اہمیت ہے؟
آصف حمید: اس قرارداد کی اگر اہمیت ہوتی تو کچھ نہ کچھ اس کے مطابق کوئی عمل درآمد ہوتا۔ اس قرارداد کی اہمیت وہی ہےکہ یہ پاس ہو گئی ایک کارروائی ڈالی گئی۔میں سمجھتا ہوں کہ آج تک اقوام متحدہ یا سیکیورٹی کونسل نے کوئی بھی ایسا فیصلہ یا ایسا کام نہیں کیا جو مسلمانوںکے مفاد کا ہو۔ آپ کو پتہ ہے کہ سب سے بڑی بے ایمانی یہ ہے کہ اس میں کچھ ممالک کو ویٹو کا حق دیا گیا ہے ۔ اب کوئی بھی ظلم کرے اور دوسرا اس کو ویٹو کر کے اس کے حق میں چلا جائے۔ ظلم کے خلاف کوئی قرارداد ہو تو وہ رد ہو جاتی ہے۔ تو اس کے پورے ڈیکورم کی بنیاد ہی بے ایمانی پر ہے جو بڑی طاقتوں کے اصولوں کےمطابق چل رہی ہے۔ ہماری آنکھیں کھل جانی چاہیےکہ اصل میں تومسلمان ممالک کی اقوام متحدہ ہونی چاہیے تھی ۔ان کی ہے بھی تووہ بیچاری او آئی سی کے نام سے ہے لیکن اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ مسلمان ممالک کے جو حکمران ہیں وہ بھی اکٹھے ہوکر اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے کو تو بالکل بھی تیار نظر نہیں آتے۔ پانچ قراردادیں اور بھی آجائیں گی تو اس سے اسرائیل کو فرق نہیں پڑ رہا۔ اس نے بڑی محنت کی ہے اپنےآپ کو کھڑا کرنے میں اور پھر وہ ایک بہت بڑے درندے کے اوپر سوار ہیں جس کو امریکہ کہتے ہیں اس کواس لحاظ سے ان چیزوں کی کوئی پرواہ نہیں۔
سوال:یو این او میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم صاحب نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک بڑی بھرپور تقریر کی ہے اور پاکستان کا موقف بڑے واضح انداز میں پیش کیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان کو مزید کیا اقدامات کرنے چاہیے؟
رضاء الحق:پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم صاحب نے بہت کھل کر صہیونی ریاست کو ہدف تنقید بنایا اور ساتھ کینیڈا کوبھی ،کیونکہ اس سے پہلے کینیڈا کی تقریر تھی اس میں اسرائیل کے لیے ہمدردی تھی تو ہمارے مندوب نے اس کی مذمت کی اور کہا کہ آپ کو غیر مصدقہ خبروں کے مطابق اسرائیلی بچوں کی ہلاکت پر تو افسوس ہے لیکن دوسری طرف جو غزہ کے اندر تقریباً ساڑھے چار پانچ ہزار بچوںکو اور عورتوں کو شہید کیا جا چکا ہے اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔یہ کیسا دہرا معیار ہے، یہ کون سا انصاف ہے جس کی آپ بات کر رہے ہیں۔ اور پھر انہوں نے باقاعدہ یہ کہا کہ اصل میں گناہِ ازلی حماس کا حملہ نہیں ہے یہ تو1948ء میں اسرائیلی کا فلسطینی پر قبضہ کرنا ہے۔ وہ قبضہ جو کہ دھونس اور دھاندلی کے ساتھ کیا گیا۔عام طور پہ کہا جاتا ہے کہ او آئی سی سے اگر یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ مالی، سفارتی اور عسکری امداد کرے تویہ کوئی سوچے بھی نہ اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ یہ تو بڑی غیر منطقی سی بات ہے اور یہ بین الاقوامی تعلقات کے بھی خلاف بات جاتی ہے اور یہ بچگانہ سی بات ہے آپ کو شاید یہ سن کے حیرت ہو گی نجی اور ریاستی دونوں سطح یہ فلسطین کی عسکری اور فوجی امداد کرنا او آئی سی کے مینڈیٹ میں شامل ہے اوراس کے چارٹر میں باقاعدہ یہ تحریر ہے کہ او آئی سی کے قیام کا مقصدیہ ہے:
1۔ مسجد اقصیٰ کو جو شہید کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس کو دہرایا نہ جائے۔
2۔ جتنے مقدس مقامات ہیںان کی حفاظت کی جائے ۔
3۔ فلسطینیوں کی جدوجہد میں معاونت کرنا ان کے حقوق اور ان کی آزادی کی جدوجہد کی کامیابی کے لیے عسکری تعاون سمیت ہر ممکن مدد کرنا۔
او آئی سی کےچارٹر میں کوئی دو ریاستوں کا تذکرہ نہیں ہے وہ صرف ایک ریاست کو تسلیم کرتا ہے وہ ہے فلسطین۔ اب یہاں سے اندازہ لگائیں کہ جو او آئی سی کا صدر دفتر یعنی جنرل سیکرٹریٹ ہے اس کی اصل جگہ یروشلم ہے اور ساتھ یہ لکھا گیاہے کیونکہ وہاں پہ صہیونیوں کا قبضہ ہے تو ہم اس کو وقتی طور پہ جدہ میں منتقل کر رہے ہیں ۔لیکن ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کے مصداق ہم اس پرعمل نہیں کر پار ہے ہیں ۔1924ء کے بعد آج تک ہم مار ہی کھاتے جا رہے ہیں۔ اٹھ کر اپنی حفاظت کرنا، مسلمانوں اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنا، اپنے قبلہ اوّل کا تحفظ کرنا یہ ہمارے لیے شجرممنوعہ بن گیا ہے۔ ہم اس کی طرف جانا نہیں چاہتے اس خوف سے کہیں امریکہ ناراض نہ ہو جائے۔ ہم پر حملہ نہ کر دے۔ کچھ دن پہلے اردن جس کے اوپر اسرائیل نے حملہ کرکے1967ء میں اس کا علاقہ قبضہ کیا ہوا ہے، اس نے امریکہ سے درخواست کی ہے کہ مجھے پیٹریاٹ اور ایرو میزائلز دو تاکہ اسرائیل سے آنے والے میزائلز سے میں اپنے آپ کو بچا سکوں۔ اناللہ واناالیہ راجعون!یعنی آپ اس امریکہ سے مانگ رہے ہیں جو اسرائیل کا پکا ساتھی ہے۔ بہرحال یہ تو ہمارا المیہ ہے۔
سوال: جس طرح اسرائیل کی امریکہ اور اس کے دیگر اتحادی یورپی اقوام اور برطانیہ حمایت کر رہے ہیں۔ اسی طرح دوسرا دھڑاروس اور چین بھی ان قراردادوں کو ویٹو کر رہے ہیں۔کیا صرف یہ ویٹو کرنا ہی کافی ہے یا اس سے بھی کچھ آگے اقدامات ہونے چاہییں؟
ایوب بیگ مرزا: وہ انگریزی میں ہے: "God help those who help themselves"
جب تک قوم خود اپنے لیے کچھ نہیںکرے گی کوئی دوسرا اس کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ اسرائیل اور امریکہ پر بھی یہ بات منطبق ہوتی ہے۔ کہ اسرائیل نے خود کتنی طاقت حاصل کی ہے۔ اس نے اپنے تمام شہریوں کو کس طرح فوجی ٹریننگ دی ہوئی ہے۔ کس طرح اسلحہ اکٹھا کیاہوا ہے۔ ایک مثال دے دیتا ہوں اسرائیل اور امریکہ کا ایک سودا چل رہا تھا تو اسرائیل کی کابینہ نے اس سودے کو گولڈامیئر کی صدارت میں مسترد کر دیا کہ بہت بڑا سودا ہے ہم اس کی ادائیگی نہیں کر سکیں گے۔ اگلی صبح گولڈا مئیر امریکی وفد کو فون کرتی ہے اور کہتی ہےمیرے گھر پر آؤ دشمن سے بھی سبق حاصل کرنے میں حرج نہیں۔ امریکی وفد میں تقریباً ایک درجن افراد تھے۔ اُس نے پانچ کو اندر چائے کے لیے بلا یا کہ میرے گھر میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ بہرحال ان کو کہا کہ جس ڈیل کو میری کابینہ نے ریجیکٹ کیا تھا میں اسے قبول کرتی ہوں۔ ہم وہ سودا کریں گے۔ ہم وہ اسلحہ خریدیں گے۔ تو اسے سوال کیا گیا یہ بات تمہارے دماغ میں کیسےآئی؟ اس نے کہا کہ جب میں نے سیرت نبویؐ کا مطالعہ کیا تو مجھےیہ معلوم ہوا کہ نبی اکرم ( ﷺ) جب اس دنیا سے چلے گئے تو گھر میں اناج وغیرہ تو کچھ نہیںتھا لیکن گھر میں نوتلواریں تھیں۔ اس سے میرا ذہن اس طرف گیا کہ اصل شے تو اسلحہ ہے۔گویا اسرائیل کی اگر امریکہ مدد کر رہا ہے تو اسرائیل نے خود بھی بہت کچھ کیا ہے۔ اب امت مسلمہ خود کچھ نہ کرے۔ امت مسلمہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی نہ بلا سکے۔ اور روس اور چین دور سے آکر ان کی مدد کریں۔ پھر آپ کو جیت دلائیں گے۔ پھر آپ کو فتح دلائیں گے۔ یہ نہیں ہوتا دنیا میں۔
پہلے آپ کو کچھ بننا پڑے گا۔ اپنے بازومیں طاقت دکھانی پڑے گی۔ آپ کو بتانا پڑے گا کہ ہم یہ ہیں۔ کوئی آپ کے لیے اس طرح نہیں لڑے گا کہ اپنا نقصان کر لے۔ ظاہر ہے اگرروس اور چین جنگ میں کودتے ہیں تو کیا وہ نقصان سے بچ جائیں گے اور ہم کچھ کر ہی نہ رہے ہوں بیٹھے ہوں۔ تو لہٰذا اصل جرم خود امت مسلمہ کا ہے۔ اگر آج ہم کسی قوت کا مظاہرہ کریں۔ مثال کے طور پر آج امت مسلمہ کے57 ممالک چلو جنگ نہیں کر سکتے۔ یورپ اور امریکہ کےساتھ یہ اعلان کر دیں کوئی ملک ان کے ساتھ تجارت نہیں کرے گا۔ جس ملک نے اسرائیل کی مدد کی تو کل صبح یورپ مسلمانوں کے قدموں میں گر جائے گا۔ امریکہ نہ سہی امریکہ کو شاید اتنا اثر نہیں ہوگا ۔ لیکن ہم میںاتنی بھی ہمت نہیں ہے، یہ بھی نہ کریں اور روس و چین اٹھ کر آجائیں ہمارے لیے لڑنے کے لیے۔ یہ خام خیالی ہے، کوشش کر کے خود کچھ کرنا پڑے گا ۔
سوال:اسرائیلی مظالم کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ترکی میں بھی بہت بڑا مظاہرہ ہوا ہے جس کو طیب اردگان صاحب نے لیڈ کیا ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی اسلام آباد ایک اسی طرح کا پُرامن مارچ کا آغاز کرتی ہے تو حکومت وقت اس پر دفعہ 144کی آڑ میں ایکشن لیتی ہے اورگرفتاریاں ، آنسو گیس اورلاٹھی چارج کرتی ہے ۔ پاکستان میں پُرامن مظاہروں پرپابندی لگوانے والا کون ہے؟
آصف حمید: حکومت پاکستان کاofficial بیان آیا ہے جوUNO کے اندر ہے۔ وہ ایک بہت قابل قدر بیان ہے۔ جلسے جلوس ایک طرح سے عوام کا غیظ و غضب نکالنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، اس کے علاوہ اس کا کوئی اثر ان ممالک پر نہیں پڑتا۔یقیناًآواز اٹھانی چاہیے سوشل میڈیا پر اٹھائیں، لیکن اصل چیزیہ ہے کہ عملی کام ہم کیا کریں۔ یہودیوں کا ایک نظریۂ ہے، ان کا ایمان ہے جس پر وہ چل رہے ہیں تو ہمارا بھی تو ایک ایمان ہے کہ اللہ نے حکم دیا:
’’اور تیار رکھو اُن کے (مقابلے کے ) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے(تا کہ )تم اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکواور کچھ دوسروں کو (بھی)جو ان کے علاوہ ہیں ‘ تم انہیں نہیں جانتے ‘ اللہ انہیں جانتا ہے۔‘‘اور جو کچھ بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا ثواب پورا پورا تمہیں دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔‘‘(سورۃالانفال :60)
ہمارے ہاںتیاری کوئی بھی نہیں کر رہا ۔ اسرائیل کا ہر نوجوان لڑکا یا لڑکی ایک reserve فوجی ہے۔ اس کی تربیت کی گئی ہے اس کو بتایا گیا ہے کہ جب جنگ ہوگی تم نے فلاں جگہ رپورٹ کرنا ہے۔ ہمارے ہاں بھی پہلے کالجوں میں 15، 20 دن کی ٹریننگ ہوتی تھی این سی سی کے نام پر، پندرہ بیس دن ہم فوج کے ساتھ گزارتے تھے۔ اور کچھ نہ کچھ باتیں جان لیتے تھے وہ ٹریننگ مشرف صاحب نے روشن خیالی اور سب سے پہلے پاکستان کے نام پر ختم کرائی تو یہ ہم نے تو اپنے ساتھ سلوک کیا۔ ہم نے اپنی قوم کو فلموں ، ڈراموں، ناچ گانوں اور فحاشی کا عادی بنایا۔یہ فحاشی اور بے حیائی سب سے پہلے آپ کی غیرت اور جھجک ختم کرتی ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ کیا ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی آئی۔ کیاہم نے اپنے بچوں کو کچھ بتانا شروع کیاکہ مسئلہ فلسطین کیا ہے اور غاصب صہیونی کون ہیں؟ہم تومنبر ومحراب سے بھی یہ بات نہیں بتاتے کہ ہمارا دشمن کون ہے؟ این جی اوز جن کو کروڑوں ڈالر باہر سے آ رہے ہیں، یہ کہاں ہیں؟ اسرائیل کے مظالم ان کو نظر نہیں آرہے۔ حالانکہ اسلام کے خلاف بات کرنی ہو تو فوراً پھدک کے مینڈکوں کی طرح باہر نکل کے آ جاتے ہیں۔ اور موم بتیاں لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کو نظر نہیں آ رہاکس قدر بچے اور عورتیں شہید ہو رہے ہیں۔ہمیں تو اصل میں تو کام یہ کرنا چاہیے کہ ہم اپنے اندر کوئی تبدیلی لے کے آئیں، اپنے اداروں کو مضبوط کریں، اپنے ملکوں کو مضبوط کریں، نعرے مارنے سے توکوئی چیز فتح نہیں ہوتی ۔ اگرہم اس طرح پائوں پر پائوں رکھ کر بیٹھے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔ اس طریق پر ہمیں چلنا پڑے گا۔ کم از کم ہم مسلمان آپس میں اتحاد پیدا کر کے اپنے آپ کو تیار کریں۔ حدیث کے مطابق ہم مسلمانوں کے اندر ایک بیماری پیدا ہو جائے گی جس کو وہن کہا گیا ہے یعنی دنیا کی محبت اور موت سے کراہت۔ آج وہ ہمارے اندرہے اور ہمارے حکمرانوں سے لے کر نیچے تک آئی ہوئی ہے اور اس کے حوالے سے کوئی بات میڈیا پہ بھی آپ نہیں کرسکتے۔ آپ کا الیکٹرانک میڈیا بالکل خاموش ہے۔ کوئی مسلمانوں کو اکٹھا کرنے، ان کو غیرت دلا نے اور دشمن کے خلاف ابھارنے کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں کر رہا۔ صرف جلسے جلوس کر دینے سے بات نہیں بنے گی، ٹھیک ہے یہ بھی کرنا چاہیے لیکن اس سے آگے بڑھ کر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہمیں عملی پیش رفت کرنا چاہیے ۔ہم اپنے آپ کو دین سے قریب کریں ،اپنے اعمال کو درست کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائے۔