(دعوت و تحریک) خوف و رِجَا - تنظیم اسلامی

9 /

خوف و رِجَا

مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت، تنظیم اسلامی

 

ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا فرمایا۔ وہی اس کا خالق و مالک ہے اور وہی بالفعل اس کائنات کے نظام کو چلارہا ہےاور یہ مقصد ِتخلیق عبث و بے کار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی بے مقصد نہیں پیدا کیا۔ بلکہ اسے سماعت، بصارت اور دل و دماغ کی صلاحیت عطا فرمائی۔ اسے خیر اور شر میں تمیز کر نےکی صلاحیت عطا کی اور اپنے احکامات کا پابند بھی بنایا۔ اور اب وہ انسا ن کو آزمانا چاہتا ہے کہ وہ ان صلاحیتوں سے کام لے کر اس دنیا میں اس کا شکر گزار بندہ بن کر زندگی گزارتا ہے یا نافرمان اور ناشکرا بن کر۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام کی تعمیل یا عدم تعمیل کی صورت میں آخرت میں بنی نوع انسان کے لیے جزا و سزا کا نظام قائم فرمایا اور جہنم اور جنت بھی اسی مقصد کے لیے پیدا فرمائے۔
انبیائے کرام علیہم السلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تبشیر و انذار کا فریضہ ادا کرتے رہے ہیں، یعنی نیک کاموں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور جزا کی بشارت دینا اور برے کاموںپر اس کے عذاب اور برے انجام سے ڈرانا۔ تاکہ بندےکے دل میں اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی کا خوف بھی ہو اور اس کی رحمت کی کامل امید بھی رکھتا ہو۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک جوان کے پاس اس کے آخری وقت میں جب کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہورہا تھا، تشریف لےگئے۔ آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا۔ ’’اس وقت تم اپنے آپ کو کس حال میں پاتے ہو؟‘‘اس نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ﷺ ! میرا حال یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید بھی رکھتا ہوں اور اسی کے ساتھ مجھے اپنے گناہوں کی سزا اور عذاب کا ڈر بھی ہے۔‘‘آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’یقین کرو جس دل میں امید اور خوف کی یہ دونوں کیفیتیں ایسے عالم میں ( یعنی وفات کے وقت میں ) جمع ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ ضرور عطا فرمادیں گے، جس کی اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے او ر اس عذاب سے اس کو ضرور محفوظ رکھیں گے جس کا اس کے دل میں خوف و ڈر ہے۔‘‘(جامع ترمذی)
یہی وجہ ہے کہ علماء کہتے ہیں کہ ایمان، خوف اور رجاءکی ملی جلی کیفیت کا نام ہے۔ اسی روح ِ ایمان کی معراج حضرت عمر فاروق hنے ان کلمات میں بیان فرمائی۔ ’’اگر کل قیامت کے دن یہ اعلان کردیا جائے کہ سوائے ایک آدمی کے کوئی اور جنت میں نہیں جائے گاتو مجھے اپنے بارے میں یہ گمان رہے گا کہ شاید وہ میں ہی ہوں اور اگر یہ منادی کردی جائے کہ سوائے ایک آدمی کے دوزخ میں کوئی نہیں جائے گا تو مجھے یہی خوف رہے گا کہ کہیں وہ میں ہی تو نہیں ہوں۔‘‘ ( کیمیائے سعادت، ص، 926)
اس بات کا ثبوت درج ذیل روایات سے بھی ہوتا ہے:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے صاحبزادے ابو بردہ ؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے عبد اللہ بن عمرiنے کہا ، کیا تمہیں معلوم ہے کہ میرے والد نے تمہارے والد سے کیا بات کہی تھی؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں ؟ انہوں نے کہا کہ میرے والد نے تمہارے والد سےکہا تھا کہ اے ابو موسیٰ! کیا تم اس پر خوش اور راضی ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اور آپ ﷺ کے ہاتھ پر ہمارا اسلام لانا اور آپ ﷺ کے ساتھ ہمارا ہجرت کرنا اور جہاد کرنا اور ہمارے وہ سارے اعمال جو ہم نے آپ ﷺ کے ساتھ کئے ، وہ تو ہمارے لیے ثابت اور محفوظ رہیں۔ ( اور ان کا صلہ اور اجر ہم کو عطا فرمایا جائے) اور ہم نے جو اعمال آپ ﷺ کے بعد کئے ان سے ہم برابر سر ابر پر چھوٹ جائیں۔ تمہارے والد نے کہا کہ نہیں۔ خدا کی قسم ، میں تو یہ نہیں چاہتا ۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے بعد جہاد کئےہیں، نمازیں پڑھی ہیں۔ روزے رکھے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے اعمالِ خیر کئے ہیں ، ہماری کوششوں سے ہمارے ہاتھوں پر بے شمار بندے مسلمان ہوئے ہیں اور ہم اللہ سے اپنےان تمام اعمال کے اجر کی پوری پوری امید رکھتے ہیں۔ اس پر میرے والد (حضرت عمرؓ) نے پھر فرمایا کہ قسم اس ذاتِ پاک کی جس کے قبضہ میں عمرhکی جان ہے۔ میں تو دل سے یہ چاہتا ہوں کہ ہمارےوہ عمل ( جوہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کئے وہ تو ) ہمارے لیے ثابت رہیں اور ہم کو ان کا صلہ عطا کیا جائے اور جو عمل ہم نے آپ کے بعد کئے ان سے ہم برابر سرابرپر چھوٹ جائیں۔ ابو بردہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے کہا کہ خدا قسم تمہارے والد (حضرت عمر ) میرے والد (ابو موسیٰ اشعری)سے افضل تھے۔ (بخاری)
یہ تھی حضرت عمرؓ کی امید اور خوف کی کیفیت۔ صحیح بخاری ہی میں حضرت عمر ؓ نے واقعہ شہادت کی ایک روایت میں ان کا یہ ارشاد بھی ذکر کیا گیا ہے۔ " اللہ کی قسم ! اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہو تو اللہ کے عذاب کے دیکھنے سے پہلے اس سب کو فدیہ میں دے ڈالوں اور اپنی جان چھڑالوں۔
بندوں کو عذاب دینا تو اللہ کے تشریعی نظام کا تقاضا ہے۔ لیکن اس کی رضا یہ ہے کہ بندے اس کی اطاعت کر کے اجر ِ عظیم کے حقدار بنیں اور اس کی جنت کی نعمتوں سے فیض یاب ہوں۔ سورۃ النساء آیت 147 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر ادا کرو اور (خالص) ایمان لے آؤاور اللہ تو بہت قدردان اور بہت جاننے والا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی بشری تقاضے کی وجہ سے سیدھے راستے سے بھٹک جائے تو اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ نہیں فرماتا بلکہ اس کی واپسی کے لیے دروازہ کھلارکھتا ہے۔ وہ اپنے بندے کو مایوس اور نا امید نہیں دیکھنا چاہتا ، اسی لیے اس نےتوبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ ابو سعید ابو الخیر نے رحمت باری تعالیٰ کی پکار کو ایک رُباعی میں اس طرح بیان کیا ہے۔
باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی بازآ
ایں درگہ ما درگہ نو میدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
’’ اے میرے بندے! اگر تو راہِ راستی سے بھٹک گیا ہے تو جو کچھ بھی ہے اور جیسا بھی ہے، واپس پلٹ آ۔ اگر تو کافر ، آتش پرست اور بت پرست ہے، تب بھی واپسی کا راستہ کھلا ہے۔ ہماری بارگاہ نا امیدی کی جگہ نہیں ہے اگر تو نے سوبار بھی پیمانِ وفا باندھ کر توڑدیا ہے تب بھی پلٹ کر ہماری رحمت کی آغوش میں آجا۔‘‘
ریاض خیر آبادی کہتے ہیں۔
جام ہے توبہ شکن، تو بہ میری ہے جام شکن
سامنے ڈھیر ہیں ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے
یعنی میرے سامنےٹوٹے ہوئے جاموں کے پیمانوں اورٹوٹے ہوئے پیمانِ وفاؤں کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔
قرآن مجید کی متعدد آیات تخویف و انداز(خوف دلانا اور خبردار کرنا) پر مشتمل ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت ، قہروجلال اور مجرمین پر اپنے عذاب اور غضب کا ذکر فرمایا ہے۔ ان آیات سے بندے کے دل میں خوف کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ دوسری طرف متعدد آیات وہ بھی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و مغفرت اور عفو ودرگزر کا ذکر فرمایا ہے۔ ان آیات سے بندے کے دل میں امید اور رَجا کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ عام حالات میں ان دونوں صفات کا اعتدال کی حد میں ہونا قابلِ تعریف وصف ہے۔ اتنا زیادہ خوف کہ بندہ مایوسی اور نا امیدی کی حد تک پہنچ جائے یا اتنا پر امید ہوجانا کہ خوف بالکل ہی ختم ہوجائے اور بندہ گناہ اور نافرمانی پر بے باک ہوجائے، یہ دونوں صفات معیوب ہیں۔
سورۃ یوسف آیت 87 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ ‘‘
سورۃ الزمر آیت 53 میں ارشاد ربّانی ہے:
’’ (اے نبیﷺ!)آپ کہیے : اے میرے وہ بندو !جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ یقیناًاللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ یقینا ًوہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
سورۃ الاعراف آیت 156 میں فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور توہمارے لیے اس دُنیا (کی زندگی) میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی ۔ (اللہ نے) فرمایا کہ میں عذاب میں مبتلا کروں گا جس کو چاہوں گااور میری رحمت ہر شے پر چھائی ہوئی ہے۔تو اسے میں لکھ دوں گا ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ کی روش اختیار کریں گے زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور جو لوگ ہماری آیات پر پختہ ایمان رکھیں گے ۔‘‘
سورۃ النساء آیت 116میں ارشادِ الٰہی ہے:
’’اللہ ہر گزنہیں بخشے گا اس بات کوکہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ‘ اور بخش دے گا اس کے سوا جس کے لیے چاہے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت مہربان اور بے حد شفیق ہے۔ اس کی رحمت اور عفو و کرم کی کوئی انتہا نہیں مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بندہ گناہوں اور نافرمانیوں پر دلیر ہوجائے اور جو اس کے جی میں آئے کرتا پھرے اور پھر کہے کہ ’’پرواہ نہیں اللہ تعالیٰ غفور اور رحیم ہے‘‘
یہ تو یہود کا طرز عمل تھا۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف آیت 169 میں فرماتا ہے:
’’پھر ان ( یہود یوں) کے بعد اُن کی جگہ ایسے جانشین آئے جو کتاب (تورات) کے وارث بنے، مگر ان کا حال یہ ہے کہ اس ذلیل دنیا کا سازوسامان (رشوت میں) لیتے اور کہتے کہ ہماری بخشش ہوجائے گی۔ ‘‘
آج بھی جاہل صوفی اور واعظ ایسے ہی لوگوں کو شہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یا فلاں بزرگ تمہاری شفاعت کریں گے اور تمہیں بخشوادیں گے-----تم جیسے بھی ہو اور جو بھی ہو، ہو تو رسول اللہ ﷺ کی امت سے، تمہارا کام بس یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ان بزرگوں سے محبت کا دم بھرتے رہو۔
در حقیقت ایمان خوف و رَجا کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے۔ کوئی بندہ اگر شامتِ اعمال سے گناہ کر بیٹھے اور اپنے کئے پر نادم ہو تواسے یاس اور قنوطیت میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اللہ کی رحمت سے ناامیدی گناہ کبیرہ ہے۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے بنی آدم! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا، میں تجھے بخشتا رہوں گا، چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجہ پہنچے ہوں اور میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا، اے بنی آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں ،پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنےلگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا، اے بنی آدم ! اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھر مجھ سے ملے، لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا (اور تجھے بخش دوں گا)۔‘‘ (سنن ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا فرما چکا تو اپنی کتاب (لوحِ محفوظ) میں جو اس کے پاس عرش کے اوپر ہے، لکھا : بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘ (بخاری)
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ کہتا ہے کہ میں ( اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں۔ وہ میرے بارے میں اچھا گمان رکھے گا تو اس کے لیے اچھائی ہے۔ اور اگر وہ میرے بارے میں برا گمان رکھے تو اس کے لیے برائی ہے۔‘‘ ( مسند احمد)
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس دن اللہ تعالیٰ نے رحمت کو پیدا کیا تو سو رحمتیں پیدا کیں۔ ننانوے رحمتیں اس نے اپنے پاس رکھ لیں اور تمام مخلوق کے پاس ایک رحمت بھیجی۔ اگر کافر یہ جان لیتا کہ اللہ کے پاس کتنی رحمت ہے تو وہ جنت سے مایوس نہ ہوتا اور اگر مومن یہ جان لیتا کہ اس کے پاس کل کتنا عذاب ہے تو وہ دوزخ سے بے خوف نہ ہوتا۔‘‘ ( صحیح بخاری)
لیکن ایسا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی بخشش و مغفرت کی طرف تو نگاہ رکھے لیکن اپنے اعمال اور کردار کی درستگی کی طرف توجہ نہ دے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بے خوف ہوجائے یہ کیفیت انسان کو گناہوں پر دلیر اور جَری کردیتی ہے اور وہ اپنے گناہوں کی طرف سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔ اسے اپنے گناہوں پر کبھی شرمندگی نہیں ہوتی۔ درحقیقت یہ کیفیت رجا اور امید نہیں ہے۔ بلکہ صریحاً حماقت اور نادانی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے لیکن اس کی پکڑ اور گرفت بھی ایسی ہے کہ پھر اس سے کوئی چھٹکارا نہیں دلا سکتا ہے۔ چنانچہ سورۃ الحجر آیات 49،50 میں ارشاد الٰہی ہے:
’’(اے نبی ﷺ!) میرے بندوں کو بتا دیجئے کہ میں یقینا ًبہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہوں۔اور یہ کہ میرا عذاب بھی بہت دردناک عذاب ہے۔‘‘
سورۃ المائدہ آیت98 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جان لو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے اور یہ کہ اللہ غفور اور رحیم بھی ہے۔‘‘
سورۃ الاعراف آیت 99 میں فرمان الٰہی ہے:
’’کیا وہ امن میں (یا بے خوف) ہیں اللہ کی چال سے؟ اللہ کی چال سے کوئی اپنے آپ کو امن میں محسوس نہیں کرتا مگر وہی لوگ جو خسارہ پانے والے ہیں۔‘‘
درج بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو متنبہ فرمادیا ہے کہ وہ صرف غفور اور رحیم ہی نہیں بلکہ شدید العقاب بھی ہے۔ یعنی سخت اور دردناک سزائیں دینے والا بھی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور مغفرت کے ذکر کے ساتھ ساتھ اپنے عذاب کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ اس کے بندے گناہوں پر بے باک نہ ہوجائیں۔ پاک اور سچا مومن کبھی اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بے خوف اور مطمئن نہیں ہو سکتا ۔ یہ تو منافقوں اور کفار کی علامت ہے کہ گناہوں اور بد اعمالیوں کے باوجود بے فکر رہتے ہیں۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’مومن اپنے گناہوں کے بارے میں اس طرح پریشان ہوتا ہے کہ گویا وہ پہاڑ تلے دبا ہوا ہے اور اسے اپنے اوپر پہاڑ گرنے کا خوف ہے۔ جبکہ کافر وفاجر اپنے گناہ کو مکھی کی مانند ہلکا سمجھتا ہے کہ گویا مکھی اس کی ناک پر بیٹھی اور اس نے اپنے ہاتھ سے اسے اڑادیا۔‘‘ (بخاری)
نبی اکرم ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’وہ شخص احمق ہے جو نفسانی خواہشات کی اتباع کرے اور پھر رحمت خدا وندی کی امید بھی رکھے۔ ‘‘
انسان جب غفلت اور جہالت کے پردوں سے نکل کر اپنے گناہوں ، خطاؤں ، جرائم ، عیوب ، خباثتوں اور عبادت کی آڑ میں کی ہوئی ریا کاریوں سے آگاہ ہوجاتا ہے، اسے یہ بھی احساس ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بے شمار نعمتوں سے نواز رہا ہے۔ اور وہ اس کاشکر گزار بند ہ بننے کے بجائے نافرمانی کرتا رہا ہے۔ پھر اسے یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اس کا کوئی بھی جرم اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ہر حال میں اسے دیکھتا رہات ہے۔ پھر اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حد غیرت مند، با اختیار بادشاہ ہے اور وہ انتقام لیے بغیر نہیں رہے گا۔ مزید یہ کہ اللہ کے غضب سے بچنے کے لے اس کے پاس کوئی وسیلہ، اور اس کا کوئی مددگار بھی ایسا نہیں جو اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کرسکتا ہو تو اب جب وہ اپنے آپ کو اس طرح کے خطرات میں گھرا ہوا پائے گا تو اس کے خوف کی کیا حالت ہوگی۔
اب ایک ایسے نیک شخص پر غور کریں جو اللہ تعالیٰ کے انعامات پر شکر گزار بھی ہے۔ اور یہ شخص اللہ تعالیٰ کی صفات سے بھی آگاہ ہے۔ اس کی عظمت و جلال کو بھی پہچانتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی حاصل ہے۔ یہ شخص بھی اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرزاں و ترساں ہے۔ یہ شخص تواللہ تعالیٰ کی یاد سے ایک لمحہ بھی غافل رہنے کو گناہ سمجھتا ہے اور خوفزدہ ہے کل میدان حشر میں جب اللہ تعالیٰ مجھ سے میری غفلت یا میرے اخلاص میں کمی کے بارے میں سوال کرے گا تو میں کیا جواب دوں گا۔
خوف کا ایک مقام انبیائے کرام علیہم السلام کا ہے۔ اپنی عصمت کا علم ہونے کے باوجود انبیائے کرام ؑپر بھی اللہ تعالیٰ کا خوف طاری رہا تھا۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت رکھتا ہوں لیکن اللہ کی قسم میں ہی سب سے زیادہ اس کی قدرت و جلالت کا خوف رکھتا ہوں۔‘‘
آپ ﷺ نے اپنی وفات سے تین روز قبل فرمایا :’’ تم میں سے کوئی شخص نہ مرے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اچھا گمان رکھتا ہو۔‘‘ ( صحیح مسلم)
پس انسان کو چاہئے کہ اپنی حدِّ استطاعت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہوئے اللہ سے امید رکھے کہ وہ اس کو بخش دے گا۔ اورساتھ ہی ڈرتا بھی رہے کہ کہیں مجھ سے کوئی ایسی کوتاہی یا گناہ نہ ہوجائے جس سے میرا اللہ مجھ سے ناراض ہوجائے۔ پھر ہمیں یہ بھی اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ ہمارے تمام اعمال خالصتاً اللہ تعالیٰ ہی کی رضا کے لیے ہیں کہ نہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں خوف اور رجا کی دونوں کیفیات عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!