(کارِ ترقیاتی) آگ ہے تکبیر تری - عامرہ احسان

9 /

آگ ہے تکبیر تری

عامرہ احسان

پوری دنیا بالخصوص مغربی ممالک میں فلسطین سے ناقابلِ یقین اظہارِ یکجہتی ہورہا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے قریب بہت بھاری مظاہرہ ہوا۔ (دسیوں ہزار افراد)، فلسطینی جھنڈے لہراتے، احتجاجی بینر اٹھائے نکلے: ’بائیڈن ہمیں دھوکا دے رہا ہے۔ ہمیں وہ لیڈر چاہیے جو اسرائیلی حکومت کا کٹھ پتلی نہ ہو‘ کی آوازیں اسرائیل کے عالمی پشت پناہ کے مرکز میں لگ رہی ہیں۔ بائیڈن کو انتخابات کے حوالے سے بھی یوں دھمکایا گیا۔ ’نومبر میں ہم یہ یاد رکھیں گے‘ … مظاہرے میں سڑک پر درجنوں سفید کفن میں لپٹے (بچوں کی اموات پر احتجاج) تھیلوں پر نام لکھ رکھے تھے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ تھا۔ امریکا کے کئی شہروں سمیت، برلن، پیرس، میلان، رومانیہ، جاپان، آسٹریلیا، لندن میں مظاہروں کا تواتر اور شدت دیکھنے میں آئی۔ پوری دنیا فلسطین کی آزادی اور جنگ بندی کے لیے نعرہ زن ہے۔ ملکی جھنڈے، نسلی تفرقے بھلا کر انسانیت کا ضمیر بھرپور زندگی کی علامت بن کر ابھرا ہے۔ فلسطینیوں کی بے بہا قربانیوں، صبر، مصابرت، رباط، ایثار، استقامت، عزیمت، غرض اُن کی عظمت بیان کرنے کے الفاظ کم ہیں۔ پوری دنیا یک زبان انہیں محبت بھری سلامی پیش کررہی ہے۔ (اس تناظر میں پاکستان کے سطحی بیانات اور میلوں تماشوں میں عوام کو مشغول رکھنے کی شرمناک، اندوہناک پالیسی ملاحظہ ہو!)
یہ اللہ کی پلاننگ ہے جو ذرا توجہ سے دیکھے سمجھے جانے کے لائق ہے! دنیا پر حجت تمام کرنے، حق تک رسائی کے لیے اس گلوبل ویلیج نے کیا کچھ نہ دیکھا! ’دہشت گردی‘ کی گمراہ کن اصطلاح (جس کے معانی جہاد فی سبیل اللہ تھے) کے پردے میں دنیا سے اسلام کو مٹانے، اِس کی بنیادی ساخت اور چہرہ سر تا پا بدل دینے کی جنگ میں کھربوں ڈالرز سے زیادہ بہائے گئے۔ رینڈ کارپوریشن کے مقالہ جات، کتب 2003ء سے تسلسل سے سب دنیا کے سامنے رکھ چکے ہیں۔ (امریکی معتبر ترین تھنک ٹینک) 2021ء میں وہ نتیجہ سامنے آیا جس کا 2001ء میں افغانستان پر ٹوٹ پڑنے والی عسکری ایٹمی طاقتوں نے کبھی دیوانے خوابوں میں بھی نہ سوچا تھا۔ بے وسیلہ، سادہ دیسی ہتھیاروں سے لیس ملک بھر میں بکھرے بظاہر غیرمنظم طالبان یوں اچانک قوت پاکر پورے افغانستان پر سفید کلمے والاپرچم لہراتے چھا جائیں گے؟ دنیا دم بخود رہ گئی۔ اسی دوران 2019ء سے نومبر 2023ء تک دنیا بھر میں 6 کروڑ 97لاکھ ستر ہزار اموات ہوئیں، ایک غیرمرئی حقیر وائرس کے ہاتھوں جس نے سائنسی عروج کی انتہا پر پہنچی طبی دنیا کو تگنی کا ناچ نچایا۔ وبا نے پوری دنیا کو حیران بیابان سنسان کردیا، قبرستان بھر دیے۔ (غریب نسبتاً ہرجا محفوظ رہے!)
انسان کو قرنطینہ کی تنہائی میں اعتکافی کیفیت دے کر ملک الموت کی سر پر لٹکتی تلوار دکھا کر اپنے اندر جھانکنے، وعدۂ الست یاد کرنے کے تقریباً 3 سال دیے۔ اس کے علاوہ عالمی موسمیاتی بحران میں پوری دنیا، بالخصوص امریکا کینیڈا نے جنگل کی آگ، خوفناک طوفانوں کے تھپیڑے جابجا کھائے، اور اب ناقابلِ تصور، عسکری عدم توازن کی انتہا پر ایک جنگ چھڑگئی۔ 75سال یک طرفہ ظلم کا ہر ذائقہ سہتا، بھوک، پیاس، قید وبند، مکمل ناکہ بندی، بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم مقبوضہ فلسطین! اپنی سرزمین سے اکھاڑکر منتشر کردیے جانے والے فلسطینیوں کی آبادی سے گھروں میں یوریا سے تیار کردہ راکٹ اسرائیل پر جاگرے۔ دنیا کی عظیم عسکری قوت کی بوکھلاہٹ، خوف و ہراس، غم و غصہ اور دیوانگی نے اس کی طاقت کا پول کھول دیا۔ سونڈ پر داغ لگا اور مہینہ بھر سے اتنی چھوٹی سی جگہ غزہ پر بمباریاں۔یکم نومبر تک ہیروشمیا سے5.1گنا زیادہ 18ہزار ٹن بم! ہسپتالوں، اسکولوں، ایمبولینسوں، رہائشی علاقوں میں رہتے باربار بے دخل کیے جاتے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا، حتیٰ کہ مساجد اور قبرستان پر بھی بم گرا ئے! وحشی درندہ دنیا کے چوراہے میں پاگل ہوا پھر رہا ہے۔ کوئی قابو نہیں کررہا! متقابل دو کردار ہیں جسے دنیا سر کی آنکھوں سے دن رات دیکھ رہی ہے۔ ایسی بمباریوں کا شکار آبادی جس کے غموں دکھوں اذیتوں کا احاطہ ناممکن ہے۔
تاریخ کا ایک بھیانک ترین منظر اربوں انسان دیکھ رہے ہیں، مگر یہ آبادی اپنی عزیمت، باہمی محبت اخوت، ایثار صبر و انضباط میں اتنی بے مثل کہ کل تک فلسطین کا نام لینا ممنوع اور جرمِ عظیم ِتھا، آج پورے گلوب پر اُن کا جھنڈا بلند اور اسرائیل کی مذمت، اس کی درندگی، وحشت اور اسفل ترین کردار کے خلاف پوری دنیا بلاتفریق نعرہ زن ہے۔ سویڈن جہاں کل تک قرآن جلائے جارہے تھے، آج وہاں اسرائیلی جھنڈے جلائے جارہے ہیں۔ ہنڈارس تک نے اپنے سفیر کو واپس بلالیا۔ اسرائیل میں یہودی ربی، یہودیوں کو برطانیہ سے نکل آنے کو کہہ رہا ہے کہ ہمارا سنہری دور اب وہاں ختم ہوگیا۔ دنیا بھر میں اسرائیل کی نفرت عروج پر ہے۔ ادھر اسرائیلیوں پر چند پٹاخوں (راکٹوں) کی ہیبت اتنی ہے کہ اسرائیل اب رہنے کے قابل جگہ نہیں رہی! اسرائیلی کمانڈر نے کہا کہ اگر ہم نے حماس کو شکست نہ دی تو ہم یہاں رہ نہ سکیں گے۔ مگر حماس کا اتنا خوف؟ عقل و فہم سے باہر ہے، اتنی بھاری بھرکم فوج جس پر امریکا ڈالر، ہتھیار ہمہ نوع مدد نچھاور کررہا ہے۔ دوسری طرف حماس کا نام لے لے کر پورے غزہ سے زندگی کی ہر رمق تم نے چھین ڈالنے کی ساری قوت جھونک ڈالی۔ نفسیات کے ڈاکٹر اسرائیلیوں کو سنبھالنے سے قاصر ہیں، کیونکہ وہ تو خود نفسیاتی مریض بنے ہیں۔ سبھی اسرائیل سے ’حماس‘ کے خوف سے نکل بھاگنا چاہتے ہیں۔
ہم نہتے اہل ِغزہ کے ثبات اور بے خوفی، بے جگری کو خوب جانتے اور وجوہات سے واقف ہیں۔ فولاد میں ڈوبے یہود پر مایوسی، اضطراب، گھبراہٹ کے پڑتے دورے ہم نے تاریخ میں دیکھے ہیں۔ ہم نے عسکری عدم توازن پر مبنی مدینہ کے بوریا نشین حکمرانؐ اور فاقہ کشوں کی 67 جنگیں گویا بچشمِ سر، (دل کی آنکھوں سے) دیکھ رکھی ہیں۔ ’جب (اے نبیؐ) آپ کا رب فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ بے شک میں تمہارے ساتھ ہوں، چنانچہ تم ان کو ثابت قدم رکھو جو ایمان لائے ہیں، میں جلد ہی ان لوگوں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا جنہوں نے کفر کیا۔‘ (الانفال: 12) یہ بدر میں نصرت بالرعب تھی کفار کے مقابل۔ یہود کے مقابل غزوۂ بنونظیر میں کیا ہوا؟ ’وہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی( مضبوط، محفوظ) گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی۔ مگر اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ گیا تھا۔ اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں سے برباد کروا رہے تھے۔ پس عبرت حاصل کرو،اے دیدۂ بینارکھنے والو! ‘ (الحشر:4)اور پھر ابی بن خلف زرہ اور خود میںمحفوظ جسے نبی ﷺ نے نیزے سے گردن میں کچوکا دیا۔ ہلکی سی خراش لے کر بلبلاتا ہوا پلٹا یہ بڑا سردار! قریش نے کہا: تو دل چھوڑ بیٹھا ہے تجھے کوئی خاص چوٹ نہیں لگی۔ (چندراکٹ لگے ہیں اسرائیل کو!) کہنے لگا: ’خدا کی قسم محمدﷺ نے قتل کردیا۔ اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتا تو بھی میں مر جاتا۔‘ اور یہ اللہ رسول کا دشمن واپسی پر راستے ہی میں مر گیا!
75 سالہ تاریخ میں یہ حماس نے اسرائیل پر تھوکا ہی ہے اور وہ خوف سے تھرا اٹھے ہیں! پوری دنیا اسرائیل کی مزاحمت اور فلسطین کی آزادی، قابض یہودیوں سے نجات کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ نیتن یاہو، امریکا، یورپی حکمرانوں کی اس حال میں بھی تائید پاکر برق رفتاری سے غزہ تباہ کر رہا ہے۔ یہود کا سب سے بڑا ہتھیار میڈیا تھاجس نے کئی دہائیوں سے دنیا کے دل دماغ یرغمال بنا رکھے تھے۔ آج پلٹ کر اس کے سینے میں میڈیا پر چلنے والے سارے تیر اتار رہا ہے۔ میڈیا اسرائیل کے ہاتھوں سے نکل گیا، عالمی رائے عامہ بدل گئی، ٹویٹ، ٹک ٹاک کے سارے مناظر اس کے لیے جگرپاش ہیں اور فلسطینیوں پر عقیدت، محبت کے پھول نچھاور کر رہے ہیں۔ حماس، فلسطین کی مضبوط آواز کا دہشت گرد ہونا، اب چلا ہوا کارتوس ہے، بے اثر! مگر نیویارک ٹائمز (27اکتوبر) میں ڈینس راس کا مضمون، ( سابق امریکی سفارت کار، اور بش، کلنٹن کے ساتھ اسرائیل فلسطین مابین نام نہاد امن، کا اہم کردار تھا، دیکھے جانے کے لائق ہے۔ اس میں یہ اسرائیل نواز سفارت کار گزشتہ ہفتوں میں عرب ممالک کے لیڈران سے گفتگو کے حوالے سے کہتا ہے کہ سب نے کہا کہ حماس کا تباہ کیا جانا ضروری ہے۔ اگر حماس فتح یاب ہوگئی تو اس کی پالیسی قوت پا جائے گی۔ اگرچہ عوام کے سامنے فلسطینیوں کی اموات اور شدید حالات کی بنا پر فلسطینیوں کا بظاہر دفاع کرنا ان کی مجبوری ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ بات چیت رازدارانہ تھی۔ (مگر گورے آقا غلاموں کے راز فاش کرنے کا حق رکھتے ہیں!) ڈینس راس کا پلان، حماس لیڈروں کا صفایا، ان کی عسکری بنیاد (گھریلو راکٹ، غلیلوں کے پتھر یا سینے میں گڑا عقیدہ؟) کا مکمل خاتمہ اور غزہ کو اسلحہ سے مکمل پاک کرنا ہے! ڈینس بھی جنگ بندی کا مخالف ہے! اگرچہ داغستان میں اسرائیلی جہاز کا گھیراؤ کرنے والے ’حماس‘ سے نہ تھے۔ احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں فلسطینیوں کا ہولوکاسٹ کرنے والے۔ دنیا یکسر بدل گئی ہے فلسطینی محبوب، اسرائیلی مغضوب ہوگئے!