(کارِ ترقیاتی) وہ کافر مسلماں ہوگیا… - عامرہ احسان

6 /

وہ کافر مسلماں ہوگیا…عامرہ احسان

 

7ہفتے پوری دنیا کی نگاہیں غزہ پر مرتکز رہیں۔ 7اکتوبر کا غیرمتوقع غیرمعمولی اسرائیل پر حماس کا حملہ ’طوفان الاقصیٰ‘ دنیا کے لیے ایک حیرت کدے میں داخل ہوجانے کا دن ثابت ہوا۔ ایک بہت بڑی عسکری ایٹمی قوت پر کمترین وسائل سے حملہ اور پھر اس کے جواب میں غزہ کے شہریوں سے بدلہ چکانے کی لامنتہا اسرائیلی خونچکاں مہم! تاہم نہایت غیرمعمولی صبر و استقامت کا مظاہرہ اہلِ غزہ کے مردوں، عورتوں، بوڑھوں بچوں کا ایسا تھا جس نے پوری دنیا میں زلزلہ برپا کر دیا۔ درحقیقت غزہ نے دنیا کو ایک مزید نیا ’ورلڈ آرڈر‘ دے دیا! پہلی مرتبہ میڈیا پر 75سالہ ظلم وقہر کی تاریخ پس منظر میں چلتی رہی اور اسکرین پر اس ظلم کے جیتے جاگتے مناظر رواں تھے! ان خونیںمناظر میں سے ایک جو حماس نے دنیا کو دکھایا: اسرائیلی حملے، بمباریوں کا نشانہ بنے پھول سے بچے، معصوم چہروں پر راکھ، خون کی بہتی دھاریں، لرزاں بدن، اعضاء سے محرومی۔ ایک نرس 4جاںبحق شیر خواروں کو کمبل میں لپیٹتی۔ ایسی بے حد وحساب ویڈیو کلپس، ٹک ٹاک، ایکس پر ایک طوفان اٹھ گیا۔ وہ نعرہ جو اسرائیل کو آگ بگولا کر دیتا رہا۔ جواب گولی سے ملتا تھا، پوری دنیا میں ہر زبان میں یہ نعرہ دہرایا گیا۔ ’دریا سے سمندر تک، فلسطین آزاد ہوگا!‘
دوسرا مقبول ترین نعرہ: ہم ہزاروں میں ہیں، ہم لاکھوں میں ہیں! ہم سب فلسطینی ہیں! یہ ایک نئی دنیا ابھر رہی تھی، جسے ہر روز تشکر سے ڈبڈبائی آنکھیں دنیا بھر کے باضمیر، زندہ، متحرک انسانوں کو لاکھوں کی تعداد میں دیکھتی رہیں۔ کہاں وہ خوفناک دن تھے جب اسی یورپ میں ہر ہر ملک نے شانِ رسالتؐ میں گستاخی کی تھی۔ حتیٰ کہ چارلی ایبڈو پر حملے کے بعد، مغربی دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں نے جلوس نکالا اور کہا: ’ہم سب چارلی ہیں!‘ آج چارلی، فلسطینی ہوگئے! اللہ اکبر کبیرا! فلسطینیوں کے غم کا مداوا کرنے پوری دنیا اٹھ کھڑی ہوئی! کچھ اصطلاحیں ہر زبان پر اسرائیل کے لیے رواں ہوگئیں۔ جنگی جرائم کا مرتکب، نسلی صفایا کرنے پر کمربستہ، قتلِ عام کا مجرم! (ہولو کاسٹ، Anti-Semitismبھول گئے!) فلسطین کی سرزمین سے اس کے مالکان کو جبر ًابے دخل کرکے یہودی لاآباد کرنے کے صریح ظلم پر پوری دنیا بلالحاظِ مذہب، رنگ، زبان، نسل چلّا اٹھی۔ (اب 80فیصد غزہ کی آبادی بے گھر ہوچکی۔) 59 ممالک کی قیادت، حکمران سیاست دان (الاماشاء اللہ) منہ موڑے، منہ چھپائے بیٹھے رہے یا شقاوتِ قلبی کی انتہا پر بہتے خون کی ندیوں پر رقص وسرود کی محافل رچاتے رہے، اسرائیل پاگل بھینسے کی طرح حیوانیت کی بھی ساری حدیں پار کرتے کو زنجیر کس نے ڈالی؟ مغربی دنیا کی یونیورسٹیوں کے طلبہ کی مہمات نے! آئرلینڈ، جنوبی افریقہ جیسے ممالک کی قیادت، ارکانِ پارلیمنٹ اور عوام الناس کے دباؤ نے! رائے عامہ کا دباؤ پہلی مرتبہ اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ اسرائیل کو ہتھیار ڈالتے ہی بنی! اندازہ کیجیے کہ اسپین جیسا ملک پھٹ پڑا۔
غزہ کی صبر وضبط بھری مظلومیت نے دنیا بھر کی لق ودق صحرا جیسی خشک آنکھیں جل تھل کر دیں۔ اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا میخانہ بھی! اشکِ ندامت سے مغربی میخانے غرقاب ہوگئے! اسپین کے وزیراعظم (جو اس وقت یورپی یونین کے بھی صدر ہیں) بلجیم کا وزیراعظم ہمراہ لیے مصر پہنچے۔ رفح کراسنگ پر اسپینی وزیراعظم نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے غزہ کے لیے مستقل حل کی ضرورت پر زور دیا۔ جدید دنیا میں غزہ کو بدترین انسانی تباہی سے دوچار قرار دیا۔ عالمی برادری کو متوجہ کیا کہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ سفارتی طور پر تسلیم کرنا ضروری ہے۔ کہا کہ: یورپی یونین اگر رضامند نہ ہوئی تو ممکن ہے ہم اسے تسلیم کرلیں! بلجیم کے وزیراعظم نے اسرائیل کو غزہ کے شہریوں کا قتل روکنے اور مستقل جنگ بندی پر زور دیا اور کہا کہ ہم مزید وقت ضائع نہیں کرسکتے، ہمیں مدد کے لیے کھڑے ہونا ہوگا۔ اس پر اسرائیل شدید سیخ پا ہوا۔ دونوں ممالک کے سفیر طلب کرکے ان کے وزرائے اعظم کی تقاریر کو دہشت گردی کی پشت پناہی قرار دیا۔ اسپین نے جواباً اسرائیلی سفیر بلاکر اس اعتراض کو رد کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کا اندھا دھند قتل سراسر ناقابل قبول ہے۔ اسرائیل اپنے فرائض پہچانے اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے۔ غزہ جس تباہی و بربادی سے گزرا ہے مستقل جنگ بندی لازم ہے۔ عالمی برادری اور یورپی یونین سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کردیا!حماس نے اسپین کے مؤقف کو سراہتے ہوئے اظہار تشکر کیا۔
دو دن کی جنگ بندی کے بعد ہمیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ کیا اسرائیل اپنی دھمکیوں کے مطابق مدت پوری ہوتے ہی بمباری شروع کردے گا؟ لاشعور کے اس خوف کی تسکین کا ایک سامان تو دعاؤں، قنوتِ نازلہ میں ہے، مگر توکل کے ساتھ اونٹ کی رسی باندھنے کے لیے عجب تھا کہ راقمہ کی نظر نہ او آئی سی، نہ ایٹمی پاکستان نہ قبلۂ اوّل کے دفاع کے فطری ذمہ دار سعودی عرب کی طرف اٹھی! پاکستان نے تو قومی ٹی ٹوینٹی ٹورنامنٹ پر فلسطینی جھنڈے کا صرف اسٹکر لگانے پر اعظم خان کو بھاری جرمانہ کردیا! ہم نے فوراً یہ ڈھونڈا کہ فلسطین پر ڈیڑھ ماہ سے کمربستہ مغربی عوام اور طلبہ گھروں کو لوٹ تو نہیں گئے! سبحان اللہ! کیا مناظر تھے۔ کینیڈین پارلیمنٹ کے سامنے ہزاروں مظاہرین فلسطینی جھنڈا لہراتے مستقل جنگ بندی کا مطالبہ فلک شگاف نعروں سے کر رہے تھے! مسلم ممالک میں سے اُردن نے آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ جہاں ابوعبیدہ (حماس کی آواز!) نے اردنیوں کو نکلنے کی پکار دی تھی، پھر اردن کی سڑکوں پر سر ہی سر تھے۔ ’پورا اُردن تمہارے ساتھ ہے۔ ابوعبیدہ ہم تمہاری پکار کا جواب دے رہے ہیں۔ اے دشمن! ہم تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں۔‘ والہانہ پن سے غزہ، حماس سے اظہار یکجہتی کا ولولہ انگیز منظر تھا۔
ادھر برطانیہ میں 17مقامات پر اور دنیا بھر میں 15 مقامات پر غزہ، فلسطین کے لیے مستقل حل پر زور دیتے، مستقل جنگ بندی کے مطالبے جاری تھے۔ ڈاکٹر تو ہمارے ہاں مسلم دنیا میں بھی ہیں، مگر لندن میں باربار غزہ کے ہسپتالوں، ان کے ڈاکٹروں اور طبی عملے سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے جاری رہے۔ لندن میں سینکڑوں طبی ماہرین ان شہداء کے ناموں کے کارڈ لیے سڑکوں پر موجود تھے! شرق تا غرب اس فضا سے پریشان ہوکر سابق چیف اسرائیلی موساد نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ بڑھتا ہوا عالمی دباؤ کہیں مکمل جنگ بندی پر مجبور نہ کر دے۔ اسپین بلجیم نے جو کچھ کہا اسے موساد چیف نے ناقابل یقین قرار دیا! کمال تو یہ ہے کہ دنیا میں اسرائیل کے خلاف سب سے زیادہ تہلکہ امریکا کی آئی وی لیگ، نامور ترین یونیورسٹیوں کے طلبہ نے مچایا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے تقاریر، نعروں، شدتِ جذبات کا اظہار ناقابل یقین، حیران کن رہا۔ یہ وہ یونیورسٹیاں ہیں جو دنیا بھر کے ممالک کو ماہرینِ تعلیم، ہر شعبے کے ماہرین کے علاوہ اعلیٰ ترین مناصب اور سرکاری عہدیدار فراہم کرتی ہیں۔ ہارورڈ، ایم آئی ٹی، کورنیل، ییل،ا سٹین فورڈ، کولمبیا جیسے نامورتعلیمی مراکز میں طلبہ، اساتذہ نے تمام تر قوتیں صلاحیتیں غزہ پر مرتکز کر دیں۔ حکومتوں، انتظامیہ، ملازمتیں دینے والی کمپنیوں تک کی دھمکیوں کو خاطر میںنہ لائے۔
پورا امریکا، بڑی بڑی ریاستوں میں فلسطینی جھنڈے اور ’فلسطین کو آزاد کرو‘ دیکھنے سننے پر مجبور تھا! نیویارک میں ہر سال منائے جانے والے تہوار یومِ شکرانہ کی پیریڈ پر مظاہرین غم وغصے سے ٹوٹ پڑے۔ ’ہمارے پاس خوشیاں منانے کا کوئی وقت / موقع نہیں جب ہزاروں بچے بمباریوں سے مارے جا رہے ہوں، ملبے تلے دبے پڑے ہوں۔‘ نوجوان چلّا رہا تھا اور پولیس پکڑ کر لے جا رہی تھی۔ امریکی! مگر ایسا رنج وغم گویا اس کے بھانجے بھتیجے مار دیے ہوں! ہم سعودی عرب سے پیسہ لے کر عین وہی ماحول اپنے ہاں پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں جو غزہ پر قیامت کے دوران وہاں برپا رہا! شاید ہم نے طے کر رکھا ہے کہ جتنے دن غزہ اجاڑا جاتا رہے گا ہم ناچ گانے میں قوم کو مصروف رکھیں گے۔ اب 25 نومبر سے 10روزہ لوک ورثہ اور جشن بہاراں میوزک فیسٹیول اسلام آباد میں غزہ کے شہید بچوں کے خون کی لالی کی بہار منائے گا! لمزیونیورسٹی کے رقص اور طالبات کی تھرکنے کی ہنرمندی کے بعد اب فاسٹ یونیورسٹی نے یہی سب کرکے دکھایا۔ ڈھٹائی اور قساوتِ قلبی یہ تھی کہ ’انا دمی فلسطینی‘ پر لڑکیوں کا بیہودہ رقص جاری رہا، بون فائر کے نام پر نامور ترین یونیورسٹیوں کی طالبات رقاصائیں بن کر ان حالات میں ملک کا نام روشن کر رہی ہیں۔ ناپاک مجروں کے مقابلے پر وہ گوری ہے جو قرآن کی آیات کا تذکرہ کرکے ہچکیاں لے کر روتی ہے اور خدائے رحیم کی رحمت کو قرآن سے پاکر تکمیلِ ذات کا سفر طے کر رہی ہے۔ اہل غزہ نے دنیا کو اللہ سے، قرآن سے، رقیق القلبی کی دولت اور لذت سے آشنا کردیا! ہم ہوئے کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا!