پاک افغان تعلقات کی بحالی کے لیے افغان حکومت کو تسلیم کیا جائے
اور قبائلی علاقوں کی محرومیوں کو دور کیا جائے : خورشید انجم
سابق صدر ایوب خان مرحوم کی کتاب’’ فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کامطالعہ
کیاجائے توپتا چلتا ہے کہ پاکستان زیادہ تر امریکہ کی ڈکٹیشن پرہی
چلتا رہا ہے : رضاء الحق
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے دوران مجاہدین نے ایسا عزم دکھایا ہے
کہ صہیونی دنیا ہل کر رہ گئی ہے :ڈاکٹر انوار علی
عالمی اور قومی منظر نامہ اور تنظیم اسلامی کا موقف کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کوتقریباً چالیس روز ہوچکے ہیں اورشیطانی طاقتیں اسرائیل کوسپورٹ کررہی ہیں ۔اس ظلم و بہیمیت کا انجام کیاہوگا؟
رضاء الحق : اس وقت تک کی صورت حال کے مطابق تقریباً 13000 فلسطینی مسلمانوں کو غزہ میں شہید کیاجاچکا ہےجن میں آدھے سے زیادہ بچے ،بزرگ اورعورتیں شامل ہیں ۔عالمی میڈیا کے مطابق اسرائیل اب ہسپتالوں پرجنگ مسلط کررہا ہے اوراس وقت تک تقریباً 8 ہسپتالوں پر بمباری کر چکاہے اور اس کے نتیجہ میں زیر علاج افراد شہید ہوئے ہیں ۔ مغربی میڈیا میں کہا جارہا ہے کہ 7اکتوبر سے پہلے اسرائیل ایک پُرامن ریاست تھی اوروہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کر رہی تھی۔حالانکہ اسرائیل کے ماضی کے مظالم ابھی بھولے نہیں ہیں ۔ سابق وزیراعظم ایریل شیرون نے صبرا اور شاتیلا کی بستیوں میں تین راتوں میں تین ہزار بچوں کوشہید کیا ۔پھر 2000ءکے بعد سے 2018ء تک تقریباً دس ہزار فلسطینیوں کو شہید کیاگیا۔یہ اعداد وشمار بین الاقوامی اداروں کے ہیں ۔ اسرائیل کا آغاز ہی غاصبانہ طریقے سے ہوا ہے ۔ اس کے لیے سب سے پہلے 1897 ء میں عالمی صہیونی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا جس کے بعد یہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسانا شروع کیا گیا ۔ پھر1917ء میں بالفورڈیکلریشن اور1948ء میں ناجائز ریاست اسرائیل کا قیام عمل آیا ۔ 1967ء میں اس کی توسیع کے منصوبے پر عمل درآمد شروع ہو گیا ۔ اوسلومعاہدہ ، کیمپ ڈیوڈمعاہدہ اورموجودہ ابراہم ایکارڈ جیسے معاہدات کے ذریعے بھی انہوں نے اپنے مقاصد کو حاصل کیا۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ بیان کرتے تھے کہ صہیونیت کے چار بڑے مقاصد ہیں:
(1) آرمیگاڈان: وہ چاہتے ہیں کہ ایک بڑی عالمی جنگ ہوجس کے نتیجے میں (2) گریٹر اسرائیل کا قیام عمل میں آئے ۔ (3) مسجد اقصیٰ کومنہدم کرکے اس کی جگہ تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنا۔(4) تاکہ ان کا مسایاح(مسیح الدجال) آئے اور دنیا پر حکومت کرے ۔ کہاجاتاہے کہ صہیونی ریاست اسرائیل کے حق میں ہیں جبکہ مذہبی یہودی اس ریاست کے حق میں نہیں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مذہبی یہودی کہتے ہیں کہ ریاست اسرائیل مسیح الدجال کے آنے کے بعد قائم ہونی چاہیےجبکہ صہیونی کہتے ہیں کہ پہلے قائم ہونی چاہیے۔ نیتن یاہو نے اس جنگ کے بارے میں کہا کہ یہ جنگ روشنی کے بچوں کی تاریکی کے بچوں کے ساتھ ہے۔ دواسرائیلی وزراء نے یہاں تک کہا ہے کہ غزہ پرایٹم بم مار کراس کونیست ونابو د کردیا جائے ۔سابق اسرائیلی وزیرخارجہ آوی گیڈور لائبرمین نے 2015ء میں کہا کہ فلسطینیوں کےسرقلم کردینے چاہئیں۔ سابق وزیراعظم نفتالی بینٹ نے 2013ء میں کہاکہ میں نے کئی عربوں کو قتل کیا ہے اور مجھے اس پرکچھ افسوس نہیں۔پھراس نے 2019ء میں کہا کہ فلسطینی بچے چھوٹے سانپ ہیں ان کی مائوں کو بھی قتل کردو۔ا ن کے قومی سلامتی کےوزیراتماربن غفیر نے 2020ء میں کہاکہ فلسطینیو ں کی بستیوں کا صفایا کردینا چاہیے ۔ان کا مشہور مذہبی’دی ریبی‘ جو نیتن یاہو کا مرشد بھی تھا وہ اُسے کہتا تھا کہ جلد سے جلد فلسطینیوں کاصفایا کروتب ہی مسیحا آسکے گا۔2007ء کا اس کاایک بیان یہ بھی ہے کہ اسرائیل کو ان حیوانوں سے پاک کردوتاکہ مسیحا جلد آسکے ۔ ایک دوسرے مذہبی راہنما مینس فریڈمین نے 2009ء میںبیان دیا کہ فلسطینیوں کے مقدس مقامات کو تباہ کرنا،ان کے مردوں ، بچوں ، عورتوں اور ہر چیز کو ختم کرنا ہمارا عقیدہ ہے ۔ ایک اور معروف ربی اسرائیل ہائیس کہتاہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کوئی نرمی نہ برتی جائے ۔ بہرحال یہ مسجد اقصیٰ کی دوسری پکار ہے۔ 1099ء میں صلیبیوں نے مسجد اقصیٰ پرقبضہ کرلیا تھاجسے 1187ء میں صلاح الدین ایوبی ؒنے چھڑایا تھا۔1099ءسے 1187ء تک کی اُمت مسلمہ میں آج ہی کی طرح کے حکمران تھے جواپنے مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں سے معاہدے کر رہے تھے ۔ اس دور میں سلجوقوں کے ہاتھ میں ساری قوت تھی اوروہ آگے بڑھ کرحملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔پھر اللہ نے صلاح الدین ایوبی ؒ کو بھیجا جن کی بدولت مسجد اقصیٰ 1917ء تک آزادی رہی ۔ اب دوبارہ اس پر یہود کا قبضہ ہے ۔ آج ہمیں اپنی تیاری کرنی ہے اور خود کو اس قابل بنانا ہے کہ ہم بالآخر 1187ء کی تاریخ دہرا کر ارضِ فلسطین کو پھر سے آزاد کرا سکیں۔
سوال: قرب قیامت کی احادیث اورموجودہ دور کے حالات میں کچھ relevenceنظر آتاہے ؟
ڈاکٹر انوار علی:رسول اللہﷺ نے جوکچھ بھی فرمایا ہے وہ حق وسچ فرمایا ہے ۔ حضرت مقداد بن اسود سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’دنیا میں نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی رہے گا نہ کمبلوں کا بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ اسلام کو داخل نہیں کر دےگا۔‘‘(رواہ احمد)
نعمان بن بشیر کی روایت میں رسول اللہ ﷺ نے پانچ ادوار کا ذکر کیا ہےیعنی دور نبوت، دور خلافت راشدہ، بادشاہت، جبر کی ملوکیت اورنبوت کی طرز پر دوبارہ خلافت شامل ہیں۔(رواہ احمد)
یہ توہونا ہے لیکن کیایہ اتنی آسانی سے ہوجانا ہے ۔اسی طرح نبی اکرمﷺ کا ارشا دہے کہ مشرق سے فوجیںنکلیں گی، جو مہدی کی سلطنت جما دیں گی۔‘‘(ابن ماجہ)
دوسری حدیث میں فرمایا:’’ خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے، جنہیں کوئی نہیں روک سکے گا، یہاں تک کہ وہ ایلیاء (بیت المقدس) میں نصب کر دیےجائیں گے۔‘‘ (رواہ الترمذی)
ان احادیث کی روشنی میں بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ فرماتے تھے کہ آرمیگاڈان یعنی الملحمۃ العظمیٰ کامرکز بیت المقدس ہوگااور یقیناًا س وقت دنیااس بڑی جنگ کی طرف بہت تیزی سے جارہی ہے جس کوہم تیسری عالمی جنگ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ 1903ء میںایک صہیونی میکس نیروڈو نے یہ بات ایک صہیونی کانفرنس میں اپنے ساتھیوں کے سامنے رکھی تھی کہ ہمیں ایک بہت بڑی جنگ کروانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں طاقت کا توازن بگڑے اورہم سامنے آسکیں۔چنانچہ پہلی جنگ عظیم ہوئی اورخلافت عثمانیہ ختم ہوئی۔ 1920ء میں ہنری فورڈ اول کی کتاب منظر عام پرآئی جس نے انکشافات کیے کہ پہلی جنگ عظیم کرانے میں یہودیوں کا ہاتھ تھااورہم بہت جلد دوسری جنگ عظیم دیکھیں گے جس کی یہودی تیاری شروع کرچکے ہیں ۔ جنگ عظیم دوم ہوئی جس کا پورا پورا فائدہ یہودیوں کو ہوا۔چنانچہ اب یہ تیسری جنگ عظیم کے لیے بھرپور منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔اس کوسورۃ الکہف کے الفاظ سے جوڑیں جن میں فرمایا:{بَاْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ}(آیت:2)’’تا کہ وہؐ خبردار کرے ایک بہت بڑی آفت سے اُس کی طرف سے۔‘‘
یعنی مسلمانوں کے لیے یہ اللہ کی طرف سے ہوگا۔ لیکن اس تیسری جنگ عظیم کا نتیجہ کس کے حق میں نکلے گا یہ تو اللہ ہی جانتا ہے ۔ یہوداپنی چالیں چل رہے ہیں لیکن اللہ اپنی تدبیر کرے گا ۔ جس طرح غزہ کی حالیہ جنگ نے بھی بہت غیر متوقع نتائج دیے ہیں جنہوں نے صہیونی دنیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ چالیس روز گزر چکے ہیں اور ان مٹھی بھر مجاہدین نے ایک بار پھر دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا ہے کہ اہل ایمان کا بھروسا ہتھیاروں پر نہیں بلکہ ایمان پر ہوتا ہے ۔ انہوں نےگھروں میں بنائے راکٹوں سے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے اور دنیا کے سامنے اس کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔اب دنیا بڑی تیزی کے ساتھ دوحصوں میں بٹتی نظر آرہی ہے۔ اسرائیل کاٹیکنالوجی اوراسلحہ کارعب ودبدبہ کم ہوا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ ابھی کچھ عرصہ یہ معاملہ اور آگے بڑھے گا۔
سوال: موجودہ صورت حال میں ہمیںانفرادی اورحکومتی طورپر کیاکیااقدامات کرنے چاہئیں ؟
خورشیدانجم:سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں ریاست اسرائیل کالفظ بھی استعمال نہیں کرنا چاہیے بلکہ مقبوضہ فلسطین کہنا چاہیے کیونکہ اس پر یہود کا دھونس ، دھاندلی ، زبردستی اور بدمعاشی کا قبضہ ہے ۔ یہ دھاندلی انہی عالمی طاقتوں نے کی ہے جنہو ںنے تقسیم ہندکے وقت یہاں کی تھی۔ برطانیہ نے وہاںمسلمانوں کوجھانسہ دیا کہ ہم آپ کو فلسطین سے لے کر یمن تک کاعلاقہ دیں گے اورآپ خلافت عثمانیہ کا ساتھ چھوڑ دیں۔ دوسری طرف یہود کوبھی کہا کہ ہم آپ کو یہاںملک بنا کردیں گے اوراس کے بعد جوکچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے ۔ اس صورت حال میں بحیثیت مسلمان ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کچھ کر سکتے ہیں وہ حسب ذیل اقدامات ہیں :
1۔سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی بے بسی اور حکمرانوں کی بے حسی کا اظہار کریں اور اللہ تعالیٰ سے مدد کی گڑگڑاکر دعا کریں :
2۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط} (البقرۃ:45) ’’اور مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے۔‘‘
نماز قائم کریں اور صبرواستقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں ۔
3۔ سورۃ البقرۃ میں دس رکوع بنی اسرائیل کے کردار کو بالکل واضح کرتے ہیں، اس کا مطالعہ کریں اور بنی اسرائیل کی تاریخ بھی پڑھیں ۔ پھرجس طرح دھونس، دھاندلی اور بدمعاشی سے اسرائیل قائم ہوا،اس حوالے سے بھی ہمیں آگاہی ہونی چاہیے کیونکہ ہمارے لوگوں کو پتا ہی نہیںہے کہ یہ جنگ کتنی خوفناک ہے ۔ ہمارے نوجوانو ںکو اس کی تعلیم دینی چاہیے تاکہ ان میں اسرائیل کے خلاف جوش وجذبہ پیدا ہو۔
4۔ اگر چہ فلسطینیوں تک پہنچانا مشکل ہے لیکن جتنا ہو سکے اور جس ذریعہ سے بھی ہو سکے فلسطینیوں کو امداد پہنچائی جائے ۔ تنظیم اسلامی کی طرف سے تین اداروں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے:الخدمت فائونڈیشن ، دارالعلوم کورنگی اورخبیب فائونڈیشن ۔ بیت المقدس ہرمسلمان کی مسجد ہے۔ حماس امت مسلمہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔لہٰذا جتنی ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں اتنی کرنی چاہیے ۔
5۔ پُرامن احتجاج ،مظاہروں کا اہتمام کریں ۔ اس دفعہ تو غیرمسلم ممالک نے مسلمان ممالک سے کہیں بہتر کردار نبھایا ہے ۔ لندن میں لاکھوں افراد کا مظاہرہ ہوا ہے ۔ اسی طرح کی کوشش ہمیں بھی کرنی چاہیے ۔
6۔ سوشل میڈیا، میڈیا،پرنٹ میڈیا اوردیگر جو بھی ذرائع ابلاغ ہیں ان کے ذریعے نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کریں اور فلسطین کے مسئلہ کو اُٹھائیں ۔
7۔اپنے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کوباور کرایا جائے کہ وہ اپنی ذمہ داری اورفرض کوپہچانیں۔
8۔ہمارے ہاں پہلے فوجی تربیت کے طور پر NCCہوتی تھی لیکن مشرف کے دور میں ایک پلان کے تحت اس کو بھی ختم کر دیا گیا ۔ فوجی تربیت کو دوبارہ ہر نوجوان کے لیے لازم کیا جائے ۔
9۔ اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کیے جائیں ۔ اس معاملے میں مسلمان حکومتوں نے کافی بے حسی دکھائی ہے۔ حالانکہ لاطینی امریکہ کے ممالک اورآئرلینڈ وغیرہ نے اپنے سفیر واپس بلالیے لیکن ہمارے کسی حکمران کو یہ توفیق نہیں ہوئی ۔
10۔اسرائیلی مصنوعات کابائیکاٹ کیاجائے ۔ مکڈونلڈ اور کے ایف سی کے ساتھ جو کچھ ہوا یہ ویسے ہی نہیں ہے۔ لیکن جوجس حدتک کرسکتا ہے وہ کرے ۔
11۔غلبہ دین کے لیے جدوجہد کی جائے ۔احادیث میں ہے کہ یہاں سے فوجیں جائیں گی ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں پہلے اسلامی نظام قائم ہوگا۔ اس کے لیے محنت اور کوشش کرنی ہے ۔جوہماری استطاعت ہے فاتقوااللہ مااستطعتم کے مصداق ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے آگ بجھانے والوں میں سے ہوں آگ لگانے والوںمیں سے نہ ہوں ۔
سوال:پاکستان اورامریکہ کاتعلق دوستی کا ہے یاآقا اورغلام کا۔ موجودہ صورت حال کے تناظر میں پاکستان اورامریکہ کے تعلقات کہاں کھڑے ہیں ؟
رضاء الحق:پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے سابق صدر ایوب خان مرحوم کی کتاب’’ فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کامطالعہ کیاجائے توپتا چلتا ہے کہ پاکستان زیادہ تر امریکہ کی ڈکٹیشن پرہی چلتا رہا ہے جبکہ امریکہ بھارت اوراسرائیل کی طرح روزاول سے پاکستان کادشمن ہے۔ یہ چیز ہمیں بھولنی نہیں چاہیے ۔اسی طرح قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں امریکہ کے تین نکاتی ایجنڈے کاتذکرہ کیا ہے جوماضی میں اتنا واضح نہیں تھا لیکن نائن الیون کے بعد کھل کرواضح ہوچکا ہے۔ وہ ایجنڈا کیا ہے ؟
1۔ ڈی اسلامائزیشن آف پاکستان: پاکستان جس نظریہ (اسلام) کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا اس کی جڑیں این جی اوز ، میڈیا ، نصاب وغیرہ کے ذریعے کھوکھلی کرنا ۔
2۔ڈی نیوکلیرائزیشن:اُس دور میں ہدف یہ تھا کہ پاکستان کو ایٹمی قوت نہ بننے دیا جائے۔ بعد میں پاکستان کولالچ دیاجاتا رہا ہے کہ اپنانیوکلیئر پروگرام رول بیک کردے ۔ لیکن پاکستان کو یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر رول بیک کریں گے توپھراس کا حشر لیبیا والا ہوگا۔بہرحال اس حوالے سے امریکہ ،اسرائیل اورانڈیا ایک پیج پر ہیں ۔
3۔ پاکستان کوڈی ملٹرائز کردیاجائے ۔ پاکستان کے معاشی مسائل جس حد تک جاچکے ہیں ظاہر ہے اس کااثر ہماری فوج کی capability and capacityکے اوپر بھی پڑے گا۔
اس میں یقیناًبیرونی قوتوں کی شرانگیزیاں تو ہیں لیکن اپنوں کی بھی کوتاہیاں ہیں ۔خاص طور پر ہماری اسٹیبلشمنٹ کا رول شروع سے اب تک کوئی اچھا نہیں رہا ۔اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں عمل دخل نہیں دینا چاہیے اور ملک میں ہرحال میں انسانی حقوق کی پاسداری ہونی چاہیے۔ ہم الدین النصیحۃ کے جذبے سے انہیں یہی دعوت دیتے ہیںکہ وہ ملکی مفاد کو ترجیح دیں ۔ امریکہ افغان جنگ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :
{بَاْسُہُمْ بَیْنَہُمْ شَدِیْدٌط تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتّٰی ط}(الحشر:14) ’’ان کے آپس کے جھگڑے بہت سخت ہیں۔تم انہیں متحد گمان کرتے ہو ‘ حالانکہ ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔‘‘
افغانستان میں چالیس سے زیادہ ممالک کے اتحاد،نیٹو اورامریکہ نے بمباری بھی کی اور سب کچھ کیا ، چلتے چلتے ان ممالک کے آپس میںجھگڑے بھی شروع ہوگئے ، ایک وقت آیا کہ امریکہ ،نیٹو اوربرطانیہ رہ گئے ۔ حتیٰ کہ آخر میں صرف امریکہ رہ گیا تھاوہ بھی بھاگ گیا۔ یہ معاملہ ہمیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی وقت آتی ہے جب ہم اللہ کے ساتھ خالص ہوجاتے ہیں ۔
سوال: افغان طالبان کے دوبارہ حکومت سنبھالنے کے بعد سے ایسا نظر آرہاہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟
ڈاکٹر انوار علی:پاک افغان تعلقات کی خرابی کا آغازاس وقت ہوا جب حکومت پاکستان نے افغان حکومت سے شکایت کی کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کررہی ہے اوراس کے لنکس افغانستان کے اندر پائے جارہے ہیں جن کے ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں۔ ان ثبوتوں کے سامنے آنے کے بعد حکومت پاکستان نے طالبان حکومت کی حمایت سے ہر سطح پر ہاتھ اُٹھا لیا ۔ افغانستان کے ہزاروں تجارتی کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پرکھڑے ہیں اورحکومت پاکستان ان کوداخلہ نہیں دے رہی ۔ اس کے علاوہ بھی کئی اختلافات ہیں ۔ اس صورت حال میں پاکستان کامؤقف یہ ہے کہ افغانستان سے تعلقات ختم کیے جائیں اور TTPکی مداخلت کو کنٹرول کیا جائے ۔ دوسری طرف افغان حکومت کی طرف سے بھی بڑا مضبوط موقف سامنے آتاہے کہ ہم پاکستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کرتے۔ البتہTTP کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ پہلے پاکستان ہمیں آفیشلی تسلیم کرے اس کے بعد پاکستان کی طرف سے باقاعدہ ایک پیغام آئے تواس کا ہم جواب دیں گے۔ پاکستان کہتاہے کہ ہم نے پیغام دیا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا کوئی پیغام نہیںملا۔اس وقت دونوں ممالک کے حالات اچھے نہیں ہیں ۔افغان طالبان سے ہماری دلی وابستگی ہےاور اسی طرح افغان بھی پاکستان سے کافی مانوس ہیں لیکن وہاں قوم پرستی بڑی شدت کے ساتھ بڑھ رہی ہے جواس وقت طالبان حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ ہمیںذہن میں رکھنا چاہیے کہ طالبان کی ابھی نئی نئی حکومت ہے اور حالات اس سے بالکل مختلف ہیں جیسے ان کے پہلے دور میں تھے ۔ اب ان کو جو چیلنجز درپیش ہیں وہ اتنے آسان نہیں ہیں ۔ لہٰذا پاکستان کو اس وقت ایک مدبرانہ کردارا دا کرنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے بڑوں کومعاملات کو گہرائی میںجا کردیکھنا ہوگا۔
ہمیں سوچنا چاہیے کیاعالم کفر یہ چاہے گاکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اچھے ہوں ؟ ہمارا سب سے بڑا دشمن بھارت ہے جس نے پچھلے کچھ ادوار سے افغانستان میںاپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں، اس کی ایجنسیز وہاں پرہیں ۔ کیاہم اس امکان کو رد کرسکتے ہیں کہ پاکستان اورافغانستان کے تعلقات کی خرابی میں بڑا ہاتھ بھارت کا ہے ؟افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے پاکستانی حکومت جواقدامات کر رہی ہے ۔ ایک طرف اسرائیل اور فلسطین کی جنگ چل رہی ہے اوردوسری طرف فوری ان کو نکالنے کی با ت کرنا اخلاقی اعتبار سے بھی اچھا طرزعمل نہیں ہے۔کیونکہ اب ان کی تیسری نسل یہاں پل رہی ہے۔ اس پرحکومت پاکستان کوبہت ہی دانشمندانہ انداز میں اپنی سٹریٹجی بنانی چاہیے اور قانونی اور اخلاقی سارے ضابطے پورے کرتے ہوئے سارے معاملات کو آگےبڑھانا چاہیے ورنہ معاملات مزید خراب ہوں گے ۔
سوال:پاکستان اورافغانستان کے حوالے سے تنظیم اسلامی کا دوٹوک مؤقف کیا ہے ؟
خورشید انجم:تاریخی طورپرجائزہ لیاجائے تو روز اول سے ایک مخاصمت کارویہ افغانستان کا پاکستان سے رہا ہے جس کا بھرپور فائدہ بھارت نےاٹھایا۔جب سوویت یونین افغانستان میں آیا تواس وقت جہاد میں پاکستان کا بڑا اہم کردار رہا۔ روس کے جانے کے بعد طالبان کی حکومت آئی۔ یہ واحد دور تھا جب افغانستان کے ساتھ ہماری سرحد بالکل محفوظ ہوگئی ۔ پھرپاکستان میں مشرف آگیا اور افغانستان میں امریکہ ، دونوں نے افغان طالبان کے خلاف ایک دوسرے کو کھل کر سپورٹ کیا ۔ مشرف دور میں پکڑدھکڑ ، ڈرون حملوں ، بمباری اور اٹھائے جانے کا سلسلہ شروع ہوا جس سے قبائلیوں میں ردعمل پیدا ہوا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں ایسے لوگ تھے جو نفاذ شریعت کا مطالبہ رکھتے تھے ۔دوسری طرف عالمی طاقتیں اور بیرونی ایجنسیز بھی وہاں کام کر رہی تھیں جس کی وجہ سے انتشار نے زور پکڑا ۔ بہرحال پاکستان کی حکومت نے جس طرح پہلے افغان طالبان کی حکومت کو فی الفور تسلیم کیا تھااسی طرح اب بھی ان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے اوراس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو بحال کیاجائے ۔قبائلی علاقوں کی طرف سے جو مطالبات ہیں ان کو سنا جائے ، اگر شریعت کا مطالبہ ہے تواس کونافذ کیاجائے تو خود بخود معاملہ حل ہوجائے گا۔ ان کی جو محرومیاںہیں ،ان کو دور کیاجائے توپھران کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہے گا۔ ہم پاکستان میں ’اسلامائزیشن‘ کی طرف بڑھیں تو’طالبانائزیشن‘ کا خطرہ نہیں رہے گا۔
سوال:مسئلہ کشمیر کے حوالے سے حکومت پاکستان کیامؤقف اختیار کرے ؟
رضاء الحق:پاکستان کاکشمیر کے حوالےسے مؤقف بڑا واضح ہے کہ کشمیر پاکستان کاحصہ ہے جس پربھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا ہواہے ۔بھارت میں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے، لیکن کانگریس کے دورمیں بھی بھارت پاکستان کے ساتھ مخاصمانہ رویہ رکھتاتھااوراس کی ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح پاکستان کوکمزور کیا جائے ۔ جب پاکستان دولخت ہوا تواندراگاندھی نے بیان دیاکہ ہم نے ہزار سالہ غلامی کابدلہ لے لیاہے۔پھراسرائیل نے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پرحملہ کرنے کے لیےدومرتبہ بھارت کے ساتھ مل کر پلان بنایا۔ 2019ء میںبھارت نے کشمیر کا سپیشل سٹیٹس بھی ختم کر دیا تاکہ وہ کشمیر کو بھارت میں ضم کر سکے ۔ کشمیر کے معاملے پر انڈیا اور چین کے درمیان بھی کئی جھڑپیں ہو چکی ہیں جن میں بھارت کو کئی علاقوں سے پسپائی بھی ہوئی ہے ۔ اس حوالے سے ہم حکومت پاکستان کو یہ پیغام دیں گے کہ پاکستان کوکشمیر کے حوالے سے کسی صورت میں مصالحانہ رویہ اختیار نہیں کرناچا ہیے کیونکہ اگر ہم کمپرومائزبھی کر لیں گے تو پھر بھی انڈیا ہمارا دشمن ہی رہے گا اورامریکہ ،یورپ اوراسرائیل اسی کو سپورٹ کریں گے ۔ بلکہ لگتایہی ہے کہ عرب ممالک بھی انڈیا کو ہی سپورٹ کریں گے ۔
ڈاکٹر انوار علی:کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کرنے کا مطلب ہے کہ غیرکشمیری بھی وہاں پرآباد ہو سکتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کشمیر کا بھی فلسطین جیسا حال ہو گا ۔ وہاں کے کشمیری اپنے ہی وطن میں اجنبی ہوجائیں گے۔انڈیا کا کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کرنا عالمی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے خلاف عالمی عدالت میں جایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ سیاسی اورعدالتی سطح پراس جنگ کو لڑے ۔اپنے مسائل اپنی جگہ پرہیں لیکن کشمیر ہماری شہ رگ ہے ۔ اگرہم اس محاذ سے پیچھے ہٹے توہم کئی محاذوں سےہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ چنانچہ کشمیر کاز کے حوالے سے جومحنتیں ہورہی ہیں وہ جاری رہنی چاہیے ۔
سوال: 2024ءمیں بھارت میں الیکشن کا سال ہے ،کیا اس دفعہ بھی مسلم دشمنی کواپنی مہم کاحصہ بنا کربی جے پی دوبارہ ووٹ حاصل کرلے گی ۔اگر ایسا ہوا توہندوستان کے تیس کروڑ مسلمانوں کی صورت حال کیا ہوسکتی ہے ؟اور وہاں کے مسلمانوں کو کیاکرنا چاہیے ؟
خورشید انجم:ہندوئوں کے نزدیک برصغیر کی تقسیم کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دھرتی ماتا یامہابھارت کوتقسیم کیاگیا۔ بی جے پی توآر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے لیکن جب بنگلہ دیش بنا تواس وقت کانگریس کی لیڈر اندراگاندھی نے کہا تھاکہ ہم نے دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبودیا۔پھر وہ الیکشن جیتنے کے لیے ہندودیوی کے روپ میں سامنے آئی تھی۔ پھراس نے باقاعدہ ایک سٹڈی مشن سپین بھیجا تھاکہ وہ جاکرسٹڈی کریں کہ کس طرح مسلمانوں نے وہاں آٹھ سوسال حکومت کی اورپھران کو بالکل ملیامیٹ کردیا گیا۔یہ کانگریس کا حال ہے جو بظاہر سیکولر جماعت سمجھی جاتی ہے جبکہ BJPتو کٹر ہندو جماعت ہے جو اس وقت انڈیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے ، مساجد گرا رہی ہے اور ہر وہ کام کر رہی ہے جس سے مسلمانوں کا صفایا ہو سکے ۔ 2024ء کے الیکشن سے پہلے اس مسلم دشمنی کو وہاں مزید ہوا دی جائے گی اور اگر BJPالیکشن جیت گئی تو اس کے بعد حالات مسلمانوں کے لیے مزید خوفناک ہوں گے ۔ لیکن جب حالات اتنے خراب ہوجائیںتو اسی سے پھر امید کی کرن بھی پیدا ہوتی ہے۔مسلمانوں کو جو کرنا چاہیے اس میں سب سے بنیادی چیز اتحاد ہے ۔ جیسے کسی دور میں شاہ بانو کیس میں ان کا اتحادسامنے آیا تھاجب مسلمانوں کے عائلی قوانین کوچھیڑا گیا توپورے انڈیا کے مسلمان اکھٹے ہوگئے اور حکومت کوگھٹنے ٹیکنے پڑے ۔لیکن آج حالات اس سے زیادہ سخت ہیںالبتہ اتحاد ضروری ہے ۔ اس کاایک دوسرا رخ بھی ہے کہ جس طرح ہندوتوا کا ہائپ پروان چڑھایا جارہا ہے اس سے وہاں کا پڑھالکھا سمجھدار ہندو متنفر ہورہا ہے ۔ بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹرا سرارا حمدؒنے انڈیاکے دورے پرمولاناابوالحسن علی ندویؒ کو مشورہ دیا تھاکہ آپ اپنےمدرسے میں سنسکرت پڑھوائیں۔کیونکہ سنسکرت ان کی مذہبی زبان ہے جب تک مسلمان یہ نہیں پڑھیں گے تبلیغ کاحق ادا نہیں کرسکیں گے۔ وہاں پر مسلمانوں کے لیے دعوت کا کام بڑے وسیع پیمانے پرہے ۔
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط}(البقرۃ:143) ’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ ‘تم پر گواہ ہو۔‘‘
شاہ ولی اللہ ؒکا ایک مکاشفہ بھی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ اعلیٰ ذات کے ہندو برہمن اسلام قبول کرلیں گے ۔ میرا خیال ہے کہ پھرایسے لوگ آئیں گے اورحالات پلٹا کھائیں گے لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔ اس میں اتحاد اوردعوت دونوں چیزیں ہوں گی توپھر کامیابی ہوگی ۔
سوال: پاکستان کے حالات میں بہتری کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹر انوار علی:بنیادی بات یہی ہے کہ پاکستان جس مقصد کے لیے قائم کیاگیا تھا اس کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس وقت پاکستان ایک بے مقصد ریاست ہے جس کا کوئی مستقبل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کا مطلب کیا: لاالٰہ الا اللہ !اس نعرے نے تمام مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پرجمع کیا تھااورسیاسی سطح پرایک بظاہر ناممکن انقلاب آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رمضان المبارک کی 27ویں شب ہمیں یہ معجزہ ملا تھا۔ پاکستان کے ایشو پر ہندوستان کے تمام مسلمان متحدہو ئے تھے۔ ظاہر ہے کلمہ نے ان کوجوڑا تھااور مستقبل میں بھی ایک کلمہ ہی ان کوجوڑ کررکھ سکتا ہے ۔ اگر خدانخواستہ اس کلمہ پرہم نے کمپرومائز کیا جوکہ ہم سیاسی ،معاشی اورمعاشرتی سطح پر کرچکے ہیں توپھر توکچھ نہیں بچے گا۔ جوبچا کچھا ہے وہ بھی جائے گا۔بقول شاعر ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیؐجب تک ہم اللہ کی طرف نہیں لوٹیں گے ہمیں دنیا میں بھی کوئی ترقی نہیں ملے گی۔ہماری ترقی اس کلمہ کے ساتھ منسلک ہے۔ اگر ہم نے وہ اپنایاتوہمارا مستقبل اس دنیا میں ہے۔
رضاء الحق: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے تھے کہ جب تک اس ملک میں اسلام نافذ نہیں ہوتا اس وقت تک اس ملک میں مارشل لاء سے جمہوریت بہتر ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جب مسلم لیگ نے 1946ء کے انتخابات میں انڈیا میں کلین سویپ کرلیا تھا تواس کی بنیاد بھی اسلام ہی تھا ۔اس جمہوری پراسس میں بھی بنیاد انہوں نے یہی بنائی تھی کہ مسلم ہے تومسلم لیگ میں آ۔ چنانچہ پھرلوگوںنے مسلم لیگ کوووٹ دیے اور اس کے ساتھ دوقومی نظریے کو جوڑا اورپاکستان وجود میں آگیا۔بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت سے لے کر آج تک پاکستان میں اشرافیہ کی حکومت ہے، وہ کبھی کسی شکل میں آکے ملک کو لوٹتے ہیں اورکبھی کسی شکل میں ۔
سوال: تنظیم اسلامی انقلابی جماعت ہے اورانتخابی سیاست کے طریقے کے خلاف ہے، لیکن انتخابات کرانے اورسیاسی عمل کو جاری رکھنے کا مطالبہ تنظیم اسلامی کرتی رہتی ہے کیایہ کھلاتضاد نہیں ؟
خورشید انجم: سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ ہے :
((کانت بنواسرائیل تسوسھم الانبیاء)) ’’بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے ۔‘‘‘
اسی طرح ہماری دینی کتب میں سیاست باقاعدہ ایک موضوع ہے ۔سیاست کوئی ایسی گندی چیز نہیں ہے ۔ پھرکوئی بھی باشعور شخص اپنے اردگرد سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ ہمارے ہاںیہ سمجھا جاتاہے کہ جو انتخابات میں حصہ لے رہا ہے وہ سیاست میں حصہ لے رہا ہے اوراس کے علاوہ سیاست کچھ بھی نہیں ۔ حالانکہ سیاست کی دواقسام ہیں :نظری سیاست اورعملی سیاست۔نظری سیاست کی واضح مثال صحافی ہیں کہ وہ قوم کا ایک رخ متعین کرتے ہیں ،رائے عامہ ہموار کرتے ہیں ۔ عملی سیاست کے بھی دوحصے ہیں : انقلابی اورانتخابی۔تنظیم اسلامی یہ سمجھتی ہے کہ یہاںتبدیلی یا اسلامی انقلاب انتخابات کے ذریعے نہیں آسکتا بلکہ وہ صرف انقلابی تحریک کے ذریعے آسکتا ہے ۔لیکن اس وقت تک مارشل لاء کے مقابلے میں جمہوریت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔بانی محترم ؒاس کے لیے ایک مثال دیا کرتے تھے کہ ایک ہے کسی شخص کازندہ رہنا،اس کے لیے اسے ہوا،غذا اورپانی کی ضرورت ہےاور ایک ہے کسی کا مسلمان ہونا ، اس کے لیے ایمان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی طرح پاکستان کی بقاء کا تقاضا ہے کہ یہاں انتخابات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔ البتہ یہاں اسلام صرف انقلابی تحریک کے ذریعے آئے گا اور وہ انقلاب آئے گا منہج انقلاب نبوی ﷺ کے ذریعے۔ اس کے بغیر ممکن نہیں ۔
سوال: رفقاء کے لیے ووٹ ڈالنے یاکسی ووٹر کی حمایت کرنے کے حوالےسے تنظیم اسلامی کی پالیسی کیا ہے ؟
خورشید انجم:ہماری واضح پالیسی ہے کہ تنظیم اسلامی جماعتی حیثیت سے بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے گی اور نہ ہی تنظیم کاکوئی رفیق انفرادی طور پرانتخابات میں حصہ لے سکے گا یا کسی کے حق میں کنوینسنگ کرسکے گا۔البتہ ووٹ ڈالنے کے لیے دوشرائط طے کی گئی ہیں :
1۔امیدوار کم ازکم ظاہری اعتبار سے فسق وفجور کا مرتکب نہ ہو۔
2۔ اگر وہ کسی پارٹی کےساتھ وابستہ ہے تواس کے منشور میں یااس کی قیادت کے بیانات اورنظریات میں کوئی بات خلاف شریعت نہ ہو۔
ان دوشرائط کےساتھ تنظیم کارفیق ووٹ ڈال سکتا ہے ۔ لیکن یہ اس کا ذاتی فیصلہ ہوگا ۔ تنظیم بطور جماعت کسی سیاسی جماعت یاامیدوار کی کنوینسنگ نہیں کرتی ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024