(اسلامی معاشرت) اخوّت کا بیاں ہوجا، محبّت کی زباں ہوجا - رضوان اللہ پشاوری

6 /

اخوّت کا بیاں ہوجا، محبّت کی زباں ہوجامولانا رضوان اللہ پشاوری

’’بے شک! ایمان والے (آپس میں) بھائی بھائی ہیں (اگر ان کے درمیان کچھ تنازع ہو جائے) تو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح و صفائی کرا دیا کرو اور (ہر معاملے میں) اﷲ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘(الحجرات:10)
اخوت کے معنیٰ بھائی چارہ، یگانگت اور برادری کے ہیں۔ اسلام میں تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں، چاہے وہ جہاں کہیں بھی رہتے اور کسی بھی رنگ و نسل اور وطن سے تعلق رکھتے ہوں، جو کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو جاتا ہے وہ بحیثیت مسلمان ہمارا دینی بھائی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان ایک پائیدار اور مستحکم رشتہ قائم کیا، جسے قرآن کریم نے رشتۂ اخوت اسلامی کا نام دیا ہے۔ اس رشتے کی عظمت و فضیلت، افادیت اور اہمیت کے حوالے سے قرآن مجید کی کئی آیات مقدسہ اور رسول اﷲ ﷺ کی بے شماراحادیث مبارکہ موجود ہیں۔ بعثت رسول ﷺ اور نزول قرآن کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بنی نوع انسان کو منظم کر دیا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی اور عداوت کرنے والوں کو پیار، محبت اور اخوت کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔ اس عظیم رشتے کی بنیاد اسلام میں اﷲ اور رسول کریم ﷺ کی محبت ہے۔
سورۃ الحجرات کی مندرجہ بالا آیت اﷲ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے اور اخوت اسلامی کے رشتے کی موجودی میں رنگ و نسل، زبان، قومیت اور علاقوں کی بنیاد پر بننے والے باقی تمام رشتوں کی حیثیت ثانوی بلکہ ختم ہوجاتی ہے۔
آیت مذکورہ میں دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے:’’ اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دو۔‘‘ آیت کے اس حصے سے معلوم ہوا کہ دو مسلمانوں، افراد یا دو گروہوں میں اختلاف واقع ہو سکتا ہے، لیکن ان کے قریب جو تیسرا فرد یا گروہ ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ ان لڑنے یا اختلاف کرنے والوں میں فوراً صلح کرا دے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کرے جو دو بھائیوں سے کیا جاتا ہے۔ بحیثیت مسلمان یہ ذمہ داری ہم سب پر عاید ہوتی ہے کہ ہم مسلمانوں کے درمیان مزید جھگڑا کرنے کی فضا پیدا نہ کریں بلکہ واقع ہونے والے جھگڑے کو ناصرف ختم کرائیں بلکہ جھگڑے کی بنیاد اور سبب کا خاتمہ بھی کریں۔
آیت مبارکہ میں تیسرا حکم ہے: ’’اور اﷲ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘ آیت کے اس حصے میں تنبیہ کی گئی کہ اہل ایمان کے درمیان اگر اختلاف ہوجائے تو تمہاری ذمہ داری ہے کہ ان کے درمیان اختلاف کی خلیج کو بڑھاؤ نہیں بلکہ کم کرنے کی کوشش کرو اور صلح کرانے میں کسی بھی فریق کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان سب کے ساتھ برابری اور خیرخواہی کا سلوک کیا جائے۔
اخوت اسلامی، اﷲ کی مہربانی
امت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ آپس میں بھائی ہیں اور تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح رہتے ہیں اور جس طرح ایک بھائی دوسرے بھائی کے کام آتا ہے، اس کے دکھ درد اور سُکھ میں کام آتا ہے۔ اس طرح امت مسلمہ میں باہمی اتحاد و یک جہتی اور امداد و اعانت کی فضا قائم ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور سب مل کر اﷲ کی رسّی (پیغام ِہدایت) کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو اور اﷲ کی اس مہربانی (انعام) کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کی بد دولت بھائی بھائی بن گئے۔‘‘(سورۂ آل عمران)
اخوت اسلامی اور ارشاداتِ رسول کریم ﷺ
رسول اﷲ ﷺ نے اپنے متعدد ارشادات میں اخوتِ اسلامی کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو اجاگر اور واضح فرمایا ہے۔
حضرت ابُوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس کے معاملے میں خیانت نہیں کرتا، دانستہ اس کو کوئی جھوٹی اطلاع نہیں دیتا اور نہ ہی وہ اس کو رسوا کرتا ہے۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب کچھ حرام ہے، اس کا خون (یعنی جان)، اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔‘‘
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)
اس حدیث پاک میں ایمان کی ایک اعلیٰ اخلاقی صفت کو بیان کیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں ایمان کا معیار اور کسوٹی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرتا ہے جو وہ اپنی ذات کے لیے پسند کرتا ہے۔ اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح کو ئی اپنے لیے نقصان اور برائی پسند نہیں کرتا تو اسے چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی کسی نقصان اور برائی کے عمل میں شریک نہ ہو بلکہ جتنا ہو سکے، اپنے مسلمان بھائی کی عزت و آبرو کی حفاظت اور کامیابی و فائدے کے لیے سوچے اور اس کی مدد کرے۔ رسول اﷲ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے: ’’بے شک! مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا نہ ہی اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کسی ضرورت کو پورا کرتا ہے، اﷲ اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور جو کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی مشکل کو آسان کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں آسانی پیدا کرے گا اور جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی (کسی عیب یا غلطی کی) پردہ داری کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ (سنن ابو داؤد)
فرمانِ نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کی اذیت و تکلیف) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے بے شمار ارشادات اور فرامین میں مسلمان کو مسلمان کا بھائی قرار دیا اور حقیقی مسلمان کی نشانی یہ فرمائی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کو اذیت و تکلیف نہیں پہنچتی بلکہ ہر حالت میں راحت و سکون اور سلامتی ملتی ہے۔
رشتۂ مواخات کی بنیاد و اساس
حضور سید عالم ﷺ کا یہ بہت بڑا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپ ﷺ نے امت مسلمہ کو’’ رشتۂ مواخات‘‘ کی ایک لڑی میں پرو دیا۔ جب آپ ﷺ اور مسلمانوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو مسلمان بالکل بے سر و سامانی کی حالت میں تھے۔ نہ ان کے گھر بار تھے اور نہ ہی دوسری ضروریاتِ زندگی کا کوئی انتظام تھا۔ اس موقع پر اﷲ کے پیارے رسول حضور خاتم الانبیاء ﷺ نے انصار اور مہاجرین صحابۂ کرامj کے درمیان ’’عقدمواخاۃ‘‘ (بھائی چارہ) قائم فرمایا اور ایک صحابی کو دوسرے صحابی کا دینی و اسلامی بھائی بنادیا۔
رشتہ مواخات میں صحابہ کرام ؓ کا ایثار
انصار صحابہ کرام ؓ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے والے اپنے مہاجرین صحابہjکو ناصرف خوش آمدید کہا بلکہ ان کو اپنی ہر چیز میں برابر کا حصہ دار بنادیا۔ جس صحابیؓ کے پاس دو مکان تھے، اس نے ایک مکان اپنے دوسرے مہاجر بھائی کو دے دیا۔ جس کے پاس دس بکریاں تھیں، اس نے پانچ بکریاں اپنے اسلامی مہاجر بھائی کو دے دیں۔ اسی طرح دوسری املاک (باغات، زمینیں وغیرہ) کو بھی تقسیم کر دیا۔ انصار زراعت کے پیشے سے منسلک تھے اور مہاجرین تجارت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ انصار نے مہاجرین کو اپنی زراعت میں شامل کرلیا اور مہاجرین انصار سے مل کر اپنی تجارت کر نے لگے۔ اس طرح انصار اور مہاجرین نے باہم مل کر زراعت و تجارت میں معاشی استحکام اور ترقی حاصل کی۔
اخوت اسلامی میں صحابہ کرامjکی ایک اور مثال
اسلامی اخوت و بھائی چارے کا یہ عظیم الشان مظاہرہ تاریخ نے نہ پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ آئندہ دیکھ سکے گی۔ یہ اسی جذبہ اخوت کا ہی کمال تھا کہ ایک جنگ میں زخمیوں میں سے ایک زخمی کی آواز آئی ’’پانی دو‘‘ جب اس کو پانی دے دیا گیا اور وہ پانی پینے لگا تو دوسرے زخمی کی آواز آئی ’’پانی چاہیے‘‘ تو پہلے زخمی نے پانی پیے بغیر چھوڑ دیا اور کہا پہلے اسے پانی دے دو۔ جب پانی دوسرے زخمی کو دے دیا گیا اور وہ پانی ہونٹوں سے لگانے لگا ہی تھا کہ تیسرے زخمی کی آواز آئی ’’پانی دیجیے‘‘ گویا پانی کا پیالہ اسی طرح کئی زخمی صحابیوںؓ کے درمیان گھوم پھر کر جب پہلے زخمی کے پاس لایا گیا تو وہ شدت پیاس اور زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہو چکا تھا۔ پانی کا پیالہ دوسرے زخمی کے پاس لایا گیا تو وہ بھی شہید ہو چکا تھا۔ سب زخمی صحابہ کرام ؓ نے اس طرح جامِ شہادت نوش فرما لیا۔ موت سب کے سامنے تھی، مگر ہر ایک نے اپنے دوسرے بھائی کے لیے پانی خود نہ پیا اور جامِ شہادت نوش کر لیا۔
رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کے اس باہمی تعلق کو کہیں بھائی کہہ کر بیان فرمایا تو کہیں اسے جسم واحد قرار دیا اور کہیں اسے مضبوط دیوار کی مانند قرار دیا، جس کی ایک اینٹ دوسری کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ صحیح مسلم میں فرمان نبوی ﷺ کا مفہوم ہے: مومن، مومن کا بھائی ہے (اور وہ) ایک جسم کی مانند ہے کہ اگر جسم کے کسی ایک حصے (عضو) کو کوئی تکلیف پہنچے تو اس کا درد اس کے تمام بدن میں محسوس ہوتا ہے۔ یعنی ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملے میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے، اگر کسی ایک عضو کو شکایت و تکلیف ہوتی ہے تو باقی تمام جسم بھی بیداری اور بخار و تکلیف کی صورت میں اسی طرح کرب (اذیت) کو محسوس کرتا ہے۔
اخوت کو قائم رکھنے کا حکم
اخوت اسلامی ایسا انمول، پائیدار اور عظیم رشتہ ہے کہ اس کو قائم رکھنے کے لیے بار بار حکم دیا گیا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’بُرے گمان سے بچو! بے شک بُرا گمان بڑی جھوٹی بات ہے۔ ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ لگو اور ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے دشمنی کرو اور نہ ایک دوسرے کو چھوڑو اور اﷲ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ (صحیح بخاری)
اﷲ کے پیارے رسول ﷺ نے اخوت اسلامی کے آداب اور احترام کے حوالے سے اپنے فرمان میں اخوت اسلامی کے رشتے کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے اصول بیان فرمائے ہیں۔ اگر صاحبان ایمان ان اصولوں پر چلنے لگیں تو ان کے درمیان کبھی جھگڑے اور فتنہ و فساد برپا نہیں ہوں گے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کے حوالے سے بُرا گمان قائم کرنا خلافِ شرع ہے۔ ہمیشہ دوسروں کے متعلق اچھا گمان رکھنا چاہیے، ہوسکتا ہے جسے ہم بُرا سمجھ رہے ہو ں، وہی اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں محبوب ہو۔ حدیث پاک کے پہلے حکم میں ذہن کی صفائی پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان کے بارے میں اپنا ذہن صاف رکھو۔ بُرے گمان کی مذمت بھی بڑے سخت الفاظ میں ہوئی ہے کہ بُرا خیال جھوٹی باتوں میں بڑا جھوٹ ہے۔ کسی دوسرے مسلمان کا بلا وجہ تعاقب کرنا یا دوسروں کی بلاوجہ جاسوسی کرنے کو سختی سے منع کر دیا گیا۔ اسی طرح کسی سے خواہ مخواہ بغض، کینہ اور عداوت و دشمنی نہیں رکھنی چاہیے بلکہ مسلمانوں کو سب کے ساتھ محبت و شفقت کا برتاؤ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر کسی سے محبت و شفقت کرنی ہے یا کسی سے عداوت و دشمنی کرنی ہے تو اس کے لیے یہ اصول فرمایا گیا ہے کہ کسی سے محبت بھی اﷲ کے لیے کرو اور دوسرے پر غصہ بھی اﷲ کے لیے کرو یعنی ہر کام اﷲ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے اﷲ (کی رضا اور خوش نُودی) کے لیے (اس کے نیک بندوں سے) محبت کی اور اﷲ کے لیے کسی (کافر یا اﷲ تعالیٰ کے نافرمان) سے بغض رکھا اور اﷲ ہی کے لیے (کسی کو کچھ) عطا کیا اور اﷲ ہی کے لیے (کسی کو برائی اور گنا ہ وغیرہ سے) روکا تو پس اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح)
اس حدیث میں تکمیل ایمان اور اخوت اسلامی کے چار سنہری اصول بیان کئے گئے ہیں جو درج ذیل ہیں: اﷲ کے لیے محبت کرنا، اﷲ کے لیے بغض رکھنا، اﷲ کے لیے عطا کرنا۔ اﷲ کے لیے روکنا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اس حدیث میں ان چاروں اعمال کو ایمان کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ ایک حقیقی مسلمان صرف اپنے خالق و مالک اﷲ وحدہٗ لا شریک سے ہی محبت کرتا ہے اور اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو بھی محض اﷲ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی (کافر یا اﷲتعالیٰ کے نافرمان اور ظالم و جابر) سے بغض و عناد رکھتا ہے تو وہ بھی اﷲ ہی کے لیے، کیونکہ اﷲ کے رسول ﷺ نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ میں حکم دیا گیا ہے: ’’اﷲ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اﷲ کے رسول ﷺ کو تمام مسلمانوں کا آپس میں حقیقی بھائیوں جیسا سلوک رکھنا کتنا عزیز اور محبوب ہے۔
اسی حوالے سے ایک حدیث مبارکہ میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ جو لوگ صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، قیامت کے دن وہ نورانی چہروں کے ساتھ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے اور انہیں کوئی غم نہیں ہوگا۔ حضرت عمر فاروقh بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سے بعض بندے ایسے بھی ہیں جو نہ تو نبی ہیں اور نہ شہید لیکن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن ان کا جو درجہ ہوگا اسے دیکھ کر نبی اور شہید اُن کی تحسین کریں گے۔ صحابۂ کرامj نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! ہمیں بتائیں کہ وہ کون لوگ ہوں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آپس میں محض اﷲ تعالیٰ کے واسطے محبت رکھتے ہیں نہ ان کا آپس میں کوئی لین دین ہے اور نہ کوئی رشتہ ہے۔ اﷲ کی قسم! ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور وہ نور کے منبروں پر بیٹھے ہوں گے، جب دوسرے لوگ ڈر رہے ہوں گے تو انہیں کوئی ڈر نہیں ہوگا اور جب دوسرے لوگ غمگین ہوں گے تو انہیں کوئی غم نہیں ہوگا۔‘‘ (ابی داؤد)
اخوت اسلامی کے ثمرات اور فوائد
اخوت و بھائی چارہ مسلمانوں کے درمیان وہ عظیم رشتہ ہے جس کی بد دولت مسلمان جہاں کہیں بھی بستے ہوں وہ اپنے آپ کو ایک معاشرہ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اخوت سے باہمی اختلافات اور تنازعات کو ختم کیا جاتا ہے۔ اخوت و بھائی چارہ سے مسلمان ایک دوسرے کی مدد اور خدمت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، جس سے معاشرتی زندگی کو استحکام ملتا ہے اور معاشرہ میں ایک اچھی اور عمدہ فضا قائم ہوتی ہے اور نیکیوں کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے ۔ اخوت و بھائی چارہ سے مسلمانوں میں اتحاد ویک جہتی پیدا ہوتی ہے، جس سے مسلمانوں کی قوت میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے اور مسلمانوں کی یہ قوت دیکھ کر کفار کے دلوں پر رعب و دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ اخوت و بھائی چارہ کی بنیاد پر جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی مالی مدد کرتا ہے تو اسلامی معاشرے میں مالی استحکام پیدا ہوتا ہے اور معاشرے میں امن و سکون اور جذبہ ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ اخوت و بھائی چارے کی فضا میں معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ دوسروں کا دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ مصیبت و آزمائش کے موقع پر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ غم و خوشی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔
آج ارض فلسطین لہو لہو ہے۔ فلسطین کی سرزمین پہلی بار خون سے رنگین نہیںہوئی۔ گزشتہ پندرہ سال میں فلسطینیوں کو چار بار جنگی حالات سے دو چار کیا گیا ہے۔ اسرائیل عالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مسلسل فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ معصوم فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت پر اقوام عالم اور خاص طور پر2 ارب سے زائد آبادی رکھنے والے57 اسلامی ممالک خاص طور پر عرب ممالک کی خاموشی نہ صرف انتہائی تشویش کا باعث ہے بلکہ سب کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ بقول رئیس امروہوی؎
عرب کو تھا جس اپنی عظمت پہ ناز
وہ عظمت دھری کی دھری رہ گئی
ہوا غرق پٹرول میں جوش جہاد
حیا تیل کی دھار میں بہہ گئی
اسرائیل مسلمانوں کی بھیجی گئی امداد غزہ میں جانے نہیں دے رہا اور اسرائیل کے لیے امریکی امداد مسلم ممالک سے گزر کر جاتی ہے کیونکہ مسلمان ممالک کے حکمرانوں میں غیرت نام کی چیز نہیں۔ کیا بحیثیت مسلمان فلسطین کےمرد ہمارے بھائی نہیں، اُن کی عورتیں ہماری بہنیں نہیں اور ان کے بچے ہمارے بچے نہیں۔ یا تو ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ چھوڑ دے یا پھر فلسطینیوں کو اپنے بدن کا حصہ سمجھ کر اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیں۔ یہی اسلامی اخوت ہے اور یہی ہمارا فلسطینیوں سے رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری دینی غیرت اور حمیت کو بیدار کرے۔ آمین یا رب العالمین!