(الہدیٰ) تمہارے ظاہر اورپوشیدہ اعمال اللہ کے علم میں ہیں - ادارہ

8 /

الہدیٰ

تمہارے ظاہر اورپوشیدہ اعمال اللہ کے علم میں ہیں

آیت 74{وَاِنَّ رَبَّکَ لَیَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوْرُہُمْ وَمَا یُعْلِنُوْنَ(74)} ’’اور یقیناً آپؐ کا رب خوب جانتا ہے جو کچھ چھپاتے
ہیں ان کے سینے اورجو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ وہ اپنی زبانوں سے کیا کہتے ہیں اور ان کے دلوں میں کیا جذبات ہیں۔ ان کے دل تو گواہی دے چکے تھے کہ محمد(ﷺ) سچّے ہیں اور قرآن بھی بر حق ہے‘ لیکن وہ محض حسد‘تکبّر اور تعصّب کے باعث انکار پر اَڑے ہوئے تھے۔ اس حوالے سے ان کی کیفیت فرعون اور قومِ فرعون کی کیفیت سے مشابہ تھی جس کا حال اسی سورت کی آیت 14 میں اس طرح بیان ہوا ہے: {وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّاط} ’’اور انہوں نے ان (آیاتِ الٰہی) کا انکار کیا ظلم اور تکبّر کے ساتھ جبکہ ان کے دلوں نے ان کا یقین کر لیا تھا‘‘۔سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۴۶ اور سورۃ الانعام کی آیت ۲۰ میں علماء ِ اہل ِکتاب کی بالکل یہی کیفیت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے: {اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَ ہُمْ} یعنی وہ اللہ کے رسولﷺ اور قرآن کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔
آیت 75{وَمَا مِنْ غَآئِبَۃٍ فِی السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(75)} ’’اور نہیں ہے کوئی پوشیدہ چیز آسمان اور زمین میں
مگر وہ ایک روشن کتاب میں موجود ہے۔‘‘
گویا اللہ تعالیٰ کے علم قدیم ہی کو یہاں کتابِ مبین کہا گیا ہے۔

درس حدیث

اُمورِ ایمان

عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ((مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْلِیَصْمُتْ‘ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلَا یُؤْذِ جَارَہٗ‘ وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ)) (رواہ البخاری)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے بھلی بات کرنی چاہیے یا اسے خاموش رہنا چاہیے‘ جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ دے، جوشخص اللہ اور آخر ت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے۔ ‘‘
تشریح: اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان لانے کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی نیکی اور خیر کی بات کرے‘ ہمسایوں کا خیال رکھے اور مہمان کی عزت و توقیر کرے‘ یعنی اس کی اچھی مہمان نوازی کرے‘ جب کہ غلط گفتگو‘ بیہودہ گوئی‘ ہمسایوں کو اذیت میں مبتلا رکھنا اور مہمان کی مہمان نوازی میں بخل سے کام لینا ایمان کے منافی ہے۔