اداریہ
ایوب بیگ مرزاسقوطِ ڈھاکہ کے حادثہ فاجعہ سے پہلے اور بعد
پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر 1971ء جیسا المناک اور شرمناک دن کبھی نہیں آیا اور ہماری دعا ہے کہ تاقیامت کبھی نہ آئے، جب پاکستان دو لخت ہوگیا اور اُس کی افواج کو اپنے ازلی اور پیدائشی دشمن بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ لیکن اِس اٹل اور ابدی حقیقت سے بھی ہم انکار نہیں کر سکتے کہ فرد، معاشرہ اور قوم کے اعمال کا دعاؤں کی قبولیت اور رد ہونے سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 8 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اُمید ہے(اس کے بعد) تمہارا رب تم پر رحم فرمائے گا اور اگر تم نے پھر وہی(سرکشی کا طرز عمل اختیار) کیا تو ہم بھی وہی(عذاب دوبارہ) کریں گے اور ہم نے دوزخ کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا دیا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے اِس فیصلے اور حکم نامے کے پس منظر میں آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ 1971ء کے اس سانحہ فاجعہ سے پہلے فرد، معاشرہ اور قوم بحیثیت مجموعی جس روش پر قائم تھی اب اُس میں کچھ بہتری آئی ہے، صورتِ حال برقرار ہے یا بدتر ہوگئی ہے۔
3 جون 1947ء کو جب کانگرس نے بادلِ نخواستہ اور حالات کے جبر کے تحت مسلم لیگ کا مطالبہ پاکستان تسلیم کیا تو ساتھ ساتھ مسلمانوں کی حوصلہ شکنی بھی شروع کر دی۔ مثلاً پاکستان ایک الگ ریاست کی حیثیت سے چند ماہ بھی نہ نکال سکے گا اور دوبارہ بھارت کے پاؤں میں گر جائے گا یعنی یہ تو پانی کے بلبلے کی مانند ہوگا اور جلد ہی خود بخود پھٹ جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ پھر تقسیم کے موقع پر جو خونریزی کی گئی، اُس کی بھی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو مسلمان کے حوالے سے اُن کے دل و دماغ میں جو زہربھرا ہوا تھا، وہ بھرپور طور پر سامنے آ رہا تھا، دوسرا اُن کی خواہش تھی کہ مہاجرین کا اتنا بوجھ پاکستان پر ڈال دیا جائے کہ نوزائیدہ ریاست کی معیشت اس میں دب کر دم توڑ جائے۔ لیکن آغاز میں اُس وقت کی سیاسی قیادت میں چند ایسے افراد جن کے ہاتھوں میں عنانِ حکومت آئی، وہ باصلاحیت تھے۔اُنہیں ملکی مفاد بھی عزیز تھا اور رموز مملکت کو بھی سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے نوزائیدہ ریاست کو کھڑا کرنے کے لیے بے مثل جدوجہد اور محنت کی۔ ایک راوی کے مطابق کاغذات کو جوڑنے کے لیے پِن نہیں تھیں تو دفاتر میں لوگ دور دراز علاقوں سے کانٹے چن کر لاتے تھے تاکہ کانٹوں سے کاغذات کو جوڑ کر رکھا جا سکے۔ نتیجہ کیا نکلا کہ بھارت کی شر انگیزیوں اور مہاجرین کے سیلاب کے باوجود پہلے چار سال پاکستان ایسا بجٹ بنانے میں کامیاب رہا جس میں کسی کی مدد شامل نہ تھی۔ پھر بھی بِلا خسارہ بجٹ پیش کیا گیا۔ اُدھر 1949ء میں یعنی دو سال کے بعد نظریاتی سطح پر پارلیمنٹ نے قرار دادِ مقاصد منظور کر لی۔
1951ء میں تمام مکاتبِ فکر کے اکتیس (31) علماء ایسے 22 نکات پر متفق ہوگئے جن کی بنیاد پر اسلام کا نفاذ ریاست پاکستان میں متفقہ طور پر ہو سکتا تھا۔ ہم بڑے تیقن سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ چار سال پاکستان کا سنہری دور تھا جب پاکستان صحیح معنوں میں ایک آزاد ملک تھا۔ 11ستمبر 1948ء کو قائداعظم وفات پاگئے۔ 16 اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان شہید ہوگئے اور سردار عبدالرب نشتر جیسی عظیم شخصیت بھی اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئی۔ اب وہ لوگ حکومت پر قابض ہوگئے جن کی اکثریت یا سیاسی طور پر انگریز سے مستفید تھی یا وہ اُس بیوروکریسی کا حصہ تھے جو انگریز کی تربیت یافتہ تھی۔ قصہ مختصر اب پاکستان جاگیرداروں اور بھورے انگریزوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ لیکن پاکستان ابھی غیر ملکی قرض اور کرپشن کی لعنت سے بچا ہوا تھا۔ مال کی ہوس تھی لیکن پیسہ ابھی اتنا عام نہیں تھا کہ وہ دل و دماغ پر مکمل غلبہ حاصل کر لیتا۔ البتہ اقتدار اور کرسی کی خواہش نے پاگل کر دیا ہوا تھا۔ 1951ء سے 1958ء تک چھ وزیر اعظم تبدیل ہوئے۔ 1958ء میں فوجی بھی باضابطہ اور بالواسطہ اقتدار کی اس جنگ میں کود گئے اور ایوب خان نے پاکستان میں پہلا مارشل لاء لگا دیا۔ ایوب خان نے پاکستان کو بلاشبہ صنعتی ترقی دی، لیکن صنعتی ترقی نے اقتدار کے ساتھ ساتھ دولت کی ہوس میں بھی انقلاب برپا کر دیا۔
مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اور بیوروکریٹس خود کو حکمران اور بنگالیوں کو دوسرے درجہ کے شہری سمجھتے تھے۔ کسی صورت اہلِ مشرقی پاکستان کو اقتدار میں اُن کا حقیقی حصہ دینا نہیں چاہتے تھے۔ اِسی لیے کبھی ون یونٹ بناتے کبھی توڑتے۔ اس کمزور اور یرغمال شدہ نظام پر اُس وقت کاری چوٹ لگی جب ایوب خان صدارتی انتخابات میں بدترین دھاندلی کروا کر صدر منتخب ہوگئے۔ یہ دھاندلی بھی مشرقی پاکستان میں بڑی سطح پر ہوئی تھی۔ قیام پاکستان کے 23 سال بعد ملک بھر میں عام انتخابات تو کروا دیئے، ان انتخابات کے نتیجہ میں عوامی لیگ جس کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن تھے، قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔ لیکن مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو اور قابض فوجی صدر یحییٰ خان شیخ مجیب الرحمٰن کو ذاتی مفادمیں اقتدار منتقل کرنا نہیں چاہتے تھے۔ لہٰذا قومی اسمبلی کا اجلاس ہی طلب نہ کیا گیا اور نہ ہی منتقلی اقتدار کے لیے کوئی قدم اٹھایا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے بنگالیوں نے سیاسی تحریک اور پھر سِول نافرمانی شروع کر دی۔ رہی سہی کسر ازلی دشمن بھارت نے اپنے فوجی مکتی باہنی کی صورت میں مشرقی پاکستان داخل کر کے پوری کر دی۔جس سے 16دسمبر1971ء کو پاکستان شکست و ریخت کا شکار ہوگیا ۔ اگرچہ اس میں ہمارے دشمن اور بعض عالمی قوتیں ملوث تھیں، لیکن اصل ذمہ دار پوری قوم، سیاست دان اور اُن کے باوردی حکمران تھے۔ جنہوں نے اقتدار کی لالچ میں قوم کو یہ دن دکھایا۔ اگر پاکستان کے دو لخت ہونے کے تمام شواہد سامنے رکھیں اور وجوہات جاننے کی کوشش کریں تو ہر ذی شعور پاکستانی اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کی اصلی اور حقیقی وجہ یہ تھی کہ پہلے انتخابات کروانے سے گریز برتا گیا اور پھر جب بادل نخواستہ انتخابات کرائے تو اُس کے نتائج تسلیم نہ کرکے عوام کی توہین کی، پھر دھونس اور دھاندلی کی حکومت سے معاملات اس حد تک بگڑ گئے کہ بھارت نے فائدہ اٹھاتے ہوئے مداخلت کی اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ اب ہم عرض کریں گے کہ اس حادثہ فاجعہ کے بعد اس ملک میں کیا ہوتا چلا جا رہا ہے۔
مغربی پاکستان جسے اب what remains of Pakistan کہا جانے لگا اُس کے عوام نے چند دن سوگ منایا۔ لیکن جلد ہی ایسی آوازیں آنے لگیں کہ مشرقی پاکستان میں مسلسل سیلاب آتے تھے، ویسے بھی وہاں بڑی غربت تھی، اچھا ہوا ہے اُس سے جان چھوٹی۔ اب بقایا پاکستان معاشی لحاظ سے خوب ترقی کرے گا۔ لیکن ہوا کیا، آگے بڑھنے سے پہلے قارئین کو بتاتے چلیں، آج سابقہ مشرقی پاکستان کی معاشی حالت سابقہ مغربی پاکستان کی معاشی حالت سے کہیں بہتر ہے۔ سیاسی صورتِ حال اور سیاسی استحکام اگرچہ بنگلہ دیش کا بھی کوئی مثالی حالت میں نہیں ہے، لیکن پاکستان سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس نئے پاکستان کے پہلے حکمران ذوالفقار علی بھٹو بنے۔ اُنہوں نے 1973ء میں پاکستان کو ایک متفقہ آئین دیا۔ اس پر کچھ امید بندھی کہ حکومت اور اپوزیشن کی کوششوں سے بنے ہوئے اس آئین پر عمل درآمد سے سیاسی استحکام آئے گا اور اہم ترین بات یہ کہ اس آئین کے مطابق ملک میں جلد مکمل اسلامی نظام رائج کر دیا جائے گا۔ جس سے ملک صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست میں تبدیل ہو جائے گا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بنائے ہوئے آئین میں سات ترامیم کر ڈالیں۔ جس سے ایک تو آئین متفقہ نہ رہا ،دوسرا یہ شق قائم رہ جانے کے باوجود کہ ملک میں کوئی قانون سازی قرآن اور سنت کے خلاف نہیں ہو سکے گی یہ آئین منافقت کا پلندہ بن گیا کیونکہ اس میں کہنے کو اسلام تھا بھی اور نہیں بھی تھا یعنی اسی آئین میں اسلام کی طرف بڑھنے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔
1977ء میں بھٹو نے عام انتخابات کا اعلان کر دیا جن کے نتائج کے مطابق اُس نے دوبارہ اکثریت حاصل کر لی، لیکن اپوزیشن نے حکومت پر دھاندلی کے الزامات لگائے اور دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک شروع کردی۔ یہ تحریک چند دن بعد ٹھنڈی ہوتی ہوئی نظر آئی تو اُس وقت کی اپوزیشن نے اس تحریک کو تحریکِ نظامِ مصطفےٰ ﷺ کا نام دے دیا۔ اب اسلام کے نام پر عوام کو تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی جو بڑی کامیاب رہی، حالانکہ اصلاً یہ اینٹی بھٹو تحریک تھی ۔ حالات شاہد ہیں کہ امریکہ نے اس تحریک کو بہت سپورٹ کیا کیونکہ وہ بھٹو کو متنبہ کر چکا تھا کہ اگر تم نے ایٹمی قوت بننے کی طرف بڑھنا نہ چھوڑا توتمہارا انجام عبرت ناک ہوگا۔
جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا اور مارشل لاء لگا دیا۔ لیکن چالاکی یہ کی کہ 73 کے آئین کو قائم رکھا، البتہ اُس کی وہ شقیں معطل کر دیں جو اُس کی حکمرانی کے راستے میں حائل ہوتی تھیں۔ پھر وہ 11سال اسلام کا ڈھنڈوڑا پیٹتے رہے اور انتخابات کی تاریخیں دیتے رہے۔ اُن کے دور میں سوویت یونین نے افغانستان میں مداخلت کی جس سے ضیاء الحق امریکہ کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ صدر ضیاء الحق طیارے کے حادثہ میں جان بحق ہوئے تو اب پاکستان کے سیاسی میدان میں بھٹو کی صلبی اولاد اور ضیاء الحق کی معنوی اولاد میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ بھٹو کی بیٹی بے نظیر نے نعرہ لگایا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور ضیاء الحق کے شاگردِ رشید میاں محمد نواز شریف نے ضیاء الحق کی قبر پر جاکر اعلان کیا کہ وہ ضیاء الحق کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ 1988ء سے 1999ء تک دونوں کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری رہی بے نظیر وزیراعظم بنتی تو نوازشریف مقتدرہ سے مل کر اُس کی حکومت ختم کر دیتے اور نواز شریف وزیراعظم بنتے تو بے نظیر اَن دیکھی قوتوں سے ساز باز کرکے اُس کی حکومت ختم کرا دیتی۔ یہ سلسلہ گیارہ (11) سال چلتا رہا۔
ٍٍ بالآخر پرویز مشرف نے مارشل لاء لگا دیا ایک مرتبہ پھر مارشل لاء کو امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ لہٰذا نواز شریف کی حکومت جو عوام کی منتخب کردہ حکومت تھی اُسے ختم کر دیا گیا نواز شریف کو جیل ہوگئی۔ وہ کچھ عرصہ بعد پرویز مشرف سے 10 سالہ معاہدہ کرکے جدہ چلے گئے۔ دونوں یعنی نواز شریف اور بے نظیر کو اب احساس ہو گیا تھا کہ فوج اُنہیں اپنے مفادات میں استعمال کرتی ہے لہٰذا اُنہوں نے لندن میں ایک کانفرنس کرکے میثاق جمہوریت کر لیا۔ لیکن وہ اس میثاق پر قائم نہ رہے۔ پہلے بے نظیر نے اِس کی خلاف ورزی کی، بعدازاں نواز شریف بھی اس نظریہ پر قائم نہ رہے۔ فوج نے دونوں کو رد کر دیا اور ایک نیا کھلاڑی عمران خان میدان میں لے آئے۔
عمران خان نے بھی ساڑھے تین سال حکومت کی۔ اُن کے بھی فوج سے تعلقات خراب ہوگئے۔ پھر یہ کہ وہ مہنگائی کی وجہ سے انتہائی غیر مقبول ہوگئے۔ وہ پہلے وزیراعظم تھے جنہیں عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے رخصت کیا گیا۔ اُنہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام امریکہ پر لگایا۔ فوج نے اُن کی جگہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنا دیا۔ عوام نے عمران خان کو اقتدار سے رخصت کرنے کے امریکہ پر الزام اور فوج کے دوبارہ شریف فیملی لانے کا بڑا منفی اثر قبول کیا اور وہ عمران خان جو اپنے دورِ حکومت میں انتہائی غیر مقبول ہو چکا تھا یکدم عوام کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔
اب صورتِ حال یہ بنی کہ کبھی PDM یعنی عمران خان کی مخالف جماعتوں کا اتحاد انتخابات کا مطالبہ کر رہا تھا اور اب عمران خان یہ مطالبہ کر رہا ہے اور اُس کی مخالف جماعتیں انتخابات سے کترا رہی ہیں۔ ایک طرف مقتدر حلقے یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کسی صورت انتخابات میں بھی حصہ نہ لے اور دوسری طرف ملک میں خاص طور پر خیبرپختونخوا میں لوگ عمران خان کے عشق میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اُدھر جب سے نگران حکومت آئی ہے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بدترین سطح پر آگئے ہیں اور حالات بہت بڑے بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں گویا اس مرتبہ ہمارے شمال مغرب میں وہی صورتِ حال پیدا ہوتی نظر آرہی ہے جو 71ء میں مشرقی اور مغربی بنگال کی سرحد پر پیدا ہوئی تھی۔
اس تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اہل پاکستان نے سقوطِ ڈھاکہ کے حادثہ فاجعہ کے بعد اپنی رتی برابر اصلاح نہیں کی، وہی کچھ کر رہے ہیں جو 1971ء سے قبل کر رہے تھے۔ بہرحال ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اور اِس کے کرتا دھرتوں کو ہدایت دے کہ وہ اِس دیس کی خلوص سے خدمت کریں جو ہمارے بزرگوں نے جان، مال اور عزتوں کی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024