مسئلہ فلسطین اورہماری دینی ذمہ داریاں
(سورہ بنی اسرائیل کی آیات 4 تا 10 کی روشنی میں )
مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، لاہور میںتنظیم اسلامی کے مرکزی ناظم تعلیم و تربیت محترم خورشیدا نجم کے یکم دسمبر2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص
خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں آج ہم ان شاء اللہ سورہ بنی اسرائیل کی آیات4تا 10 کا مطالعہ کریں گے جن میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ان کا مستقبل بھی بیان کر دیا گیا ہے ۔
حضرت یعقوب ؑ کا لقب اسرائیل تھا ، اسی نسبت سے ان کی نسل بنی اسرائیل کہلائی ۔ یہ لوگ یوسف ؑ کے ساتھ مصر گئے اور پھر وہاں سے حضرت موسیٰ ؑ ان کونکال کر لائے ۔پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں فلسطین پر حملے کا حکم دیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا :
{فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ہٰہُنَا قٰـعِدُوْنَ (24)}(المائدہ) ’’بس تم اور تمہارا رب دونوں جائو اور جا کر قتال کرو‘ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘
اس کے بعد چالیس سال تک ان پر صحرا نوردی مسلط کر دی گئی ۔ پھر جب ان کی اگلی نسل جوان ہوئی تو یوشع بن نون کی قیادت میںانہوں نے فلسطین کو فتح کیا ۔ بجائے اس کے کہ اللہ کا شکر ادا کرتے اور لوگوں تک اللہ کا دین پہنچاتے یہ آپس میں لڑنا شروع ہوگئے اور ان کے بارہ قبائل نے الگ الگ حکومتیں بنا لیں ۔ آپس کی اس پھوٹ کی وجہ سے آخر کار مشرک اقوام کے دوبارہ غلام بن گئے ۔ طویل عرصہ کے بعد انہوں نےاللہ تعالیٰ کے نبی سموئیل ؑ سے مطالبہ کیا کہ ہم جہاد کرنا چاہتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّـقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ط}(البقرۃ:246) ’’جبکہ انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے کوئی بادشاہ مقرر کر دیجیے‘ تاکہ ہم اللہ کی راہ میںجنگ کریں۔
پھر طالوت ؑ کی قیادت میں جنگ ہوئی اور اس جنگ میں حضرت داؤد ؑ نے بہترین کردار ادا کیا جس کی وجہ سے بنی اسرائیل کو فتح نصیب ہوئی ۔ اس کے بعد تقریباً 96 سال کا دورانیہ ان کا گولڈن پیریڈ تھا جس میں حضرت داؤد اور سلیمان ؑ کی بادشاہتیں بھی شامل ہیں ۔ سلیمان ؑ کے بعد ایک بار پھر بنی اسرائیل دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے ۔ ایک گروہ نے اسرائیل اور دوسرے نے یہودیہ کے نام پر الگ الگ ریاستیں قائم کرلیں ۔ بعد میں اسرائیل بھی اندرونی زوال کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور آخر میں آشوریوں کے ہاتھوں بنی اسرائیل ایک مرتبہ پھر تباہ و برباد ہوگئے ۔ جس کا قرآن میں ذکر ہے کہ دومرتبہ ان پر سخت عذاب آیا ۔ فرمایا:
’’اور ہم نے متنبہ کر دیا تھا بنی اسرائیل کو کتاب میں کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچائو گے اور بہت بڑی سر کشی کرو گے۔پھر جب ان دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آ گیاتو ہم نے تم پر مسلّط کر دیے اپنے سخت جنگجو بندے تو وہ تمہاری آبادیوں میں گھس گئے ‘ اور (یوں ہمارا) جو وعدہ تھا وہ پورا ہو کر رہا۔‘‘(بنی اسرائیل:4،5)
ایک مرتبہ 587قبل مسیح میں بخت نصر نے ان پر حملہ کیا ، 6 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا اور اتنے ہی قیدی بنا کر بابل لے گیا ۔ اس طرح فلسطین سے ان کا صفایا ہوگیا ۔ یہاں تک کہ حضرت عزیرؑ نے دل میں سوچا کہ کیا بنی اسرائیل دوبارہ کبھی آباد ہو پائیں گے ۔ اللہ نے انہیں ایک سو سال کے لیے سلا دیا ۔ 539قبل مسیح میں سائرس نے عراق فتح کیا اور یہودیوں کو دوبارہ یروشلم آباد کرنے کی اجازت دی ۔ حضرت عزیر ؑ جاگے تو یروشلم دوبارہ یہودیوں سے آباد تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی یاداشتوں کے ذریعے تورات کو مرتب کیا ۔جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا:
’’پھر ہم نے تمہاری باری لوٹائی ان پر‘ اور ہم نے مدد کی تمہاری مال و دولت اور بیٹوں کے ذریعے سے اور بنا دیا تمہیں کثیر تعداد (والی قوم)۔‘‘(بنی اسرائیل:6)
پھر ایک بڑی مکابی سلطنت قائم ہوئی۔ دوبارہ آہستہ آہستہ زوال آیا تو انہوں نے روم کے بت پرستوں کو دعوت دی جنہوں نے یروشلم کو فتح کر لیا ۔ اس دوران حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی ۔ یہودیوں نے انہیں تسلیم نہ کیا ، ان پر الزامات لگائے اور آخر میں اپنے تئیں انہیں پھانسی پر چڑھا دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا ۔ اس کے بعد پھر بنی اسرائیل پر عذاب نازل ہوا ۔ جیسا کہ فرمایا:
’’اگر تم نے کوئی بھلائی کی تو خود اپنے ہی لیے کی‘ اور اگر کوئی بُرائی کمائی تو وہ بھی اپنے ہی لیے کمائی۔پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا‘تا کہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں‘اور وہ داخل ہو جائیں مسجد میں جیسے کہ داخل ہوئے تھے پہلی مرتبہ‘اور تباہ و برباد کر کے رکھ دیں (ہر اُس شے کو )جس کے اوپر بھی انہیں قبضہ حاصل ہو جائے۔ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے ‘اور اگر تم نے وہی روش اختیار کی تو ہم بھی وہی کچھ کریں گے۔اور ہم نے جہنّم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔‘‘(بنی اسرائیل7،8)
انہوں نے روم کے خلاف بغاوت کی جس کے نتیجہ میں رومی جرنیل ٹائٹس نے یروشلم پر حملہ کرکے 1 لاکھ 33 ہزار یہودیوں کو قتل کیا اور 67 ہزار کو قیدی بنا کر لے گیا جبکہ سیکنڈ ٹمپل کو بھی مسمار کر دیا۔ اس کے بعد ان کے Diaspora کا دور شروع ہوتا ہےجس میں یہ دربدر ہوئے۔ اس دوران روم میں عیسائیت کا غلبہ ہوگیا اور یروشلم عیسائیوں کے پاس چلا گیا اور انہوں نے یہودیوں کے یروشلم میں داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی ۔ حضرت عمر ؓ نے جب بیت المقدس کو فتح کیا تو عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کے تحت یہودیوں کے داخلے پر پابندی کی شرط برقرار رہی ۔ 1799ء میں یہودیوں نے دوبارہ اسرائیل کا خواب دیکھا ۔ 1885ء میں صہیونی تنظیم قائم کی گئی جس کا بنیادی مقصد اسرائیلی ریاست کا قیام تھا ۔ اس کے لیے انہوں نے پہلی جنگ عظیم کروائی ، اس دوران برطانیہ سے بالفور ڈیکلیریشن پاس کروایاجس میں اسرائیل کے قیام کی منظوری دی گئی ۔ اس دوران فلسطین میں یہودی آبادکاری کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اور عربوں کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف یہ کہہ کر اُکسایا گیا کہ ہم آپ کو فلسطین سے لے کر یمن تک کا سارا علاقہ دیں گے ۔ چنانچہ عرب ان کے جھانسے میں آگئے، سلطنت عثمانیہ ختم ہوگئی اور فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا ۔1948ء میں اسرائیل قائم ہو گیا ۔ اس وقت بھی صرف 56 فیصد علاقہ یہود کے پاس تھا ۔ 1967ء کی جنگ کے بعد فلسطینیوں کے پاس صرف 22 فیصد رہ گیا ۔یہاں تک کہ اب فلسطینیوں کے پاس صرف 15 فیصد قبضہ رہ گیا اس کو بھی ختم کیا جارہا ہے ۔
حالیہ غزہ کی جنگ کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ مزید علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے مسلسل غزہ پر بمباری کر رہے ہیں ، یہاں تک کہ ہسپتالوں پر بھی حملے کیے جارہے ہیں ، معصوم بچوں ، عورتوں اور نہتے شہریوں کو شہید کیا جارہا ہے اور یورپ اور امریکہ اسرائیل کا مکمل ساتھ دے رہے ہیں ۔ وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جو کتے بلیوں کے مرنے پر شور مچاتی ہیں انہیں فلسطین میں معصوم بچوں اور عورتوں کی شہادتیں نظر نہیں آتیں ۔ جانوروں کی جان کی قیمت ہے ، مسلمان کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ان حالات میں ہمارے کرنے کے کیا کام ہیں:
سب سے پہلے ہم اپنے اندر احساس پیدا کریں ۔ حضورﷺ نے فرمایا:’’مسلمانوں کی مثال ایک جسد واحد کی ہے۔کہیں بھی کوئی تکلیف پہنچے تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتاہے ۔‘‘ اس احساس کی بنیاد پر پھر ہم سوچیں کہ ہمیں کیا کرناہے ۔ بنیادی چیز دعا ہے۔ارشاد نبویﷺ ہے:((الدعا مخ العبادۃ ،الدعا ھوالعبادۃ)) دعا عبادت کا مغز ہے اور دوسری حدیث میںفرمایا دعا ہی عبادت ہے۔ لہٰذا کثرت سے دعاؤں کا اہتمام کریں۔ نبی کریم ﷺنے ایک موقع پر ایک مہینہ قنوت نازلہ پڑھی ہے۔ اس کے بعد ہم اپنے شب و روز کو تبدیل کریں ۔ بڑے افسوس کی بات ہےکہ فلسطین میں چھوٹے چھوٹے بچے یہودیوں کے ہاتھوں لہو میں نہا رہے ہیں ، زخمی حالت میں تڑپ رہے ہیں ، ان کے علاج کے لیے جو ہسپتال میسر تھے وہ بھی یہودیوں نے تباہ کردیے ہیں ، اس قدر دردناک صورتحال ہے اور یہاں کرکٹ میچ ہورہے ہیں ، ناچ گانے پر مشتمل فیسٹیول ہو رہے ہیں ،یہ تو اللہ بھلا کرےسموگ کا کہ وہ اس کی وجہ سے ختم ہو گیا۔ اسی طرح سعودی عرب میں ایک مشہور رقاصہ کوبلوایا گیا۔کیا جواب دیں گے ہم اللہ کے حضور ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اپنے اندر اللہ کا ڈر پیدا کریں اور اپنے شب وروز میں تبدیلی لائیں ۔ اس کے بعد جہاں تک ہو سکے فلسطینیوں کی مالی مدد کریں ۔ اللہ کے رسولﷺ نے اپنی ساری کمائی لا کر بدر کے میدان میں رکھ دی ۔پھر اسی طرح اس قوم کی تاریخ کے بارے میں بھی ہمیں معلوم ہوناچاہیے۔بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی بڑی معروف کتاب ہے سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی، حال اور مستقبل، اس کتاب کا مطالعہ مفید رہے گا ۔ اس میں انہوںنے واضح کیاکہ کس طرح سابقہ امت اور پھر موجودہ امت دو ادوار ایک جیسے آچکے ہیں ۔ بنی اسرائیل پر پہلے بخت نصر نے حملہ کیا اور بیت المقدس ان کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ اسی طرح 1099 ء میں صلیبی جنگ میں بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھ سے بھی نکل گیا تھا ،پھر صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں واپس لیا ۔ پھر 1298ء میں ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو بخت نصر اور ٹائٹس کی تاریخ دہرائی ۔ وحشت اور دہشت کا عالم یہ تھا کہ تاتاری مسلمان کو کہتا تھا تم کھڑے رہومیں جا کر گھر سے تلوار لے کر آتا ہوں تمہارا سر قلم کروں گا وہ ہلتا نہیں تھا اور وہ آ کر سر قلم کرتاتھا۔ مسلمانوں کی ایسی حالت کیوں ہوئی تھی ؟ حضور ﷺنےفرمایا ایک وقت آئے گا غیر مسلم اقوام تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے پر لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے ۔پوچھا گیا : کیا اس وقت مسلمان اتنے کم رہ جائیں گے ؟ فرمایا : ہرگز نہیں بلکہ تمہارے اندر وہن کی بیماری پیدا ہو جائے گی ۔پوچھا گیاوہن کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔آج پونے دو ارب مسلمانوں کی ذلت اور مسکنت کا اصل سبب یہی ہے ۔ او آئی سی کے اجلاس میں یہ ذلت کھل کر سامنے آئی ۔ 4 مسلم ممالک نےاسرائیل پر پابندیوں کی مخالفت کردی ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقر ہ میں فرمایا:{وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّــۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ق وَبَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ ط} (آیت:61) ’’اور ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی۔اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔‘‘
یہ آیت آج مسلمانوں پرپوری طرح فٹ آرہی ہے ۔ بہرحال دوسری مرتبہ بنی اسرائیل پر رومی جنرل ٹائٹس نے حملہ کیا اور یروشلم ایک مرتبہ پھر ان کے ہاتھ سے نکل گیا ، اسی طرح موجودہ مسلمان امت کے ہاتھ سے بھی دوسری مرتبہ بیت المقدس پہلی جنگ عظیم میں نکل گیاجب برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوئی ۔ اس کے بعد پورے عالم اسلام پراستعمار نے اپنے پنجے گاڑ دیے۔ حضور ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا: ’’میری اُمت پر بھی لازماً وہ تمام حالات وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر واقع ہوئے‘ ہو بہو بالکل ایسے جیسے (ایک جوڑے کی) ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے۔آج موجودہ مسلمان اُمت بالکل اسی مقام پر کھڑی ہے ۔ غالب نے کہا تھا کہ؎
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میںیہ ذلت، یہ مسکنت کیوں ہے؟ اقبال نے اس کا جواب دے دیا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کرقرآن کی بدولت پہلے بھی مسلم اُمہ کو عروج ملا تھا اور اب بھی اس زوال سے نکلنے کا راستہ قرآن دکھائے گا ۔ فرمایا:
{اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ وَیُـبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا(9)} (بنی اسرائیل)’’یقیناً یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے اُس راہ کی طرف جو سب سے سیدھی ہے‘اور بشارت دیتا ہے اُن اہل ِایما ن کو جو نیک عمل بھی کریں کہ اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
ہم دعا کرتے ہیں۔{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(0) صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۵لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ(0)} (الفاتحہ)
مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہاں مغضوب علیھم سے مراد یہود ہیں اور الضالین سے مراد نصاریٰ ہیں ۔ اللہ بتا رہا ہے کہ سیدھی راہ قرآن کی ہے جو اس راستے پر چلے گا اس کے لیے خوشخبری ہے ۔ لیکن آج ہمارا قرآن کےساتھ کیا سلوک ہے؟کیا قرآن محض مُردوں کے ایصال ثواب ، تعویذ گنڈوں ، حصول برکت کے لیے نازل کیا گیا تھا ۔ اس سے زیادہ کوئی تعلق ہے ہمارا قرآن کے ساتھ ؟ لوگ بڑے فخر سے بتاتے ہیں اس رمضان میں میں نے اتنے قرآن ختم کیےلیکن اصل سوال یہ ہے کہ عمل کتنا ہے؟ اس قرآن کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا ، اس کے احکامات کو نافذ کرنا ، یہ کس کی ذمہ داری تھی ؟ اللہ کے رسولؐ کا یہ ارشاد کس کے لیے تھا ؟
((فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ))’’جویہاں موجود ہیں وہ ان تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ۔‘‘
اس سے قبل حضورﷺ نے باقاعدہ مسلمانوں سے گواہی لی کہ کیا میں نے تم تک پہنچا دیا ہے ۔ مجمع نے یک زبان ہوکر کہا : ہاں ہم گواہ ہیں کہ آپ نے حق ادا کر دیا ۔ اس وقت وہاں سوا لاکھ کا مجمع تھا جبکہ جنت البقیع میں صرف دس ہزار صحابہ مدفون ہیں ۔ باقی سب دنیا میں آپ کا پیغام لے کر پھیل گئے ۔ شام ، عراق، ترکی سے لے کر یہاں مکران تک صحابہ کی قبریں موجود ہیں ۔ انہوں نے اپنا فرض ادا کردیا :
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًاط}(البقرہ:143) ’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے‘تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ ‘تم پر گواہ ہو۔‘‘
اس امت کو اسی فرض کی ادائیگی کی شرط پر خیر امت قرار دیا گیا تھا :{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ ط} (آل عمران:110) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘تم حکم کرتے ہو نیکی کا‘اور تم روکتے ہو بدی سے‘اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر۔‘‘
یہ اصل کام تھا جو رسول اللہ ﷺنے ہمارےذمہ لگایا تھا لیکن آج ہم کیا کر رہے ہیں ؟ پاکستان کا قیام بھی اسی مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا ۔ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج کے فرائض تو متحدہ ہندوستان میں بھی پورے ہورہے تھے ، پھر ہم علیحدہ کس لیے ہوئے ؟ قائد اعظم نے کہا ہم پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جو ملوکیت کے دور میں جو بدنما داغ پڑھ چکے ہیں ان کو ہٹا کر اسلام کا روشن چہرہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں۔بدقسمتی سے ہم دنیا کو روشن چہرہ کیا دکھاتے ،ہم نے اپنا ہی چہرہ بگاڑ لیا ۔ اسرائیل سے نو ماہ قبل پاکستان معرض وجود میں آگیا تھا ۔ گویا پاکستان توڑ تھا اس فتنے کا۔ اسرائیل کے بانی اس بات سے واقف تھے ۔ چنانچہ 1967ء کی جنگ کے بعد بن گوریان نے کہا تھا کہ عربوں سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے، ہمارا اصل دشمن پاکستان ہے، حالانکہ اس وقت پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت بھی نہیں تھی ۔ گویا وہ پاکستان کو ہم سے زیادہ پہچانتے ہیں ۔
بہرحال یہ ہماری ذمہ داری کہ سب سے پہلے ہم اپنی خودی کو پہچانیں ۔ اپنی حیثیت اور اپنے مقام کو پہچانیں۔ جو نعمتیں اللہ نے ہمیں پاکستان سمیت عطا کی ہیں ان کو پہچانیں اور ان کی قدر کریں اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو بھی پہچانیں اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطین کے مسلمانون کے ساتھ دامے ، درمے ، سخنے کھڑے ہوں ، اسرائیل کا ہر سطح پر بائیکاٹ کریں ۔ میکڈونلڈ نے اسرائیلی فوج کو کھانا دینے کا اعلان کیا تھا ، جب بائیکاٹ ہوا تو اس کی طرف سے طرح طرح کی پیش کشیں آرہی ہیں ۔ اس بائیکاٹ کو مزید وسیع کیا جائے ۔اسرائیل کے خلاف کھڑا ہونا صرف فلسطینیوں کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ آج ہم مسجد اقصیٰ کے معاملے پر خاموش رہیں گے تو کل وہ مدینہ کی طرف بھی بڑھیں گے ، کیونکہ ان کے اہداف میں صرف مسجداقصیٰ کو گرانا شامل نہیں ہے ۔ وہ مدینہ منورہ تک جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ آج ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے تو کل مدینہ منورہ کے لیے کیسے کھڑے ہوں گے ؟
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پہچانیں اور انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں ۔ ورنہ کل کس منہ سے رب کو جواب دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024