(دعوت و تحریک) تنظیم اسلامی کی ناظمہ علیا کا رفقاء کے نام نا صحانہ پیغام - ادارہ

8 /

تنظیم اسلامی کی ناظمہ علیا کارفقاء کے نام نا صحانہ پیغام

محترم رفقائے تنظیم ِاسلامی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
عدم کی سمت بڑھتا جارہا ہوں
جو لمحہ آرہا ہے کٹ رہا ہے
بڑھا تا جا رہا ہے پاٹ دریا
یہ ساحل رفتہ رفتہ گھٹ رہا ہے
ہر آنے والا سال اس بات کی اطلاع دے رہا ہے کہ ـ ع ’’گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی…درازئی عمرکے تقاضوںمیں کمزوری اور کم ہمتی کا تقاضا بھی شامل ہے۔خود کو کسی قابل نہیں سمجھتی۔میں اپنی بساط بھر کچھ پڑھ لیتی ہوں ،کچھ سن لیتی ہوں ، فلسطین کے حالات پر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔آگے بڑھ کر کچھ کرنا چاہتی ہوں لیکن کر نہیں پاتی۔یارب یہ کیسی بے بسی ہے۔میں خود نہ سہی میری جماعت،میرے بچے،ان کی اولادیں، کوئی سرکٹواتا،کوئی زخمی ہوتا،کوئی کسی زخمی کوسہارا دیتا،کوئی اس طرح بھاگ دوڑ کرتا جس طرح فلسطینی مجاہدین بھاگتے دوڑتے نظر آتے ہیں۔ شہید یا غازی کا کوئی فخریہ لیبل لگ سکتا تھا۔ہم آج کتنے بے بس اور مجبور ہیں۔ہمارے پیارے نبی ﷺ نے تو آج کے حالات کے بارے میں 1400سال قبل خبردار کر دیا تھا۔آپؐ نے فرمایا:
’’میں فتنے دیکھ رہاہوںجو تمہارے گھروں کے درمیان بارش کے قطروں کی طرح گر رہے ہیں۔‘‘ (متفق علیہ،مسلم ،احمد)
بانی امیرؒ کی تحریریں اور تقاریر ذہن میں بازگشت کر تی رہتی ہیں۔ہم نے پاکستا ن کلمہ طیبہ کے نعرے پر شب قدر میں معجزانہ طور پر حاصل کیا تھا۔لیکن یہاں دین اسلام کے نفاذ کی کوششیں آٹے میں نمک کے برابرر ہیں ۔ہم پاکستانی بحیثیت مجموعی بدعہدی اور بے وفائی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔منافقت اور وھَن یعنی دنیا سے محبت اور موت سے فرار،ہمیں لے بیٹھا ہے۔نبی کریم ﷺکو اپنی امت میں انہی امراض کے بڑھنے کا اندیشہ تھا۔آپؐ نے فرمایا:
’’اللہ کی قسم مجھے تم پر فقر کا خوف نہیں ،میں اس سے خوفزدہ ہوں کہ تم پر دنیا کھول دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کھول دی گئی اور تم اِس سے محبت اور رغبت کرنے لگوگے جیسے اُن لوگوں نے کی اور دنیاپرستی تمہیں اس طرح ہلاک کر دے گی جس طرح اُنہیں کیاتھا۔‘‘(متفق علیہ)
اِس نوع کی احادیث کے مصداق موجودہ حالات کو دیکھتی ہوں تو ڈر جاتی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتی ہوںکہ اے اللہ! ہمیں اپنے عذاب سے ہلاک نہ کرنا، ہمیں شہادت کی موت عطافرمانا۔اے پروردگار!ہم ادنیٰ سی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اسے قبول فرمانا،ہمیں معاف فرمانا، ہمارے دل اہل فلسطین کے لیے تڑپتے ہیں۔ جنہیں بد ترین جسمانی تکالیف اور ذہنی اذیتیں دی جارہی ہے۔جن پر خوراک،ادویات حتیٰ کے پانی اور بجلی بھی بند کر دی گئی ہے۔جن کو اللہ کے دشمنوں نے پوری طرح کچلنے کا ارادہ کرلیا ہے۔
رحم کر رحم، دو جہانوں کے مالک
مصیبت میں ،میں نے پکارا ہے تجھ کو
امیرتنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ صاحب کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں۔اللہ نے اُنہیں دردمند دل سے نوازا ہے۔آج کل پروانۂ بے تاب کی طرح ہر سو صدائیں بلند کرتے نظر آتے ہیں ۔جہاں مذمت کی ضرورت ہومذمت کرتے ہیں۔ جہاں تحسین طلب معاملات ہوں، انہیں سراہتے ہیں۔مسلسل لوگوں کو جگانے اور مایوسی سے نکال کر عمل پر اُبھارنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔اپنے حصے کاکام پوری تندہی سے کررہے ہیں۔ان کا یہ جملہ دل کو بہت بھاتا ہے کہ’’بھائی جو کر سکتے ہو وہ تو کرو‘‘رفقاء کو چاہیے کہ اُن کی تقریریں ،خطاباتِ جمعہ اور ندائے خلافت میں شائع ہونے والی پریس ریلیز وغیرہ خود بھی اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی پڑھوائیں یا سنوائیں۔اس کے علاوہ انہیں اپنے واٹس ایپ گروپس اور دیگرذرائع ابلاغ کے ذریعے خوب پھیلائیں۔
عزیز رفقائے گرامی! ہمیں اس بات کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ہم دعا کر سکتے ہیں ۔دعا مومن کا ہتھیار ہے،دعا ہی اصل عبادت ہے،دعا عبادت کا جوہر ہے۔ہم ایسی پُر خلوص دعا کا سہارالیں جو خلوصِ دل سے توبہ کرکے مانگی گئی ہو۔رو رو کر اپنے رب سے التجائیں کریں ،قنوتِ نازلہ کا اہتما م کریں۔گھر والوں کو بھی تاکید کریں۔ ع
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریںپیارے نبی کریم ﷺ نے جنگ کے حالات میں خاص طور پر لمبی لمبی دعائیں مانگیں۔ بدر کے موقع پر آپؐ نے بہت درد مندی سے رو روکر اپنی قلت ِتعداد و اسباب پر اپنے رب کی مدد کے لیے دامن پھیلایا۔آج ہمیں بھی فتح غیر یقینی لگتی ہے۔ہم بھی وہی کریں جو ہمارے پیارے نبی کریم ﷺنے کیا تھا۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
حالات میں تبدیلی کے لیے بہت مؤثر ذریعہ حقیقی توبہ اور گناہوں سے اجتناب بھی ہے ۔سب رفقاء اپنے اپنے گھروں کا جائزہ لیںکہ دجالی فتنے کی کون کون سے صورتیں ان کے گھروں میں داخل ہوچکی ہیں ۔موبائل فون کا فتنہ تو ہر گھر میں موجود ہے۔اہل خانہ کو اور خود کواُس کی ہلاکت خیزی سے بچانے کے کیا طریقے اختیار کیے جائیں؟آپ خود سوچیں، اپنے اہل ِخانہ کے ساتھ کتبِ احادیث میں سے باب الفتن کا مطالعہ ضرورکریں۔
اپنے گھروں کا جائزہ اس پہلو سے بھی ضرورلیںکہ کیا بچے دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں،دینی شعائر کا اہتمام کر رہے ہیں؟اگر نہیں تو سمجھ لیںکہ ان پر فتنہ ٔدجال کام کر چکا ہے۔ایسا نہ ہو کہ آنے والے وقت میں معلوم ہو کہ دینی غیرت و حمیت دم توڑ چکی ہے،معاذ اللہ۔
اساسِ عنایت کر آثارِ مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے
بچوں میں دینی حمیت بیدار کرنے کے لیے انہیں اپنے اسلاف سے جوڑنے کی کوشش کریں۔سیرت النبیﷺ ،سیرت صحابہؓ،ائمہ اربعہ اور تاریخِ اسلامی کی نامور شخصیات کی زندگیوں کا مطالعہ کرائیں۔ان میں جذبۂ جہاد اور شوق شہادت پیدا کریں۔انہیں دجالیت اور صہیونیت سے متعارف کرائیں۔تاریخ بنی اسرائیل اور تاریخ امت ِمسلمہ کا مطالعہ کرائیں۔کھیل کود سے نکالیں۔فلسطینی بچوں کی زندہ مثالوںسے ان میں قرآن کی محبت اور جذبہ جہاد پیدا کریں۔عزیزانِ گرامی! یہ ہیں آپ کے کرنے کے کام ، جو آپ کو مستقل بنیادوں پر کرنا ہیں ،اللہ آپ کو ہمت عطا فرمائیں!آمین۔
نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔مفتی تقی عثمانی صاحب نے بہت خوبصورت بات کی ہے:’’یہ حرام حلال کا مسئلہ نہیں ہے یہ دینی غیرت و حمیت کی بات ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات ہماری زندگیوں میں جزو لاینفک کی طرح شامل ہو چکی ہیں۔‘‘انہیں چھوڑنا بہت ادنیٰ درجے کی قربانی ہے۔ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف بڑھیں۔ اللہ کی رضا کے لیے ہر وہ کام چھوڑ دیں جسے چھوڑنے کا حکم ہمارے پیارے نبی کریمﷺ نے دیا ہے۔صحابہ کرام j نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا تھا:اَیُّ الْھِجْرَۃِ اَفْضَلُ یَا رَسُوْ لَ اللہِ؟’’اے اللہ کے رسول ﷺ! کون سی ہجرت افضل ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((اَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ عَزَّوَجَلَّ))’’یہ کہ تو ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو تیرے رب عزیز وجلیل کو پسند نہیں ۔‘‘
اکثر مجھے شکایت پہنچتی رہتی ہے کہ رفقائے تنظیم اسلامی کے گھروں کی خواتین عمومی اور خصوصی پروگرامز میں شرکت نہیں کرتیں۔الا ماشاء اللہ_____یہ لمحہ فکریہ ہے ! خواتین کا نظم مردوں کے تحت ہے ،یہ اس بات کا مظہر ہے کہ آپ مردوںکو اللہ نے اصل ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔خاص طور پر اپنے گھروں میں آپ کی حیثیت قوام کی سی ہے۔گھر والوں میں شوق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو شکایت دور ہوگی۔آپ کا محبت آمیز نرم رویہ ،یہ کام بآسانی کر سکتا ہے۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
عزیزانِ گرامی!دل بہت افسردہ ہے۔مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔وہ اسے مشکل میں تنہا نہیں چھوڑتا۔ہمیں لگتا ہے کہ اہل ِفلسطین بڑی آزمائش میں ہیں حالانکہ غور کیاجائے تو اصل آزمائش میں ہم ہیں ۔پاکستان اپنی ایٹمی طاقت کس پر آزمائے گا؟کوئی دھمکی دی جاسکتی تھی۔کوئی مسلم اتحاد کی بات کی جاسکتی تھی۔سب خاموش ہیں، اگلے الیکشن میں جیتنے کی تیاریوں میں مگن
ہر درد مند دل کو رونا میرا رُلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید اُنہیں جگا دے
زمانہ مختلف ادوار کا شاہدہے۔وقت ایک سا نہیں رہتا۔آج موقع ہے ہم از سر نو اپنی مصروفیات ،اپنی فکر مندیاں اور اپنی پلاننگز کا جائزہ لیں۔اپنے لیے کچھ اہداف طے کریں۔اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اس کی طرف لپکیں: {فَفِرُّوْٓا اِلَی اللہِ ط اِنِّیْ لَـکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ x} (الذاریات)’’تو دوڑو اللہ کی طرف، یقیناً میں تم لوگوں کے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں۔‘‘
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
ہوا اس طرح فاش راز فرنگ
کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ
اور
شرابِ کہن پھر پلا ساقیا
وہی جام گردش میں لا ساقیا
مجھے عشق کے پر لگا کر اُڑا
میری خاک جگنو بنا کر اُڑا
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا اُستاد کر
ہری شاخِ ملت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن میں ترے دم سے ہے
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰؓ ، سوز صدیقؓ دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے
عزیزانِ گرامی! میں اپنی دعائوں میں ہمیشہ آپ سب کو یاد رکھتی ہوں، آپ سے بھی دعائوں کی درخواست ہے ۔
بانی امیر محترمؒ کو، تمام رفقاء کو ،ہماری موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اور امت ِمسلمہ کودعائوں میں یاد رکھیں! ظظظ