حُرمتِ مسجد اقصیٰ اور اُمت ِمسلمہ کی ذمہ داری
شجاع الدین شیخ
امیر تنظیم اسلامی
06 دسمبر 2023ء بروز بدھ کنونشن سینٹر اسلام آباد میں”حُرمتِ مسجد اقصیٰ اور اُمت ِمسلمہ کی ذمہ داری“ کے عنوان سے مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام اور دینی جماعتوں کے قائدین کےمشترکہ قومی اجتماع کا انعقاد ہوا۔امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظہ اللہ نے سفرِ عمرہ کے دوران مدینہ منورہ میں اس قومی اجتماع کے لیے اپنا ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا۔
دعائیہ کلمات کے بعد!
{وَمَا لَــکُمْ لَا تُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ رَبَّــنَــآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَاج وَاجْعَلْ لَّــنَا مِنْ لَّـدُنْکَ وَلِــیًّاج وَّاجْعَلْ لَّــنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا(75)} (النساء)
’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم قتال نہیں کرتے اللہ کی راہ میں اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں کی خاطر جو مغلوب بنا دیے گئے ہیں جو دعا کر رہے ہیںکہ اے ہمارے پروردگار ہمیں نکال اس بستی سے جس کے رہنے والے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی بنا دے اور ہمارے لیے خاص اپنے فضل سے کوئی مددگار بھیج دے۔‘‘
میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتا ہوں کہ اُس کے فضل و کرم سےیہ عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی۔ دینی اعتبار سے پاکستان کے تمام نمائندہ مکاتبِ فکرکے زعماء و اکابرین موجود ہیں۔اللہ کی توفیق سے مسجد نبوی ﷺ شریف میں موجود ہوں اور میں منتظمین کا شکرگزار ہوں کہ انہوںنےیہ محفل سجائی اور مجھے موقع دیاکہ کچھ گزارشات پیش کر سکوں۔اس معاملے کو امت ِمسلمہ کی ذمہ داری کہیے،مسجد اقصیٰ کی پکار کہیے،قضیہ فلسطین کہیے یا اسرائیل کا ظلم و جبر کہیے جس عنوان سے بھی پکاریں بہرحال اس وقت ایک بڑی آزمائش کا معاملہ غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں کے لیے بھی ہےاور میرے اور آپ کے لیے بھی امتحان اور آزمائش کا موقع ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ 75 برس کی تاریخ ہے،ظلم ہے ،ستم ہےاورجبر ہے۔ بقول قائد اعظم کے اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے ۔ آج مسجد اقصیٰ اور مقدس مقامات کی حرمت کی پامالی اور آگے بڑھ کر ہزاروں کی تعداد میں مسلمان بچوں،عورتوں اور بوڑھوں کی شہادت کا معاملہ ہے۔امت ِمسلمہ کے بعض علماء جس میں پاکستان کے علماء کرام بھی شامل ہیں فرضیتِ قتال کا حکم جو شریعت عطا کرتی ہےبیان کر چکے ہیں،لیکن ہمارے مسلمان حکمرانوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی اور اس حوالے سے کوئی زیادہ توجہ کا معاملہ نہیں ہوا لہٰذاعلماء اس پر مزید راہنمائی فرمائیں۔فرضیت قتال کے تعلق سے اس ضمن میں سورۃ النساءکی آیت75 کا حوالہ دیا گیا۔ کمزور، بوڑھے، بچے اورعورتیں اللہ کو پُکارتے ہیں کہ اللہ ان ظالموں سے ہمیں نجات عطا فرما دے۔ اگر ہم قرآن کریم کے نصوص کو دیکھیں اورحدیث مبارکہ کودیکھیں تو مسجد اقصیٰ ہمارے لیے قبلہ اول ہے۔قبۃ الصخرۃ وہاں پر موجود ہے جہاں سے نبی مکرمﷺ معراج کی رات آسمانوں پر تشریف لے گئے۔مسجد حرام اور مسجد نبویﷺ کے بعداہم ترین مقام مسجد اقصیٰ ہے جہاں نمازادا کرنے کا اجر و ثواب بھی احادیث مبارک میں سینکڑوں گنا بیان کیا گیاہے۔پھر وہیں قبۃ الصخرۃ اور مسجد عمرؓ بھی موجود ہیں اور عیسائیوں نےالقدس شریف تولیت یعنی نگرانی مسلمانوں کے حوالے کردی تھی۔اس اعتبار سے یہود کا کوئی”Divine Right“وہاں پر نہیں بنتا بلکہ یہود کو تومعزو ل کر کے انبیاکرمﷺ کی امت کو کھڑا کیا گیا اور معراج کی شب نبی مکرمﷺ نےتمام انبیاء ؑ کی امامت فرمائی،گویا مسجد اقصیٰ کی تولیت کا معاملہ مسلمانوں کے سپر د کردیا گیا۔ سیدنا عمر ؓ کے دور میں تو عیسائیوں نے بغیر کسی جنگ کے ارضِ مقدس مسلمانوں کے حوالے کردی لہٰذا یہود کا یہاں کوئی حق نہیں بنتا ہے۔ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ مسلم ممالک بالخصوص کچھ عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات استوار کرتے چلے گئے۔امریکہ کے سامنے جھکتے چلے گئے۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ مسئلہ فلسطین پیچھے رہ گیا اور اقصیٰ کی حرمت کی پامالی بڑھتی چلی گئی۔ ایسے میں 7 اکتوبر2023ء کوحماس کی طرف سے جو اقدام کیا گیاوہ امت مسلمہ کو جگانے کے اعتبار سے تھا۔ اُمت تو سوئی ہوئی ہے مسجداقصیٰ کی حرمت کی پامالی کو روکنے کے لیے یہ فرضِ کفایہ ہے جو وہاں کے مجاہدین نے ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی ،ہاں لندن میں 8 لاکھ لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ تماچہ مارتے ہیں مسلمانوں کے منہ پرکہ جن کے ہاں OIC جیسی تنظیم موجود ہے مگر مذمتی بیانات سے آگے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔
دبئی میں ابھی28- COPماحولیاتی کانفرنس ہوئی، ہیروشیما اور ناگا ساکی پر جوایٹم بم گرایا گیا تھااسرائیل نے اُس سے زیادہ بم غزہ پر برسا دیے ہیں، مگر اس حوالے سے بات کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ مذمتی بیان تو ہم بھی مسجد ،گھر اورکانفرنس میں بیٹھ کر دے سکتے ہیں حکمرانوں اور مقتدر طبقات کی ذمہ داری اس سے آگے بڑھ کر بنتی ہے ۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ چنددنوں کی جنگ بندی کے بعدجس طرح اسرائیل نے دوبارہ ظلم برپا کیا ہے،پھر سینکڑوں شہادتوں کی اطلاعات موجود ہیں۔ اب بھی ہمارےمسلمان حکمران کہتے ہیں کہ دو ریاستی حل ہونا چاہیے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ غزہ میں ظلم وستم جاری ہے، مغربی کنارہ جہاں پر ایک نام نہاد اور غیر سرکاری فلسطینی ریاست موجود ہے،محمود عباس جس کے صدر ہیں۔مغربی کنارے پر بھی اسرائیل کی ظلم اور جبر کی کیفیات بڑھ رہی ہیں گویا دو ریاستی حل کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔OIC کے مینڈیٹ اور چارٹر کو اگر ہم دیکھیں اُس میں فلسطین کی آزادی کا معاملہ موجود ہے ،یروشلم اس کا جنرل سیکرٹریٹ ہوگا اور فلسطین کےمسلمانوں کی آزادی اور ان کی حمایت کے لیے مالی اورعسکری تعاون کا بھی ذکر موجود ہے۔لیکن عسکری تعاون تو دور کی بات ہے آج شاید ہم ان کی مالی امداد کے اعتبارسے بھی مدد نہیں کر پا رہے اوراُمت ایک آواز بلند کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ عالم عرب کے کئی ممالک کا خیال شاید یہ ہے کہ ہماری باری تو ابھی نہیں آئی یہ تو فلسطین کا معاملہ ہے،حالانکہ گریٹر اسرائیل کامنصوبہ زبان زد عام ہے۔ اور اسرائیل کے ذمہ داران گریٹر اسرائیل کےمنصوبے کو بالکل واضح کر کے دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ نیل سے لے کر فرات تک ہماری سرحدیں ہیں ۔گویا کل کسی اور کی باری آنے والی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ آج بے بسی اور بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اُمت کی عوام تو حکمرانوں کی طرف دیکھ رہی ہے،مقتدر طبقات کی طرف دیکھ رہی ہے مگروہاں مذمتی بیانات سے آگے کوئی بات نہیں ۔ایک او رانداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا سسک سسک کے شہید ہونا ہی مسلمانوں کا مقدر ہے یا مسلمانوں کو جرأت ایمانی کا ثبوت پیش کرکے توکل علی اللہ کے ساتھ آگے بڑھ کر کوئی آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم درد دل سے مقتدر طبقات کو کہیںگےکہ یہ مملکت ِخداداد پاکستان جس کے پاس ایٹمی صلاحیت ہے جس کے پاس بہترین میزائیل ٹیکنالوجی موجود ہے، بہترین تربیت یافتہ فوج موجود ہے۔جس ملک کو اُمت مسلمہ کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنے کے قائم کیا گیا تھا،وہاں کے وزیر اعظم صاحب بھی OIC کے اجلاس جا کر کہیں کہ غزہ کے اندرقتل غارت گری بند ہونی چاہیے۔یہ تو آپ کی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ اس سے بڑھ کر معاملہ تھا،یہاں مفتیان کرام موجود ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے بزرگ مفتی تقی عثمانی صاحب اورمفتی منیب الرحمٰن صاحب یہ ہماری بڑی شخصیات ہیں اللہ ان کا سایہ ہم پر قائم رکھے۔ یہ جو فرضیت ِقتال والاپہلو ہے فقہی اعتبار سے اس کو حکمرانوں کے سامنے واضح کرنابہت بڑی ذمہ داری ہے۔ آپ کی آواز ہے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ مقتدر طبقات تک یہ بات پہنچے ، عالمی سطح پر مسلمانوں کے فورمزپر بات پہنچے۔ امریکہ کے ذمہ داران آکر اسرائیل میں کھڑے ہوکر علی الاعلان یہ کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔اور پشت پناہی کرتے ہیں کہ تم آگے بڑھ کر ظلم وستم کرو۔کیا مسلم ممالک کی لیڈر شپ ،چند بڑے ممالک کی ہی سہی مکہ مکرمہ ،مصریا غزہ میں کھڑے ہو کر آواز نہیں بلند کر سکتے؟اس سے آگے بڑھ کر سفارتی تعلقات کا ختم کیا جانا اور تجارتی تعلقا ت کا ختم کیا جانا ایک بہت بڑا ذریعہ ہمارے پاس موجود ہے۔
جنوبی افریقہ کے وزیرخارجہ نے تویہاں تک کہا کہ نیتن یاہو کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا چاہیے اور اس کو گرفتار کرنا چاہیے،ہمارے اندر شاید جرأت ایمانی موجود نہیں۔ اسرائیل کو جانے والی Air-Space کو بند کرنا، اسی طرح اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا اور تجارتی بائیکاٹ کرنا بھی ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہم اسرائیل کو سبق سکھا سکتے ہیں۔ہمیں دعابھی کرنی ہیں، قنوت نازلہ کا اہتمام کرنا ہے،اللہ سے مدد مانگنی ہے، اپنے بچوں میں شوق شہادت پید اکرنا ہے یہ توہمارے کرنے کے کام ہیں۔لیکن حکمرانوں کی سطح پر لیڈر شپ کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر آواز بلند کریں اور طے کریں کہ ہم نے سسک سسک کے مرنا ہےاور اپنے بھائیوں کو شہید ہونےدینا ہے یا پھر اللہ پر توکل کر کے کھڑا ہونے کی کوشش کرنی ہے۔ابتدا میں سورہ النساء کی آیت 75کی تلاوت کی گئی ۔علماء کرام اس کی مزید وضاحت فرمائیں، مقتدر طبقات تک بات کو پہچانے کی کوشش کریں ۔
آج ذلت اور رسوائی کیوں ہے؟سنن ابی داؤد میں نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ ”قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تو ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہوںگے،لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا، تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسولؐ ! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے“۔(سنن ابوداؤد) آج دنیا کی محبت ہمارے دلوں میں بیٹھ گئی ہے، شاید ہمارے حکمرانوں کا یہ خیال کہ ہمیشہ کے لیے جینا ہے،یہ دنیا فانی ہے،مرکر اللہ تعالیٰ کوجواب دینا ہے۔
قرآن پاک کی آیت ہے کہ ”اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔“(سورہ محمد: 07)
سچی بات یہ ہےکہ ہم نے اللہ کا دین نافذ کر کے نہیں دکھایااسی لیےذلت کا شکار ہیں۔اللہ کے دین کی نصرت کریں گے،اللہ کی مدد شامل حال ہوگی۔313 کے ساتھ اللہ تھا تو ایک ہزار کا لشکر ناکام ہوا تھا۔ آج ہم اللہ کے ساتھ مخلص ہو ں گے تو اللہ کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی مملکتِ خدادادپاکستان ہم نے لیا ہی اسی لیے تھاکہ یہاں اللہ کا دین غالب ہو۔ دین کے غلبے کی جدوجہد کرناہمارا فریضہ ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے فلسطینی بھائیوں، بہنو ں کی مدد فرمائےاور ہمارے حکمرانوں کو عملی اقدامات کرنے اور آواز بلند کرنے کی توفیق دے۔اور ہمیں اللہ توفیق دے کہ ہم ان تک اپنی بات پہنچا سکیں۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024