(زمانہ گواہ ہے) غزہ:قیام امن کاقابل عمل منصوبہ - محمد رفیق چودھری

8 /

مسئلہ فلسطین قصہ پارینہ بن چکا تھا جسے حماس نے

دوبارہ زندہ کیا ہے : ایوب بیگ مرزا

بحیثیت امتی ہم اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ 

ہم میں کوئی صلاح الدین ایوبی ؒپیدا کر ے گا : رضاء الحق

حماس کا اسرائیل پر حملہ تاریخ ساز سنگ میل ہےجو بہت

کچھ بدل کر رکھ دے گا :پروفیسر یوسف عرفان

غزہ:قیام امن کاقابل عمل منصوبہ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: غزہ میں جنگ بندی کے دوران قیدیوں کی رہائی کا عمل فلسطینی کاز کے لیے کتنا فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے؟
ایوب بیگ مرزا: میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین قصہ پارینہ بن چکا تھا۔ اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات گہرے ہورہے تھے ، دوستیاں بڑھ رہی تھیں ، اسرائیل کو تسلیم کرلینے کی باتیں ہو رہی تھیں ،جبکہ فلسطینی کاز کو تقریباً بھلا ہی دیا گیا تھا جسے 7 اکتوبر کے حماس کے حملے نے دوبارہ زندہ کیا ہے ۔وہ مسلم ممالک اور حکمران جو یورپ کی پشت پناہی میں اسرائیل کے آگے سرینڈر کر رہے تھے وقتی طور پر ہی سہی ان کو بہت زبردست دھچکا حماس نے دیا ہے ۔ان کی یہ بہت بڑی غلط فہمی تھی کہ وہ اگر اسرائیل کے اچھے دوست بن کر رہیں گے تو انہیں کچھ نہیں ہوگا ۔ حالانکہ اسرائیل کا ہدف صرف فلسطین یا مسجد اقصیٰ  نہیں ہے بلکہ ان کا اصل منصوبہ گریٹر اسرائیل ہے جس میں شام ، عراق ، کویت ، لبنان ، اردن مکمل طور پر جب کہ مصر ، سعودی عرب اور ترکی کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں ۔ اگر مسلم ریاستیں یہ سمجھتی ہیںکہ منت ترلے کرنے سے یا Polite ہونے سےوہ گریٹر اسرائیل کے راستے میں  حائل ہو جائیں گی تو یہ ان کی غلط فہمی ہے ۔ جہاں تک فلسطینی قیدیوں کی رہائی کامعاملہ ہے ، میں سمجھتا ہوںکہ یہ بہت اچھا فیصلہ ہوا ہے کہ ایک اسرائیلی قیدی کے بدلے میں تین فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں گے ۔ حال ہی میں حماس نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل ہمارے سارے قیدی چھوڑ دے تو ہم تمام اسرائیلی قیدیوں کو چھوڑ دیں گے ۔ آپ کو معلوم ہے کہ اسرائیل کے پاس کئی ہزار فلسطینی قیدی ہیں ۔لہٰذا یہ ان کی رہائی کا بہت اچھا موقع ہے ۔ حماس کے حملے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ اسرائیل نے مظلومیت کا جو لبادہ اوڑھا ہوا تھا وہ پاش پاش ہو گیا ہے اور اس کا اصل مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ہے ۔ یہاں تک کہ اس معاملے میں یورپ بھی سٹپٹا گیا ہے ۔ آپ نے دیکھا کہ یورپ میں اسرائیل کے خلاف کتنے بڑے بڑے مظاہرے ہورہے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ الجزیرہ نے اس میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے ۔ اس کے علاوہ اسرائیل کا ناقابل شکست ہونے کا جو بھرم تھا وہ بھی پاش پاش ہو گیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ حماس کا حملہ حماس کے لیے بھی اور عربوں کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہو سکتا ہے ۔
سوال: اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں فلسطینیوں کاجانی اور مالی نقصان تو ہورہا ہے ، غزہ کھنڈر کی صورت بن چکا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیل کا بھی کافی نقصان ہوا ہے ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں یہ جنگ اسرائیل کی معیشت کے لیے کتنی نقصان دہ ثابت ہوگی ؟
پروفیسر یوسف عرفان: حماس کا اسرائیل پر حملہ تاریخ ساز سنگ میل ہےجو بہت کچھ بدل کر رکھ دے گا ۔ فلسطینی تو پہلے بھی مر رہے تھے ان کی خبر تک کسی کو نہیں ہورہی تھی ۔اب کم ازکم دنیا کو یہ تو معلوم ہورہا ہے کہ ظالم کون ہے ۔ اسرائیل کا سافٹ امیج اس حد تک بڑھا دیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں ان کا سفارتخانہ قائم کرنے کی باتیں ہورہی تھیں ۔ ابراہیم اکارڈ کے نام پر بغل گیریاں  اس حد تک بڑھ گئی تھیں کہ عالم اسلام کا مرکز بھی محفوظ نہ رہا تھا ۔ حماس کے حملے نے سارے تارپور بکھیر کر رکھ دیے ہیں ۔ اسرائیل کی معیشت ، سیاست اور حکومت تینوں  لڑکھڑا گئی ہیں ۔ وہ پہلے دن سے ہی امریکہ سے مدد مانگنا شروع ہو گیا تھا اور مسلسل مانگ رہا ہے ، نہ صرف امریکہ سے بلکہ دیگر حلیف قوتوں سے بھی ۔ اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم بھی ٹوٹ چکا ہے ۔ اسرائیل نے آس پاس سارے اپنے حمایتی پالے ہوئے تھے ، لبنان کے آرمی چیف سمیت پوری حکومت اسرائیل کے ساتھ ہے ، مصر کے جنرل سیسی کا توسب کو پتہ ہے کہ اس کی والدہ یہودن ہے ۔ یہاں تک کہ فلسطین کی حکومت بھی حماس کے ساتھ نہیں ہے، میں سمجھتا ہوں کہ حماس عوامی تحریک ہے ۔ اس کی وجہ سے سعودی عرب ، شام ، عراق سمیت پوری دنیا کے مسلمان جو بے بس تھے ان کو ایک راہ ملی ہے ۔ اسرائیل میں خوف کا یہ عالم ہے کہ لوگ اسرائیل چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں کیونکہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ حماس کے مجاہد سرنگوں کے ذریعے کہاں سے ظاہر ہو جائیں گے ۔ اسرائیل کو نہ صرف معاشی طور پر بلکہ سیاسی طور پر بھی اور انتظامی طور پر دھچکا لگا ہے ۔جو یہ کہا جارہا تھا کہ اسرائیل پوری دنیا پر حکومت کرنا چاہتاہے تو جو اسرائیل ایک چھوٹے ہمسائے حماس کو قابو نہیں کر سکتا وہ پوری دنیا پر کیا حکومت کرے گا۔ پوری دنیا میں اس وقت اس کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا ہے ، یورپ میں اس کے خلاف عوام نکل رہے ہیں ۔ جوبائیڈن نے اسرائیل کی حمایت کی تو اس کے خلاف بھی امریکہ میں جلوس نکل رہے ہیں ۔پھر یہ کہا جارہا تھا کہ اسرائیل کا ہر شہری کمانڈو ٹریننگ لیتاہے ۔ حماس نے اسرائیل کے تربیت یافتہ کمانڈو، جرنیل، کرنل، برگیڈیئر قیدی بنا رکھے ہیں ، باقی اسرائیل سے بھاگ رہے ہیں تو وہ ساری کمانڈو ٹریننگ کہاں گئی ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے کہ فلسطینی تو اپنے ایمان ، خطۂ زمین اور مسجد اقصیٰ کے لیے جانیں دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اسرائیلی بھاگ رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ امن حماس نے نہیں مانگا بلکہ اسرائیل نے مانگا ہے۔ حماس کے سربراہ کا بیان موجود ہے کہ اسرائیل اگر لڑنا چاہتا ہے تو لڑے ہم 7 اکتوبر کا واقعہ بار بار دہرا سکتے ہیں ۔ اسرائیل نے اپنا اصل چہرہ دنیا کو دکھا دیا ہے، اب وہ اپنا سافٹ امیج بحال نہیں کر سکتا ۔ اگرچہ دنیا کا مین سٹریم میڈیا یہود کے قبضے میں ہے لیکن جس طرح ڈاکٹر اسراراحمد ؒ کی آواز دنیا تک پہنچ رہی ہے اسی طرح اور بھی کئی ادارے ہیں جو مظلوم فلسطینیوں کی آواز دنیا تک پہنچا رہے ہیں ۔ جنگیں جذبے سے لڑی جاتی ہیں ، حماس میں جذبہ بھی ہے صلاحیت بھی ہے ۔
سوال: فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیل کا حملہ ڈیڑھ ماہ جاری رہا ۔ پھر یہ حالات پیش آئے تو امن کی پکار شروع ہوئی اور مذاکرات ہوئے جن میں قطر اور مصر نے رول ادا کیا ، اس کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی ہوئی ۔ کیا یہ عارضی جنگ بندی مستقل جنگ بندی کی طرف بڑھ سکتی ہے ؟
رضاء الحق : ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ جب سے صہیونی وہاں آکر آباد ہوئے ہیں ان کے عزائم یا اہداف میں کوئی تبدیلی آئی ہے یا نہیں ۔ ان کا اصل ہدف گریٹر اسرائیل ہے جس کا خواب انہوں نے 1897ء میں دیکھا تھا ۔ 1917ء میں بالفورڈکلیریشن سے اس کا آغاز ہوا اور 1948ء میں یہ ناجائز ریاست قائم کر دی گئی ۔ 1967ء کی جنگ میں مزید توسیع کر دی گئی ۔ پھر کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ، اوسلو معاہدہ اور پھر ابراہیم اکارڈ کے نام سے انہوں نے توسیعی منصوبہ جاری رکھا ۔ 2017ء میں انہوں نے جیوش نیشن لاء بھی بنا لیا جس کے مطابق اب اسرائیل کی شہریت صرف یہودیوں کے پاس ہوگی ۔جیسا کہ جنرل سیسی نے دوریاستی حل کی با ت کی تو اس کے مطابق بھی جو چھوٹی سی فلسطینی ریاست دی جائے گی وہ بھی فوج کے بغیر ہوگی ۔ یہی بات جیوش نیشن لاء میں بھی کی گئی ہے ۔ حماس کا حملہ تو 7 اکتوبر 2023ء کو ہوا اس سے قبل بھی صہیونی عزائم واضح تھے ۔ نیتن یاہو نے کہا کہ یہ روشنی کے بچوں کی تاریکی کے بچوں کے ساتھ جنگ ہے ۔ اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا کہ ہمیں فلسطینیوں کا مکمل صفایا کر دینا چاہیے ۔ اسی طرح کے بیانات ان کے مذہبی پیشواؤں  کی جانب سے بھی آرہے ہیں ۔ اس پوری صورتحال کو سامنے رکھیں تومستقل جنگ بندی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح کر دیا ہے : 
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج} (المائدہ:82) ’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
مسلمانوں کے خلاف ان دونوں کا گٹھ جوڑ بھی بالکل واضح ہے ۔ دوسری طرف مسلمان ممالک بالخصوص مصر اورقطر کی تو اپنی مصلحتیں ہیں ۔ایک اسرائیلی سفیر کا انٹرویو معروف برطانوی صحافی پیرس مورگن نے کیا اور پوچھا کہ اسرائیل نے غزہ پر جو حملہ کیا ہے اس سے عرب ممالک تو بہت ناراض ہوئے ہو ں گے ۔ اس نے کہا کہ وہ تو خود چاہتے ہیں کہ حماس کا خاتمہ ہوجائے کیونکہ وہ اسرائیل سے تعلقات اور دوستی چاہتے ہیں اور حماس اس میں رکاوٹ بن گئی ہے ۔ بہرحال عارضی یا مستقل جنگ بندی کا سوال توتب پیدا ہوجب اسرائیل کا ہدف بدل گیا ہو ۔ جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ ان کا ہدف گریٹر اسرائیل ہے ، وہ ایک بڑی جنگ چاہتے ہیں ، وہ مسجد اقصیٰ کو گرا کر تھرڈ ٹمپل بنانا چاہتے ہیں ۔ یہ سب تیاریاں وہ اپنے مسایاح کے لیے کر رہے ہیں جس کے متعلق ان کا گمان ہے کہ وہ آکر پوری دنیا پر حکومت کرے گا ۔ بہرحال جیسے قرآن میں فرمایا :
{وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (54)} (آل عمران)’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘
وہ اپنی چالیں چل رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی اپنی تدبیر ہے۔ جیسے 7 اکتوبر کے بعد ان کی کئی توقعات کے برعکس نتائج سامنے آرہے ہیں ۔
سوال: ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ دو ریاستی حل فلسطین میںامن قائم کرنے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے آپ کیا اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟
ایوب بیگ مرزا:اگر عدل و انصاف کی بات کی جائے تو فلسطین میں صرف فلسطینی ریاست بننی چاہیے جس میں یہودی اور عیسائی بھی بے شک رہیں اور ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جس کا اسلام حکم دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے مسلمان چونکہ زوال پذیر ہیں اس لیے ان کا حق نہیں دیکھاجاتا بلکہ زوال پذیر قوموں سے طاقت کے ذریعے ان کا حق چھین لیا جاتاہے ۔ اس وقت دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں لیکن ان کا رویہ وہ نہیں ہے جو نبی اکرم ﷺکی حدیث کے مطابق ایک جسد واحد کا ہونا چاہیےکہ ایک حصہ میں تکلیف ہوتو پورا جسم بے چین ہو جاتاہے ۔ اسرائیلی حکمرانوں کے بیانات یہ ہیں کہ مسلمان بچے سپولیے ہیں ان کا سر کچل دینا چاہیے ۔ ایک صہیونی وزیر نے کہا : مسلمان بچے ٹائم بم ہیں لہٰذان کو مارنا جنگ کا حصہ ہے ۔ جبکہ دوسری طرف مسلم حکمران کہہ رہے ہیں کہ ہم امن، دوستی اور تعلقات کی طرف جارہے تھے ، یہ حماس نے کیا مصیبت ڈال دی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر دوریاستیں بن بھی جائیں تو کیا وہ امن کے ساتھ رہ سکیں گی۔ کل اگر اسرائیل جنگ مسلط کر دے تو کون فلسطینی ریاست کی مدد کو آئے گا ۔ 1967ء کی جنگ میں آزاد ریاستوں کے ساتھ اسرائیل کی جنگ ہوئی تھی تب ان کی مدد کو کون آیا تھا ؟ لہٰذا جو زمینی حقائق ہیں ان کے مطابق دوریاستی حل مناسب نہیں ہے ۔ باقی اللہ ہی بہتر جانتاہے ، وہ چاہے تو چیونٹی سے ہاتھی کو مروا دے ۔ جیسے حماس نے اسرائیل کو نتھ ڈالی ہوئی لیکن اگر الگ ریاست بن دی گئی تو اسے تباہ کرنا آسان ہو جائے گا ۔ واللہ اعلم
سوال:حماس اور اسرائیل جنگ میں عالمی طاقتیں جوسفارت کاری یا منفی یا مثبت روال ادا کر رہی ہیں وہ کیا ہے ؟خاص طور پر پاکستان، ایران اور افغانستان اس سفارت کاری میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں اورامت مسلمہ کے ایک جزو کی حیثیت سے ہمارا مؤثر کردار کیا ہونا چاہیے ؟
پروفیسر یوسف عرفان: پہلی بات تو یہ ہے کہ عالمی سفارت کاری دو ریاستی حل کے لیے ہورہی ہےلیکن جو دو ریاستی آپشن پہلے سے موجود ہے اس میں بھی محمود عباس حماس کے ساتھ نہیں کھڑا ۔ اسرائیل نے کہا کہ ہم حماس کوختم کیے بغیر جنگ بندی نہیں کریں گے مگر ہانپ اتنا گیا ہے کہ دنیا سے جنگ بندی مانگ رہا ہے کہ ہمارا چہرا بچا لو ۔ حماس نے جواب دیاکہ ہم اسرائیل کا وجود تسلیم نہیں کریں گے۔ قرآن اور اسوۂ رسول ﷺ سے بھی یہی تعلیم ملتی ہے ۔ تاریخ اسلام میںبھی مسجد اقصیٰ کو قبلہ اول مانا گیا ہے ۔ جہاں تک ایران ، افغانستان اور پاکستان کا تعلق ہے تو ان کی مجبوریاں ہیں ۔ ہمیں امریکہ روک لیتا ہے ۔ مگر حماس کی جرأت نے پوری دنیا کے نظام کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔ اگر جنگ بندی ہو بھی جاتی ہے تب بھی حماس اپنی جدوجہد گوریلا وار کی صورت میں جاری رکھے گی ۔ ان حالات میں اب اسرائیل کی عرب ممالک کے ساتھ دوستیاں بھی خطرے میں پڑ گئی ہیں کیونکہ عرب عوام اب اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ اگر یہ جنگ گوریلا وار کی شکل اختیار کرتی ہے توپھر ارد گرد کی حکومتیں بھی تبدیل ہوں گی اور یورپ اور امریکہ کی حکومتیں بھی تبدیل ہوں گی کیونکہ عوام صہیونیوں سے تنگ آگئے ہیں ۔ نوم چومسکی جو ایک یہودی دانشور ہے وہ بھی بلبلا رہا ہے کہ اگرمسلمانوں کو اس طرح تنگ کرو گے تو وہ متحد ہو جائیں گے اور اسرائیل کا نام و نشان مٹ جائے گا ۔ تم کتنوں کو مارو گے ۔ صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل کے جو technical skill کے لوگ ہیں، موساد کے لوگ ہیں یا وزیر دفاع ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ایک ٹینک170ملین ڈالرز سے تیار ہوتاہے اور مجاہدین کے ایک عام مارٹر سے برباد ہو جاتاہے ۔ وہ حیران ہیں یہ کونسی قوت ہے جو لڑ رہی ہے ۔ میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ اگر گوریلا جنگ شروع ہوئی تو دنیا بھر سے جو لوگ صہیونیوں کے خلاف ہیں وہ کھڑے ہوں گے ۔ اس گوریلا جنگ کی وجہ سے صہیونیوں کے عالمی ادارے تباہ ہوں گے اور جن ریاستوں کو صہیونیوں نے اپنی رکھیل ریاستیں بنایا ہوا ہے جن میں امریکہ اور جاپان بھی شامل ہیں وہاں کے عوام بھی صہیونیوں کے خلاف باہر نکلیں گے ۔ جیسے امریکہ میں عوام نکلی ہے ، حماس کے ہاتھوں اسرائیل کی پٹائی ہوئی ہے تو انہیں بھی حوصلہ ملا ہے ۔ اسی طرح  عالم اسلام کی حکومتوں اور ریاستوں میں جو صہیونی مہرے ہیں وہ بھی بے اثر ہو جائیں گے اوریہ سب تانے بانے ٹوٹیں گے۔ ان شاء اللہ ۔ اب چائنہ بھی میدان میں آئے گا ۔ چینی صدر نے جب امریکی صدرسے ملاقات کی ہے تو اس سے پہلے جو چائنہ کا آفیشل نقشہ تھا وہاں سے اسرائیل کا وجود ختم کر دیا گیا تھا ۔ یعنی جو ابھرتی ہوئی طاقتیں ہیں وہ اسرائیل کے وجود کو ختم کررہی ہیں ۔ حماس کی جدوجہد سے یہ ساری چیزیں ہوں گی کہ یہودیوں کی ملٹی نیشنل کمپنیز اوران کے عالمی مالیاتی ادارے یہ سب برداشت نہیں کرسکیں گے ۔
سوال: ارض فلسطین میں قیام امن کے لیے کوئی قابل عمل منصوبہ ہے۔ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟
ایوب بیگ مرزا:میں سمجھتا ہوں کہ عدل صرف واحد بنیاد ہے امن کی۔ عدل کے علاوہ اگر آپ امن قائم کرنےکی کوشش کریں گے تو وہ ہمیشہ نا پائیدار ہو گا۔ لہٰذا ایک ہی حل ہے کہ عادلانہ طور پر جس کا جو حق ہے وہ اس کو دیا جائے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
اصل میں حق دیکھنا چاہیے اور جو عادلانہ معاملہ ہے وہ طے کرنا چاہیے۔
پروفیسر یوسف عرفان: بالکل امن عدل سے قائم ہوتا ہے اور عدل کے لیے طاقت کا توازن بھی ضروری ہے ۔مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ خود کو مضبوط اور مستحکم کریں ۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی معیشت کو مستحکم کرنا ہوگا جیسے ملائشیا نے کیا ، جیسے ترکی نے کیا ۔ ان کی طرح ہمیں ڈالر سے اپنی اکانومی کو delinkکرنا پڑے گا ۔ دوسرا کام یہ کریں کہ پورے پاکستان میں صنعت کو فروغ دیں ۔ سی پیک کے ذریعے ہمیں یہ سہولت حاصل ہے کہ جو پروڈکٹس ہم تیار کریں گے وہ دنیا میں جائے گی ۔
اگر ہم باہر سے ہی ہر چیز امپورٹ کرتے رہیں گے تو پھر وہی ہوگا جو ہورہا ہے ۔اپنے استحکام کے بغیر عدل کی ہم صرف خواہش ہی کر سکتے ہیں ۔
رضاء الحق :اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرنا ہو گا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے جیسے حدیث میں وارد ہوا کہ قرب قیامت میں غیر مسلم مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گے جیسے کھانے پر دعوت دی جاتی ہے ، اس کی بنیادی وجہ وہن کی بیماری بتائی گئی کہ دنیا کی محبت اور موت کا خوف ۔ اس بیماری سے چھٹکارا پانے کے لیے بھولا ہوا سبق یاد کرنا چاہیے ۔1099ء میں جب بیت المقد س پر صلیبیوں کا قبضہ ہوگیا تھا تو اس وقت بھی مسلمانوں کے اندر یہی بیماری تھی ۔ پھر صلاح الدین ایوبی ؒ نے قتال کو زندہ کیا اور شہادت کا شوق دلایا تو 1187ء میں قبلہ اول مسلمانوں نے آزاد کروا لیا تھا۔ آج بھی مسلمانوں کو فتح اور کامیابی اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ ہم اپنے اندر دین کا جذبہ پیدا کریں اور بحیثیت مسلمان اُمت کھڑے ہو جائیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ ہم سے وعدہ کیا گیا ہے :
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
رسول اللہ ﷺ کے اس مشن کو پورا کرنا اس امت کی ذمہ داری ہے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے احادیث میں وعدے موجود ہیں کہ قیامت سے پہلے کل روئے ارضی پر اللہ کا دین غالب ہوگا مگر اس میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ہم نے خود کو تیار کرنا ہے ۔ جب ہم یہ تیاری کریں گے تو ہم میں دوبارہ کوئی صلاح الدین ایوبی ؒ پیدا ہو جائے گا ۔ ان شاء اللہ ۔