(کارِ ترقیاتی) یہودی ریاست کی قیمت! - عامرہ احسان

8 /

یہودی ریاست کی قیمت!عامرہ احسان

 

غزہ میں وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں جو جہنم زار بنا، ردِعمل میں دنیا کا ہر کونا آزادیٔ فلسطین کے لیے اور قتل عام کے خلاف چیخ اُٹھا۔ یو این کے ہر ادارے کا عملہ انسانی حقوق کی این جی اوز، ہالی ووڈ تک ہڑبڑا اُٹھے۔ اسرائیل نے شرمساری سے جنگ بندی قبول کی؟ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا تھا اس لیے؟ ہرگز نہیں! یہ صرف ’یعنی آگے چلیں گے دم لے کر‘ کا وقفہ تھا۔ (یا بلنکن کے ساتھ چائے کا وقفہ!) کچھ یرغمالی واپس لے آئے۔ اسرائیلیوں کا دل بہلا دیا اور اندرونی دباؤ میں کچھ کمی آئی۔ بمباری کا تازہ مرحلہ پہلے سے شدید تر ہے۔ تنگ پٹی غزہ جیل میں دنیا کی گنجان ترین آبادی (23لاکھ) نکل کر کہاں جائے؟ اسرائیل کو اس سے غرض نہیں۔ جنوب محفوظ قرار دیا تھا، اب وہی ’حماس ‘کا نام لے کر کھنڈر کیا جارہا ہے۔ مغربی کنارے پر بھی پوری شدت سے آپریشن جاری ہے۔ فلسطینی آبادی کا تقریباً 50 فیصد 15 سال سے کم عمر ہے۔ بچے اس دوسرے مرحلے میں زیادہ نشانے پر ہیں۔جیسے مغربی کنارے میں سڑک پر کھیلتے 8 سال اور 15 سال کے بچوں کو بلاسبب، بلااشتعال گولیاں مارکر لمحوں میں ڈھیر کردیا… ننھے شہید کے دو بھائی بے قرار ہوکر دونوں بیک وقت دیوانہ وار اس کے ہاتھ پاؤں چوم رہے ہیں۔ روتے جاتے کہتے ہیں: مجھے میرے بھائی کے ساتھ دفن کردو۔ ہسپتال کے تنگ بستر پر اوپر تلے تین زخمی بچے ہیں، ہر طرف بچے جلے ہوئے پھول چہرے، بچے ہی بچے۔ ایک بینچ پر کئی بچوں کے ہمراہ بیٹھا ایک بلک بلک کر پوچھ رہا ہے: ’مگر ہم تو بچے ہیں، ہمیں کیوں مار رہے ہیں؟‘ اس سوال کا جواب وہ ہے جو ایک یو این اہلکار نے دوبارہ جنگ شروع ہونے پر کہا: ’وہ جو طاقتور اور حکمران ہیں انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ بچوں کا قتل دوبارہ شروع کیا جائے!‘ لگتا ہے وقفے میں بچوں کے مقامات کی نشاندہی کرکے اب ہدفی بمباری ہے جو بچوں بھرا منظر ہر طرف ہے۔ برطانوی جریمی کوربن (ایم پی) نے وقفے کی وجہ یہ کہی کہ ’(اسرائیل نے) غزہ والوں کو 7 دن دیئے کہ اپنے مرنے والوں کو رولو، ملبے میں دبے تلاش کرلو۔ اب وہ (مزید) اجتماعی سزا بھگتیں گے۔ تازہ بمباری کی ہولناکی، فاقے اور بھوک!‘
کہانیاں لامتناہی ہیں۔ صرف آج نہیں غزہ میں مقید کرنے سے پہلے بھی 1948ء تک جاتی ہیں۔ السمونس خاندان؛ الاقصیٰ ہسپتال میں مہاجر کیمپ کے ٹینٹ میں 36عورتیں بچے ٹھنسے ہوئے ہیں، 4 کمبل ہیں مشترکہ استعمال کے لیے!! جنوبی مشرقی غزہ میں 17 ایکڑ زمین پر کاشت کرتا تھا یہ خاندان۔ اسرائیلی فوج کی محفوظ راستے کی پیش کش پر چل دیئے اور لٹ گئے۔ تین بیٹے چیک پوسٹ پر، 24 سال، 16 سال اور بڑا بیٹا 6 بچوں کا باپ گرفتار کیے! نہیں خبر یہ زندہ ہیں یا مار دیئے، آنسوؤں دعاؤں کے سوا کیا ہے؟ اِس سے پہلے2008ء، 2009ءمیں اسرائیلی فوج اسی خاندان کے 48 افراد مارچکی، سب کو ایک گھر میں اکٹھا ہونے کو کہا اور پھر میزائل برسا دئیے۔ ریڈکراس کو 3 دن بعد اندر جانے کی اجازت ملی تو 13 زخمی بشمول آٹھ بچے بلاخوارک پانی، اپنے والدین اور عزیزوں کے لاشوں کے بیچ تھے! اُن میں سے ایک آج دربدر ہونے والی اس خاتون کے شوہر تھے۔ بیٹی امل نے بتایا کہ وہ سرد جنوری کی صبح تھی جب 100 اسرائیلی فوجیوں نے چھاپہ مارا۔ گھر کے دروازے پر گرنیڈ مارا۔ دھواں بھر گیا۔ فوجیوں نے گھر کے سربراہ کو پکارا، باپ باہر گیا تو انہوں نے آنکھوں کے درمیان اور سینے میں گولیاں ماریں، پھر پورے جسم کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔ باپ نے بچوں کو سکھایا تھا کہ عبرانی میں کہیں کہ ’’ہم بچے ہیں‘‘ مگر وہ نہ جانتا تھا کہ بچے ہی تو نشانے پر تھے۔ سو 4 سالہ بھائی کو دو مرتبہ سر اور سینے میں مارا اور خون میں نہلا کر مرنے کو چھوڑ دیا۔امل اور دوسرے بھائی کو گولی لگی۔ فوجیوں نے گھر کے ایک حصے میں آگ لگا دی! اور اب ٹوٹا بکھرا خاندان مردوں کے بغیر بے گھر ہے!
نارمل دنیا کے انسان اسرائیل کی ڈھٹائی، بے حیائی اور ظلم کی یہ انتہا سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مظاہروں سے دھرتی تھرا اٹھی، مگر اسرائیل کے کان پر جوں نہ رینگی۔ مغربی لیڈر بھی موقف میں اٹل رہے ۔اندرونِ خانہ، راز کیا ہے؟ ’وہ‘ ہنس دیئے ’وہ‘ چپ رہے، منظور تھا پردہ ترا! ہم وہ پردے اٹھا دیتے ہیں۔ 25 جولائی 2014ء میں چلئے۔ ایک تصویر ہے 18 دن محیط بے محابہ بمباری کی۔ اس میں خان یونس میں ابوجامی خاندان کے گھر پر بمباری سے 25 افراد کی شہادت پر نماز جنازہ ہورہی ہے، کم و بیش ایک درجن بچے تھے۔اس تصویر پر تبصرہ یہی تھا کہ غزہ سے جتنی بھی خوفناک تصاویر باہر جائیں، اسرائیل پوری ڈھٹائی سے انکار کرتا ہے کہ اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ یہودی ریاست کی بقا کی قیمت ہے جو چکانی پڑے گی۔(علی ابونعمہ،دی الیکٹرانک انتفاضہ، 25جولائی 2014ء) اس ریاست کی بنیاد ہی جھوٹ، فریب، استعماریت، جس کی لاٹھی اس کی بھینس فارمولے پر ہے۔ جو بھینس کی طرف قدم بڑھائے، لاٹھی اس کے پرزے اُڑا دے گی۔ 2005ء میں اسرائیل نے غزہ سے 7 ہزار یہودی آبادکار نکال لیے، غزہ کو آزاد کرنے کے لیے نہیں۔ صرف اس لیے کہ اسرائیلی افواج کو اندر سے باہر باڑ پر منتقل کردیں اور غزہ ایک مکمل محاصرے میں ٹھنسی گنجان ترین آبادی ہو جس کا مکمل دم گھونٹ کر رکھا جائے۔
اندر جانے والا پانی کا ہر گھونٹ اور روٹی کا ہر لقمہ اسرائیل کی مکمل چوکیداری میں ہو۔ فلسطینی اقلیتی، پسماندہ، غربت زدہ غلامی کی سطح پر (Towns Shanty Ghettos, ) رہیں، کیونکہ غزہ اگر اسرائیل کا حصہ ہوتا تو یہودی اقلیت بن کر رہ جاتے۔ بات صرف اہل غزہ کو قید کرنے کی نہ تھی، مسلسل وقفے وقفے سے غزہ پر بمباریاں کرکے آبادی کم کرنے کی باضابطہ پالیسی تھی۔ 2008-2009ء میں 23 دن بمباری میں 1400 فلسطینی شہید اور 13 اسرائیلی مرے۔ 2012ء میں 8 روزہ جنگ میں 1166 فلسطینی شہید ہوئے۔ 2014ء میں 50 روزہ بمباری میں 2100 فلسطینی شہید اور 67 اسرائیلی فوجی مرے۔ 2018ء میں باڑ پر احتجاجوں میں 170 شہید ہوئے۔ 2021ء میں 260 فلسطینی شہید، 13 اسرائیلی مارے گئے۔2022 ء میں3 2 فلسطینی شہید ہوئے۔حالیہ جنگ کا پس منظرآپ کو اس پالیسی کے ماسٹر مائنڈ پروفیسر ارنون سوفر جو حیفہ یونیورسٹی کا ماہر آبادیات ہے، کے برملا سفاکانہ انٹرویو میں دکھائی دیتا ہے جو اُس نے 2004ء اور 2007ء میں دیے۔ یروشلم پوسٹ میں اس نے غزہ کا جو خوفناک مستقبل دکھایا تھا، وہ آج ہم نیتن یاہو کے ہاتھوں حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ رہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ بالخصوص اس قتل عام میں برابر کے شریک ہیں۔ یورپی ممالک کی مکمل پشت پناہی حاضر ہے۔
ارنون نے کہا تھا کہ غزہ میں مقید فلسطینی، 2.5 ملین بنیاد پرست، اسلام کے ساتھ بہت بڑے جانور بن جائیں گے۔ سرحدوں پر بے پناہ دبائو اور جنگ ہوگی۔ چنانچہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہیں توہمیں انہیں قتل کرنا ہوگا، قتل کرنا ہوگا، قتل کرنا ہوگا ہردن ، ہرروز۔ اس نے کہا اگر ہم انہیں قتل نہیں کریں گے تو ہم ختم ہوجائیں گے۔ ہر اس فلسطینی کے سر میں گولی ماردو جو باڑ پھلانگ کر آنا چاہتا ہے۔ 2004ء میں کہا: احمق! یہ (ان کی) آبادی اور یہود دشمنی کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ ہیں جو غربت میں پاگلوں کی طرح (آبادی میں) بڑھتے رہتے ہیں۔ اسرائیلی عربوں کی آبادی کا بڑھنا، اس کی دکھتی رگ تھی۔ وہ پروفیسر ایمریطس (کبھی نہ ریٹائر ہونے والا) یہ زہر نسلوں، حکومتی اداروں میں اعلیٰ ترین سطح تک پھیلاتا رہا۔ ’سوفر‘ کے معنی عبرانی میں ’شمار کرنے والا‘ ہیں۔ سو وہ ’عرب شماری‘ کرنے والا کہلاتا تھا۔ اس کے مطابق اسرائیلی جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ فلسطینی عورت کے ’رحم ‘ (Womb) سے ہے۔ یہ زبان و بیان اور تربیت ہر اسرائیلی کی نفسیات میں اُتری ہے۔ عیلات شایڈ، اسرائیلی قانون ساز کہتا ہے: غزہ کی مائوں کا قتل ضروری ہے کیونکہ وہ چھوٹے سانپوں کو جنم دیتی ہیں اور انہیں کسی ناموافق نتیجہ کا سامنا نہیں ہوتا۔ (یعنی معاشرہ انہیں سراہتا اور احترام دیتا ہے۔) لہٰذا یہ راز ہے سارا زور عورتوں بچوں خاندانوں کو ختم کرنے کے لیے رہائشی یونٹوں، ہسپتالوں، نوزائیدہ بچوں پر بمباری اور شقاوت قلبی اور سفاکیت کا۔
اسرائیلی فوجی بچوں، عورتوں کے مرنے پر قہقہے لگاتے، گٹار بجاتے، اظہارِ مسرت کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ارنون کا کہنا تھا ’فلسطینیوں کا قتل عام یہودی ریاست کی قیمت ہے‘۔ نیز یہ کہ جو (اجتماعی قتل) پالیسی اس نے دی ہے وہ ’ امن ‘ کی ضمانت نہیں دیتی۔ صہیونی، اکثریت یہودی آبادی والی ریاست کی ضمانت دیتی ہے۔ اس کا یہ بھی گمان تھا کہ فلسطینی خود ہی نکل جائیں گے اس سرزمین سے۔ کہتا تھا ’امن‘ کا لفظ سننا نہیں چاہتا۔ یہ غلیظ لفظ (امن) مسلمانوں کا ہے اور میرے پاس مسلمان کے لیے قوت برداشت نہیں۔ یہی حقیقت مغربی حکمرانوں کی ہے۔فرانس کو الجزائر میں دیکھ لیں اور سبھی استعماریوں کی تاریخ پڑھ لیں۔