(دین و دانش) مہمان زحمت نہیں ‘رحمت ہے! - حافظ محمد اسد

9 /

مہمان زحمت نہیں ‘رحمت ہے!

حافظ محمد اسد

 

موجودہ نظامِ تمدن میں گومہمان نوازی کی ذمہ داری ہوٹلوں اور ریستورانوں نے اپنے سر لے لی ہے ‘مگر گزشتہ نظامِ تمدن میں اس کی اہمیت مسلّم تھی اور اب بھی مہمان نوازی مشرقی تمدن کے خمیر میں داخل ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی وقت کسی کا مہمان ہوتا ہے ‘اس لیے ہماری سوسائٹی میں اس کی حیثیت مبادلہ اخلاق کی صورت اختیار کر گئی ہے مہمان نوازی صرف کاروباری مراسم ‘رشتے داری نبھانا ‘ شادی بیاہ میں رسماً دعوت پر بلاناوغیرہ کی حد تک محدود ہو گئی ہے۔ اگرچہ گزشتہ مذاہب کی اخلاقی تعلیمات میں مہمان نوازی کاذکر موجود نہیں ہے ‘ لیکن اہل عرب میں مہمان کابہت بڑا حق سمجھا جاتا تھا اور مہمان کی خدمت اور حفاظت میزبان اپنا فرض سمجھتا تھا ‘ اسلام آنے کے بعد اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ۔
قرآن کریم میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کے مہمانوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے:
’’(اے پیغمبرﷺ!) کیا ابراہیم ؑکے معزز مہمانوں کا واقعہ آپ تک پہنچا ہے ؟ جب وہ ابراہیم کے پاس آئے تو انہوں نے سلام کہا۔ ابراہیم نے بھی سلام کہا۔ (اور دل میں سوچا کہ) یہ کچھ انجان لوگ ہیں۔پھر چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ایک موٹا سا بچھڑا لے آئے۔تو اسے ان مہمانوں کے سامنے رکھا(اور) کہنے لگے : کیا آپ لوگ کھاتے نہیں۔ اس سے ابراہیم نے ان کی طرف سے اپنے دل میں ڈر محسوس کیا۔ انہوں نے کہا : ڈریے نہیں‘ اور انہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دی جو بڑا عالم ہوگا۔ ‘‘ (الذّٰرِیٰت:24تا28)
اس واقعہ سے مہمان داری کے متعلق چند آداب ملتے ہیں :
(1) مہمان اور میزبان میں کلام کی ابتدا سلام سے ہونی چاہیے ۔
(2) مہمان کے کھانے کا فوری انتظام کرنا چاہیے ۔
(3) مہمانوں کے کھانے پینے کا سامان مخفی طور پر نگاہ بچا کر کرنا چاہیے ‘کیونکہ اگر مہمانوں کو معلوم ہو جائے گا تو ازراہِ تکلف وہ اس کو روکیں گے۔
(4) مہمانوں کے سامنے عمدہ سے عمدہ کھانا پیش کرنا چاہیے ‘جیسے حضرت ابراہیم ؑ موٹا تازہ بچھڑا ذبح کرکے بھون کر لے آئے ۔
(5) مہمانوں سے نہ کھانے کی وجہ انتہائی ادب کے ساتھ پوچھنی چاہیے ۔
(6) مہمانوں کےنہ کھانے پر مغموم اور پریشان ہونا چاہیے‘ نہ کہ خوشی محسوس ہو۔
(7) اگر آپ کسی کے مہمان ہیں اور کسی وجہ سے نہیں کھانا چاہتے تو عمدہ الفاظ میں عذر پیش کریں ۔
ہمارے ہاں بالخصوص شہری معاشرے میں مہمان کی آمد پر ناگواری محسوس کی جاتی ہے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے مہمان کا اکرام ایمان کا حصّہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابو شریح خویلد بن عمرو الخزاعی ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے مطابق ہر طرح سے عزت کرے۔‘‘ (صحابہ کرامؓ نے) پوچھا: یا رسول اللہﷺ! دستور کے موافق کب تک ہے؟ فرمایا:’’ایک دن اور ایک رات! اور میزبانی تین دن کی ہے‘ اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘(متفق علیہ)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اس حد تک ٹھہرے کہ اسے گناہ گار ہی کردے۔‘‘
صحابہ کرام ؓ نے دریافت کیا :یا رسول اللہ ﷺ! وہ اسے گناہ گار کیسے کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’وہ اس کے پاس ٹھہرے حالانکہ اس کی مہمان نوازی کے لیے اس کے پاس کچھ نہ ہو۔‘‘(رواہ مسلم)
جان لیجیے کہ مہمان داری کرنا نہ صرف ابو الانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی سُنّت ہے بلکہ نبی آخرالزماں حضرت محمد عربی ﷺ کی تعلیمات مبارکہ میں بھی اس پر خاص زور دیا گیا ہے ۔چنانچہ احادیث مبارکہ میں سیدنا ہانیؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا :
اے اللہ کے رسولﷺ! ایسا عمل بتائیں جو جنت واجب کر دے ؟ آپﷺ نے فرمایا :’’اچھی بات کرنا اور کھانا کھلانا۔‘‘ ( المعجم الکبیر)
آج کے معاشرے میں جہاں سُنّت اور احکامِ دینی کو پس پشت ڈالا جا رہا ہے وہیں مہمان داری اور بالخصوص کھانا کھلانے کی سُنّت کو ترک کر دیا گیا ہے۔ خاص طور پرشہری معاشرہ تو مہمان داری گویا جانتا ہی نہیں ۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ رزق میں برکت ختم ہو گئی ہے اور تنگ دستی کا رونا ہر خاص و عام کی زبان پر جاری ہے۔برکت لانے والے اعمال میں سے مہمان داری ایک مستقل سبب تھا جسے ترک کردیا گیا۔ان ارشادات مبارک پر غور فرمائیں۔ سيدنا ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :
’’ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کو یاد رکھو۔‘‘(صحيح مسلم )
سيدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا :’’وہ شخص مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے ۔‘‘ (مسند ابی يعلٰي)
مہمان کی تواضع اپنی حیثیت کے مطابق کرنی چاہیے‘ مگر اب تکلّفات کی وجہ سے مہمان داری کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ چنانچہ اب عمومی طرزِعمل یہ بن گیا ہے کہ یا تو عمدہ کھانا پیش کرو یا مہمان داری ہی چھوڑ دو ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے :
’’ایک شخص نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں آکر عرض کیاکہ مَیں فاقہ سے ہوں (یعنی کئی دن سے صحیح طرح سے کھانا نہیں ملا ہے)۔ آپ ﷺ نے اپنی کسی زوجہ کی طرف پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ‘ میرے پاس پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے دوسری زوجہ کے پاس پیغام بھیجا۔ انہوں نے بھی اسی طرح کہا ۔حتیٰ کہ سب نے یہی کہا :اُس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ‘ میرے پاس پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ آخر کار آپﷺ نے فرمایا : جو شخص آج رات اس کو مہمان بنائے گا ‘ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے گا۔ انصار میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ ﷺ! اس کو میں مہمان بناؤں گا۔ وہ صحابی اس مہمان کو اپنے گھر لے گئے اور انہوں نے بیوی سے پوچھا : تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟ بیوی نے کہا : صرف بچوں کا کھانا ہے ۔ انہوں نے کہا : بچوں کو کسی چیز سے بہلادو ‘ جب ہمارا مہمان آئے تو چراغ بجھا دینا اور اس پر یہ ظا ہر کرنا کہ ہم بھی کھا رہے ہیں (نہیں تو وہ ہماری غربت دیکھ کرپیٹ بھر کر نہیں کھاسکے گا اور ہمیں بھی اس کھانے میں شریک کرنے کی کوشش کرے گا)۔ پھر وہ سب بیٹھ گئے اور جب کھانا کھانے لگے تو بیوی نے چراغ بجھا دیا اور مہمان نے (اس طر ح سے پیٹ بھرکر) کھانا کھا لیا ۔ جب صبح کو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے تو رسول اللہﷺ نے فر مایا : تم نے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا اللہ تعالیٰ اس پر بہت خوش ہوا ۔‘‘ (صحیح مسلم)
پھر یہ مہمان نوازی صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں‘ بلکہ اگر کوئی غیرمسلم بھی دروازے پر آجائے تو اس کی ضیافت کرنی چاہیے اور اسے پیٹ بھر کرکھلانا پلانا چاہیے ۔ چنا نچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مہمان آیا ‘جوکا فر تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا ‘ اس نے وہ دودھ پی لیا ‘ پھر دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا ‘اس نے اس کو بھی پی لیا۔ حتیٰ کہ اسی طرح وہ سات بکریوں کا دودھ پی گیا۔ پھر صبح کو وہ اسلام لے آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے پھر ایک بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا‘ انہوں نے وہ دودھ پی لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے دوسری بکری کا دودھ دوہنے کا حکم دیا تو وہ دوسری بکری کا سارا دودھ نہ پی سکے ۔ رسول اللہ ﷺنے فر مایا : ’’مؤمن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں پیتا ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم)
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص پاس آئے ہوئے مہمان کی تعظیم وتکریم نہیں کرے گا تو اس کے لیے (عنداللہ ) کوئی بھلائی نہیں ۔‘‘(مسندامام احمد بن حنبلؒ)
ہمارے اسلاف کامزاج بھی یہی رہا ہے کہ دعوت اس کی قبول فرماتے جو تکلّفات نہ کرتا۔دراصل دعوت کے لیے اہتمام نہیں ‘بلکہ اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم تھوڑی توجّہ کریں تو یہ کام تقریباً روزانہ کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کاروبار کے دوران چائے پلانا ویسے ہی معمول ہوا کرتا ہے تو اس میں ضیافت کی نیت کر لیں ۔ پھر ملازم پیشہ اکثر حضرات کھانا ساتھ لے جاتے ہیں تو اسے تھوڑا زیادہ کر لیں اور اپنے ساتھ کسی ساتھی کو شامل کر لیں‘ کسی ملازم کو بٹھا کر اس کو ساتھ کھلا لیں۔ اس طرح کئی فوائد حاصل ہو ں گے۔ ایک یہ کہ کھانے کا حساب نہیں ہوگا‘ کچھ خرچ بھی خاص نہیں ہو گا اور ابو الانبیاء ابراہیمؑ کی سُنّت بھی تازہ ہو گی کہ حضرت خلیل اللہ مہمان کے بغیر کھانا تناول نہیں فرماتے تھے ۔ پھرمشاہدہ گواہ ہے کہ ایسا معمول رکھنے والے حضرات کے رزق میں برکت اور روز افزوں اضافہ دیکھا گیاہے۔ اسی طرح لوگوں کو کھانا کھلانے والے افراد جب باقاعدگی سے یہ کام کرتے رہے تو کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی کرتے چلے گئے ‘ کبھی کمی نہیں کی ۔ یہ وہ برکات ہیں جس سے وہی شخص واقف ہو سکتا ہے جو خالص اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیےعمل کرے‘دکھلاوا مقصود نہ ہو‘ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’(اور کہتے ہیں کہ) ہم تو آپ کو یہ کھانا کھلا رہے ہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے‘ہم آپ سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکریہ۔ہم تو ڈرتے ہیں اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن سے جس کی اداسی بڑی ہولناک ہو گی۔‘‘(الدھر:9،10)
مندرجہ بالا آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نیک بندے ان سے کہتے ہیںکہ ہم تمہیں خاص اس غرض سے کھانا کھلاتے ہیں تاکہ ہمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا حاصل ہو۔ اوربے شک ہمیں اپنے رب عزّوجل سے ایک ایسے دن کا ڈر ہے جس میں کافروں کے چہرے نہایت سخت بگڑے ہوئے ہوں گے ‘لہٰذا ہم اپنے عمل کی جزا یا شکر گزاری تم سے نہیں چاہتے‘ بلکہ ہم نے یہ عمل اس لیے کیا ہے تا کہ ہم اس دن خوف سے امن میں رہیں ۔ ( تفسیر کبیر)
مہمان داری کی اہمیت اور اس کے آداب جان لینے کے بعد اب آخر میں مہمان بننے یعنی دعوت قبول کرنے اور نہ کرنے کے چند اہم اصول یاد رکھنے چاہئیں۔شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ اپنے ’’اصلاحی خطبات‘‘ میں رقم طراز ہیں :
’’دعوت اس نیت سے قبول کرے کہ یہ میرا بھائی ہے اور مجھے محبت سے بلا رہا ہے‘ اس کی محبت کی قدر دانی ہو جائے اور اس کادل خوش ہو جائے ۔دعوت قبول کرنا سُنّت ہے اور باعث اجروثواب ہے ۔مزید فرماتے ہیں :دعوت قبول کرنا اس وقت سُنّت ہے جب دعوت قبول کرنے کے نتیجے میں کسی معصیت کا ارتکاب اور گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو ‘ مثلاً کسی ایسی جگہ کی دعوت قبول کر لی جہاں گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہو رہاہے ‘اب ایک سُنّت پر عمل کرنے کے لیے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا جا رہا ہے ‘ ایسی دعوت قبول کرنا سُنّت نہیں ۔ آج کل ان میں معصیتیں ہو رہی ہیں ‘ منکرات ہو رہے ہیں ‘گناہوں کا ارتکاب ہو رہا ہے ۔’’ ولیمہ مسنونہ ‘‘ تو لکھ دیا یہ معلوم نہیں کہ کیا طریقہ ہے ۔ چنانچہ بے پردگی ہو رہی ہے ‘ مَردوں اور عورتوں کا مخلوط اجتماع ہے ‘گناہوں کا ارتکاب ہو رہا ہے اور اس پر ستم یہ کہ اگر کسی وقت کوئی اللہ کا بندہ اسٹینڈ لے کر خاندان والوں سے یہ کہتا ہے کہ اگر اس گناہ کا ارتکاب ہوگا تو مَیں اس دعوت میں شریک نہیں ہوں گا تو اُسے دقیانوس اور شدت پسند کالقب دیا جاتا ہے۔اسی طرح بعض حضرات یہ کہہ کر شرکت کر لیتے ہیں کہ ہم خاندان اور معاشرے سے کٹ جائیں گے۔ حضرت فرماتے ہیں: اگر گناہوں سے بچنے کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خاطر خاندان سے کٹنا پڑے تو کٹ جاؤ ‘ یہ سودا نفع کا ہے ۔جو شخص دین کے اصولوں کے خلاف دعوت رکھے اس کی دعوت قبول کرنا مناسب نہیں بلکہ گناہ ہے ۔اگر خاندان کے کچھ لوگ ڈٹ جائیں تو ان منکرات کو روکا جا سکتا ہے‘ بصورت دیگر کوئی بعید نہیں کہ مغربی تہذیب کی لعنتیں ہمارے معاشرے پر بھی پوری طرح مسلط ہوجائیں گی۔‘‘
اے اللہ! ہمیں ان تمام باتوں کو سمجھنے اور مہمان کا اکرام کرنے کی توفیق عطا فرما تاکہ ہم ایمان کی اس شاخ سے خوب حصّہ پائیں۔ آمین یا رب العالمین!