(کارِ ترقیاتی) تھرتھراتا ہے جہانِ چارسوے ورنگ وبو - عامرہ احسان

9 /

تھرتھراتا ہے جہانِ چارسوے ورنگ وبو

عامرہ احسان

[email protected]

 

دکھ اور تکلیف میں والدین، بزرگوں کی یاد ستائے تو عجب کیا! کچھ ایسا ہی معاملہ غزہ نے بنا رکھا ہے۔ غم اور خوشی کا عجب امتزاج ہے۔ ایسے میں بابا آدمdیاد آئے۔ نبیﷺ معراج کے موقع پر مورثِ اعلیٰ آدم d سے ملے۔ آپؑ دائیں جانب دیکھتے تو خوش ہوتے اور بائیں جانب دیکھتے تو روتے۔ بتایا گیا کہ یہ نسلِ آدم سے نیک لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور برے لوگوں کو دیکھ کر روتے ہیں۔ چشمِ تصوردیکھتی ہے قطار اندر قطار شہدائے غزہ، خاندان در خاندان فرش تا عرش خوشبوئیں بکھیرتے چلے جا رہے ہیں۔ زمین زندہ انسانوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے! تاہم جس ڈھب سے یہ جا رہے ہیں وہ شان کچھ ایسی ہے کہ اقبالؔ کو یاد کیے بغیر چارہ نہیں:
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہانِ چارے سو ورنگ وبو!
آج اس لکھے کی تعبیر ہر چشمِ بیدار دیکھ رہی ہے۔ 75 سال سے محکومی کی ذلت کا ہر ذائقہ جس قوم کو چکھایا گیا، وہ امت کی آستینوں میں بت دیکھتی دیکھتی تن بتقدیر اٹھ کھڑی ہوئی نتائج وعواقب سے بے پرواہ۔ جھنڈے پہ لکھا کلمہ اور حسبنا اللہ ونعم الوکیل ہی ان کی اصل قوت ہے۔ قیادت بھی وہ میسر تھی کہ:
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست،
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے!
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھاکر تجھے تلوار کرے
کیا اہل ِغزہ اس کے سوا بھی کچھ ہیں؟ انہوں نے مذاکرات کی میزوں پر بیٹھے عرب ممالک شام، مصر، اردن، لبنان کو میڈرڈ (اسپین) میں امریکا روس اسرائیل سے مل بیٹھ کرفلسطین کا مقدر 1991ء میں طے کرتے دیکھا،جس سے اسرائیل تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ جسے فلسطینی رہنماؤںنے قدس کی فروخت کا نام دیا۔ مسلم ممالک نے مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ سیاسی نسلی رنگ دینے کی کوشش کی تاکہ قبلۂ اول مسلمانوں کے ذہن سے محو رہے۔ صرف ’مسئلہ فلسطین‘ نمایاں ہو۔ اگلی کہانی اوسلو معاہدے کے نام پر 1994-95ء میں دو ریاستی حل کے نام پر اسرائیل کا تسلط اور ناجائز قبضہ قبول کرلینے کی تھی جو فلسطینیوں کے لیے ناقابلِ قبول رہا۔ قائداعظم نے قیامِ پاکستان پر اسرائیل کا قبضہ رد کرنے کی پالیسی ہمیں دے دی تھی۔ گویا وہ دریا سے سمندر تک فلسطینیوں کے لیے،کا نعرہ لگا گئے تھے! اسی لیے حماس قیادت پاکستان سے توقعات رکھتی ہے! قبلۂ اول پر یوں ضرب لگائی اور قبلۂ دوئم پر تسلسل سے یہود ونصاریٰ نے اپنی گرفت مضبوط کرنے کو پہلے حجاز کی مقدس سرزمین پر امریکی فوجیں اتاریں اور پھر چل سو چل۔ ٹرمپ کے دور سے باضابطہ ٹرمپی داماد کشنر کے ذریعے سب کچھ بدل ڈالنے کی شروعات 2018 ء میں ریاض کانفرنس سے ہوئیں اور اسرائیل سے مسلم ممالک کے تعلقات، معاہدات پر منتج ہوئیں۔ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرکے ہر آنے والا دن اقصیٰ سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا تھا۔ نماز ادا کرنے پر بندش۔ نماز جمعہ کی حاضری 60,70ہزار سے اب 5ہزار پر آ گئی۔ مغربی کنارے، مشرقی قدس میں بڑھتے تشدد چھاپے اغواکاری اور مظالم ،فلسطینی آواز دبانے اور اقصیٰ پر قبضے کی تیاری بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
75 سال کے جبر وظلم اور مقدسات پر دست درازی پر محکوم، مقید اہلِ غزہ احساسِ زیاں کی تپش کی تاب نہ لاتے ہوئے لاوے کی طرح پھٹ پڑے۔ اللہ نے مکر وفریب کے سانپوں (لاٹھیوں اور رسیوں) کے مقابل حضرت موسیٰ ؑ سے کہا تھا: الق مافی یمینک… جو کچھ تیرے دائیں ہاتھ میں ہے پھینک دے! اللہ کا غلام بس اسی کا مکلف ہے۔ اس کے بعد کا وعدہ ہے: ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ! سو 7 اکتوبر کا معجزاتی حملہ عصائے موسیٰ ؑ بن کر انبیاء کرام ؓ کے قاتلوں، انسانیت کے ناسور اسرائیل پر ٹوٹ پڑا۔ سارے طلسم ٹوٹ گئے۔ سب سے پہلے تو اسرائیل کا ناقابلِ تسخیر ہونا، دنیا کی چوتھی بڑی عسکری طاقت۔ سیٹلائٹوں اور اعلیٰ ترین جاسوسی نیٹ ورک کا حامل۔ موساد کی عالمی دھاک۔ زمین پر رینگتی چیونٹی دیکھنے کی صلاحیت گھپ اندھیروں میں! ابابیلی پرندے بنے بے نوا حماسی قیامت بن کر اسرائیلی فوجی بیس پر ٹوٹ پڑے کلاشنکوفیں لیے۔ اسلحے سے لدی بیس، افرادی قوت موجود اور بیس کمانڈر کرنل مارا گیا! پورا اسرائیل افراتفری کی نذر۔ چیخ وپکار۔ ہر اسرائیلی دو، دو پاسپورٹ اور شہریتیں رکھتا ہے۔ سو اسرائیل چھوڑکر 4 لاکھ 70 ہزار اسرائیلی جا چکے جنگ کے بعد۔ (انادولو ایجنسی بحوالہ Zman میگزین:8 دسمبر) دنیا کے سامنے سارے بھرم ٹوٹ گئے۔ رسیاں اور لاٹھیاں رہ گئیں۔ خوف ہوا ہوگئے۔ نیتن یاہو نے فرعونیت کا کوڑا معصوم شہریوں پر برسایا۔ مغربی قیادت کی مکمل بے حسی قابلِ نفرت ہے۔ حقوقِ انسانی، جمہوریت، آزادیٔ اظہار، جنیوا کنونشنز، جنگی جرائم سے مکمل بے اعتنائی کا رویہ، پانی، بجلی، ادویہ، خوراک کی بندش، معصوم بچوں عورتوں کا خون، ہسپتالوں اسکولوں پر اندھا دھند بمباری۔ غرض امریکا برطانیہ فرانس کینیڈا سب کے ہاتھ خونیں ہیں۔ جسے وہ اسرائیل کا حقِ دفاع کہہ رہے ہیں، بمباری سے فلسطینی آبادی کا خاتمہ ہے۔ تاہم اب چارسو جہانِ رنگ وبو، بقول اقبال کے تھرتھرا اٹھا۔ میڈیا پر کنٹرول بھی جدید دنیا میں پہلی مرتبہ اسرائیل، امریکا، یورپ سبھی کھو بیٹھے۔ غلام بنا لی گئی قوم جذبۂ جہاد سے سرشار ہوکر دیوانہ وار کیا اٹھی، طلسم زدہ دنیا کی آنکھیں کھل گئیں۔
ہر قوم کے افکار میں پیدا ہے تلاطم، مشرق میںہے فردائے قیامت کی نمود آج! 75 سال ہر ظلم، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ بناکر ایک قوم کو ان کی سرزمین سے باہر ہانک کر، ان کا ذبیحہ اسرائیل نے حلال جان لیا تھا۔ 21 ویں صدی کی نام نہاد روشنی میں جو مظالم آج قتلِ انسانی، عزت وآبرو کے تقدس کی پامالی۔ صحافیوں، ڈاکٹروں، علم والوں کا ہدفی قتل، 4تا 8 سالہ بچوں کی مجرموں کی طرح گرفتاری اور تشدد۔ گولیاں برسا کر 8 اور 15سال کے بچے مار ڈالنے۔ چھاپوں میں 16,18 سال کی پاکیزہ لڑکیاں اٹھاکر لے جانا۔ غرض درندگی کے ناقابلِ تصور ارتکاب پر بھی امریکا، یورپی قیادت کی اسرائیل کی سفاکانہ پشت پناہی نے ان چہروں کے نقاب اتار دیے۔ یہ امریکی جنگ ہے پس ِ پردہ۔ وہ اسلحہ روک دے تو جنگ رک جائے۔ غزہ تباہ کرنے کی قرارداد صرف ویٹو نہیں کی، شہریوں کے صفائے کے لیے45ہزار گولے فراہم کیے۔ 8ہزار بچوں کا قاتل امریکا ہے۔ ممنوعہ ہتھیار جس طرح امریکا نے عراق افغانستان میں استعمال کیے وہی یہاں بھی ہے۔ پاکستان غزہ پر زبانی جمع خرچ کرکے اعلیٰ امریکی وفود سے افغانستان سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے ملاقاتیں کر رہا ہے۔ مسلمانوں کے قاتل سے؟80ہزار پاکستانیوں کی قربانی کے بعد ازسرنو وہی تیاری؟ اللہ کی مدد پر بھروسا غزہ سے سیکھیں۔ امریکا اسرائیل کیمپ کا حصہ بننے سے گریز لازم ہے۔ مت بھولیں کہ بائیڈن کی 90 فیصد کابینہ یہودی ہے! پاکستان دوست؟
حاکم اسی وقت تک مضبوط وتوانا رہتا ہے جب تک قوم اس سے خوفزدہ رہتی ہے۔ اہل ِغزہ کی بے خوفی اور بیدار قوم نے اسرائیل کے وجود پر وہ چرکے لگائے ہیں کہ وہ لرزاں و ترساں ہے۔ امریکا اس کی کانپتی ٹانگوں کو حوصلہ دینے کو دو ماہ میں 10 ہزار ٹن فوجی ساز وسامان دے چکا ہے۔ کیونکہ یہ سبھی استعماریے اور ان کے حواری مسلم ممالک جانتے ہیں کہ حماس کی زندگی میں ان سبھی کی موت ہے۔ دنیا کی سرمایہ دار استحصالی قوتوں کی قلعی حماس اور اہل ِغزہ نے کھول دی ہے۔ نیویارک میں ایک مرتبہ پھر بھاری بھرکم مظاہرہ ہوا جس میں وال اسٹریٹ بلاک کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ اگر یہ صرف نعرہ نہ تھا تو یہ ستمبر 2011 ء میں امریکا کے معاشی مرکز میں تزلزل پیدا کرنے والی تحریک ’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘ کی بازگشت ہے۔ وہ تحریک معاشی عدم مساوات، تجارتی اداروں، بڑی سرمایہ دار کمپنیوں کی حرص وہوس اور استحصال، سیاست میں سرمائے کی کارفرمائی کی بنا پر 99 فیصد آبادی کی سماجی معاشی محرومیوں کے خلاف ایک توانا آواز تھی۔ غزہ میں بہتے ابلتے خون نے پوری دنیا میں بیداری کی لہر دوڑا دی ہے۔ ضربتِ پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش، حاکمیت کا بتِ سنگیں دل وآئینہ رو! کمزور فلسطینی قوم نے اپنے عزم وثبات کی ضربِ پیہم سے ظالم آقا کا بت، پتھر کا دل اور شیشے کا حسین چہرہ کرچی کرچی ریزہ ریزہ کردیا۔ چہارجانب اسلحے سے لدے مسلم ممالک سے ایک گولی، ایک توپ کا گولا بھی غزہ کے دفاع کو نہ ملا۔ امریکا نے ایٹمی طاقت، مسلح ترین اسرائیل کے لیے C-17 اور بحری جہاز لاد لاد کر ڈھیر لگا دیے۔ آہ!امت کی بے اعتنائی!