(زمانہ گواہ ہے) غزہ :جنگ بندی کے بعد کی صورتحال کا تجزیہ - محمد رفیق چودھری

9 /

جب تک عوام سڑکوں پر نہیں نکلیں گے اور حکومت کومجبور نہیں کریں گے،  اس

وقت تک حکمران مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کچھ نہیں کریں گے : ایوب بیگ مرزا

اگر مسلمان اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں تو ان شاءاللہ وہ وقت دور نہیں

جب مسلمانوں کو دوبارہ اللہ کی مدد حاصل ہو گی ۔ : رضاء الحق

ان حالات میں کہ غزہ میں مسلمان بچوں اور عورتوں کو خون میں نہلایا جارہا ہے۔ 

موسمیاتی تبدیلیوں کے متعلق عالمی کانفرنس کا انعقاد انسانیت کے ساتھ کھلا مذاق ہے

جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ خونِ مسلم کی اُن کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں : ڈاکٹر انوار علی

غزہ :جنگ بندی کے بعد کی صورتحال کا تجزیہکے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

 

سوال:جنگ بندی کےیک طرفہ خاتمے کے بعد اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ شدید بمباری شروع کر دی ہے۔ اب تو اس نے لبنان پر بھی حملے شروع کر دیے ہیں جس کی وجہ سے لبنان سے بھی کئی شہادتوں کی اطلاعات ہیں ۔ آپ کیا کہتے ہیں غزہ اور لبنان میں کیا ہونے جارہا ہے ؟
رضاء الحق:جنگ بندی کے دوران ہم نے اسی پروگرام میں یہ کہا تھا کہ مستقل جنگ بندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اسرائیل کسی صورت اپنے مقاصد اور اہداف سے پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے ۔ لہٰذا آپ نے دیکھا کہ اسرائیل نے یکطرفہ طور پر اس جنگ بندی کو ختم کردیا اور اس کے بعد دوبارہ غزہ پر بمباری کرکے نہتے فلسطینی مردوں ، عورتوں اور بچوں کو شہید کر رہا ہے ۔ 7 اکتوبر سے اس وقت تک 16 ہزار سے زاہد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں ۔ اسرائیل کے مطابق شمالی غزہ کو ہر صورت خالی کرنا ہے ۔ چاہے سکول ہوں ، ہسپتال ہوں ، چاہے پناہ گزین کیمپ ہوں ان پر مسلسل بمباری کی جارہی ہے ۔ بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق اب تک اتنابارود وہاں گرایا جا چکا ہے جتنا ناگا ساکی اور ہیروشیما کے ایٹمی حملے میں نہیں گرایا گیا تھا ۔ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے8 ماہ تک مسلسل برطانیہ پر بمباری کی تھی تو ا س کے نتیجے میں 18ہزار ہلاکتیں ہوئی تھیں جبکہ اسرائیل نے صرف ڈیڑھ ماہ میں 16ہزار فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے ۔یہ بھی یاد رہے کہ اسرائیل کے اعلی عہدیداران ایٹمی حملے کی بھی بات کر چکے ہیں جبکہ انہوں نے باقاعدہ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے بھی ہیں جن میں وائٹ فاسفورس بھی شامل ہے ۔ اس کے باوجود کہ ہٹلر نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا مگر اس نے کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں کیے اور ایٹمی حملوں کے بھی خلاف تھا ۔ لیکن یہ صہیونی اس سے بھی کئی گنابڑے درندے ثابت ہوئے ہیں ۔ اپ ڈیٹس یہ ہیں کہ غزہ کے بعد اب لبنان پر بھی اسرائیل کے حملے شروع ہو چکے ہیں ۔ یورپ ، امریکہ اور دیگر کئی ممالک اسرائیل کے سپورٹر ز ہیں ۔ مغربی میڈیا بھی مکمل طوراسرائیل کو سپورٹ کر رہا ہے ۔ دوسری طرف مسلم حکمرانوں میں ایسی کوئی جرأت دکھائی نہیں دیتی کہ وہ اسرائیل کے خلاف آواز بلند کر سکیں ، کوئی عملی قدم اُٹھانا تو دور کی بات ہے ۔ جبکہ غزہ کی صورتحال یہ ہے کہ زخمیوں کے لیے ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے اور اس قدر شہادتیں ہورہی ہیں کہ لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفنانا پڑرہا ہے ۔
سوال: امریکہ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی غزہ سے جبری بے دخلی کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ فرمائیں کہ غزہ کے حوالے سے اسرائیلی منصوبہ کیا ہے ۔امریکہ یا کوئی دوسرا مغربی ملک اسرائیل کے ان اہداف کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کر سکتا ہے؟
ڈاکٹر انوار علی:اس وقت بظاہردوسوچیں متوازی طور پر سامنے آرہی ہیں ۔ ایک صہیونی سوچ ہے ۔ صہیونیت اب محدود نہیں رہی ۔ جو صلیبی تھے وہ بھی اب صہیونیت میں جا چکے ہیں ۔ ان کا ماضی آپ دیکھیں تو ان کا ایک مقصد تھااسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنا تاکہ وہ اپنا ورلڈ آرڈر قائم کر سکیں ۔ یہ اب صہیونی یہودیوں کے مقابلے میں بھی زیادہ خطرناک ہو چکے ہیں ۔ اسی طرح یہودیت بھی اب مکمل طور پر صہیونیت میں ضم ہو چکی ہے ۔ کوئی اکا دکا یہودی رہ گئے ہوں گے جو باقی بچے ہیں ۔ لہٰذا اب یہ جنگ مذہبی جنگ بن چکی ہے ۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ کو گرا کر تھرڈ ٹمپل بنانا ہے اور اپنے مسایاح کے لیے تیاریاں کرنی ہیں ۔ اس حوالے سے انہوں نے فلسطین پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے ۔ اگرچہ مزاحمت رہی ہے اور اب بھی فلسطینی مسجد اقصیٰ کے لیے مزاحمت کر رہے ہیں ۔ اسرائیل کو سب سے زیادہ مزاحمت کا سامنا غزہ سے تھا لہٰذا وہ اب ہر صورت میں اس مزاحمت کو ختم کرنا چاہتا ہے ۔ ستمبر میں نیتن یاہو نے اپنی تقریر کے دوران جو نقشہ دکھایاتھا اس میں غزہ کا نام و نشان تک نہ تھا۔ یہ پلاننگ ان کی پہلے سے تھی اور اس کے تحت وہ اپنے مذموم مقاصد کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ دوسری سوچ یہ ہے جو مغرب میں نظر آتی ہے کہ یہ سب معاشی جنگ ہے کیونکہ غزہ کی ساحلی پٹی ایک معاشی حب ہے ۔ اسرائیل غزہ کو خالی کروا کر وہاں بن گوریان کے نام سے ایک گزر گاہ بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ معاشی طور پر مزید مضبوط ہو سکے اور عرب ممالک پر اس کا انحصار مزید کم ہو ۔ کہا جا تا ہے اسی جنگ کے دوران اسرائیل نے اٹلی اور برطانیہ کی کمپنیز کو غزہ میں گیس ڈھونڈنے کا لائسنس جاری کیا ہے ۔ اس لحاظ سے کئی لوگ سوچ کو divert بھی کر رہے ہیں کہ یہ تو بس معاشی جنگ ہے جس طرح عراق میں تیل اور گیس کے لیے لڑی گئی تھی لیکن میں سمجھتا ہوں یہ بیانیہ جان بوجھ کر بھی پھیلایا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو سرد کیا جا سکے۔ اصل میں یہ مذہبی جنگ ہے اور مذہبی مقاصد کے تحت ہی غزہ کوخالی کرنے کے لیے فلسطینیوں کو شہید کیا جارہا ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ باقی ماندہ فلسطینیوں کو نکال کر صحرائے سینا میں آباد کریں گے ، تاکہ غزہ خالی ہو جائے اور صہیونی اپنے مذہبی اہداف کے مطابق مسجد اقصیٰ کو گرا کر تھرڈ ٹمپل بنائیں یا گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھیں تو انہیں مزاحمت کم سے کم مل سکے ۔
سوال:مصدقہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل کو امریکہ اور یورپی ممالک نہ صرف مالی مدد کر رہے ہیں بلکہ اسلحے سے بھرے بری اور بحری جہاز بھی اس کے لیے روانہ کر رہے ہیں ۔ تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ امریکہ اسرائیل کو ایسے بم دے رہا ہے جس کے گرنے سے 300 فٹ تک ہر چیز تہس نہس ہو جائے گی ۔ اسرائیل کا پلان کیاہے ۔کیا وہ غزہ کو بالکل صفحہ ہستی سے مٹانے کا ارادہ رکھتا ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:جہاں تک اسرائیل کی مالی امداد کا تعلق ہے تو7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے فوراً بعد ہی امریکہ نے 100 بلین ڈالرز کا اعلان اسرائیل اور یوکرائن کے لیے کر دیا تھا ۔ یوکرائن کو ساتھ نتھی اس لیے کیا گیا تاکہ گانگریس کے لوگ یوکرائن کی وجہ سے اس کو جلدی منظور کردیں ۔ اسی طرح اسلحہ کے بھرے ہوئے 160 سے زائد بحری جہاز اسرائیل پہنچائے جا چکے ہیں جن میں سے 35 جہاز امریکہ کے ہیںباقی زیادہ تر یورپی ممالک کے ہیں ۔ اسرائیل کی مدد کے لیے یونان اور دیگر یورپی ممالک کے اڈے بھی استعمال ہورہے ہیں ۔ جبکہ مسلمان ممالک کا کردار انتہائی افسوسناک ہے۔ UAEسمیت بعض ممالک حماس کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کا خون بہانے کے لیے ، ان کے گھروں کو مسمار کرنے کے لیے مسلمان ممالک کی فضائی حدود استعمال ہو رہی ہیں ۔ مصر نے رفاہ کا راستہ بند کر دیا ہے تاکہ غزہ تک امداد نہ پہنچ سکے ۔ حالانکہ اس امداد میں کھانے پینے کی چیزیں اور ادویات ہیں ۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے مسلمان ممالک اسرائیل کے خلاف عملی اقدام کیا کرتے اُلٹا اس کی مذمت بھی کھل کر نہیں کر سکے ۔ مسلم ممالک کے حکمران چاہتے ہیں کہ جنگ کی فضا ختم ہو اور وہ پہلے کی طرح اسرائیل کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا سکیں ۔شاعر نے کہا تھا : حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے ۔ ـآج یہ شعر تمام مسلمانوں پر فٹ ہو رہا ہے ۔ اس لیے کہ یہ صرف غزہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے ۔ مسلم حکمران سمجھتے ہیں خاموش رہنے سے شاید وہ بچ جائیں گے حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ مجھے یہ جنگ پھیلتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ یوکرائن اور افغانستان میں جو مسائل پیدا کر رہا ہے اس کی وجہ سے یہ جنگ جلد پھیلے گی اور پاکستان بھی خود بخود اس جنگ کی زد میں آئے گا ۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق روس کے صدر پیوٹن سعودی عرب گئے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سعودی عرب کو کھڑا کرنے کی کوشش ہے کیونکہ روس تو نہیں چاہتا کہ امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرتا چلا جائے۔
سوال:یہ بات بڑی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ کیا مسلمان ممالک کو اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹانا چاہیے ؟
رضاء الحق:انتہائی اہم بات ہےکیونکہ اسرائیل نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت غزہ میں نسل کُشی کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ عالمی سطح پر انسانی حقوق کا دن بھی منایا جاتاہے ، بچوں اور عورتوں کے عالمی دن بھی منائے جاتے ہیں لیکن فلسطین کے معاملے میں یہ حقوق کسی این جی او کو نظر نہیں آتے ۔ ابھی فلسطین میں بچے اور عورتیں بھوک ، بیماری اور شدید سردی کی وجہ سے بہت بڑے المیہ سے دوچار ہونے والے ہیں ۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ یہ جس جس عالمی ادارے کا آپ نے ذکر کیا : انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ، انٹرنیشنل کریمنل کورٹ وغیرہ یہ سب صہیونیوں کے ہی آلہ کار ہیں ۔ ICCکا پراسیکیوٹر کریم خان ایک قادیانی ہے جس کا بیک گراونڈ یہ ہے کہ چند سال قبل اس کی جگہ پر ایک نائجیرین خاتون فاطو بن سودا ICCکی پراسیکیوٹر تھیں ۔ اُنہوں نے عراق اور افغانستان میں امریکی افواج کے جنگی جرائم کے خلاف کیس شروع کیا ۔ عالمی طاقتوں نے مل کر ایسی سکیم چلائی کہ اس خاتون کو ہٹا کر اس کی جگہ اس قادیانی کریم خان کو لے آئے ۔ یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل جب نریندر مودی نےاسرائیل کا دورہ کیا تھا تو اس کے استقبال کے لیے نیتن یاہو کے ساتھ قادیانیوں کامقامی سربراہ بھی موجود تھا ۔اس کریم خان نے بھی چند دن قبل اسرائیل کا دورہ کیا ہے اور وہاں انہوں نے حماس کے خلاف جنگی جرائم کا کیس کھولنے کا منصوبہ تیار کیا ہے ۔ المیہ کی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ آج تک متبادل ادارے نہیں بنا سکی ۔ ہمارا کوئی معاشی فنڈ نہیں ہے جو IMFکے مقابلے میں مسلمان ممالک کی مدد کر سکےتاکہ مسلمان ممالک باطل کی غلامی سے آزاد ہو سکیں ۔ نہ ہی مسلمانوں کے پاس کوئی ایسا عسکری ادارہ ہے کہ جہاں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہو تو وہاں کی مدد کر سکے ۔ نہ کوئی عدالتی فورم ہے جہاں عراق ، افغانستان ، فلسطین ، کشمیر ، بھارت ، برما ، سنگیانگ ، چیچنیا کے مسلمان جاکر کوئی کیس لڑ سکیں ۔
سوال:سعودی عرب کی قیادت میں ایک نام نہاد فورس بنی تو تھی جس کی قیادت جنرل راحیل شریف کر رہے ہیں ۔ اس نے آج تک مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا ؟ 
رضاء الحق:اس فوج کے چار بنیادی اہداف رکھے گئے تھے ۔ ان میں سے ایک ہدف یہ تھا کہ جو وہاں کی بادشاہت ہے اس کی حفاظت کی جائے گی ۔ یہ باقاعدہ اس کے منشور میں شامل تھا اور ان کی پالیسی سٹیٹمنٹ میں بھی یہ بات آئی تھی کہ مسلمان ممالک میں جو انتہا پسندی ہے اس کو ختم کرنے کے لیے کام کیا جائے گا۔ یہاں سے آپ اندازہ لگالیں کہ اس فوج کا مقصد کیا تھا ۔ حالانکہ اس امت کو چنا ہی اس مقصد کے لیے گیا تھا کہ یہ مختلف مدارج میں جہاد کرے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَجَاہِدُوْا فِی اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ط ہُوَ اجْتَبٰـىکُمْ}(الحج:78) ’’اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسا کہ اُس کے لیے جہاد کا حق ہے۔اُس نے تمہیں چُن لیا ہے۔‘‘
ماضی کی امت مسلمہ کو معزول کرکے یہ ذمہ داری اس امت کو دی گئی تھی مگر آج اس کی حالت یہ ہے۔ لہٰذا جب تک مسلمان خود نہیں اُٹھیں گے تب تک ہم ICCیا ICJسے کیا امید لگا سکتے ہیں ۔
سوال:اطلاعات یہ ہیں کہ یمن کےحوثیوں نے اسرائیل اور امریکہ کے بحری اڈوں اور اثاثوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ کیا یمن کے حوثی اورایران اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی قابل ذکر عملی اقدام اٹھا پائیں گے؟
ڈاکٹر انوار علی: یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا کہ ان کے حملے امریکہ اور اسرائیل پر کتنے اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ ان میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی وغیرہ سارا کچھ ہوتا ہے لیکن اس سے بڑھ کر آج تک کچھ نہیں دیکھا گیا ۔ ابھی تک جو انہوں نے حملے کیے ہیں وہ تجارتی جہازوں پر کیے ہیں جن میں ملٹری فورسز نہیں تھیں  لیکن جہاں انہیں حملے کرنا چاہئیں وہاں ابھی تک کوئی ایسا عملی اقدام نہیں کیا ۔ امریکہ کی تجزیہ نگار نے ایک تازہ رپورٹ شائع کی ہے کہ حوثیوں اور ایران سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ حوثیوں کی زیادہ تر سرگرمیاں تو مسلمان ممالک کے خلاف ہی نظر آتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں  دہشت گرد قراردے کر ان پر پابندیاں لگا دی تھیں لیکن جوبائیڈن نے آتے ہی ان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا ۔ باقی فلسطین کے حوالے سے ان کا رول بیانات کی حد تک تو مستحسن ہے لیکن عملی طور پر کوئی امید نہیں لگائی جاسکتی ۔
سوال:پاکستان کے نگران وزیراعظم نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل دو ریاستی فارمولا ہے۔دوریاستیں اگر قائم ہوتی ہیں تو کیا فلسطینی اسرائیلی جارحیت سے نجات پا سکیں گے ؟
ایوب بیگ مرزا: ایک وقت تھا بنی اسرائیل امت ِمسلمہ کے منصب پر فائز تھے۔ تب بھی ان کی نافرمانیاں تاریخ میں آپ دیکھیں کہ حضرت موسیٰd کے ہوتے ہوئے کبھی بچھڑے کی پوجا کر رہے ہیں ، کبھی جہاد سے صاف انکار کر رہے ہیں ، آسمانی رزق مل رہاتھا تو اس پر ناشکری کر رہے تھے ، یہاں تک کہ قرآن پاک ہمیں بتاتا ہے کہ انہوں نے انبیاء کرامf کا ناحق قتل کیا ۔ لہٰذا ایک وقت آیاکہ یہ اس منصب سے معزول کر دیے گئے ۔ اس سے قبل ان کو آخری موقع دیا گیا کہ وہ اللہ کے آخری نبی ﷺ پر ایمان لے آئیںجن کی پیشین گوئی ان کی کتابوں میں کی گئی تھی ۔ لیکن یہ اپنے تکبر اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اُمت ِمسلمہ کے مرتبے سے معزول کر دیے گئے ۔ لہٰذا اب ان کا حق یروشلم پر نہیں رہا ۔ پھر یہ کہ معراج کی رات مسجد اقصیٰ میں نبی اکرم ﷺنے پہلے تمام انبیاء کرامf کی امامت کی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اب بیت المقدس کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دوریاستی حل بنتا ہی نہیں ۔ صرف فلسطین کا حق ہے ۔ اسی طرح دنیوی قانون کے مطابق بھی UNOکہتا ہے کہ مقدس مقامات پر مسلمانوں کا حق ہے ۔ اس ساری صورتحال میں دوریاستی فارمولا زبردستی کا حل ہے ۔ جہاں تک اسرائیلی جارحیت سے فلسطینیوں کی نجات کا سوال ہے تو اگر دوریاستیں بن بھی گئیں تو اسرائیل اپنے عزائم کی وجہ سے جارحیت سے پیچھے کبھی نہیں ہٹے گا ۔ مغربی کنارہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ، اسی طرح وہ لبنان پر بھی حملے کر رہا ہے ۔ ان کا اصل ہدف گریٹر اسرائیل کا قیام ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی عہدیدار اور عام شہری بھی سرے عام یہ کہہ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو ختم کردو ، ایٹم بم گرا دو ۔ ان حالات میں دوریاستی فارمولا کوئی حل نہیں ہے ۔ ہمارے وزیراعظم کو تو شاید پتا ہی نہیں کہ مسئلہ کی بنیاد کیا ہے لیکن جو عرب حکمران جانتے ہیں وہ بھی چاہتے ہیں کہ کسی طرح مصیبت ٹل جائے۔ اس لیے وہ بھی دوریاستی حل کے حامی ہیں جبکہ اسرائیل کے جو عزائم ہیں ان کے مطابق دوریاستی حل تو دور کی بات یہ عرب ریاستیں بھی اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکیں گی ۔ لہٰذا ہمیں تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر مؤقف پیش کرنا چاہیے ۔
سوال: کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ ایک طرف اسرائیل کے غزہ پر انسانیت سوزمظالم جاری ہیں دوسری طرف متحدہ عرب امارات میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں 190ممالک کے عہدیداران شرکت کر رہے ہیں ۔ دنیا پر جنگ مسلط کرنے والے ممالک کا ماحول کے تحفظ کے لیے اکٹھا ہونا کیا معنی رکھتاہے ؟
ڈاکٹر انوار علی:اس معاملے کو اس انداز سے بھی دیکھئے کہ ایک طرف جنگ میں ہمارے مسلمان بھائی ، بہنوں اور بچوں کے پرخچے اڑائے جارہے ہیں اور دوسری طرف کرکٹ کا ورلڈ کپ کھیلا جارہا تھا ۔ ہم پاکستان پر غصہ نکالتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم واپس کیوں نہیں آئی ، لیکن میں کہوں گا کہ افغانستان کی ٹیم واپس کیوں نہیں آئی ، وہاں تو اس وقت ایک اسلامی حکومت ہے۔ اصل میں یہ ساری چیزیں ایک بیک گراؤنڈ رکھتی ہیں ۔ یہ بین الاقوامی ایشوز ہیں ، چاہے ورلڈ کپ ہو یا یہ COPکانفرنس ہو ، عالمی سطح کے اس طرح کے معاملات میں شامل ہونا حکومتوں کی مجبوری ہوتی ہے ۔ COPکانفرنس کے انعقاد UNO کے تحت شروع ہوا تھا ۔ یہ پوری دنیا میں ہوتی رہی ہیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے آگاہی اور اقدمات کے حوالے سے ان کا بڑا مثبت رول رہا ہے ۔ لیکن ان حالات میں کہ ایک طرف بچوں اور عورتوں کو خون میں نہلایا جارہا ہو اور دوسری طرف ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کانفرنس کا انعقاد کیا جائے ، یہ تو انسانیت سوز المیہ ہے کہ انسانی جانوں کو اتنی بھی اہمیت نہیں دی جارہی ۔ یہ ذہنیت بڑی خطرناک ہے جس میں عرب حکمران بھی ملوث ہیں ۔ ایسی حکومتوں سے ہم کیا امیدیں لگائیں ۔
سوال: عالم اسلام کو مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اور اسرائیلی جارحیت کےخاتمے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے ؟
رضاء الحق: اصل بات یہ ہے کہ ہمارے کرنے کے کام کیا ہیں ۔ ابھی 6 دسمبر کو اسلام آباد میں ایک قومی سطح کا کنونشن ہوا ہے ۔ امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ نے کنونشن کے لیے اپنے ویڈیو پیغام میں ان نکات کو سب کے سامنے رکھا ہے ۔
اول یہ کہ دعاؤں کا اہتمام کریں ۔ اگر کوئی کچھ بھی نہیں کر سکتا وہ کم ازکم دعاتو کرسکتاہے ۔ پھر یہ کہ اجتماعی سطح پہ قنوت نازلہ کااہتمام کیا جائے ۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تاکہ ہمارے concepts clear ہوں کہ مسئلہ فلسطین اصل میں ہے کیا ؟ مسلمانوں کے لیے کیوں اہم ہے اور یہودیوں کے کیا عزائم ہیں ؟ ان کا ماضی کیا ہے ؟ قرآن ، احادیث اور تاریخ میں یہ چیزیں موجود ہیں جب ہم اپنے گھروں میں بھی اس چیز کا اہتمام کریں گے تو ہماری نوجوان نسل میں آگاہی اور شعور پیدا ہوگا اور ان کے اندر جذبہ جہاد اور شوق شہادت پیدا ہوگا جو کہ مومن کی قیمتی متاع ہے ۔انفرادی یا اجتماعی سطح پر جہاں جہاں بھی اسرائیل کی مذمت کی جاسکتی ہے اس کے لیے ہر ذریعہ استعمال میں لایا جائے ۔ اسرائیل کے خلاف پُرامن احتجاج ، ریلیوں اور مظاہروں کا اہتمام کیا جائے ۔ یہودی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ غزہ کے اندر جو ہمارے مسلمان بھائی، بہن ،بچے ہیں ان کی مالی امداد بھی کی جائے۔ اس حوالے سے تنظیم اسلامی کا اپنا تو کوئی اکاونٹ نہیں ہے لیکن الخدمت فاؤنڈیشن ، خبیب فاؤنڈیشن اور دارالعلوم کراچی تین اداروں کا نام تجویز کیا ہے۔پھر یہ کہ اپنے حکمرانوں کو غیرت دلائیں ۔ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی ملک ہے ، اس کے پاس بہترین فوج ہے اور میزائل ٹیکنالوجی ہے ۔ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ اسرائیل پر فوری حملہ کردیں لیکن جو اخلاقی سپورٹ ہم فلسطینیوں کی کر سکتے ہیں وہ تو کریں ۔ OIC کے مینڈیٹ میں بھی یہ چیز موجود ہے کہ فلسطینیوں کی اخلاقی سفارتی ، مالی اور عسکری مدد کرنا ہر مسلمان ملک کی ذمہ داری ہے ۔ لہٰذا ہمارے حکمران اور مقتدر لوگ ان ذمہ داریوں کو تو پورا کریں ۔ احادیث میں خبریں موجود ہیں کہ قیامت سے قبل کل روئے ارضی پر اللہ کا دین غالب ہوگا ۔ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے اس کے اندر اپنا حصہ ڈالیں ۔ اقامت دین کی جدوجہد میں حصہ لیں ۔ یعنی وہ دین جو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیںنبی کریمﷺ کے ذریعے عطا کیا اس کو ہم اپنے اوپر لاگو کریں ،پھر اس کی دعوت دوسروں کودیں اور پھر اس کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں ۔ یہ کام کریں گے تو ان شاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب مسلمانوں کو دوبارہ اللہ کی مدد حاصل ہو گی ۔
ایوب بیگ مرزا:عوامی سطح پہ یقینی طور پر کوئی بہت بڑا عملی قدم اٹھانا ممکن نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم دعا کر سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ مالی مدد کر سکتے ہیں ۔ حکومت جب ٹیکس بڑھاتی ہے ، مہنگائی میں اضافہ ہوتاہے یا سیاسی ایشو ہوتاہے تو عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو اپنے مسلمان بھائی بہنوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کیوں نہیں نکلتے ۔ اگر عوام مظاہروں کے ذریعے یا تحریک کے ذریعے حکمرانوں کو احساس دلا دیں کہ ان کی کرسی اب خطرے میں پڑنے والی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ کوئی قدم اُٹھانے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ جب تک عوام سڑکوں پر نہیں نکلیں گے اور حکومت کو نہیں بتائیں گے کہ آپ کے یہ کرنے کے کام ہیں اس وقت تک حکمران کچھ نہیں کریں گے ۔