(منبرو محراب) امت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل - ابو ابراہیم

9 /

امت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل

(سورہ آل عمران کی آیات 102تا 104 کی روشنی میں )

 

جامع مسجدقرآن اکیڈمی، کراچی میں تنظیم اسلامی کے مرکزی ناظم تعلیم و تربیت محترم خورشیدا نجم کے 08 دسمبر2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
آج ہم ان شاء اللہ سورہ آل عمران کی آیات 102 تا 104کا مطالعہ کریں گے ۔ ان آیات میں اُمت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل بیان کیا گیا ہے ۔ ان میں سے ہر آیت میں ایک نکتہ بیان ہوا ہے ۔ چنانچہ پہلے فرمایا : 
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ} (آل عمران: 102) ’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘
دین کااصل مخاطب فرد ہے ۔بقول شاعر؎
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
جب کوئی شخص عمارت بنانا چاہتاہے تواس کی پہلی ترجیح اچھی اینٹوں کاانتخاب ہوتا ہے۔ اینٹیں مضبوط ہوں،کمزور اور نقص والی نہ ہوں ۔ دوسرا ان اینٹوں کوجوڑنے والا مصالہ صحیح ہو۔ پھروہ عمارت جس مقصد کے لیے قائم کی جاتی ہے وہ ملحوظ خاطر رہے ۔ بعینہٖ یہی چیز یہاں پربیان کی جارہی ہے کہ امت مسلمہ کاایک ایک فرد ایک اینٹ کی مانند پختہ ہو ۔ اس کے لیے پہلا نکتہ یہ بیان ہوا :
پہلا نکتہ:اللہ کا تقویٰ
امیرالمومنین حضرت عمرفاروق ؓ نے ایک مرتبہ حضرت اُبی بن کعبh سے پوچھاکہ تقویٰ کیا ہے؟ توانہوں  نے جواب دیا کہ امیرالمومنین!جب انسان کسی خاردار جنگل سے گزر رہا ہو تووہ اپنا دامن بچابچا کر، اپنے کپڑوں کو سمیٹ کرچلتا ہے۔یہی تقویٰ ہے ۔البتہ تقویٰ  کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ گھر بار چھوڑ کر جاکر جنگل میں بسیرا کرلیں ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((لارھبانیۃ فی الاسلام )) ’’اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں۔ ‘‘
جیسے عیسائیوںمیں رواج پڑ گیا کہ جنگلوں اور صحراؤں میں  جاکر تپسیائیں اورریاضتیں کی جارہی ہیں،کسی سے ملا نہیں جا رہا ۔نہیں ! بلکہ اس دنیا میں رہنا ہے لیکن اس دنیا کاہو کرنہیں رہنا۔ جیسے ایک شخص بازار میں کسی ضروری کام سے جارہا ہوتا ہے وہ دائیں بائیں نہیں دیکھتا بلکہ سیدھا اپناکام کرتاہے ۔ بندہ مومن اتنافارغ نہیں ہے کہ وہ اس دنیا کے اندر الجھ کررہ جائے۔ دور حاضر کی مثال یہ ہے کہ اگر کہیں پربارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہوںاور وہاں سے کوئی گزررہاہوتووہ ہرقدم پھونک پھونک کر رکھے گا ۔ اسی طرح تقویٰ یہ ہے کہ انسان دنیا میںہر گناہ اور ہر برائی سے بچ کر چلے ۔ ہمارے دین میں توحید کے التزام کے ساتھ اطاعت رسولﷺ بھی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول(ﷺ) کی۔‘‘(التغابن:12)
دوسری جگہ ارشاہے کہ اس حوالے سے پوچھا بھی جائے گا :
’’یقیناً سماعت‘بصارت اور عقل سبھی کے بارے میں باز پُرس کی جائے گی۔‘‘(بنی اسرائیل:36)
صحابہ کرامjکارویہ یہ تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمرi جب کہیں سے گزرتے تھے اورگانوں کی آواز آتی تھی تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے۔ہماری زبان تو ہر وقت چلتی رہتی ہے لیکن رسول اللہﷺ نےفرمایا کہ یہ تمہاری کھیتیاں ہیں جو تمہیں آخرت میں کاٹنی پڑیں گی ۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے زبان کو پکڑ کرصحابہ ؓسے فرمایا کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ کہاجاتا ہے کہ جوچپ رہ گیا وہ نجات پاگیا۔آگے فرمایا:
{حَقَّ تُقٰتِہٖ} (آل عمران: 102) ’’ جیسا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے۔‘‘
اس آیت کو سن کر صحابہ کرامؓ گھبرا اٹھے کہ اللہ کے تقویٰ کا حق کون ادا کر سکتا ہے۔ پھر سورۃ التغابن کی آیت نازل ہوئی:
{فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ } (التغابن:16) ’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اپنی حدّ ِامکان تک۔‘‘
ہرشخص کوخوب معلوم ہےکہ اس کی استطاعت کتنی ہے ۔ زیر مطالعہ آیات میں آگے فرمایا:
{وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(102)} (آل عمران) ’’اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔‘‘
اسلام سے مراد ہے سرتسلیم خم کرلینا۔ ایسی فرمانبرداری جس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے سامنے اپنی کوئی رائے نہ ہو ۔ ارشاد ہوتاہے :
’’اور جو کچھ رسولؐ تم لوگوں کو دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روک دیںاس سے رک جائو۔‘‘(الحشر:7)
یعنی موت کاکوئی وقت معین نہیں ہے ۔ کسی کونہیں معلوم کس وقت موت آجائے ۔ خدانخواستہ ایسی موت آگئی کہ انسان کسی غلط کام میں مصروف ہوتو اللہ کی نافرمانی کی حالت میں موت ہوگی ۔ ایک حدیث میں ہے :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی شخص زنا کرتا ہے تو عین زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘(متفق علیہ)
اگر توبہ کی توفیق ہی نصیب ہی نہ ہوتوکہاں سے ایمان آئے گااور اس حالت میں موت آگئی تو کتنی حسرت ناک موت ہوگی ۔
نکتہ 2:تفرقہ میں مت پڑو
زیر مطالعہ آیات میں آگے فرمایا :
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص} ’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘ (آل عمران: 103)
اللہ کی رسی کیا ہے ؟ سورۃ الحج میں فرمایا ہے :
{وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ ط} (الحج:78)’’اور اللہ کے ساتھ چمٹ جائو ۔‘‘
یہاں واضح کیاکہ اللہ کی رسی کےساتھ چمٹ جائو۔ حضرت علی ؓ سے روایت ہے :’’یہ قر آن ہے اللہ کی مضبوط رسی ہے!‘‘
دوسری روایت حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے ہے ، رسول اللہﷺ نے فرمایا:((الممدود من السماء الی الارض))جوآسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے ۔
تیسری روایت میں مزید وضاحت ملتی ہے ۔ ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ مسجد نبوی میں تشریف لائے اور ایک سوال کیا: کیاتم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںاور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوںاوریہ قرآن اللہ کی جانب سے آیا ہے ؟صحابہ کرامj نے کہا :کیوں نہیں !اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں ۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا:’’ پس تم خوشیاں منائو، اس لیے کہ اس قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میںہے۔‘‘اس سے بڑی چیز تمہیں کیاحاصل ہوگی ۔ آگے فرمایا :{وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًاج}’’اور ذرا یاد کرو اللہ کا جو انعام تم پر ہوا جبکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے‘تو اللہ نے تمہارے دلوں کے اندر اُلفت پیدا کر دی‘ پس تم اللہ کے فضل و کرم سے بھائی بھائی بن‘گئے۔‘‘(آل عمران:103)
قبل از اسلام قبائل کے مابین دہائیوں اور صدیوں تک جنگیں چلتی رہتی تھیں مگر عداوت کی آگ تھی کہ ٹھنڈی نہ ہوتی تھی ۔ بقول مولاناحالی؎
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
پھر جب رسول اللہﷺ نے مواخات قائم کروائی تو کیفیت یہ تھی کہ سگے بھائیوںسے زیادہ پیا ر تھا۔اپنے کاروبار اور جائیدادوں تک میں ایک دوسرے کو شریک کیا۔ آگے فرمایا:{وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَاط}’’اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے ‘(بس اس میں گرنے ہی والے تھے ) تو اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔‘‘ (آل عمران:103)
اب اس کی تطبیق ہم اپنے اوپر کریں ۔ متحدہ ہندوستان میں  ہمیں کس قدر ہندو کا خوف تھا ۔ ہندوعددی اکثریت ، وسائل ، تعلیم اور روزگار سمیت ہر چیز میں ہم سے آگے تھا۔ دوسری طرف مسلمان ہرلحاظ سے پس رہا تھا۔ پوری مارکیٹ میں صرف ایک دودکانیں مسلمانوں کی ہوتی تھیں باقی سب تجارت ہندو کے پاس تھی ۔ ہم نے دعائیں کر کر کے پاکستان حاصل کیا کہ اے اللہ ! ایک خطہ عطا کرجس میں ہم تیرے دین کو قائم اورنافذ کرسکیں۔ارشاد ربانی ہے:
’’اور ان میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے نواز دے گاتو ہم خوب صدقہ وخیرات کریں گے اور نیک بن جائیں گے۔‘‘ (التوبۃ:75)
اللہ نے ایک خطہ دے دیاکہ لے لو۔
{لِنَنْظُرَکَیْفَ تَعْمَلُوْنَ(14)}(یونس)’’تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کیا کرتے ہو!‘‘
اللہ تعالیٰ نےہمیں خوشحالی عطا کی ۔اگر کوئی ہندوستان سے پاکستان آتا تھا تووہ سمجھتا تھا کہ میں کسی غریب ملک سے کسی امیر ملک میں آگیا ہوں۔ کیاکچھ نہیں تھا یہاں پر؟ لیکن اس کے بعد ہم نے کیا کیا ہے ؟جو وعدہ اللہ سے کیا تھا اسی سے مکر گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوگیا۔اللہ کے عذاب کاکوڑا ہم پربرسا ہے ۔ ہمارے ہزاروں فوجی ہندو کی قید میں چلے گئے ۔ پوری اسلامی تاریخ میں کبھی اتنی ذلت نہیں اُٹھانی پڑی ۔ لیکن ہم نے پھر بھی سبق نہیں سیکھا اور ابھی تک سرکشی کی روش پر ہیں۔آگے فرمایا:{کَذٰلِکَ یُـبَـیِّنُ اللہُ لَـکُمْ اٰیٰتِہٖ لَـعَلَّـکُمْ تَہْتَدُوْنَ(103)} ’’اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات واضح کررہا ہے تاکہ تم راہ پائو (اور صحیح راہ پر قائم رہو)۔‘‘(آل عمران)
تیسرا نکتہ: امر بالمعروف و نہی عن المنکر
{وَلْـتَـکُنْ مِّنکُمْ اُمَّـۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(104)} ’’اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو خیر کی طرف دعوت دے‘ نیکی کا حکم دیتی رہے اور بدی سے روکتی رہے۔اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘(آل عمران)
وہ اُمت یہی مسلمان اُمت ہے جس کی یہ ذمہ داری اللہ نے لگائی تھی ۔ اسی لیے اسے خیرامت قراردیا گیا تھا :
’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘تم حکم کرتے ہو نیکی کا‘اور تم روکتے ہو بدی سے‘اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر۔‘‘ (آل عمران:110)
اسی طرح سورۃ البقرۃ میں فرمایا:
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے‘تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسولؐ ‘تم پر گواہ ہو۔‘‘ (البقرۃ:143)
یہ اس اُمت کےذمہ کام تھے جو اسے کرنے تھے لیکن آج ساری اُمت سورہی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ اپنے کیرئیر کی فکر ہر کسی کو ہے ۔یہی ان کی دلچسپیوں کا مرکز ومحور ہے۔ دین کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ ان حالات میں جو جاگ جائیں ، جنہیں ہوش آجائے انہیں چاہیے کہ وہ دوسروں کو بھی جگائیں ۔ جو جاگتے جائیں وہ ایک جماعت میں منظم ہوتے جائیں ۔ فرمایا:
{یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ } ’’جو خیر کی طرف دعوت دے۔‘‘
خیر وہی ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے خیر قرار دیا ۔ اس کی طرف لوگوں کو بلایا جائے ۔ سب سے بڑا خیر قرآن ہے ۔ سورۃ یونس میں فرمایا:
{ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (58)}(یونس)’’ وہ کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
اس قرآن کی طرف لوگوں کو بلایا جائے ۔ تمہاری فلاح اور نجات اب اس قرآن کے ساتھ وابستہ ہے۔جواس کے ساتھ جڑ گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ یہ کامیابی کی ضمانت ہے ۔ مانتے توہم بھی ہیں، قرآن کاصفحہ اگر کہیں گرا ہوا ہوتو ہم اٹھاکرچوم کراوپر رکھتے ہیں ،بعض لوگ عطر وغیرہ بھی لگا دیتے ہیں ۔ اس کی حفاظت اور تکریم بھی کی جاتی ہے ۔ جو لوگ قرآن کی گستاخی کرتے ہیں ان کے خلاف ہم مظاہرے بھی کرتے ہیں لیکن یہی قرآن کہتا ہے کہ سودلینے دینے سے باز آجاؤ لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ یہی قرآن کہتاہے :
{وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(44)}
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ(45)}
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(47)}(المائدہ)
ہم ادھر سے سنتے ہیں ادھر سے نکال لیتے ہیں ۔یہی قرآن کہتاہے کہ چور کاہاتھ کاٹو ہم تلاوت کے لیے اس کو پڑھ لیتے ہیں ۔اللہ اللہ خیرسلّا!قرآن کہتا ہے :
{اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍص}(النور:2) ’’زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد‘دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو‘‘
ہم بس نیکیوں کاحساب کرلیتے ہیں کہ ہرہرحرف پردس نیکیاں ہیں لیکن اس کی تعلیمات پر عمل کتنا ہے ؟ ہم سب کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اے قرآن والو! قرآن کو بس اپنا تکیہ ہی نہ بنا لو۔‘‘
ہم قرآن کوجسمانی لحاظ سے پیٹھ پیچھے نہیں پھینکتے لیکن معنوی لحاظ سےپھینکا ہوا ہے۔ انفرادی واجتماعی دونوں سطحوں پر قرآن کے ساتھ ہمارا یہی سلوک ہے ۔ فرمایا:
{وَیَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط}
 ’’نیکی کا حکم دیتی رہے اور بدی سے روکتی رہے۔‘‘
امربالمعروف اور نہی عن المنکر فرائض کا ایک جوڑا ہے جس کا حکم قرآن میں کم ازکم دس مرتبہ آیاہے۔ اللہ کی شان بھی یہی بیان ہوئی کہ :
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج}(النحل:90) ’’یقیناً اللہ حکم دیتا ہے عدل کا‘ احسان کا اور قرابت داروں کو (ان کے حقوق) ادا کرنے کا‘اور وہ روکتا ہے بے حیائی ‘ برائی اور سرکشی سے۔‘‘
اسی طرح فطرت اورحکمت کا بھی یہی تقاضا ہے۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کونصیحت کی :
’’ اے میرے بچے! نماز قائم کرو‘اور نیکی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو‘‘(لقمان:17)
پھرحضورﷺ کی شان یہ بیان کی گئی جیسے تورات میں آیا ہے :وہ جب آئیں گےتو معروفات کا حکم دیں گے اور منکرات سے روکیں گے ۔اسی طرح صحابہ کرامj کی شان یہ بیان کی گئی ہے :
’’اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں‘یہ سب ایک دوسرے کے ولی ہیں۔وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں‘بدی سے روکتے ہیں۔‘‘(التوبۃ:71)
اس کے بالکل برعکس منافقین کی روش یہ بیان کی گئی کہ : 
’’ منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے میں سے ہیں۔ یہ بدی کا حکم دیتے ہیںاور نیکی سے روکتے ہیں۔‘‘(التوبۃ:67)
ہم اپناجائزہ لے سکتے ہیں کہ ہم نے کون سی روش اختیار کی ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: کیا ہو گا جب تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دو گے ؟صحابہ کرامؓ حیران ہوئے کہ ایسا بھی ہوگا؟آپﷺ نے فرمایا: اس سے آگے کیا ہوگا کہ جب تم منکر کاحکم دو گے اورمعروف سے روکو گے ۔ آج یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔ اگر کوئی نوجوان داڑھی رکھ لے توگھر میں قیامت آجاتی ہے یا کوئی بچی پردہ کرلے تو اس کوکن کن چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے ۔ اگر اللہ کی حاکمیت کی بات کرلی جائے ، قرآن وسنت کی بالادستی کی بات کرلی جائے توایوانوںمیں زلزلہ آجاتا ہے کہ کس زمانے کی بات ہو رہی ہے ۔ سود کے خاتمے کی بات کی جائے تو کہا جاتاہے کہ سود کے بغیر ہماری معیشت کیسے چلے گی ؟ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ سود تھوڑا یاکم ہواس کاانجام قلت ہی ہوتا ہے ۔ آج ہم اس سودی نظام کی بدولت باقاعدہ جزیہ ادا کررہے ہیں ۔سورۃ التوبہ میں فرمایا:{حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ(29)} (التوبۃ) ’’یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ پیش کریں اور چھوٹے (تابع) بن کر رہیں۔‘‘
آج ہم آئی ایم ایف کو جزیہ ادا کررہے ہیں کیونکہ ہم اس کے غلام بن چکے ہیں ۔ یہاں تک کہ ہمارے وزیر اعظم نے بلوں میں کمی کے حوالے سے بڑھک ماردی ، لیکن پھر رجوع کرلیا کیونکہ پتا چل گیا ہم غلام ہیں اور غلام اپنی مرضی نہیں کر سکتا۔ایسے حالات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ہم کیسے ادا کریں ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ(طاقت) سے بدلے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے(منع کرے) اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے(برا جانے)، اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
اگر دل سے برائی کو برا نہیں سمجھتا تو دوسری حدیث میں الفاظ آئے ہیں : ’’اور اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے۔‘‘(صحیح مسلم)
یہ تین نکات یاتقاضے ان تین آیات میں بیان کیے گئے ۔ یہ سہ نکاتی لائحہ عمل ہے ۔یعنی اپنی ذاتی زندگی میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا،اس قرآن کوپوری مضبوطی کےساتھ تھامنا، اس کواپنا ہادی ورہنما بنانا اورپھراس قرآن کی بنیاد پراجتماعیت کاقیام جس کا کام ہوگاامربالمعروف اورنہی عن المنکر ۔ جس کے پاس قوت و اختیار ہے وہ پوری طاقت سے برائی کے خلاف میدان میں آئیں جیسے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایاتھاکہ میرے ہوتے ہوئے دین میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اس طرح جس کے پاس قوت سے روکنے کا اختیار نہیں ہے وہ زبان سے روکے ،اس کی بھی استطاعت نہیں ہے تو دل میں ضرور برائی کو برا جانے ۔ یہ اس اُمت کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ اجتماعی سطح پر بھی اس فریضہ کو پورا کیا جائے اور انفرادی سطح پر بھی کوشش کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سوچ، فکراورا دراک عطا فرمائے اوراس کے مطابق اپنی زندگیوں کو تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین !