اداریہ
ایوب بیگ مرزا
ہندو اور ہندوستان
اُنیسویں صدی سے برصغیر کا ہندو دنیا کو یہ تصور دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہندو ہندوستان میں ایک غالب قوت ہے ۔ آج کا بھارت دنیا کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ ہندوستان آغاز سے ہی ہندوئوں کا ہے ۔ وہی اس کی قسمت کے مالک ہیں اور وہی اس پر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں ۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے بہت مناسب ہوگا کہ ہم مختصر ترین الفاظ میں ہندوستان کی تاریخ بیان کریں ۔ تاریخ واضح کرتی ہے کہ ہندو کبھی ہندوستان کو متحد نہیں رکھ سکا ۔ لہٰذا ہندو کا پورے ہندوستان پر حکومت کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ۔ ہندو اکثر یہ دعویٰ اشوکا کی موریہ سلطنت کی بنیاد پر کرتے ہیںجو 250ق م میں تھی جبکہ تاریخ کے ایک معمولی طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ وہ سلطنت بدھ مت کی سلطنت تھی اور وہ بھی پورے ہندوستان پر محیط نہیں تھی ۔ دکن ، جنوبی ہندوستان ، شمال مشرقی ہندوستان کا ایک بڑا علاقہ ، جنوب مغربی پنجاب کا ایک بڑا علاقہ ، مغربی سندھ اور بلوچستان بھی اس سے باہر تھے ۔ پھر پہلی صدی سے لے کر 12ویں صدی عیسوی تک وسط ایشیا سے آئے ہنوں اور گجروں نے ہندوستان میں مختلف سلطنتیں قائم کیں ۔ اس کے بعد مسلمانوں کا ہندوستان پر غلبہ ہو گیا ۔
ہندوستان کے شمال مغربی پہاڑی سلسلہ کو کوہ ہندوکُش کہتے ہیں ۔ کیونکہ جتنی اقوام نے ہندوستان میں ہندوؤں کی درگت بنائی وہ سب اسی پہاڑی سلسلہ سے ہندوستان میں داخل ہوئیں ۔ مسلمانوں میں سے غزنوی ، غوری ، خاندان غلاماں ، تغلق اور پھر مغل ہندوستان کے حکمران رہے ۔ اگرچہ ہندوستان کی بعض ریاستوں میں ہندو راجے مہاراجے حکمران رہے ۔لیکن پورے ہندوستان پر حکومت کرنا کبھی بھی ہندوؤں کے بس کی بات نہ تھی ۔ ہندوستان تاریخ میں صرف 2ادوار میں متحد ہوا ہے ۔ پہلے مغلوں نے متحدہ ہند پر حکومت کی اور بعد ازاں انگریز پورے ہندوستان کا حکمران بنا ۔
1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں نے کلیدی رول ادا کیا ۔ لہٰذا جنگ میں ناکامی کا سارا نزلہ مسلمانوں پر گرا ۔ انگریز نے مسلمانوں کو بُری طرح کچلنے کا تہیہ کر لیا ۔ ہندوئوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ انہیں مذہب کی بنیاد پر ایک متحرک قوم بننے کی راہ دکھائی وگرنہ ہندوؤ ں کا معاملہ تو یہ تھا کہ صدیوں کی نسل در نسل غلامی نے انہیں ایک ہی بات سمجھائی تھی کہ جو آئے اُس کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاؤ ۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز کے عہد سے پہلے ہندوؤں کی کوئی مزاحمتی، کوئی عسکری تنظیم وجود میں نہ آسکی تھی ۔ کیونکہ مزاحمت تصادم کا خطرہ مول لیے بغیر نہیں کی جاسکتی اور اس وقت ہندو کی یہ سوچ میں بھی نہ تھا ۔ انگریز کے دور میں آرایس ایس بنی اورانگریز کے دور ہی میں ہندو مسلم فسادات شروع ہوئے ۔ ہندو کو چونکہ یہ احساس تھا کہ نہ وہ کبھی بزور شمشیر پورے ہندوستان پر حکومت کر سکا اور نہ بزور بازو آئندہ کبھی پورے ہندوستان کا حکمران بن سکے گا ۔ لہٰذا جب مغرب کو جمہوریت نے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہندوستان بھی اس سے اثرانداز ہونے لگا تو مہاتما گاندھی جیسے لیڈروں نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کے لیے عوامی تحریکیں شروع کر
دیں جن میں سے ’’ہندوستان چھوڑو‘‘ جیسی عوامی تحریک بہت مقبول ہوئی کیونکہ ہندو سمجھ گیا تھا کہ اب ہندوستان پر ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر حکومت ہوگی اور اس کی ہندوستان میں اکثریت ہے ۔ شودر کوکسی بڑی ذات کے ہندو کی عبادت گاہ اور اُس کے بت کے قریب پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں، لیکن ووٹ ہندوؤں کو دیے بغیر اس کا چارہ نہیں۔ لہٰذا ہندوؤں نے آل انڈیا کانگریس کے نام سے 1885ء میں باقاعدہ ایک سیاسی جماعت قائم کر لی جو انگریزوں سے ہندوستان چھوڑنے کا پُرزور مطالبہ کرنے لگی۔ یہی ایک واحد راستہ تھا جس سے ہندو کو تمام ہندوستان پر حکومت کرنے کا تاریخ میں پہلی بار موقع میسر آ رہا تھا۔ اِسی خواہش کی تکمیل کے لیے گاندھی کہتا تھا کہ پاکستان میری لاش پر بنے گا کیونکہ پاکستان کے قیام سے ہند تقسیم ہوتا تھا اور تقسیم ہند کے فیصلے کے بعد بھی جو پاکستان کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ وہ چند سال بمشکل اپنا وجود قائم رکھ سکے گا۔ یہ وہ خواہش تھی جو وقتاً فوقتاً الفاظ کا روپ دھارتی رہی۔
ہندو عسکری لحاظ سے یقیناً ایک نیم مردہ قوم تھی اور شاید اب بھی ہے، لیکن یہ اعتراف لازم بنتا ہے کہ ہندو ایک کامیاب کاروباری ہے۔ بھارت کے معاشی لحاظ سے پاکستان سے آگے نکلنے کی کئی وجوہات ہیں۔ لیکن یقیناً ایک یہ بھی ہے کہ ہندو کو کاروباری معاملات میں مسلمان پر واضح طو رپر برتری حاصل ہے اور آج کی دنیا چونکہ مادہ پرستی کے حوالے سے اپنی معراج پر نظر آتی ہے لہٰذا غیروں کی کیا بات کریں مسلم دنیا نے بھی اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور بھارت سے تعاون کو اپنے مفاد میں سمجھا۔ انتہائی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے چاہے سویلین تھے یا فوجی لوٹ کھسوٹ سے پاکستان کا معاشی دیوالیہ نکال دیا اور پاکستان اقتصادی طور پر مفلوج ہو گیا۔ قرضوں کے انبار کھڑے ہو گئے لہٰذا ملکی اور بین الاقوامی سطح کے فیصلے ملکی مفاد میں نہیں بلکہ قرض خواہوں کی ڈکٹیشن پر ہونے لگے۔
دوسری جانب یورپ اور امریکہ نے بھارت سے تعاون ایک اینٹی مسلم ریاست ہونے کی وجہ سے بھی کیا۔ سوویت یونین کی شکست وریخت سے قبل مغرب ہندو دوست ہونے کے باوجود پاکستان کو دوستی اور محبت کا جھانسہ بلکہ دھوکہ صرف اس لیے دیتا رہا کہ اُس کے سرمایہ دارانہ نظام کو کمیونزم سے خطرہ تھا، جس سے نمٹنے کے لیے وہ پاکستان کو بطور ڈھال استعمال کر رہا تھا۔ لیکن جونہی سوویت یونین اور کمیونزم زمین بوس ہوئے مغرب کا اصل چہرہ سامنے آ گیا اور وہ کھل کر بھارت کا پشت پناہ اور پاکستان کا دشمن بن کر سامنے آگیا۔ نائن الیون کے بعد پھر پانسہ پلٹا پاکستان ایک بار پھر امریکہ اور مغرب کی ضرورت بنا لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے احمق اور اقتدار کے لیے مر مٹنے والے حکمرانوں نے اپنے دشمن کے ہاتھوں استعمال ہونا قبول کر لیا۔
ہمیں یہ بھی اعتراف کرنا ہوگا کہ بی جے پی کی مودی حکومت نے ہندوستان کی سابقہ حکومتوں کی منافقت کا پردہ چاک کیا اور اعلانیہ طور پر کہا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور وہ جلد غیر ہندوؤں کا ہندوستان سے خاتمہ کر دیں گے۔ انہوں نے اس نعرے کو عملی شکل دینے کے لیے ’’مسلمان کا استھان: پاکستان یا قبرستان‘‘ کے نعرہ کو عملی تعبیر دی اور ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ انہوں نے آئینی ترامیم کر کے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا لیا ہے اور وہاں ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ کشمیر اس وقت ایک بڑی جیل کی صورت اختیار کر چکا ہے جہاں لوگ اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نام نہاد سیکولر اور جمہوری ہندوستان کی اعلیٰ عدلیہ اور دیگر ادارے بھی مودی کی مسلمان دشمنی کی پالیسی میں اُس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ جس میں 370 اور 35A کو ختم کر دینے کی مودی حکومت کی 5اگست 2019ء کی واردات کو درست قرار دیا گیا، اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں حکومتی اور ریاستی سطح پر عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں اور بنیادی انسانی اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل چکا ہے۔ ہندوؤں کی موجودہ حکومت عیسائیوں اور دوسرے غیر ہندوؤں کو بھی برداشت نہیں کر رہی۔ انہیں بھی تنگ کیا جا رہا ہے اور پیغام دیا جا رہا ہے کہ بھارت میں جو رہے گا ہندو ہی بن کر رہے گا۔ ہندو کی یہ سوچ اور طرز عمل نیا نہیں ہے۔ ان کی فکر اور سوچ آغازسے ہی یہ ہے کہ کمزورکی گردن پر پاؤں رکھ دو اور طاقتور کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاؤ۔
چین سے سرحدی جھڑپوں اور اس کے بھارتی علاقے پر قبضہ کے باوجود نریندر مودی چین کا نام منہ سے نہیں نکالتا۔ افغانستان میں افغان طالبان کی پیش قدمی پر سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگا ہے۔ لیکن پاکستان کے خلاف جھوٹ پھیلانے اور گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے کے ایسے ریکارڈ قائم کر رہا ہے جن کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔بھارت پوری تگ و دو میں ہے کہ پاکستان کو سیاسی اور سفارتی سطح پرتنہا کر دے اور دنیا پاکستان کی ہر قسم کی امداد بند کر دے۔ مصیبت یہ ہے کہ آج بھی پاکستان میں کچھ لوگ یہ درس دے رہے ہیں کہ بہر صورت پاکستان کو بھارت سے دوستی کا دم بھرنا چاہیے۔ ہم بھارت سے تلخی اور کشیدگی ختم کرنے کے حق میں ہیں لیکن ہمیں ہندو ذہنیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے در حقیقت پاکستان کا وجود مسئلہ ہے وہ ہندوستان کی تقسیم کو آج بھی سیاسی ہی نہیں اپنے مذہب کے نکتہ نظر سے بھی غلط سمجھتا ہےلہٰذا اسلامی جمہوریہ پاکستان کو زندہ اور پائندہ دیکھنے کے لیے اسے ہر سطح پر مضبوط و مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ہندو ذہنیت کے حوالے سے پھر اس بات کا اعادہ کریں گے کہ وہ پاؤں پڑنے والے کو ٹھوکریں مارتا ہے اور گردن دبوچنے والے کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہے۔
قصہ کوتاہ پاکستان اگر زندہ اور قائم رہ سکتا ہے تو صرف مضبوط اور مستحکم ہو کر رہ سکتا ہے۔ ضعف، کمزوری اور زیردستی خودکشی ہے۔کرنے کا کام یہ ہے کہ دوا اور دعا دونوں کی جائیں یعنی ایک طرف اپنے گھر کو درست کیا جائے ملک میں اتحاد، اتفاق، اخوت، بھائی چارے اور برداشت کی فضا قائم کی جائے اور دوسری طرف اپنا قبلہ درست کیا جائے۔ اِس وقت ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور معیشت میں بدترین گراوٹ ہے۔ اِس حوالے سے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ استحکامِ پاکستان درحقیقت پاکستان میں دینِ اسلام کے مکمل نفاذ سے ہی ممکن ہے۔ یہ بات اب مذہبی اور دینی مطالبہ ہی نہیں رہا کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن سرے سے رہا ہی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مصنوعی سہاروں سے نجات حاصل کریں۔ اس ہستی کا دامن پورے خلوص اور مضبوطی سے تھام لیں۔گویا پاکستان میں وہ نظام قائم کردیں جس میں ہمیں کائنات کے مالک اور رب کا سہارا حاصل ہو جائے۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا تمام سہارے سراب ہیں، دجل و فریب ہیں، جو ہمیں ہلاک کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فیصلہ اور پھر استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024