(الہدیٰ) قرآن مردہ دل لوگوں کو نفع نہیں دیتا - ادارہ

6 /

الہدیٰ

قرآن مردہ دل لوگوں کو نفع نہیں دیتا

آیت 80{اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی} ’’البتہ آپؐ مُردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘

یعنی آپؐ کے ان مخاطبین میں سے اکثر لوگوں کے دل مُردہ ہیں‘ ان کی روحیں ان کے دلوں کے اندر دفن ہو چکی ہیں۔یہ لوگ صرف حیوانی طور پر زندہ ہیں جبکہ روحانی طور پر ان میں زندگی کی کوئی رمق موجود نہیں ہے۔ چنانچہ ابو جہل اور ابولہب کو آپ زندہ مت سمجھیں ‘ یہ تو محض چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ اس کیفیت میں وہ آپؐ کی ان باتوں کو کیسے سن سکتے ہیں! میر درد نے اپنے اس شعر میں انسان کی اسی روحانی زندگی کا ذکر کیا ہے: ؎
مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تُو نہ مر جائے کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے!
{وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآئَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ(80)} ’’اور نہ آپؐ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل پڑیں۔‘‘
یعنی ایک بہرا شخص آپ کے رو برو ہو‘ آپ کی طرف متوجّہ ہو تو پھر بھی امکان ہے کہ آپ اشارے کنائے سے اپنی کوئی بات اسے سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں ‘ لیکن جب وہ پلٹ کر دوسری طرف چل پڑے تو اسے کوئی بات سمجھانا یا سنانا ممکن نہیں رہتا۔
آیت 81{وَمَآ اَنْتَ بِہٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِہِمْ ط} ’’اور نہ ہی آپؐ اندھوں کو اُن کی گمراہی سے پھیر کر راہ پر لانے والے بن سکتے ہیں۔‘‘
{اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمْ مُّسْلِمُوْنَ(81)} ’’آپؐ نہیں سنا سکتے مگر صرف انہی کو جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ فرمانبرداری کی روش اختیار کرتے ہیں۔‘‘

درس حدیث

زنگ آلود دلوں کا علاجعَنِ ابْنِ عُمَرَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ: ((إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ كَمَا يَصْدَأُ الْحَدِيدُ إِذَا أَصَابَهُ الْمَاءُ)) قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا جِلَاؤُهَا؟ قَالَ: ))كَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةِ الْقُرْآنِ))(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ دل زنگ آلودہو جاتے ہیں جس طرح لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہو جاتا ہے ۔‘‘ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! ان کی صفائی کس طرح آتی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کی تلاوت کرنا ۔‘‘
تشریح: مطلب یہ ہے کہ گناہ و معصیت کے صدور اور نیکیوں میں غفلت کی وجہ سے دل زنگ آلود ہوجاتا ہے لہٰذا دل کے جلا کا ذریعہ بتایا گیا ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہنے سے دل کو جلا یعنی صفائی حاصل ہوجاتی ہے۔