(اداریہ) پاک افغان تعلقات کی نزاکت - ایوب بیگ مرزا

6 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاپاک افغان تعلقات کی نزاکت

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کبھی بھی اچھے نہ رہے سوائے افغان طالبان کے اُس دورِ حکومت کے جس کے سربراہ ملّا عمر تھے۔ یہ حقیقت بھی عالمی سطح پر مستند ہے کہ اِس بگاڑ کا آغاز افغانستان کی طرف سے اُس وقت ہوا جب اُس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں شمولیت کی سرکاری سطح پر مخالفت کی ، اگرچہ اُس کی ایک واضح وجہ یہ تھی کہ ہمارا پیدائشی طور پر رُخ امریکہ کی طرف تھا اور افغانستان کی حکومت کو سوویت یونین کی سرپرستی حاصل رہی۔ ہم امریکہ کے کھلاڑی بن کر پشاور سے U2 اُڑا کر ماسکو کی جاسوسی کرنے جیسی حرکات کا ارتکاب کرتے رہے اور ماسکو مخالف سیٹو سنٹو جیسے اتحادوں کا حصہ بن کر سوویت یونین کی ناراضی مول لیتے رہے۔ بدلے میں سوویت یونین افغانستان کے حکمرانوں کو ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا۔ اِس بات میں بھی کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ تقسیم ہند کے وقت جو عناصر صوبہ سرحد کا پاکستان کا حصہ نہ بننے کی مہم چلا رہے تھے اور نوبت یہ آگئی کہ انگریز نے صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کروایا کہ آیا وہ پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟ عوام کی اکثریت نے فیصلہ پاکستان کے حق میں دیا، لیکن یہ شکست ذہنی طور پر تسلیم نہ کی گئی، خاص طور پر اینٹی پاکستان تحریک کے سربراہ زندگی کے آخری سانس تک اِسے بھلا نہ سکے اور اُنہوں نے پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہ کیا۔
بہرحال پاکستان کا امریکہ کا پارٹنر بنے رہنے سے اور افغان حکومت کا سوویت یونین کے ہاتھوں میں کھیلتے رہنے سے دونوں ممالک میں کبھی خوشگوار تعلقات پیدا نہ ہو سکے۔ اِس دوران دونوں عالمی قوتوں سوویت یونین اور امریکہ نے افغانستان میں زور آزمائی کی، دونوں بُری طرح ناکام ہوئیں۔ یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہوگا کہ انیسویں صدی میں برطانیہ نے بھی افغانستان میں عملی مداخلت کی لیکن بُری طرح پِٹا۔ لہٰذا یہ بات بڑی صحیح طور پر کہی جاتی ہے کہ افغانستان عالمی سپر قوتوں کا قبرستان ہے۔ سوویت یونین اور امریکہ نے بالفعل افغانستان پر قبضہ کیا جس کے خلاف افغانیوں نے ایسی مزاحمت کی اور دونوں مرتبہ اُس کے ایسے نتائج برآمد ہوئے جو عالمی سطح پر بڑی اور غیر متوقع تبدیلیوں کا باعث بنے۔
سوویت یونین نے جب افغانستان پر قبضہ کیا تو افغانیوں نے ایسی گوریلا جنگ لڑی کہ سوویت یونین نہ صرف سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا بلکہ اُس کا معاشی کباڑا بھی ہوگیا اور وہ ریت کے گھروندے کی طرح بکھر گیا۔ اگرچہ اِس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ سوویت یونین کے اِس حشر میں امریکہ نے پاکستان کے واسطہ سے اہم رول ادا کیا۔ یہاں یہ بات نوٹ کریں کہ سوویت یونین جو اب روس تک محدود ہوگیا ہے، وہ اِس حوالے سے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔
اس جنگ کے کچھ دیر بعد تک خانہ جنگی رہی، پھر افغانستان پر افغان طالبان ملّا عمر کی قیادت میں مضبوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ ایک ایسی حکومت تھی جس نے اسلام کے آغاز میں بننے والی حکومتوں کی یاد تازہ کر دی۔ پھر یہ کہ پاکستان کے ساتھ ایسے مثالی تعلقات قائم ہوئے کہ پاکستان کو شمال مغرب سرحد پر فوج کی تعیناتی کی ضرورت ہی نہ رہی۔ ملّا عمر کی حکومت تیزی سے ایک مکمل اسلامی ریاست کے قیام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ امریکہ اِس سوچ میں مبتلا ہوگیا کہ اگر اس عادلانہ نظام کو دنیا کے کچھ اور ممالک نے بھی اپنا لیا تو سرمایہ دارانہ نظام نے جو دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے وہ شکنجہ ڈھیلا پڑ جائے گا۔ لہٰذا اِس نظام یعنی کیپٹلزم کے رکھوالے حرکت میں آئے اور نائن الیون کا ڈراما رچا کر افغانستان پر حملہ آور ہوگئے۔
امریکہ نے اس حملے میں اُس پاکستان کو دھمکی، لالچ اور فریب سے اپنا حلیف بنا لیا جس نے سوویت یونین کی شکست و ریخت میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ مگر اِس مرتبہ اہلِ پاکستان اور جن کے ہاتھوں میں پاکستان کا اقتدار تھا، اُن میں فکری اور سیاسی ہم آہنگی نہیں تھی۔ مقتدر طبقہ حملہ آور امریکہ کے ساتھ تھا اور عوام جارحیت کے شکار افغانیوں کے ساتھ تھے۔ پاکستان کے مقتدر طبقات ایک تو امریکہ سے خوفزدہ تھے پھر یہ کہ امریکہ نے پاکستان میں ڈالروں کی بارش بھی کر دی تھی۔ لہٰذا امریکی مفادات پر بھی کام ہوتا رہا اور کبھی عوامی حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے دوسرے فریق کی حمایت بھی نظر آجاتی تھی جس پر امریکہ کی طرف سے اظہارِ ناراضگی ہوتا تھا۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ افغان طالبان اتنی بہادری اور بے جگری سے جنگ لڑ رہے تھے کہ امریکہ افغانستان میں صحیح معنوں میں ایک دن بھی چین سے نہ بیٹھ سکا۔ لیکن وہ اپنی بزدلی، نااہلی اور نالائقی کو تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام لگاتا رہا۔ بلاشبہ پاکستان کے بعض حلقے افغان طالبان کی عملی مدد کرتے رہے۔ لیکن پاکستان کے حکمران امریکہ سے بھرپور تعاون کرتے رہے۔ امریکہ بیس سال اپنے تمام مالی اور عسکری وسائل جھونک کر پوری شدت سے جنگ کرتا رہا، لیکن افغان طالبان کو یقیناً اللہ کی مدد حاصل تھی؟ لہٰذا امریکہ کو بالآخر افغانستان سے جان چھڑا کر بھاگنا پڑا۔ البتہ ہر دوسرے روز سینٹ یا ہاؤس آف Representative سے یہ آواز اٹھتی ہے کہ افغانستان میں پاکستان ہماری شکست کا ذمہ دار تھا۔ گویا نہ امریکہ افغانستان سے شکست کا داغ اپنے سینہ سے مٹا سکا ہے اور نہ ہی اِس حوالے سے پاکستان کو معاف کرنے کو تیار ہے۔ لہٰذا امریکہ نئی چال کے ساتھ ہمارے خطے میں مداخلت کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنی شکست کا بدلہ بھی لے سکے اور پاکستان کو بھی کڑی سزا دی جا سکے۔
امریکہ نے یہ سب کچھ کرنے کے لیے پاکستان کے دوست کا روپ دھارا ہے۔ ایک طرف خود بھی کئی معاملات میں پاکستان کی مدد کرتا نظر آرہا ہے۔ (مثلاً IMF سے معاہدہ وغیرہ) اور خلیجی ممالک سے بھی پاکستان کو مالی تعاون دلا رہا ہے۔ اور دوسری طرف ہماری نگران حکومت کو ایسے اقدام اٹھانے پر مجبور کر رہا ہے جس سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بگڑ جائیں اور بگڑتے چلے جائیں۔ مثلاً غیر قانونی طور پر مقیم افغانی ایک ماہ میں پاکستان سے نکل جائیں۔ کسی غیر قانونی کو پاکستان میں رہنے کی اجازت یقیناً نہیں ہونی چاہیے لیکن صرف ایک ماہ وقت دینا ظاہر کرتا ہے کہ ہم صرف اُنہیں تنگ کرنا چاہتے ہیں اور اُنہیں تکلیف دینا چاہتے ہیں۔ پھر خوا مخواہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر ٹیکس لگا دیا گیا۔ مختلف وقفوں سے طورِ خم اور چمن بارڈر بند کیا جا رہا ہے جس سے افغانستان کی تجارت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں جو بھی پاکستان میں دہشت گردی کی واردات ہوتی ہے، تو فوری طور پر کسی قسم کی تحقیقات کے بغیر افغانستان کے ملوث ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔
ہم بھی اِس بات کے حق میں ہیں کہ افغان طالبان کی حکومت کو اینٹی پاکستان عناصر کو نکیل ڈالنا چاہیے اور اگر وہ اِس میں سُستی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو غلط کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ سوال تو بہرحال اٹھتا ہے کہ اگر افغان طالبان پاکستان سے کشیدگی نہیں چاہتے تو پاکستان مخالف عناصر کے خلاف کوئی حتمی اور زور دار قدم کیوں نہیں اٹھایا جاتا۔ ہمارے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ ہم یکطرفہ بیانات اور دھمکیاں دینے اور اقدام کرنے کی بجائے اُن سے رابطہ اور مذاکرات کریں۔ طالبان نے مولانا فضل الرحمٰن کو دورے کی دعوت دے کر مثبت اشارہ دیا ہے۔ یہ باہمی رابطہ اور مذاکرات نجی اور حکومتی دونوں سطحوں پر ہونے چاہئیں اور تعلقات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے دو طرفہ کوششیں ہونی چاہئیں۔
اصل بات یہ ہے کہ اب امریکہ ہم سے ڈبل گیم کر رہا ہے ہمیں یقین ہے کہ اگر امریکہ اور بھارت ٹی ٹی پی کو سنجیدگی سے پاکستان میں کسی قسم کی کارروائی سے روک دیں تو وہ کوئی کارروائی نہیں کر سکیں گے۔ قرائن یہ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ امریکہ ایک طرف اُن کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرواتا ہے، دوسری پاکستان کو کہتا ہے کہ یہ افغانستان کی طرف سے ہوئی ہے۔ آپ افغانستان کے خلاف کارروائی کریں تاکہ تمہارے ملک میں دہشت گردی نہ ہو۔ امریکہ یہ چال بھی چل رہا ہے کہ تحریک ِانصاف کے بانی چیئرمین کی اِس بنیاد پر شدید مخالفت کر رہا ہے کہ وہ امریکہ کو Absolutely Not کہتا تھا۔ لہٰذا نگران حکومت سے اُس کے خلاف بدترین اقدام کروا رہا ہے جس کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ بانی چیئرمین پاکستان اور خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا میں ناقابلِ یقین حد تک مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ اِس صورتِ حال میں اگر امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب کروانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اِس سے فطری اور منطقی طور پر افغان طالبان کی حکومت اور خیبر پختونخوا کی عوام میں ایک قُرب پیدا ہو جائے گا۔ پھر معاملات عمران خان کے ہاتھ سے بھی نکل جائیں گے اور KPK کا پٹھان اِس حوالے سے عمران خان کی بھی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوگا۔ امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا بدلہ چُکانے کے لیے یہ کوشش کرے گا کہ خدانخواستہ پاکستان میں وہ صورتِ حال پیدا ہو جائے جو 1971ء میں پیدا ہوئی تھی کہ ہمارے بنگالی بھائی پاکستان سے تو دور ہوگئے تھے البتہ بارڈر کے دوسری طرف کے لوگوں سے اُن کا قرب ہوگیا تھا۔ وہ پاکستان میں سیاسی لڑائی کو علاقائی عصبیت کی شکل دینے کی کوشش کرے گا۔ 1971ء میں ہم نے یہ غلطی کی تھی کہ الیکشن کروا دینے کے باوجود الیکشن کے نتائج کے مطابق جیتنے والی جماعت کو حکومت نہیں بنانے دی تھی۔ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ کو غیر قانونی قرار دے کر جعلی انتخابات سے ایک حکومت کھڑی کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوئی اور ملک ٹوٹ گیا۔
اب امریکہ کی شہ پر یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح عوام میں مقبول جماعت اور خاص طور پر اُس کے بانی کو انتخابات میں حصہ ہی نہ لینے دیا جائے اور یکطرفہ انتخابات کرا کے عوامی خواہشات کے برعکس ایک حکومت بنا دی جائے جو امریکی مقاصد کو پورا کرے۔ اِس سے ملک میں خوفناک بحران پیدا ہو سکتا ہے اورامریکہ چاہتا بھی ہے کہ ملک میں افراتفری پھیل جائے اور وہ پاکستان کے ایٹمی تنصیبات کے حوالے سے کوئی بھی کارروائی کر سکے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب کرنے اور اُن کے درمیان جنگ جیسے حالات پیدا کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں حالات بگڑتے دیکھ رہا ہے۔ اسرائیل اور حماس کی جنگ ایسی صورت اختیار کر جائے کہ بعض دوسری عالمی طاقتوں کی اُس میں کودنے کا امکان پیدا ہو جائے تو اُس وقت اِس خطے میں پاکستان اور افغانستان کی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرکے پاکستان جو کہ ایٹمی قوت ہے اور اُس کے
پاس ایسے میزائل ہیں جو دور دور تک تباہی پھیلا سکتے ہیں اور جس کی فضائیہ ماضی میں اسرائیل کو اپنی قوت کا مزہ چکھا چکی ہے، اُس ایٹمی پاکستان کو دوسری طرف مصروف کر دیا جائے۔ جو خود اسرائیل کے مطابق اُس کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔