(منبرو محراب) مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی پکار - ابو ابراہیم

6 /

مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی پکار

(تنظیم اسلامی کی مہم)

 

مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، لاہور میںامیرتنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے 15 دسمبر2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ دو ماہ سے جاری ہے اور اس ظلم و ستم میں کوئی کمی نہیں آرہی ۔ یورپ اور امریکہ اس ظلم میں اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کر رہے ہیں، اس کے مقابلے میں مسلمان حکمرانوں کی بے حسی بھی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے ۔ اس موضوع پر کلام ہونا چاہیے اور فلسطین کے مسئلہ کو اجاگر کرنے کا سلسلہ ہر حال میں جاری رہنا چاہیے کیونکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے ۔ اخلاقی اعتبار سے بھی ہماری ذمہ داری ہے ، سب سے بڑھ کر دینی تقاضا بھی ہے کہ ہم اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کے لیے آواز اٹھائیں ۔
اسی تعلق سے الحمدللہ ہمارے ملک کے علماء اور دینی جماعتوں نے 6 دسمبر کو اسلام آباد میں ایک بڑی کانفرنس منعقد کی جس کا بڑا اچھا میسج گیا ۔ اس تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے تنظیم اسلامی نے 15 دسمبر سے 25 دسمبر تک ’’حرمت مسجد اقصیٰ اور ہماری ذمہ داری ‘‘کے عنوان سے ملک گیر مہم چلانے کا عزم کیا ہے جس کا باقاعدہ آغاز لاہور سے پریس کانفرنس کے ذریعے ہو چکا ہے ۔ اس مہم کے دوران ملک بھر میں آگاہی لٹریچر تقسیم کیا جائے گا ، سوشل میڈیا پر غزہ کے مسئلہ کو اجاگر کرنے کے لیے بھرپور مہم چلائی جائے گی ، ہر ذریعے اور ہر سطح پر پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کو توجہ دلانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی ۔ یقیناً کرنے کےکچھ بڑے کام بھی ہیں، ان کی طرف بھی توجہ دلانا مقصود ہے۔ لیکن جس کے بس میں جو کچھ ہے وہ اتنا تو کریں جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
{لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَاط}(البقرۃ:286) ’’اللہ تعالیٰ نہیںذمہ دار ٹھہرائے گا کسی جان کو مگر اس کی وسعت کے مطابق۔‘‘
سورۃ الملک میں فرمایا :
{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:2)’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
ہرانسان کا اس دنیا میں امتحان ہو رہا ہے ۔ کبھی قرآن کریم یہ بھی فرماتا ہے:
{وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃًطوَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(35)} (الانبیاء) ’’اور ہم آزماتے رہتے ہیں تم لوگوں کو شر اور خیر کے ذریعے سے۔اور تم سب لوگ ہماری ہی طرف لوٹا دیے جائو گے۔‘‘
یہ بدلتے حالات، کبھی اچھے، کبھی برے، کبھی عروج، کبھی زوال، کبھی صحت، کبھی بیماری، کبھی خوشحالی، کبھی تنگ دستی، کبھی امن، کبھی جنگ، یہ سب ہمارے امتحان کے لیے ہیں ۔اس امتحان کے بعد اللہ کی طرف لوٹنا ہے ۔ رزلٹ وہاں سامنے آئے گا۔ آج اگر صہیونی نہتے فلسطینیوں کا لہو بہا رہا ہے اور امریکہ ، یورپ اور بھارت اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں تو ان کی فائل بھی تیار ہورہی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں سے کچھ طبقات اس ظلم پر خاموش رہ کر گویا ظالم کو تقویت دے رہے ہیں تو ان کا یہ سارا عمل بھی ریکارڈ ہو رہا ہے ۔ حق و باطل کی جنگ ازل سے جاری ہے ، اس دنیا نے بڑی جنگیں دیکھیں ، بڑے ظلم و ستم دیکھے ، وہ وقت بھی گزر گیا ، یہ بھی گزر جائے گا لیکن آج ہم جو لوگ موجود ہیں ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس کی سائیڈ پر کھڑے ہوئے ہیں ۔ یہی ہمارا امتحان ہے ۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کبھی فرماتا ہے : 
{وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ(3)} (العنکبوت) ’’اورہم نے تو ان کو بھی آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے‘پس اللہ ظاہر کر کے رہے گا اُن کو جو سچّے ہیںاور اُن کو بھی جو جھوٹے ہیں۔‘‘
اورکبھی منافقین کی روش کو کھول کر بیان کرتا ہے۔
{ وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ (11)}(العنکبوت)’’ اور ظاہر کر کے رہے گا منافقین کو بھی۔‘‘
آج اس پیرائے میںاگر ہم دیکھیں تو ایک طبقہ اسی روش پر ہے ۔ امریکہ ، یورپ تو کھل کر ظلم کا ساتھ دے ہی رہے ہیں لیکن وہ انسانی حقوق کی تنظیمیں جو کتے بلیوں پر ظلم ہو جائے تو آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں لیکن انہیں غزہ میں معصوم بچوں کا بہتا ہوا لہو نظر نہیں آرہا ، یہاں تک کہ ہسپتالوں پر بمباری کی جارہی ہے ، ہسپتالوں سے گھسیٹ گھسیٹ کر زخمی بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو باہر پھینکا جارہا ہے ۔ اسی طرح مسلمان حکمران ہیں : کبھی افغانستان کے خلاف انہوں نے ساتھ دیا ، کبھی لیبیا کے خلاف ، کبھی عراق کے خلاف ظالم قوتوں کا ساتھ دیا ۔ آج غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموش ہیں ۔ دنیا کے اس امتحان میں میں اور آپ کہاں کھڑے ہیں ہمیں اپنی گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا چاہیے ۔
دنیا کے اس امتحان میں اللہ تعالیٰ کبھی ظالموں کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرتاہے ، کبھی منافقوں کی منافقت بھی سامنے لے آتاہے ، اسی طرح کبھی کمزوروں کو کھڑا کرکے ان کے ذریعے ظالموں کو سبق بھی سکھا دیتا ہے ۔ جیسے حماس کے ذریعے اس وقت اسرائیل کا نقاب پوری دنیا میں اُتر چکا ہے ۔ پوری دنیا میں اس وقت اسرائیل پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں ۔ بہت کچھ سبق ہے جو اس اُمت کو بھی مل رہا ہے۔ خاص طور پر جہاد کا سبق جو بالکل بھلا دیا گیا تھا اسے ایک بار پھر یاد کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسلام میں جہاد کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ قرآن کی اس آیت سے لگایا جا سکتا ہے ۔ فرمایا : 
’’(اے نبی ﷺ ان مسلمانوں کو) بتا دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیارے ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیجے اور اللہ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔‘‘( التوبہ :24)
یہاں اللہ تعالیٰ نے آٹھ محبتیں بیان فرمائیں جو انسان کی بنیادی محبتیں ہیں ۔ ایک طرف یہ ہیںاور دوسری طرف اللہ رسول ؐ اور جہاد ہے ۔ اب ہمارا یہ امتحان ہو رہا ہے کہ ہمارا جھکاؤ کس طرف ہے ؟غزوہ تبوک کے موقع پر فصلیں تیار تھیں ، کاروبار کا بھی سیزن تھا مگرجب جہاد کا حکم آگیا تو سب کچھ چھوڑ کر جانا پڑا ۔ رشتے ناتے، تجارت، گھر بار ممنوع نہیں ہیں ۔ ان رشتوں سے حسن سلوک کا تقاضا قرآن میں کیا گیا ہے ، حلال کمانے کی ترغیب دین نے دی ہے، زکوٰۃ فرض ہے مگر بندہ تب ہی دے سکتاہے جب وہ کچھ کمائے گا ۔ مگر ان سب چیزوں کو ضرورت کے طور پر اپنانا ہے ۔انہیں مقصود زندگی بنالینا ، ان کے پیچھے پڑ کر اللہ کے احکام کو پامال کرنا ، اللہ کے نبی ﷺکی تعلیم کو پامال کرنا ،اللہ کے دین سے بےوفائی کرنا ، حتیٰ کہ اللہ کے دین کا سودا کرنا ایسا طرزعمل ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺسے بے وفائی کے مترادف ہے ۔ہمارے استاد محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھےکہ اپنے باطن میں ایک ترازو بناؤ ۔اس ترازو کے ایک پلڑے میںان آٹھ محبتوں کو رکھواور دوسرے پلڑے میں یہ تین محبتیں (اللہ ، اس کے رسولؐ اور جہاد )رکھو اور ایمانداری کے ساتھ چیک کرو کون سا پلڑا بھاری ہے ۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّـلّٰہِ ط} (البقرۃ:165) ’’اور جو لوگ واقعتاًصاحب ِایمان ہوتے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘
پھر اللہ کی محبت کے بعد رسولﷺ کی محبت ہے۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیںکہ تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتاجب تک کہ میں تمہارے نزدیک تمہارے والدین، تمہاری اولاد اور سارے انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔ یہ اصولی معاملہ ہے اور اس کی عملی شکل اور عملی اظہار اللہ اور اس کے رسولﷺ کے راستے میں جہاد ہے ۔ اگر ان آٹھ محبتوں کی وجہ سے ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے راستے میں جہاد نہیں کر رہے تو پھر ہمارے لیے وعیدہے : 
’’ تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیج دے اور اللہ نافرمانوں کو راستہ نہیں دکھاتا۔‘‘ (التوبہ: 24)
اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کے دعوے تو ہم سب ہی کرتے ہیں ، ہمارے حکمران اور مقتدر طبقات بھی کرتے ہیں ،لیکن کسی کے ماتھے پر نہیں لکھا ہوتا یہ واقعی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے ، اس کا پتا اس سے چلے گا کہ کون اللہ اور اس کے رسول ﷺکے راستے میں جہاد کرتاہے ۔ اللہ کی بندگی کے لیے جہاد، اللہ کے دین کی دعوت دینے کے لیے جہاد ، منکرات سے بچنے کے لیے جہاد ، منکرات کے خلاف جہاد، اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے جہاد ، یہ سب اگر ہماری زندگی میں شامل ہے تو پھر واقعی ہمیں اللہ اور اس کے رسول سے ﷺ سے محبت ہے ۔ پھر اسی جہاد کی ایک شکل قتال بھی ہے ۔یہ قتال کیوں ضروری ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ حکم دیتاہے : 
{وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَـکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلہِ ج }(الانفال:39) ’’اور (اے مسلمانو!) ان سے جنگ کرتے رہویہاں تک کہ فتنہ (کفر) باقی نہ رہے اور دین کل کا کل اللہ ہی کا ہو جائے۔‘‘
اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے ہی اللہ نے اپنے آخری رسولﷺ کو بھیجا ۔ فرمایا : 
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:9)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
اس غلبہ دین کی جدوجہد کے دوران غزوئہ بدر ، احد ، خندق ، تبوک جیسے میدان سجے اور 259صحابہ کرامj نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ،پھر خلفائے راشدین کے دور میں بھی اللہ کے دین کے لیے قتال کا عمل جاری رہا ، یہاں تک کہ صرف جنگ یمامہ میں 1200 صحابہ شہید ہوئے ۔ اسی طرح لاکھوں صحابہ کرام ؓ نے دنیا کے مختلف خطوں  میں غلبہ دین کی جدوجہد میں اپنی جانیں  دیں ۔اسی طرح  اللہ تعالیٰ اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں ، بہنوں کی مدد کے لیے بھی قتال کا حکم دیتا ہے ۔ سورۃ النساء میں فرمایا:
’’اور کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی حمایتی کر دے اور ہمارے لیے اپنے ہاں سے کوئی مددگار بنا دے۔ ‘‘(النساء:75)
آج اس جہاد اور قتال میں کیا رکاوٹیں درپیش ہیں کہ لیبیا میں جب باطل قوتیں مسلمانوں کے قتل عام کے لیے جمع ہوئیں تو مسلم حکمرانوں نے باطل قوتوں کا ساتھ دیا ۔ عراق اورافغانستان میں مسلمانوں کے قتل میں بھی مسلم حکمرانوں نے باطل قوتوں کا ساتھ دیا ۔ آج تمام باطل قوتیں غزہ کے محصور مسلمانوں کی نسل کشی میں اسرائیل کا ساتھ دے رہی ہیں ۔ کتنے مسلمان حکمران ہیں جو فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ؟ مذمتی بیانات تو عوام بھی دے رہے ہیں ، اگر حکمران بھی صرف مذمتی بیانات تک محدود ہیں تو عوام میں اور ان میں کیا فرق رہ گیا ۔ حالانکہ آپ کے پاس طاقت ہے ، اختیار ہے ، ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ فوراً اسرائیل پر حملہ کردیں ۔ کم ازکم سفارتی سطح پر تو کوئی بات کریں ، تجارتی بائیکاٹ تو کم ازکم آپ کر سکتے ہیں ۔ اسی طرح عوام کے کرنے کا جو کام ہے کم ازکم وہ تو کریں ۔ لندن میں آٹھ لاکھ لوگوں نے مظاہرہ کیا جن میں زیادہ تر غیر مسلم تھے ۔ انہوںنے پوری امت مسلمہ کے منہ پر تھپڑ مارا ہے کہ پونے دوارب مسلمان دنیا میں ہیں اور اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنے کتنے نکلتے ہیں ۔
زیر مطالعہ آیت کی روشنی میں ہم اپنا جائزہ لیں کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے راستے میں جہاد کا پلڑہ بھاری ہے یا ہماری زندگیوں پر وہ آٹھ محبتیں حاوی ہیں ۔ اگر یہ آٹھ محبتیں ہم پر حاوی ہیں تو پھر اللہ کے فیصلے کا انتظار کریں اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ یہ اس آیت میں اللہ نے بتا دیا ۔
دوریاستی حل
فلسطین کے دو ریاستی حل کے حوالے سے ہمارے نگران وزیر اعظم نے بھی بیان دیا ہے ۔ اس حوالے سے ہم یاددہانی کروانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی پالیسی اس حوالے سے کیا تھی ۔ قائد اعظم نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے۔ شروع سے ہی پاکستان اس پالیسی پر قائم رہا ہے ۔ دوریاستی حل کو قبول کرنے کا مطلب ہوگا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے اور اس نے اپنی پوری تاریخ میں جتنے بھی ظلم مسلمانوں پر کیے ہیں انہیں فراموش کر دیا جائے ۔ اگر انسانی بنیادوں پر بھی دیکھا جائے تو ایک ظالم کو قبول کرلینا درست نہیں ہے ۔ قائداعظم کا مؤقف اس حوالے سے کلیئر تھا لیکن آج ہمارے کچھ مفاد پرست لوگ دوریاستی حل کی باتیں کررہے ہیں ۔ فرض کریں اگر دو ریاستیں بن بھی گئیں تو کیا فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ رک جائے گا ؟ ہرگز نہیں ۔ موجودہ فلسطینی اتھارٹی کی حالت ہمارے سامنے ہے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں سب کے سامنے گریٹر اسرائیل کا نقشہ لہرایا ہے، وہ تو نیل سے فرات تک کی باتیں کررہے ہیں ، یعنی اسرائیلی تو اس پورے خطے میں کسی بھی دوسری ریاست کو قبول نہیں کررہے اور ہمارے دانشور اور حکمران کس دھوکے میں ہیں ۔ قرآن و سنت کی رو سے بھی دیکھا جائے تو فلسطین یا بیت المقدس پر حق صرف مسلمانوں کا ہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے معراج کے دوران تمام انبیاء کرامf کی امامت مسجد اقصیٰ میں  کروائی ، یہ واضح دلیل ہے کہ اب بیت المقدس کا انتظام مسلمانوں کے پاس رہے گا ۔ ان تمام حقائق کی رو سے اسرائیل کا وجود ایک ناجائز ریاست کا ہے جو اللہ کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے ، پاکستان کی پالیسی کے بھی خلاف ہے اور انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے ۔
پاکستان کیوں اہم ہے ؟
6 دسمبر کواسلام آباد میں کانفرنس ہوئی۔اس میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کا بھی ایک ویڈیو میسج چلایا گیا۔ شاید وہ سوشل میڈیا پر آنے سے روک دیا گیا ہے ۔ البتہ اخبار میں یہ بات ضرور آئی کہ حماس کےسربراہ نے کہا اگر پاکستان کوئی آواز بلند کرے تو اسرائیل رک سکتا ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کا اصل دشمن پاکستان ہے ۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ ہمارا اصل نظریاتی دشمن پاکستان ہے ۔ عرب ممالک تو اسرائیل کے سامنے بچھ گئے ہیں ، ان میں کوئی جواب دینے کی صلاحیت ہی نہیں ہے ۔ پاکستان کے پاس ایٹمی قوت ہے ، میزائل ٹیکنالوجی ہے ، یہ اگر اسرائیل کو روکے تو وہ ظلم سے رک جائے گا ۔ ماضی میں بھی فلسطینی بچے اسرائیلیوں کے ہاتھوں ذبح ہوتے تھے تو وہ پاکستان کو پکارتے تھے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمان حکمرانوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنا مسلمان عوام کا کام ہے ۔ عوام حکمرانوں کو احساس دلائیں  گے تو شاید وہ کچھ اقدام کریں گے ۔ عوام کی طرف سے آواز بلند ہونی چاہیے ۔ اسی سلسلہ میں تنظیم اسلامی کی طرف سے یہ مہم شروع کی جارہی ہے ۔ اس تعلق سے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی دینی جماعتیںاور پاکستانی عوام مل کر حکمرانوں کے سامنے مطالبہ رکھیں جو کہ ہمارا دینی تقاضا ہے ۔پاکستان کی ایک مستقل پالیسی بھی ہے اس حوالے سے بھی یاددہانی کروائیں ۔ بحیثیت امتی ہماری ذمہ داریوں کا بھی احساس دلائیں ۔حکمرانوں کو غیرت کا احساس دلائیں۔ حکمران چاہیں تو اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھا سکتے ہیں ، تجارتی تعلقات منقطع کر سکتے ہیں ، اسرائیل کے خلاف اپنے ایئر سپیس بند کرسکتے ہیں ، مصنوعات کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں ۔او آئی سی کے چارٹر میں یہ بات موجود ہے کہ مسلمان ممالک فلسطینیوں کی عسکری مدد کریں ۔ اپنی اس مہم کے دوران میں ان شاء اللہ ان تمام اقدامات کی ضرورت اور اہمیت کواجاگر کریں گے ۔ عالم اسلام کے جید علماء نے بھی فتویٰ دے دیا ہے کہ فلسطینیوں کی مدد کے لیے اور مسجد اقصیٰ کی حرمت کی حفاظت کے لیے مسلمانوں پر جہاد اور قتال فی سبیل اللہ فرض ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تمام امور میں عملی قدم اٹھانے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین یا رب العالمین !