مسلمان ممالک کے حکمران اور مقتدر طبقات فلسطینی مسلمانوں کی سفارتی،
سیاسی اور مالی مدد کے ساتھ عسکری مدد بھی کریں۔ (شجاع الدین شیخ)
طوفان الاقصیٰ نے ثابت کر دیا ہے کہ قوتِ ایمانی اور اللہ پر بھروسا
کرکے آج بھی جدید ٹیکنالوجی اور اسلحہ سے لیس باطل قوتوں کو
بھرپور انداز میں للکارا جا سکتا ہے۔ (ڈاکٹرخالد قدومی)
آج پوری دنیا غزہ میں ایک نئی تاریخ رقم ہوتے دیکھ رہی ہے اور فلسطین کے
بچے بچے کا یہ نعرہ ہے کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ (آصف لقمان قاضی)
صہیونی گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے غزہ
کے بعد دیگر مسلمان ممالک کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ (ایوب بیگ مرزا)
تنظیم اسلامی ’’حرمتِ مسجدِاقصیٰ اور ہماری ذمہ داری‘‘ مہم اور اس موضوع پر
سیمینار کا انعقاد کرکے فرضِ کفایہ ادا کر رہی ہے۔(سجاد میر)
مسلمان حکمران مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے بیانات نہیں
عملی اقدامات کریں۔(برگیڈیئر (ر) جاوید احمد)
سیمیناررپورٹ:’’ لہو لہو فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ کی پکار ‘‘زیر اہتمام تنظیم اسلامی پاکستان
تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام ’’ لہو لہو فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ کی پکار ‘‘ کے عنوان سے سیمینار 17 دسمبر 2023ء کوگرینڈ ایمپائر مارکی لاہور میں منعقد ہوا ۔ پروگرام کا آغاز صبح 30:10 بجے ہوا۔پروگرام کے آغاز میں تنظیم اسلامی کے حلقہ لاہور شرقی کے امیر نور الوریٰ نے تلاوتِ قرآن پاک کی سعادت حاصل کی اوررفیق تنظیمِ اسلامی شفیق بیگ چغتائینے نعت رسول مقبولﷺ پیش کی۔ پروگرام میں نامور مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کی تفصیل ذیل میں ہے:
اپنے صدارتی خطبہ میں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخنے کہا کہ قضیہ فلسطین پوری امتِ مسلمہ کا معاملہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس کے مجاہدین اس وقت باطل قوتوں کے خلاف مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت اور امتِ مسلمہ کے بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین دینی و تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ پون صدی سے جاری صہیونی ظلم و جبر کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد اسرائیل کی غزہ میں درندگی کا یہ عالم ہے کہ مظلوم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو مسلسل بمباری کرکے شہید کیا جارہا ہے۔ مغرب جس کے سرخیل امریکہ اور برطانیہ ہیں وہ فلسطینی مسلمانوں کی اس نسل کُشی میں اسرائیل کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں اور اسرائیل کے انسانیت کے خلاف جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔ عالم عرب میں علماء اس مسئلہ پر بات تک نہیں کر سکتے جو کہ مسلمانوں کی بے بسی کا ثبوت ہے۔در اصل یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سےمسلمانوں کاا متحان ہے کہ وہ ظالموں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں یا مظلوموں کی آواز بنتے ہیں۔آج مسلمان اس لیےبے بس اور محکوم ہیں کہ اِنہیں زندگی سے محبت ہے اور موت سے نفرت ہے۔مسلمان جب بھی اللہ کے دین سے بےوفائی کریں گے تو وہ ذلیل ہوںگے اور جب اللہ کی راہ میں مخلص ہوکر جدوجہد کریں گے تو اللہ ہماری نصرت کرےگا۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت کو معلوم نہیں کہ قائداعظمؒ کے فرموداد کی روشنی میں قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پاکستان کی اسرائیل کے حوالے سے انتہائی واضح پالیسی، جو مستحکم دینی بنیادوں پر قائم ہے، بنا دی گئی تھی۔ اُس پالیسی کے مطابق فلسطین میں دو ریاستی حل کی بات کرنا ناجائز صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے اور اللہ سے سرکشی کے مترادف ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ فلسطینی مسلمانوں کی استقامت درحقیقت قوی ایمان اور اللہ پر توکل کا نتیجہ ہےاور مجاہدین نے اللہ کی مدد سے اسرائیل کا نا قابل تسخیر ہونے کا سحر توڑ دیاہے۔ مسلمان ممالک کے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کو فلسطینی مسلمانوں کی سفارتی، سیاسی اور مالی مدد کے ساتھ ساتھ عسکری مدد بھی کرنا ہوگی۔ یہ ہماری غیرتِ ایمانی کا تقاضا ہے۔
سینئر رہنما حماس اور حماس کے مغربی ایشیا اور پاکستان کے ترجمان ڈاکٹر خالد قدومی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈاکٹراسرار احمدؒ پوری امتِ مسلمہ کے اس لحاظ سے بھی محسن ہیں کہ اُنہوں نے مسجد ِاقصیٰ کی تاریخ اور صہیونیوں کے مذموم ایجنڈا کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ 7اکتوبر 2023ء کا دن تاریخِ فلسطین میں ایک فیصلہ کن دن کی حیثیت رکھتا ہے جب پون صدی کے ظلم و جبر کے خلاف فلسطینی عوام اُٹھ کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دے کر اُس کے ناقابلِ شکست ہونے کے جھوٹے تاثر کو ختم کر دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ کے معرکہ نے ثابت کر دیا ہے کہ قوتِ ایمانی اور اللہ پر بھروسا کرکے آج بھی جدید ترین ٹیکنالوجی اور اسلحہ سے لیس باطل قوتوں کو بھرپور انداز میں للکارا جا سکتا ہے۔ پوری دنیا کے عوام اس وقت فلسطین کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ باطل کے سامنےخاموش رہیں گے یاعملاً حق کا ساتھ دیںگے۔ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور اُس کا وزیراعظم نیتن یاہوایک ظالم اور کرپٹ انسان ہے جو عدالتوں سے مفروربھی ہے۔ مسلمان و غیر مسلم ممالک میں اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ لیکن دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمران مظلوم فلسطینیوں کے لیے کھل کر آواز بھی نہیں اُٹھا پا رہے ہیں چہ جائے کہ یہ کہ اُن کی کوئی عملی مدد کریں۔ مصر کا رفاح بارڈرابھی تک بند ہے اور غزہ میں اس وقت خوراک اور پانی کی شدید قلت ہے۔ حماس کے مجاہدین مشکلات کے باجود صہیونی فوجیوں کی نیندیں حرام کررہے ہیں اوروہ وقت دُور نہیں جب اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے نابود کرکےمسجد اقصیٰ میں فتح کی نماز ادا کریں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر فلسطین کے مسلمانوں اور مجاہدینِ حماس کا کم از کم سیاسی و سفارتی سطح پر مکمل ساتھ دیں۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی ناظم نشر واشاعت تنظیم اسلامی ایوب بیگ مرزا نے کہا کہ مسئلہ فلسطین ا ور مسجدِاقصیٰ کی حرمت کا معاملہ سابقہ اُمتِ مسلمہ اور موجودہ اُمتِ مسلمہ کے درمیان حتمی معرکہ کی اہم کڑی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود آج ابلیس کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں اور اللہ سے سرکشی اور بغاوت پر اُترے ہوئے ہیں۔بنی اسرائیل کی سرکشی اور بدعہدی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں اُمت مسلمہ کے منصب سے معزول کیا اوراُمت محمدیؐ کو یہ منصب عطا ہوا۔ آج یہود اِسی حسد کی وجہ سے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ بدترین درندگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اُن کا اگلا ہدف دیگر مسلمان ممالک ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے آج تک یہودیوں کے نزدیک اسلامی ایٹمی پاکستان گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ گریٹراسرائیل کا منصوبہ آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل صہیونیوں کے اکابرین نے پیش کیا ،پھر 1917ء میں برطانیہ کی حمایت سے بالفورڈکلیریشن کے تحت یہودیوں کو دنیا بھر سے لا کر ارضِ مقدس میں آباد کیا ۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کیا اور گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا۔ اوراُن کے اِس منصوبے میں آج تک ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ 1967ء میں مسلمانوں کو اپنی نااہلی، کوتاہی اور بزدلی کی وجہ سے اسرائیل کے خلاف شرمناک شکست ہوئی۔ 7 اکتوبر کے طوفان الاقصیٰ نےکچھ مسلمان ممالک کے معاشی مفادات پر ہونے والی اسرائیل دوستی کے خواب کو چکنا چور کردیا۔فلسطینی مسلمانوں کی استقامت اورہمت کسی معجزہ سے کم نہیں کہ ناگفتہ بہ حالات کے باجود ظالم صہیونیوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔بعض حلقوں سے دو ریاستی حل کی بات آرہی ہے، دو ریاستی حل مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہےکیونکہ ارضِ مقدس مسلمانوں کا مذہبی ورثہ ہے اورمسلمان وہاںصہیونی ریاست کے قیام کو تسلیم نہیں کرسکتے۔پاکستان سمیت پوری امتِ مسلمہ کی اب یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گفتار کے غازی بننے کی بجائے میدانِ عمل میں آکر اسرائیل کا ہاتھ روکیں ورنہ دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جماعت ِ اسلامی کے ڈائریکٹر امورِ خارجہ آصف لقمان قاضی نے کہا کہ آج پوری دنیا غزہ میں ایک نئی تاریخ رقم ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے اور یہ واقعات تاریخ کا رُخ موڑنے والے ثابت ہوں گے۔ پون صدی سے صہیونی درندگی کا شکار فلسطینی قوم عزیمیت اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس اسرائیل کے خلاف برسر پکار ہے جسے مغرب کے ظالمانہ نظام کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ دوسری طرف فلسطین کے بچے بچے کا یہ نعرہ ہے کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ غزہ میں انسانی حقوق کے تمام بین الاقوامی معیارات کو روندتے ہوئے مسلسل بمباری کی جا رہی ہے جبکہ امتِ مسلمہ کے حکمران اور مقتدر طبقات خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ وزیراعظم پاکستان اور پھر اپنے دورۂ امریکہ کے دوران آرمی چیف نے کس فورم پر مشاورت کے بعد دو ریاستی حل کی بات سامنے رکھی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ عوام کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کریں ۔
حقیقت یہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے پہلے بھی فلسطین کے مسلمانوں پر اسرائیل کا ظلم جاری تھا اور پوری دنیا تماشائی بنے بیٹھی رہی بلکہ کئی اہم مسلمان ممالک تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی طرف بڑھ رہے تھے۔فلسطینی بچوں نے اپنےپاک لہو سےمظلوم اقوام کوسامرآجی قوتوں سے آزادی کاراستہ دکھا دیا ہے اور دنیا کو بتادیاہے کہ غزت کی شہادت غلامی کی زندگی سے بہتر ہے۔ ماضی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے مسلمان ممالک کو نقصان ہی اُٹھانا پڑا۔ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اُن کو اپنے ہر عمل اور فیصلہ کا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں حساب دینا ہوگا۔
معروف دانشور اور کالم نگار سجادمیر نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور غزہ کے مسلمانوں کے حق میں امریکہ اور مغربی ممالک میں بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔اُمت مسلمہ کو پاکستان سے توقعات ہیں لیکن پاکستان میں اُس سطح کا عوامی احتجاج سامنے نہیں آیا۔ ماضی میںخلافت عثمانیہ کے آخری دور میں مسلمانوں کی اجتماعیت انتہائی کمزور ہوچکی تھی لیکن اس کے باوجود اُنہوں نے صہیونیوں کو فلسطین کی سرزمین کومیلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیامگرآج مسلمان حکمران چُپ ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ تنظیم اسلامی ’’حرمتِ مسجد ِاقصیٰ اور ہماری ذمہ داری‘‘ مہم اور اس موضوع پر سیمینار کے انعقاد کے ساتھ وہ فرضِ کفایہ ادا کر رہی ہے جو مسلمانانِ پاکستان سمیت پوری امتِ مسلمہ کے لیے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے۔کیایہ وقت آ گیاہے کہ مسلمان اپنے ملکوں میں بھی فلسطین کے لیے آواز نہیں بلند کرسکتے؟ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ 39 مسلمان ممالک کی وہ فوج جو چند سال قبل بنائی گئی تھی اور پاکستان کے ایک سابق آرمی چیف کو اُس کا سربراہ بنایا گیا تھا آج کہاں ہے؟ اُنہوں نے زور دے کر کہا کہ ہر شخص کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ایکس سروس مین ادارے کے ترجمان برگیڈیئر (ر) جاوید احمد نے کہا کہ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوںگے۔ جب ہم فلسطین کے مسلمانوں کی مدد نہیں کریں گے تو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کس طرح بات کرسکیں گے۔اُمت مسلمہ صرف مذمتی بیانات دے کر اپنے فرائض سے سبکدوش نہیں ہوسکتی بلکہ اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوںگے۔ اگر مسلمان ممالک مل کر ظالم صہیونیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کردیں تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسجد و منبرسے حکمرانوں پر دباؤ ڈالا جائے شاید ان کی غیرت جاگ جائے۔
تنظیم اسلامی کے سینئررفیق عبدالرزاق نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیئے۔پروگرام کے دوران رفیق تنظیمِ اسلامی سہیل مرزا نے ایک نظم کے اشعار فلسطین کے مسلمانوں کے نام کیے۔ سیمینار میں رفقاء تنظیم کے علاوہ مرد و خواتین کی بڑی تعداد شریک رہی۔خواتین کی باپردہ شرکت کا اہتمام تھا۔ پروگرام کا اہتمام دوپہر 15:1 بجےہوا اور صدر مجلس امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ نے فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے خصوصی دعا فرمائی۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024