(زمانہ گواہ ہے) مسلمانوں کے خلاف اسرائیل اور انڈیا کا گٹھ جوڑ - محمد رفیق چودھری

6 /

غزہ کی جنگ کو کسی بڑی جنگ کی طرف جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ،اسماعیل ہنیہ

نے صحیح کہا ہے پاکستان اگر چاہے تو جنگ رُک سکتی ہے : ایوب بیگ مرزا

بھارتی مسلمانوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ متحد ہو جائیں اور باقی اقلیتوں 

کو بھی اپنے ساتھ ملائیں ، سب مل کر فسطائیت اور نسل پرستی کے BJP کے

ایجنڈے کے خلاف آواز بلند کریں : رضاء الحق

مسلمانوں کے خلاف اسرائیل اور انڈیا کا گٹھ جوڑ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال: بھارتی سپریم کورٹ نے نریندر مودی کی پوری طرح حمایت کرتے ہوئے 5 اگست 2019ء  کی آئینی ترمیم کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے جس میں کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کر دیا گیا تھا ۔ اس پر آپ کیا تبصرہ فرمائیں گے ؟
رضاء الحق: مسئلہ کشمیر شروع دن سے حل طلب رہا ہے ۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدہ کے مطابق بھی یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق وہاں استصواب رائے ہونا تھا کہ کشمیر ی عوام فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں یا انڈیا کے ساتھ۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-Aکے مطابق بھی کشمیر بھارت کا مستقل حصہ نہیں تھا بلکہ اس کو سپیشل سٹیٹس حاصل تھا جس کے مطابق بعض معاملات میں کشمیریوں کو اختیار تھا کہ وہ اپنے فیصلے خود کریں ۔ اگرچہ اس کی خلاف ورزی شروع دن سے بھارت کر رہا تھا اور وہاں 9 لاکھ فوج تعینات کر رکھی تھی جس کے ذریعے وہ کشمیریوں کی نسل کُشی بھی کررہا تھا اور ہر طرح کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی کر رہا تھا لیکن اس کے باوجود آرٹیکل 370 اور 35-Aکے ہوتے ہوئے بھارت نہ تو مقبوضہ کشمیر کو ضم کر سکتا تھا اور نہ ہی مقبوضہ کشمیرمیں ہندوؤں کو آباد کر سکتا تھا۔ 5 اگست 2019ء  کو کشمیر کا یہ سپیشل سٹیٹس ختم کرکے مودی نے جموں، وادی اور لداخ کو بھارت میں ضم کر لیا اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کے حقوق غصب کرتے ہوئے وہاں اسرائیل کے طرز پر ہندوآبادکاری بھی شروع کر دی۔اسرائیل کی طرح ہی بھارت نے کشمیریوں کی نسل کُشی اور زمینوں پر قبضہ کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے ۔ تمام انسانی حقوق کی تناظیم کی رپورٹس اس کی گواہ ہیں ۔ یہاں تک کہ نسل کشی کے 10 سٹیجز میں سے 9 سٹیجز بھارت نے عبور کرلیے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ نے بھارت کے سیکولر چہرہ سے نقاب ہٹا دیا ہے۔ اس سے قبل بابری مسجد کے حوالے سے بھی بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ساری دنیا نے دیکھا۔ اسی طرح گجرات میں فسادات کے دوران ہزاروں  مسلمانوں کے قتل عام میں بھی مودی اور اس کی جماعت کے لوگ ملوث تھے ، جن کے خلاف باقاعدہ شواہد بھی موجود تھے لیکن اس کے باوجود بھارتی سپریم کورٹ نے انہیں بری کر دیا تھا ۔ بھارتی عدالتیں بھی ہندو توا کی ہمنوا بن چکی ہیں ۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہاں تک کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ حالانکہ ایسے سیاسی بیانات دینا کسی بھی عدلیہ کے دائراختیار میں شامل نہیں ہوتا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ بھارتی ریاست ہر قسم کے آئینی ، اخلاقی اور بین الاقوامی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کی طرح اپنے مذموم ایجنڈے پر آگے بڑھ رہی ہے ۔
سوال: بھارتی حکمران پہلے زبانی کلامی کہا کرتے تھے لیکن اب عدالتی فیصلے میں باقاعدہ لکھ دیا کہ کشمیر بھارت کا اٹو ٹ انگ ہے۔ یعنی اب بھارت کی نام نہاد جمہوریت اور سیکولرزم کا پردہ چاک ہو چکا ہے اور ایسا لگتاہے کہ 2024ء میں بھارت میں جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں وہ بھی انجینئرڈ ہوں گے کیونکہ بھارتی عدلیہ بھی مودی سرکار کی الیکشن مہم کا حصہ بن گئی ہے ۔ آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے ؟
ایوب بیگ مرزا:ویسے تو بھارت تمام اقلیتوں کے لیے جہنم بنا ہوا ہے لیکن اس کے اصل ٹارگٹ مسلمان ہیں ۔ تقسیم برصغیر سے ذراقبل ان کی سوچ یہ تھی کہ چونکہ ہم اکثریت میں ہیں اس لیے اب حکومت ہماری ہوگی اور وہ مسلمان ہمارے غلام ہوں گے جنہوںنے صدیوں تک ہم پر حکمرانی کی ہے ۔ لیکن مسلمانوں نے پاکستان کا مطالبہ کرکے ہندو کے اس منصوبے کو خاک میں ملا دیا ۔ اس لیے وہ مسلمانوں اور پاکستان دونوں کا دشمن ہے ۔ لیکن ہندو ذہنیت کسی دوسری اقلیت کو بھی ہندوستان میں کبھی برداشت نہ کرے گی ۔ آج جس طرح وہ مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال رہا ہے اسی طرح کا معاملہ کل وہ دوسری اقلیتوں کے ساتھ بھی کرے گا ۔ اسی طرح کا معاملہ اس نے کشمیر کے ساتھ بھی کیا ہے۔تقسیم ہند کے وقت پنڈت نہرو نے انگریزوں کے ساتھ مل کر گورداس پور کا علاقہ انڈیا میں ضم کر دیا جس کی وجہ سے بھارت کو کشمیر تک راستہ مل گیا ۔ پنڈت نہرو چونکہ خود کشمیری تھا اس لیے اس کا کشمیر کے ساتھ جذباتی تعلق بھی تھا لیکن اصل بات یہ ہے کہ کشمیر کو کھونے میں ہماری اپنی غلطیاں بھی شامل ہیں۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لیکن ہم اپنی شہ رگ کی حفاظت نہ کرسکے اور اسے ہندو غاصب کی مٹھی میں دے دیا ۔ اب انڈیا چاہتاہے کہ پاکستان کی شہ رگ اس کی مٹھی میں رہے ۔ پاکستان میں جتنے دریا ہیں وہ سب کشمیر سے نکلتے ہیں ۔ اگر کشمیر پرانڈیا کا قبضہ رہےگا تو پاکستان پانی کے لیے بھی انڈیا کا محتاج ہو جائے گا ۔ وہ جب چاہے گا پاکستان کا پانی بند کردے گا اور جب چاہے گا پانی چھوڑ کر سیلاب کی صورتحال پیدا کر دے گا ۔
سوال: حال ہی میں بھارت کی کچھ ریاستوں میںBJP نے کلین سویپ کیا ہے ۔آپ کیا دیکھتے ہیں کہ 2024ء میں انڈیا میں جو انتخابات ہونے جارہے ہیں ان میں خدانخواستہ ایک بار پھر BJPکی حکومت بننے والی ہے ۔ ایسی صور ت میں کشمیر اور پاکستان کو کن نقصانات کا سامنا ہوگا ؟ 
رضاء الحق:BJPنے 3دسمبر کو چند ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں کلین سویپ کرکے گویا 2024ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کا تاثر قائم کرلیا ہے ۔بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ سے بھی ثابت ہوتاہے کہ پوری بھارتی مشینری مودی سرکار کے ساتھ کھڑی ہے ۔ کانگریس اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ مسلمان آپس میں تقسیم ہیں ۔ یہاں تک کہ کچھ مسلمان BJP کا ساتھ بھی دے رہے ہیں حالانکہ سب کومعلوم ہے کہ BJP مسلمانوں کا صفایا کرناچاہتی ہے ۔ بھارت میں اس وقت 80 فیصد ہندو ہیں ، مودی اس ووٹ بینک کو استعمال کرنےکے لیے ان کے جذبات کو ابھارتا ہے ۔ اس کے لیے انہیں ہندو توا کا نظریہ دے دیا گیا ہے کہ بھارت میں صرف ہندو رہ سکتے ہیں۔ اس کے لیے پھر وہ عملی اقدامات بھی کرتا ہے لیکن وہ انڈیا کو جس طرف لے کر جارہاہے وہ خود انڈیا کے لیے خطرناک ہے ۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے جرمنی بھی اسی رُخ پر چل پڑا تھا اور ایک مخصوص نسل کے سوا باقی سب کا خاتمہ چاہتا تھا اس کا انجام برا ہوا ۔ اسی فسطائیت اور نسل پرستی کی جھلک ہمیں BJP کی بنیادوں میں بھی نظر آتی ہے ۔ دمود رسوارکر نے پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ہی ایک ہندو سپرمیسی کا نظریہ پھیلانا شروع کر دیا تھا جس پر RSSکی بنیاد پڑی اور پھر اسی RSSنے BJP کو جنم دیا ۔ مودی نے اسی نظریہ کے مطابق ہندوووٹرز کو فوکس کیا ہے ، ان کو ترقی بھی دی ہے لیکن دوسری طرف بھارتی اور کشمیری مسلمانوں  کےلیے سانس لینا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے ۔ اب بھارتی مسلمانوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ متحد ہو جائیں اور باقی اقلیتوں کو بھی اپنے ساتھ ملائیں ۔ سب مل کر فسطائیت اور نسل پرستی کے BJP کے ایجنڈے کے خلاف آواز بلند کریں ۔ مسلم ممالک کو بھی اس میں اپنا رول ادا کرتے ہوئے بھارت پر سفارتی دباؤ بڑھانا چاہیے مگر وہ سب مفاد پرستی اور تجارتی تعلقات کو ترجیح دے رہے ہیں ۔
ایوب بیگ مرزا:BJP ہندو توا کے ایجنڈے کو جتنا آگے بڑھا چکی ہے، اب اگر کسی دوسری پارٹی کی حکومت بھی آجائے تو اس کے لیے اس کو reverse کرنا بہت مشکل ہو گا ۔ لہٰذا مسلمانوں کو ہر حالت میں اب وہاں خطرہ ہی خطرہ ہے ۔ اس لیے مسلمانوں کو اب مل بیٹھ کر اپنے مستقبل کا لائحہ عمل بنانا چاہیے ۔
سوال:غزہ میں عارضی جنگ بندی کے بعد اسرائیلی جارحیت دوبارہ پورے زور و شور سے جاری ہے ۔اس کے خلاف سلامتی کونسل میں جوقرارداد پیش ہوئی تھی امریکہ نے اس کوویٹو کر دیا ہے ، اسی طرح جنرل اسمبلی میں بھی امریکہ سمیت 10 ممالک نے قرارداد کی مخالفت کی ہے۔ آپ کو یہ معاملہ کس طرف جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:اسرائیل کا اصل ہدف گریٹر اسرائیل ہے ، یہ ساری جنگ اسی کے لیے ہو رہی ہے ، یہی وجہ ہے اسرائیل جنگ بند نہیں کر رہا اور امریکہ جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کرتا جارہاہے ۔ چند ماہ قبل تک وہ عرب حکمرانوں کے لیے پیار محبت اور دوستی کے جال پھیلا رہا تھااور اس طرح بھی وہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا تھا۔ سعودی عرب سمیت وہ تمام ممالک جو اسرائیل سے محبت کی پینگیں بڑھا رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ آج نہیں تو کل وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے اور ان کے درمیان معاہدے ہو جائیں گے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (54)} (آل عمران) ’’اب انہوں نے بھی چالیں چلیں اور اللہ نے بھی چال چلی۔اور اللہ تعالیٰ بہترین چال چلنے والا ہے۔‘‘
7 اکتوبر کے حماس کے حملے نے اسرائیل کے سارے مکر اور فریب کے جال توڑ دیے اور اسرائیل کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ۔ اب سعودی عرب یا کسی بھی دوسرے ملک کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا یا اس سے معاہدے کرنا مشکل ہو گیاہے ۔اب اسرائیلی عہدیدار کہہ رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں تو دیکھتے ہیں  مسلم حکمران کب جاگتے ہیں اور کب کوئی اقدام اٹھاتے ہیں ۔ دوسری طرف جوبائیڈن نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ وہ صہیونیوں میں سے ایک صہیونی ہے اور وہ سب طاغوتی قوتیں مل کر فلسطینیوں کا خاتمہ چاہتی ہیں تاکہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ تیزی سے آگے بڑھایا جا سکے ۔ ظاہر ہے فلسطینیوں کے خاتمہ کے بعد پڑوسی عرب ممالک کی باری بھی آئے گی لہٰذا ان ممالک کے حکمرانوں کو ابھی سے چاہیے کہ وہ اُٹھ کھڑے ہوں اور صہیونیوں کے بڑھتے ہوئے ظلم کو روکنے کی ہر سطح پر کوشش کریں ۔ دیکھیں حماس نے کس طرح اسرائیل کا غرور خاک میں ملایا ہے ، اسرائیل خود کو ناقابل شکست سمجھتا تھا اور اسے یہ گھمنڈ بھی تھا کہ وہ ایک ہفتے میں حماس کو ختم کردے گا لیکن اس کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں ۔ میں اس جنگ کو کسی بڑی جنگ کی طرف جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔
سوال: غزا پر مسلسل اسرائیلی جارحیت سے بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ آزادی کی جو شمع وہاں روشن ہوئی تھی وہ بجھتی جارہی ہے ۔ یعنی غزہ کو بالکل ملیامیٹ کرنے کے بعد اگر ہمارے مسلم حکمرانوں کو ہوش آیاتو اس کا کیا فائدہ ؟
ایوب بیگ مرزا:جتنابھی فلسطینیوں پر ظلم ہوا ہے یا آئندہ ہوگا اس کا سارا وبال ان مسلم حکمرانوں پر آئے گا جو غفلت میں ہیں۔ لیکن میں یہ آپ کو بتا دوں اسرائیل کبھی بھی غزہ کو مکمل طور پر ملیا میٹ کرنے میں کامیاب نہیں ہو گا۔ بظاہر اسرائیل کی فتح نظر آتی ہے مگر حماس گوریلہ جنگ جاری رکھے گی ۔ یہ سلسلہ طویل ہوگا اور کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتاہے ۔
سوال:فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل غزہ میں ایک سالہ جنگ کی تیاری کیے بیٹھا ہے اور فلسطین سے مسلمانوں کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے ۔ اگر یہ جنگ ایک سال تک جاری رہتی ہے تو مسلمانوں کے پاس کیا strategy ہونی چاہیے؟
رضاء الحق:اسرائیل کے اہداف نہ صرف غزہ کے مسلمانوں کے لیے بلکہ پورے فلسطین ، پڑوسی عرب ریاستوں کے لیے بھی اور پھر پورے عالم اسلام کے لیے بہت بڑے چیلنجز کا باعث ہیں ۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق اسرائیل کہہ رہا ہے کہ یہ جنگ طویل ہو سکتی ہے اور امریکہ اور دوسرے اتحادی ممالک مسلسل اسرائیل کو اسلحہ وغیرہ بھیج رہے ہیں ۔ 160 جہاز اسلحہ سے لدے ہوئے اسرائیل پہنچ چکے ہیں اور مزید پہنچنے والے ہیں ۔امریکہ کا حال یہ ہے کہ اس کے تمام اہم عہدوں پر یہودی بیٹھے ہوئے ہیں جیسا کہ سیکرٹری آف سٹیٹ انتھنی بلنکن یہودی ہے، اسی طرح ڈپٹی سیکرٹری ، پولیٹیکل آفیئرز کی انچارج ، سی آئی اے کا ڈائریکٹر ، اٹارنی جنرل ، ہوم لینڈ سیکیورٹی کا انچارج ، نیشنل انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر ، وائٹ ہاؤس کا چیف آف سٹاف ، مالیات کا سیکرٹری ، یہ سب یہودی ہیں ۔ حتیٰ کہ امریکہ کا صدر بھی صہیونی ہے ۔ لہٰذا امریکہ تو کھل کراسرائیلی جارحیت کو سپورٹ کرے گا ۔ اس وجہ سے عالم اسلام کے لیے بہت بڑے چیلنجز ہیں ،دوسری طرف مسلمان ممالک کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کی حمایت میں کوئی عملی قدم ابھی تک سامنے نہیں آیا ۔ حالانکہ فلسطین کے مسلمان صرف اپنی آزادی کی جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ وہ مسجد اقصیٰ کی حرمت اور پڑوسی مسلمان ریاستوںکے لیے بھی لڑ رہے ہیں کیونکہ اسرائیل فلسطین کو ختم کرنے کے بعد پڑوسی ریاستوں پر بھی اسی طرح  جارحیت کرے گا ۔ لہٰذا عالم اسلام کو چاہیے کہ زبانی کلامی نعروں سے آگے بڑھ کر کوئی عملی قدم اُٹھائیں ۔
سوال:اسرائیلی جارحیت کے خلاف پوری دنیا میں مظاہرے ہو رہے ہیں ، یہاں تک کہ امریکہ میں بھی بڑی تعداد میں لوگ مظاہروں میں نکلے ہیں ۔ آپ یہ بتائیے کہ اسرائیل کی ساکھ پر جو منفی اثر پڑ رہا ہے اس کے کیانتائج نکلیں گے اور کبھی یہ تاثر زائل ہو سکے گا ؟
ایوب بیگ مرزا:چاہے فرد ہو ، معاشرہ ، کوئی ادارہ یا ریاست ہو وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ایک بار منفی تاثر کسی کے بارے میں قائم ہو جائے تو اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں ۔ مجھے تو بالکل ایسا لگتا ہےکہ ساری دنیا اسرائیل پر تھو تھوکر رہی ہے اور اس کا اثر امریکی صدر بھی محسوس کر رہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس نے بیان دیا کہ اسرائیل کے امیج پر منفی اثر پڑ رہا ہے ۔ حضورﷺ کی حدیث ہے کہ یہودی اگر کسی درخت کے پیچھے چھپا ہو گا تووہ درخت بھی بولے گا کہ میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، پتھر بھی بولے گا ، ہر چیز بولے گی ۔ اسی طرح  امریکہ بھی خود بول رہا ہے ۔ اگرچہ امریکہ ، اسرائیل اوران کے دیگر اتحادی طاقتور ہیں اس لیے فوری طور پر اس منفی اثر کا کوئی نتیجہ نکلتا ہوا نظر آنہیں آرہا لیکن دنیا دیکھ رہی ہے کہ وہ معصوم بچوں کا قتل عام کر رہا ہے اور ہٹ دھرمی کے ساتھ ان معصوموں کو ٹائم بم قرار دے رہا ہے ۔ یہ ساری چیزیں ایک وقت آئے گا کہ اس کے خلاف جائیں گی ۔
سوال:بھارت، اسرائیل اور امریکہ کے گٹھ جوڑسے نمٹنے کے لیے پوری امت مسلمہ کو اور بالخصوص پاکستان کو کیااقدامات اُٹھانے چاہئیں؟
رضاء الحق:اللہ تعالیٰ نے یہود و ہنود کے گٹھ جوڑ سے ہمیں چودہ سو سال پہلے ہی آگاہ کردیا تھا : 
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج } (المائدہ:82) ’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
یہودی شروع دن سے ہی اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہیں، شروع سے ہی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے آئے ہیں ۔ یہاں تک کہ گزشہ صدی میں انہوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرکے دنیا پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا اور اب بھی ان کی اصل لڑائی مسلمانوں کے خلاف ہے ۔ جبکہ ہنود بھی بھارت میں مسلمانوں کی اسی طرح نسل کشی کر رہے ہیں اور پاکستان کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں ۔ لہٰذا ہمارے مسلم حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کے پیغام کو سمجھیں اور اگر ان سے تعلقات رکھتے بھی ہوں تو کم ازکم اپنے ملک اور ملت کا مفاد عزیز رکھیں ۔ پھر اپنے عوام اور امت کے مفاد کو بھی مدنظر رکھیں ۔ مسلم ممالک کسی فورم پر اکٹھے ہو کر اپنے مفادات کے تحفظ کی کوشش کریں۔ پھر یہ کہ جو طاقتیں امریکہ ، بھارت اور اسرائیل کی مخالف ہیں ان کے ساتھ تعلقات بڑھائے جائیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ امت مسلمہ اپنا بھولا ہوا سبق یاد کرے جس کی بدولت اسے خیر امت قرار دیا گیا تھااور جس کی بدولت اس کو دنیا میں عروج حاصل تھا ۔ اس سبق پر دوبارہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے ۔ یعنی اللہ کے دین کی اقامت کے لیے عملی جدوجہد کریں اور سیاسی ، معاشی اور معاشرتی سطح پر وہ نظام قائم کرکے دنیا کو دکھائیں جس میں حقیقی آزادی اور عدل و انصاف ہو ۔ جیسے چودہ سو سال پہلے خلافت راشدہ نے نظام قائم کرکے دکھایا تھا ۔ جن علاقوں میں بھی مسلمانوں نے حکومت کی وہاں  کے عوام نے حقیقی آزادی اور عدل و انصاف کو دیکھا ۔ یہاں تک کہ اگر کسی علاقے سے مسلم حکمران واپس جاتے تھے تو عوام ان سے کہتے تھے آپ واپس مت جائیں کیونکہ آپ کی حکومت میں ہمیں وہ حقوق اور آزادی حاصل ہے جو پہلے نہیں تھی ۔ آج دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں لیکن کسی میں بھی وہ نظام قائم نہیں ہے یہی امت مسلمہ کی بربادی کی اصل وجہ ہے ۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی اصل کی طرف لوٹیں ، تب ہی ان کو اللہ کی مدد بھی حاصل ہو گی اور ان کو دوبارہ عروج بھی ملے گا ۔
سوال:پاکستان کے حوالے سے آپ کیا عملی اقدامات تجویز کرتے ہیں؟
ایوب بیگ مرزا:پاکستان کے حوالے سے تو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے کہہ دیا ہے کہ اگر پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے دے تو وہ قتل عام سے باز آجائے گا ۔ دھمکی کا بھی انداز ہوتاہے ۔ اگر پاکستان یہ کہہ دے کہ اسرائیل فوراً ہاتھ روک لے ورنہ دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا تو اتنا کہنا بھی ایک مطلب رکھتا ہے۔لیکن ہمارے حکمرانوں کی طرف سے ایسا کوئی بیان نہیں آرہا ہے ۔ بڑے نرم نرم بیانات تو آرہے ہیں لیکن ان کا کسی نے اثر نہیں لینا ۔ اسماعیل ہنیہ نے بڑا صحیح کہا ہے کہ پاکستان اگر چاہے تو جنگ رُک سکتی ہے لیکن پاکستان کے اپنے مفادات ہیں۔ خاص طور پر پاکستان امریکی پالیسی کو فالو کر رہا ہے اس لیے پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ امریکہ کے حکم کی خلاف ورزی کر سکے ۔