(زمانہ گواہ ہے) سیاسی جماعتوں میں غیراسلامی وغیراخلاقی رجحانات - محمد رفیق چودھری

9 /

تحریک نظام مصطفیٰ اور MMAکی صوبائی حکومت کا جو نتیجہ نکلا اس کو دیکھتے

ہوئے عوام کا مذہبی، سیاسی جماعتوں پر سے اعتماد اُٹھ گیا ہے : ایوب بیگ مرزا

کئی مذہبی سیاستی جماعتیں خود انہی برائیوں میں ملوث ہو گئیں جن کے خاتمے

کا نعرہ لے کر وہ اُٹھی تھیں :خورشید انجم

بعض پس پردہ طاقتیں ایسی ہیں جو اسلام کو نافذ نہیں ہونے دیتیںجبکہ دوسری

طرف ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کاسیاسی اورا خلاقی کردار

بھی ایسا ہے کہ لوگ ان پراب اعتماد نہیں کرتے: رضاء الحق

سیاسی جماعتوں میں غیراسلامی وغیراخلاقی رجحانات کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:ہماری سیاست میں وہ کون سی ایسی چیزیں آگئی ہیں جوشرعاًاور اخلاقاً درست نہیں ہیں ؟
خورشید انجم: ہمارے ہاں اس وقت دوقسم کی سیاسی جماعتیں ہیں۔ایک سیکولر اوردوسری مذہبی و دینی جماعتیں۔ سیکولرجماعتوںکے لوگ کھلے عام سیکولرہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اوراسلامی جماعتوں پرطنز کرتے ہیں اور ان کو غلط کہتے ہیں۔آپ نے اس طرح کے الفاظ سنے ہوں گے کہ اسلام کاکارڈ استعمال نہیں کرناچاہیے، مذہب کا سیاست سے کیاتعلق ہے وغیرہ ۔بہرحال وہ مسلمان ہیں لیکن ان کی سوچ یہ ہے کہ مذہب ایک علیحدہ چیزہے اور سیاست علیحدہ ہے ۔دوسری وہ جماعتیں ہیں جو سیاست کو دین کا حصہ سمجھتی ہیں اور مذہبی و دینی بنیادوں پر سیاست کی قائل ہیں ۔ سیکولر جماعتیں اگرچہ مذہبی نہیں ہیں لیکن پھربھی انہیں تہذیب اور اخلاق کاخیال رکھنا چاہیے۔ کیونکہ وہ مسلمان بھی ہیں اورویسے بھی انسان ہونے کے ناطے اخلاقی اقدار و روایات اور قومی کردار کا لحاظ رکھنا چاہیے ۔ لیکن جودینی اور مذہبی جماعتیں ہیں ان کو’’ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے‘‘ کے مصداق ان چیزوں کابطور خاص خیال رکھناچاہیے۔ سورۃالحجرات میں ارشادباری تعالیٰ ہے :
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّـکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ} (الحجرات:11) ’’اے اہل ایمان !تم میں سے کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے‘ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔‘‘
یعنی ایک جماعت دوسروں کا تمسخرواستہزانہ کرے،طنزنہ کرے،مذاق نہ اڑائے وغیرہ یہ ساری چیزیں اس میں آجاتی ہیں۔ یہ ساری چیزیں غیراخلاقی ہیں لیکن ہمارے ہاں کے لیڈر ان برائیوں میں ملوث ہورہے ہیں۔ اگر لیڈر نے کسی پربہتان لگایاتوعام کارکن کے لیے اس طرح کی برائی میں ملوث ہونا آسان ہوجاتاہے۔یہ برائیاں ہماری سیکولرجماعتوں میں تو بہت زیادہ ہیں لیکن ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کے اندر بھی یہ چیز پائی جاتی ہے ۔ اس کے ساتھ کچھ دوسری خرافات ہیں،مثال کے طورپر موسیقی اور رقص وغیرہ ، ان کا بھی بے محابااستعمال شروع ہوگیا ہے۔ بدقسمتی سے اب یہ چیزیں مذہبی سیاستی جماعتوں میں بھی آنا شروع ہو چکی ہیں ۔ حالانکہ مذہبی جماعتیں ایک منشور لے کر آئی ہیں ۔وہ توحضورﷺ کے ساتھ ایک رشتہ جوڑ رہی ہیں اورآپﷺ کے نام کولے کر آگے آرہی ہیں۔ اس کے بعد مخلوط محافل کا رحجان بھی مذہبی سیاسی جماعتوں میںپیدا ہوگیا ۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کی شدید ممانعت ہے ۔ ان ساری چیزوںنے سیاست کے جوہڑ کو گندا کردیاہے۔اس وقت شاید ہمارامسئلہ تہذیب اور اخلاق رہاہی نہیں ہے ، اس کا توجنازہ نکل گیاہے ۔ اس کے جو اثرات ہماری اگلی نسلوںپر پڑیں گے اس کے بارے میں سوچ کرانسان کانپ اٹھتاہے۔اس معاملے میں مذہبی جماعتوں کوبطور خاص احتیاط کرنی چاہیے ۔ کیونکہ عام یاسیکولر شخص کے مقابلے میں اگر کوئی دیندار شخص یہ کام کررہاہے تواس کوخاص طورپر مطعون کیاجائے گاکہ تم تودین کانام لے رہے ہو۔تم نماز پڑھ رہے ہو،تم نے داڑھی رکھی ہوئی ہے اورپھریہ کام کررہے ہو۔ یعنی ان کا دین سے ایک تعلق اور ایک نسبت بن جاتی ہے جس کے بعد ان کو دینی اقدار کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اگر دیکھاجائے تومذہبی جماعتیں منکرات کے خاتمے کا منشور لے کر اُٹھی ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے بڑوں نے اس حوالے سے بہت اہتمام کیااور اپنے کارکنوںکی تربیت بھی کی ہے ۔لیکن اب یہ سوچ پیدا ہورہی ہے کہ اگر ہم نے مروجہ سیاست کی چیزیں اختیار نہ کیں تو شاید ہم سیاست کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہبی سیاستی جماعتیں خود انہی برائیوں میں ملوث ہو گئیں جن کے خاتمے کا نعرہ لے کر وہ اُٹھی تھیں ۔
سوال: دینی سیاسی جماعتوں میں غیرمحتاط زبان کا استعمال بہت بڑا elementبن چکا ہے جس کو الیکٹرانک اورسوشل میڈیا برانگیختہ کرتاہے اورپھرتجزیہ نگار اس میں مزید چیزیںشامل کرتے ہیں ۔ یعنی جھوٹے الزامات کی بھرمار کی جاتی ہے ۔ دینی سیاسی جماعتیں غیراخلاقی زبان کے استعمال سے گریز کیوںنہیںکرتیں؟
ایوب بیگ مرزا:میں محترم خورشید انجم صاحب کی بات میں اضافہ کروں گا کہ ہمارے ملک میں اب دوقسم کی نہیں بلکہ تین قسم کی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ایک مذہبی ،دوسری اسلام پسند جماعتیں اور تیسری سیکولرجماعتیں ۔مرکزی سطح پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کے علاوہ کوئی سیکولرجماعت نہیں ہے ۔ جبکہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف وغیرہ مذہبی نہیںہیںلیکن اسلام پسند جماعتیں ہیں ۔ ان کے لیڈران یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ اگر ہم اقتدار میں آئیں گے تواسلامی نظام لائیں گے۔ اسی طرح افراد کی سطح پر ملحدین بھی ہیں لیکن ابھی تک ان کی کوئی جماعت باقاعدہ سامنے نہیں آئی ۔یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ہمارے ہاں جلسوں میں غیرمحتاط یاغیرمہذب زبان کااستعمال پچھلے کوئی پانچ دس سالوں کامعاملہ ہے بلکہ یہ بھی نصف صدی کاقصہ ہے۔ اس سے پہلے تقریر بڑی شائستگی سے ہوتی تھی ۔ نوبزادہ نصراللہ بہت شائستگی سے تقریر کرتے تھے ، امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ صرف مذہبی لیڈر نہیں تھے بلکہ میں انہیں سیاسی لیڈر بھی سمجھتا ہوں، وہ بہت بڑے مقرر تھے لیکن بہت اچھی گفتگو کرتے تھے ۔ مولانا مودودی ؒ سے زیادہ اچھی تقریر کرنے والا شاید ہی برصغیر میں کوئی لیڈر ہو۔ ان کے مقابلے میں شورش کاشمیری سخت زبان استعمال کرتے تھے لیکن غیر شائستگی نہیں تھی ۔ غیر شائستگی اور گالیوں کا سلسلہ 1970ء کے بعد شروع ہوا ۔ مثال کے طور پر قذافی سٹیڈیم میں ذوالفقار علی بھٹو کاجلسہ تھا۔ وہاںبھٹو نے انتہائی غلیظ، بدترین اندازمیں گالی دی لیکن ساتھ کہا کہ اس (گالی) کو حذف کر دو ۔ یعنی یہ صورت حال پرانی ہے، نئی نہیں ہے ۔ البتہ اب نئے نئے انداز آگئے ہیں اورنئی چیزیں آگئی ہیں۔ اب موسیقی ، رقص اور مخلوط محافل سیاسی جماعتوں اور جلسوں کا حصہ بن چکی ہیں اور بدقسمتی سے اس میں تمام سیاسی جماعتیں ملوث ہو چکی ہیں ۔ یہاں تک کہ 14 اگست2022ء کو حکومتی تقریب میں نوجوان لڑکیوں کا رقص ہوا اور مذہبی اور غیر مذہبی سیاسی جماعتوں کے عہدیدار بیٹھ کر دیکھتے رہے ۔ ایسانہیں ہوناچاہیے تھا، خاص طور پر مذہبی سیاسی لیڈروں کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا ۔اس لیے کہ جب لیڈریہ سب کچھ کریں گے تو اس کے اثرات عوام میں بھی پھیلیں گے ۔ حال ہی میں ایک مذہبی لیڈر نے ایک سیاسی جلسے میںاس قدر غیر شائستہ باتیں کیں کہ انہیں یہاں دہرایا نہیں جا سکتا ۔ معاشرتی اقدار و روایات کے لحاظ سے ایسی باتیں غیر مذہبی سیاسی جماعتوں میں بھی نہیں ہونی چاہئیں تھیں کجا یہ کہ مذہبی سیاسی لیڈر بھی اس طرح کا غیر اخلاقی طرزعمل اختیار کرلیں ۔ ہمارا دین ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا ۔ کسی بھی مسلمان کو دوسرے مسلمان کا غلط نام نہیں رکھنا چاہیے ، اس کا استہزاء نہیں کرنا چاہیے ۔ لیکن یہ مرض بھی ہماری سیاست میں پرانا ہو چکا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو ائیرمارشل اصغر خان کو آلو کہاکرتے تھے ، پھر جب نورخان آئے تو انہیں آلونمبر 2کہا ۔ پھرممتاز دولتانہ کوچوہا کہا۔پھرآگے آجائیے توایک بڑی سیاسی جماعت نے مخالف جماعت کی ایک لیڈر خاتوں کی جعلی اور نازیبہ فوٹوز ہیلی کاپٹر کے ذریعے گرائیں۔ حالانکہ مغرب کی سیاست میں بھی ایسی غیر اخلاقی حرکات نہیں ہوتیں۔
خورشید انجم:یہ برائیاں گناہ توہیں ہی لیکن اس سے ہٹ کرہماری معاشری اقدار و روایا ت کے بھی خلاف ہیں ۔ اس لیے ہمارے سیاسی لیڈرز کو کم ازکم تہذیب و اخلاق کا ہی پاس رکھ لینا چاہیے ۔
سوال:مذہبی سیاسی جماعتوں میں مغربی افکار ونظریات کسی نہ کسی طرح درآئے ہیں تبھی ان کے جلسوں اور انتخابی مہمات میں اسلام کی بنیادی چیزیں نظر نہیں آتیں ۔ اس پر آپ کی کیارائے ہے ؟
رضاء الحق:مذہبی سیاسی جماعتوں اورمسلمان معاشرے میں مغربی افکار ونظریا ت کوپذیرائی ملنے کاپورا ایک پس منظر ہے ۔برازیلین مصنف کی ایک بڑی مشہو ر کتاب ہے :"Pedagogy of the oppressed" پیڈاگاجی تعلیم وتعلم کے ایک پورے نظام کو کہا جاتاہے اور oppressedکامطلب ہے: مغلوب۔یعنی مغلوب قوموں کی تعلیم وتعلم کا نظام ۔ ہوتایہ ہے کہ مغلوب قومیں ہمیشہ غالب قوموں کے افکار،نظریات،اخلاقی معیارات اور ان کی عمرانی فکرکو اپنے اوپرمسلط کرلیتی ہیں یاکم ازکم ان سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں ۔ اس پورے معاملے کو دیکھیں توپس منظر میں دولہریں ساتھ ساتھ آتی نظر آتی ہیں۔ دونوں کاآپس میں تعلق بھی ہے۔ایک طرف مغربی تہذیب کا بڑھنااوراس کارائج ہوناہے۔دوسری طرف مسلمانوں میں افکار و نظریات اور عمل کے حوالے سے زوال ۔ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔یورپ میں احیائے علوم اور اصلاح کی تحریکیں شروع ہوئیںجس کے نتیجے میں وہاں فلسفہ بڑھنا شروع ہوا اور لبرل ازم، سیکولرازم اورمادیت پرستی کافلسفہ جڑ پکڑ گیا ۔ اسی کی اگلی شاخوں میں بینک آف انگلینڈ،چر چ آف انگلینڈبھی قائم ہوگیااورپروٹسٹنٹ عیسائیت نے زور پکڑناشروع کر دیا۔ پھر انقلاب فرانس بھی آیا،صنعتی انقلاب بھی آیا۔یعنی جمہوریت بھی آگئی اور سامراجی نظام اورکیپٹلزم نے بھی اپنی جگہ بنا لی ۔ پھرپچھلی صدی کے آغاز سے وہاںفیمینزم کی تحریکیں اورمابعدجدیدیت کی سوچ پھیلتی گئی ۔ ان سب چیزوں کے بنیادی طور پر تین نتائج سامنے آئے :
1۔ اللہ کے مقابلے میں کائنات کے اوپر توجہ دینی شروع کردی گئی ۔ یہ ان کاپورا فلسفہ اورنظریہ ہے ۔
2۔ آخرت کے مقابلے میں دنیاکو ترجیح دی گئی ۔
3۔ روح کے مقابلے میں جسم کو ترجیح دی گئی ۔
کالونیل دور میں چونکہ مسلمان مغلوب تھے لہٰذا یہ چیزیں مسلمان معاشرے میں بھی جڑیں پکڑ گئیں ۔ یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ میں 1839ء تک اسلام کے عدالتی نظام کوختم کردیاگیا۔پھرانہوںنے سودی قرضے لیے اور زوال میں ڈوبتے چلے گئے ۔ پھروہاں کے حکمرانوں کو یورپی عورتوں نے اس طرح قابو میں کیاکہ آخر کار 1924ء میں 40قومی ریاستیں وجود میں آگئیں۔اس کے بعد مغرب کے روشن خیالی کے تصور نے عام مسلمانوں کے علاوہ علماء کو بھی متاثر کیا۔ اب تک بہت ساری مذہبی جماعتیں بھی ان افکار و نظریات اور طریقہ کار سے متاثر ہو چکی ہیں ۔چنانچہ جب آپ انتخابی سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو پھرآپ کوان چیزوں سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ آپ نتیجہ حاصل کرنے کے لیے الیکشن میں آتے ہیں تو پھر End justifies the means کے مصداق آپ کی اخلاقی اقدار بھی خراب ہوناشروع ہوجاتی ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج بڑے بڑے روایتی مذہبی گھرانوں اور علماء کرام کی اگلی نسلیں مدرسہ ڈسکورسز کے نام سے بہت سارے ایسے معاملات میں شامل ہو چکی ہیں۔ بہرحال جب ایک مغلوب قوم کی مذہبی سیاسی جماعتیں انتخابی سیاست میں آتی ہیںتووہ باطل نظام کے خلاف احتجاج کرنے کی بجائے اُس سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں اور ان خرابیوں میں پڑ جاتی ہیں جو باطل نظام کا حصہ ہوتی ہیں ۔
سوال: پہلے دینی سیاسی جماعتیں اسلامی نظام کوقائم کرنااپناہدف بتاتی تھیں لیکن اب شاید وہ ہدف بالکل کھلے انداز میں بیان نہیں ہوتا۔ اس کی کیاوجہ ہے ؟
ایوب بیگ مرزا:آپ مذہبی جماعتوں کی بات کرتے ہیں، آج سے پچاس سال پہلے توکوئی سیکولر جماعت بھی اپنا انتخابی منشور اسلام کے بغیر نہیں بتاتی تھی۔ آپ اندازہ کیجیے کہ شیخ مجیب الرحمن جیساکٹر سیکولر آدمی جوعلیحدگی پر تلاہوا تھااور جو اس بات کے بھی خلاف تھا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام پرہے وہ 1970ء کے الیکشن میں اپنے منشور میں کہتاہے کہ یہاں ہرقسم کی قانون سازی قرآن وحدیث کے مطابق ہوگی ۔ پھرذوالفقار علی بھٹو جیسا سیکولر آدمی اپنے تین نعرے بتاتاہے :
1۔ اسلام ہمارا دین ہے ۔
2۔ سیاست ہماری جمہوریت ہے ۔
3۔ معیشت ہماری سوشلزم ہے ۔
یعنی بھٹو نے بھی اسلام کو پہلے نمبر رکھا ۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ کوئی شخص اسلام کے بغیر بات کرے گاتواس کی بات بھی نہیں سنی جائے گی۔چاہے ووٹ کسی کودیں لیکن یہ انتہائی ناپسندیدہ معاملہ تھاکہ کوئی سیکولرجماعت بھی اسلام کانام نہ لے ۔ باقی دینی سیاسی جماعتیں تواسلام پہ صدقہ واری جارہی تھیں۔ لال قلعہ پر اسلام کا جھنڈا لہرانا ان کا نعرہ اور دعویٰ تھا ۔ لیکن پچھلی آدھ صدی میں یہ بہت فرق واقع ہواہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ ایک دینی جماعت کی طرف سے یہاں تک کہا گیا کہ اسلام تو مدرسوں میں ہے اور ہم اقتدار کی سیاست کریں گے ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو آج تمام مذہبی اور سیکولر سیاستی جماعتیں حتیٰ کہ خود پاکستان بھی فنکشنلی سیکولر ہے ۔ آج سب سیاسی جماعتیں سیکولرایجنڈے پرچل رہی ہیںکیونکہ اس کے بغیر وہ چل ہی نہیں سکتیں۔چاہے آپ کتاب کو اپنا انتخابی نشان بنالیں ، یہ الگ بات ہے کہ عملی طور پر کتاب کا نام و نشان تک نہ ہو ۔ عملاًہم سیکولرہوچکے ہیں۔ البتہ مذہبی غیر سیاسی جماعتوں کا معاملہ الگ ہے ۔ عجب بات ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر اور بھارت سیکولرازم کے نام پرقائم ہوا تھا، یعنی تقسیم ہند اس بنیاد پر ہوئی تھی لیکن آج بھارت ایک کٹر مذہبی ریاست ہے جبکہ پاکستان سیکولر ریاست ہے۔ تسلیم نہ کریں تویہ بات الگ ہے۔ محض نعروں کے لیے اسلام کی چند چیزیں رکھی ہوئی ہیں جبکہ عمل میں اسلام دور دور تک نہیں ہے ۔
خورشید انجم: مذہبی سیاسی جماعتوں کے اس طرزعمل کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کو وہ دعوت نہیں دی جارہی جس سے لوگوں کی اسلام کے حوالے سے ذہنیت بدلے ۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتاہے کہ اسلامی نظام آئے گا تو شرعی سزائیں دی جائیں گی ۔ حالانکہ یقیناًیہ سزائیں بھی ہیں لیکن اس سے پہلے اسلام ایک فلاحی ریاست کا تصور دیتاہے جس میں عوام کو تمام تر حقوق میسر ہوں، اس کے بعد جو جرم کرے گا تو اس کو سزملے گی ۔ سیکولر سیاسی پارٹیوں نے اس حوالے سے بعض ایسے نعرے دیے جو عوام میں بہت مقبول ہوئے ۔ جیسا کہ ’’ روٹی ، کپڑا ، مکان ‘‘ ۔ اس لیے کہ یہ چیزیں ہر انسان کی ضرورت ہیں ۔ چنانچہ پھردینی جماعتوں نے بھی یہی سوچا کہ لوگوںکے مسائل کی طرف توجہ دی جائے ۔ چنانچہ اب آٹے کے بحران ، مہنگائی ، بجلی، پانی ، گیس پر تو بات ہوتی ہے جبکہ اسلامی نظام کا نعرہ کچھ پس منظر میں چلا گیا ہے ۔ اگرچہ انفرادی سطح پر اسلام کے لیے بھی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ گزشتہ دنوں اسمبلی میں مولانا عبدالاکبر چترالی نے ایک بل پیش کیا ہے۔ پہلے ٹرانس جینڈر قانون کے خلاف سینیٹر مشتاق احمد نے کوشش کی ہے ۔ یعنی دستور ی وقانونی لیول پرکام ہورہا ہے لیکن اسلامی نظام کاسیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام کیاہے؟ اس حوالے سے صحیح ذہن سازی مذہبی سیاسی جماعتوں کی طرف سے نہیں ہورہی ۔
ایوب بیگ مرزا:عوام کا مذہبی سیاسی جماعتوں پر اعتبار اس لیے بھی کم ہوگیا ہے کہ جب نظام مصطفیٰﷺ کی تحریک چلی تو اس میں عوام نے اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں لیکن تحریک ختم ہوتے ہی مذہبی سیاسی جماعتیں اسلامی نظام کو بھول گئیں اور ایک ڈکٹیٹر کی حکومت میں شامل ہوگئیں ۔ پھرکے پی کے میں ایم ایم اے کوساڑھے چار سال حکومت ملی تو وہاں بھی انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ آخری دنوں میں حسبہ بل لے کر آئے تو اس کا بھی سر پیر نہیں تھا ۔ اس سے لوگوںنے یہی سمجھا کہ ان جماعتوں کا مقصد صرف کرسی و اقتدار ہے ۔ اس کے بعد اب ان جماعتوں میں غیر اخلاقی گفتگو ، مخلوط محافل وغیرہ نے ان کی مقبولیت میں مزید کمی کر دی ہے ۔
سوال:اس وقت پور ی دنیامیں سیکولرازم کاغلاف چڑھ چکا ہے اورگہرا ہوتا جارہاہے۔ کیاسیکولرازم کے زیادہ اثرات کی وجہ سے دینی جماعتوں نے اسلامی حوالے سے پسپائی تواختیار نہیں کی ؟
رضاء الحق:سیکولرازم کی سادہ تعریف یہ ہے کہ ریاستی امور چلانے میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیںہوگااوراس وقت پاکستان سمیت پوری دنیامیں یہی ہو رہا ہے ۔ البتہ دنیا کے کچھ ممالک ایسے ہیں جہاںبظاہر ایک مذہبی ریاست نظر آتی ہے جن میں بھارت بھی شامل ہے ، اسی طرح اسرائیل میں صہیونیوں کی ریاست ہے ۔ امریکہ میں بھی عیسائیوں کابہت بڑا ووٹ بنک موجود ہے۔ یورپ میں بھی دائیں بازو کی جماعتیں موجود ہے۔اس پورے معاملے میں تین بنیادی باتیں بہت اہم ہیں ۔ایک عیسائیت نے بطور مذہب شریعت اور ریاست دونوں سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ کردیااورکمپرومائز کرلیا۔ہندوازم میں سیکولر مخالف چیزیں ہیں ہی نہیں بلکہ ہندوتہذیب کی بہت ساری چیزیں سیکولرازم والی ہیں۔مثلاً ناچ گانا ، شراب ، مخلوط محافل وغیرہ ۔ یہودی ایک خاص چیز پرفوکس کیے ہوئے ہیں جوان کے ایک بڑے مقصد کا حصول ہے ۔ اس وقت اسرائیل میں نیتن یاہو کی حکومت انتہائی دائیں بازو کی حکومت ہے لیکن ان کاایک وزیر اور سپیکر ہم جنس پرست ہیں ۔اگرچہ یہ ان کی شریعت کے خلاف ہے مگر ان کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ اس وقت اپنے بڑے مقصد کوحاصل کرناچاہ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں مذہبی سیاسی جماعتوں کوا۰لیکشن میں عوام ووٹ نہیں دیتے اس کی بنیادی وجوہات دو ہیں ۔ایک رینڈکارپوریشن کی 2004ء کی رپورٹ میںکہا گیا تھا کہ سیاسی اسلام کوہم نے کسی صورت میں آگے بڑھنے نہیں دینااور ماڈرنسٹ اسلام کوہم نے آگے لے کربڑھناہے۔یعنی اسلام نہ آنے میں کچھ پس پردہ طاقتیں بھی ملوث ہیں جواسلام کو نافذ نہیں ہونے دیتیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کاسیاسی اورا خلاقی کردار بھی ایسا ہے کہ لوگ ان پراب اعتماد نہیں کرتے۔ بالخصوص اسلامی فلاحی ریاست کے حوالے سے عوام کوہماری مذہبی سیاسی جماعتوں سے کوئی توقع ہی نہیں کہ اگر یہ اقتدار میں آئیں گے توواقعی کوئی تبدیلی لے کر آسکتے ہیں ۔ اس لیے کہ جہاں جہاں انہیں موقع ملا تو وہ کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ ہماری ایک مذہبی سیاسی جماعت نے کراچی میں وومن ایمپاورمنٹ کے نام پر پروگرام شروع کیا۔اس میں جن کو برینڈ ایمبیسڈر بنایا گیا ان میں ایک ٹی وی چینلز پر مارننگ شوز کرنے والی خاتون اور دوسرے کٹر سیکولر لوگ ہیں۔ اس سے عوام کوکیاپیغام جارہاہے؟ توپھرلوگ کیوں ووٹ دیں؟
سوال:دینی سیاسی جماعتوں کو فرقہ وارانہ تعصبات کی وجہ سے کیا نقصان ہو رہا ہے ؟
خورشید انجم: یقیناً !فرقہ وارانہ تعصبات کی وجہ سے بھی مذہبی سیاسی جماعتوں کو نقصان ہو رہا ہے ۔ اگر کسی جگہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے چار اُمیدوار کھڑے ہیں تو عوام کس کے اسلام کو ووٹ دیں گے جب ہر ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے گا؟ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ ایک الیکشن سے پہلے کچھ لوگوں نے پرانے فتویٰ نکالے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ آپ کیاکررہے ہیں تو انہوں نے کہاکہ اب الیکشن آرہاہے تواس کی ہمیں ضرورت پڑے گی۔اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ مذہبی سیاستی جماعتوں کا ووٹ تقسیم ہو جاتاہے اور سیکولر جماعتیں آگے نکل جاتی ہیں ۔
سوال: کیامذہبی سیاسی جماعت کواپنے کارکنوں کی ایسی تربیت نہیں کرنی چاہیے جس میں دین کوترجیح اول ہو؟
خورشید انجم:دوراستے ہیں۔ایک یہ ہے کہ ہم نے سیدھے راستے پرچلناہے چاہے ہم کامیاب ہوتے ہیں چاہے ناکام ہوتے ہیں، چاہے ہمیں سیٹ ملتی ہے یا نہیںملتی اور ماضی میں اس راستے کو اختیا رکیا گیا ۔ کتنے ہی الیکشن آئے خاص طور پر قیام پاکستا ن کے فوری بعدجس میں سیٹوں کے اعتبار سے کچھ نہیں حاصل ہوا۔لیکن طے یہ تھاکہ ہم نے اپنی ایک پہچان رکھنی ہے جس کو ہم ضائع نہیں کریں گے ۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ چیز نظریہ ضرورت کے تحت ختم ہوتی چلی گئی ۔پھران جماعتوں میں یہ فکر پروان چڑھی کہ دعوتی نقطہ نظر سے ہمیں الیکشن میںحصہ لینے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ دعوت کے لیے مدارس اور دوسرے ذرائع موجود ہیں لہٰذا سیاست ہم صرف اقتدار کے لیے کریں گے ۔ پھر جب آپ الیکشن میں آئیں گے توآپ کو الیکشن کے رولز اور نارمزلازماً اختیار کرنا پڑیں گے۔ پھران لوگوں نے یہ خود کہاہے کہ اگر ہم نے سیاست کرنی ہے، الیکشن میں آناہے توہمیںالیکشن کے نارمز اختیار کرنے پڑیںگے اورپھرکیے گئے ہیں ۔یہاںتک بھی کہا گیا کہ سیاست میں جن لوگوں کے پاس پیسے تھے وہ اوپر آگئے ،ہمارے پاس پیسے کم تھے ہم اوپر نہیں آسکے تو ہم نے بھی پیسے والوں کو اوپر لانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب نیاٹرینڈ شروع ہوا ہے کہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے اُمیدواروں میں بھی الیکٹیبلز آناشروع ہوگئے ہیں اور الیکٹیبلز کی بنیاد پرکسی تبدیلی کی توقع رکھنا احمقوںکی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔ وہ توگرگٹ کی طرح ہیں ، آج ادھر کل ادھر۔ اس حوالے سے مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی یہ ہواہے ۔جب اقتدار کاحصول منزل طے پائی توپھراسی جوہڑ میں گرناپڑااور اس کا مذہبی سیاسی جماعتوں کو بہت نقصان اُٹھانا پڑا ۔