(دعوت و تحریک) عالم ِاسلام پر یہود و نصاریٰ کی سازشیں(3) - ڈاکٹر اسرار احمد

9 /

عالم ِاسلام پر یہود و نصاریٰ کی سازشیں(3)

ڈاکٹر اسرار احمد ؒ

(گزشتہ سے پیوستہ)
عالم ِ اسلام میںمغرب کے اہداف کا ایک جائزہ
آج مَیں چاہتا ہوں کہ آپ ایک ایک کر کے عالم ِ اسلام کے مختلف ممالک کا معاملہ سمجھ لیں کہ یہ کس اعتبار سے مغرب کا ہدف ہیں۔
افغانستان : 1990ء عراق کے بعد امریکہ کا عالم ِ اسلام میں ان کا اگلا ہدف افغانستان بنا ہے۔مَیں نے مغرب کے مقاصد کی جو چار لڑیاں بتائی ہیں‘ جو آپس میں بٹی ہوئی ہیں‘ اب ان کے حوالے سے دیکھئے۔ افغانستان میں عظیم ترین بات یہ ہوئی کہ نظامِ اسلامی کی ایک ہلکی سی جھلک دنیا نے دیکھ لی۔ یہ وہ چیز ہے جو شیطان کو اور اس کے چیلوں اور ایجنٹوں کو کسی صورت گوارا نہیں۔ اقبال نے اپنی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘1936ء میں لکھی تھی۔ اس میں انہوں نے ابلیس کی زبان سے یہ کہلوایا ہے : ؎
عصرِ حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں!
یعنی مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں دنیا میں شرعِ محمدیؐ کی برکات کا ظہور نہ ہو جائے۔اگر ایسا ہو گیا تو میری ابلیسیت کا پردہ چاک ہو جائے گا۔ میرا سارا تانا بانا جو میں نے صدیوں کی محنت سے بناہے ‘وہ سارا برباد ہو جائے گا۔ افغانستان میں اس ’’شرعِ پیغمبر ؐ‘‘ کی جھلک نظر آئی تھی ‘اگرچہ ابھی وہاں کوئی اسلامی نظام قائم نہیں ہوا تھا ۔ چند اسلامی سزائوں کے نفاذ ہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سو فیصد امن قائم ہو گیا۔ چوری‘ ڈاکہ‘ اغوا‘ زیادتی اور جنسی جرائم سب ختم ہوگئے۔ پھر یہ کہ ’’امیر المؤمنین‘‘ کے ایک حکم پر پوست (poppy)کی کاشت یکسر بند ہوگئی۔ امریکہ اس مقصد کے لیے اربوں ڈالر دیتا ہے کہ کسی طریقے سے باز آجائو‘ لیکن وہاں پر ہر سال اس کی مقدار بڑھتی چلی جا رہی ہے۔تو مغرب کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ اگر یہاں اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی قائم ہوگیا اور جدید تصوّرات کے مطابق کوئی ایسی ریاست قائم ہو گئی جس میں ایک طرف تمام اسلامی اقدار اور خلافت ِراشدہ کے اصول موجود ہوں اور دوسری طرف عہد حاضر میں جو بھی ریاستی ادارے پروان چڑھے ہیں وہ بھی پورے طور پر بروئے کار آ جائیں تو گویا ابلیسیت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ تاریخ ِانسانی کا جتنا بڑا اتحاد (coalition)افغانستان پر حملے کے لیے بنا ہے، وہ کبھی نہ تو اس سے پہلے بناہے نہ اب بنے گا۔ نیٹو کی فورسز عراق میں نہیں گئیں‘ یہاں آ گئیں۔ اس لیے کہ اَلْکُفْرُ مِلَّــۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۔ اور اس ملّت ِواحدہ کو سب سے بڑا اندیشہ اسلام سے ہے۔ لہٰذا اس معاملے میں امریکہ اور یورپ کو روس کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہے۔ برطانیہ کے وزیراعظم گورڈن برائون نے واشنگٹن میں یہ بیان دیا تھا کہ عنقریب چین بھی اپنی فوجیں افغانستان میں بھیج دے گا۔ یہ بات کسی عام صحافی نے نہیں‘برطانیہ کے وزیر اعظم نے کہی تھی‘ لہٰذا بے بنیاد نہیں ہو سکتی‘ اگرچہ چند دن کے بعد چین کی طرف سے اس کی تردید آگئی تھی۔ آپ کو معلوم ہے موجودہ سیاست کا معاملہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ ایک بات آئی‘ پھر اس کی تردید آ گئی‘ پھر معلوم ہوا کہ اس میں کچھ جزوی حقیقت تھی‘ پھر بعد میں وہ بات کھل کر سامنے آ گئی۔ دراصل اس طرح کے feelerلوگوں کا ردِّعمل معلوم کرنے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں چین اس اتحاد میں آئے گا۔ اس لیے کہ چین کو خود اسلام سے اندیشہ ہے۔ اس کے بہت بڑے صوبے سنکیانگ میں مسلمانوں کی عظیم اکثریت ہے اور وہ ان میں کسی انقلابی تحریک کے جنم لینے سے خائف ہے۔اور ظاہر ہے کسی نظریے یا فکر کے لیے نہ تو کوئی ویزا درکار ہے نہ پاسپورٹ۔ وہ تو ملکوں کی سرحدیں عبور کر جاتا ہے اور اسے نہ کوئی پہاڑ روک سکتا ہے نہ دریا۔اورافغانستان کا ایک کونہ چین کے ساتھ جا کر مل بھی جاتا ہے۔ ’’واخان‘‘کی پٹی کا ایک سرا چین کے ساتھ ملتا ہے۔ اس طرح چین بھی گویا افغانستان کی سرحدوں میں شامل ہے۔ تو ان کو خطرہ ہے کہ افغانستان سے اسلام کا انقلابی اور جہادی فکر اگر کہیں ہمارے اس صوبے سنکیانگ کے اندر آگیا تو ہمارے لیے معاملہ مشکل ہو جائے گا۔ تو پہلی بات تو یہ ہے کہ افغانستان میں اسلامی نظام کے ایک امکان کا معاملہ پیدا ہوا۔ لہٰذا اس پر اتنی بڑی فوج کشی کی گئی۔
مَیں محسوس کرتا ہوں کہ یہ حدیث اسرائیل کے علم میں ہے جو ہمارے ہاں بیان ہوتی ہے:
((تَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَأیَاتٌ سُوْدٌ لَا یَرُدُّھَا شَیْئٌ حَتّٰی تُنْصَبَ بِاِیْلِیَاءَ)) (الترمذی)
’’خراسان کے علاقے سے سیاہ پرچم (لے کر لشکر) نکلیں گے‘ ان کا رُخ کوئی موڑ نہیں سکے گا‘ یہاں تک کہ وہ جا کر یروشلم میں نصب ہو جائیں گے۔‘‘
یہود کے استیصال کا معاملہ چونکہ خراسان (افغانستان) ہی سے شروع ہونا ہے لہٰذا وہ یہاں اپنے پنجے مضبوطی کے ساتھ گاڑے رکھنا چاہتے ہیں۔ اوباما کا بھی یہی ایجنڈا ہے اور اس نے کہا ہے کہ میں عراق سے فوج نکال لوں گا اور افغانستان میں مزید داخل کروں گا۔ دراصل عراق کا معاملہ متذکرہ بالا چارلڑیوں (strands)میں سے صرف دو پر مشتمل تھا۔ لہٰذا وہاں کوئی بڑا اتحاد وجود میں نہیں آیا ۔ وہ دو چیزیں یہ تھیں: (i)تیل کے ذخائر (ii)اسرائیل کی اوّلین توسیع --- یعنی عراق پر حملہ گریٹر اسرائیل کے قیام کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس لیے کہ جیسے ہی صدام کو شکست ہوئی اور بغداد میں اس کے مجسمے بھی گرائے گئے تو اسرائیل کے اُس وقت کے وزیر اعظم شیرون نے فوراً کہہ دیا تھا کہ عنقریب عراق پر ہماری حکومت ہو گی‘ اور پہلے تو ہم صرف فرات تک کا علاقہ مانگتے تھے اب ہمارا مطالبہ دجلہ تک ہے۔
افغانستان میں امریکہ کا ایک اور ایجنڈا بھی ہے۔ اسے ایشیا کے وسط میں قدم جمانے کے لیے ایک خطۂ زمین کی ضرورت ہے۔ اُس نے ایک اسرائیل تو عالمِ عرب کے قلب میں گویا خنجر کے طور پر گاڑا ہے اور وہاں پر اپنے پائوں جمائے ہیں‘ جبکہ اسے ایک اور ’’اسرائیل ‘‘ایشیا کے قلب میں درکار ہے‘ جہاںاسرائیلی حکومت کی طرح کوئی حکومت ہو جو اُس کی پشت پناہ ہو‘ جو اُسی کے اشارے پر ناچے اور اُسی کے ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر اپنے تمام وسائل و ذرائع صرف کرے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے افغانستان کا انتخاب کر لیا۔ یہ ان کا پروگرام ہے۔ فی الواقع کیا ہو گا‘یہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ انہوں نے بہرصورت یہاں اپنے پنجے گاڑ کر ہی رکھنے ہیں۔ یہیں سے پاکستانی علاقوں پر امریکی حملے ہوتے ہیں‘ جو صوبہ سرحد کے وسطی علاقے بنوں تک جا پہنچے ہیں۔ ہماری حکومت کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے حوالے سے ہمارا امریکہ سے کوئی معاہدہ نہیں‘ جبکہ ان کی طرف سے مسلسل کہا جا رہا ہے کہ یہ ہمارا سہ فریقی تعاونِ باہمی کا معاہدہ ہے‘ جس میں افغانستان کی حکومت‘ پاکستان کی حکومت اور نیٹو شریک ہیں۔ اس معاہدے کی رو سے ہم آپس میں ایک دوسرے کے تعاون سے یہ حملے کر رہے ہیں۔ہمارے حکمرانوں کی طرف سے کبھی کبھی ایک چھوٹا سا احتجاجی بیان آ جاتا ہے کہ بس بس اب مزید برداشت نہیں ہو گا‘ آپ ہماری sovereignty کو چیلنج نہیں کر سکتے‘ لیکن یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے بس پڑتے افغانستان کو چھوڑنا نہیں ہے۔
اسی افغانستان کے بارے میں علّامہ اقبال کے دو شعر ملاحظہ کیجیے:
آسیا یک پیکر آب و گِل است
ملّتِ افغاں در آں پیکر دِل است!
’’ایشیا مٹی اور پانی کا ایک پیکر ہے‘ جیسے انسان کا جسم مٹی اور پانی کے آمیزے سے بنا ہے۔ جس طرح انسان کے جسم کے اندر دل ہوتا ہے اسی طرح افغانستان ایشیا کے دل کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘
از فسادِ اُو فسادِ آسیا
در کشادِ اُو کشادِ آسیا
’’اگر وہاں فساد ہو گا تو پورے ایشیا میں فساد ہو جائے گا اور اگر وہاں کے حالات بہتر ہو جائیں گے تو پورے ایشیا کے حالات میں بہتری آ جائے گی۔ ‘‘
تو امریکہ افغانستان کو قلب ِ ایشیا میں ایک اسرائیل کی صورت دینا چاہتا ہے‘ اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ اس کے ضمن میں رسول اللہﷺ کی احادیث بھی یقیناً اسرائیلیوں کے علم میں ہوں گی۔ یہ لوگ بہت ریسرچ کرتے ہیں اور ایسی احادیث ان کے علم میں ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب حضرت مسیحؑکا نزول ہو گا اور اس کے بعد جو یہودیوں کاقتل عام ہو گا تو اُس وقت صرف ایک درخت ’’غرقد‘‘ ایسا ہو گا جو یہودیوں کو پناہ دے گا۔ ورنہ کوئی شجر ہو یا حجر‘ کوئی یہودی ا س کے پیچھے چھپے گا تو وہ پکار کر کہے گا کہ اے عبداللہ! اے مسلمان! دیکھ میرے پیچھے یہ یہودی چھپا ہوا ہے ‘ آئو اور اسے قتل کرو!----اور یہودیوں نے اسرائیل میں سب سے زیادہ شجر کاری غرقد کی ہی کی ہوئی ہے۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ یہی درخت ان کا پشتیبان بن سکتا ہے۔
امریکہ کو سنٹرل ایشیا کے تیل کے ذخائر کے لیے راستہ چاہیے اور وہ افغانستان سے ہوکر گزرتا ہے۔ وسطی ایشیا میں تیل کے بہت زبردست ذخائر موجود ہیں۔ ابھی تو چائنا اس کے لیے کوشش کر رہا ہے اور اُس نے وہاں پائپ لائن بچھا دی ہے‘ جبکہ امریکہ چاہتا ہے کہ وہاں سے تیل وہ اپنے ہاں لے جائے۔ یہ امریکہ کے ایجنڈے میں ہے۔ وہ اصل میں گریٹر بلوچستان بھی اسی لیے بنانا چاہتا ہے کہ اس کے راستے سے افغانستان اور وہاں سے سنٹرل ایشیا کے تیل کے ذخائر تک رسائی حاصل ہو سکے۔
خود افغانستان کے اندر معدنی ذخائر بے انتہا ہیں اور یہ بات ہم سے زیادہ امریکہ کے علم میں ہے۔ مارچ 2001ء میں مشہور ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر سلطان بشیر الدین محمود (جو ایک مخلص سنی مسلمان ہیں) نے ہمارے ہاں ایک خطاب کیا تھا : ’’افغانستان پر عالمی پابندیاں کیوں؟‘‘ ان کا یہ خطاب مئی 2001ء کے میثاق میں شائع بھی ہو گیا تھا۔ انہوںنے روسی اور جرمن ماہرین ارضیات کی رپورٹوں کے حوالے سے بیان کیا تھا کہ صوبہ بلخ میں اتنا تیل ہے کہ افغانستان مستقبل میں سعودی عرب ہوگا۔ گیس اس قدر ہے کہ روس زمانۂ جنگ میں لاکھوں کیوبک میٹر یومیہ کے حساب سے وہاں سے گیس لے کر جاتا رہا۔اس کے علاوہ وہاں پر لوہے اور کاپر کے ذخائر دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہیں۔ UNDPکی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ایک لاکھ ٹن سے زیادہ سونا موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہاں انتہائی قیمتی جواہرات‘ انڈسٹریل اور سٹریٹجک دھاتوں اور دیگر معدنیات کے عظیم ترین ذخائر موجود ہیں۔ مزید برآں میٹھے پانی کے اتنے ذخیرے ہیں کہ ان کے ذریعے پورے افغانستان کو باغ و بہار بنایاجا سکتا ہے۔ چنانچہ افغانستان پر قبضہ کرنے میں یہ فیکٹر بھی نہایت اہم ہے۔
گریٹر کشمیر : اس ضمن میں یہ بات بھی لائق ِ توجہ ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور اپنے تمام آپشنز کو ایک ہی جگہ نہیں رکھا کرتی‘ متبادل آپشنز بھی ان کی نظر میں رہتے ہیں۔ چنانچہ افغانستان کے علاوہ ان کی نظر یں کشمیر پر بھی رہی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر ‘پاکستانی کشمیر اور ادھر سے گلگت‘ ہنزہ اور کچھ دوسرے علاقوں کو شامل کر کے ’’گریٹر کشمیر‘‘ بنایا جائے۔ یاد رہے کہ گلگت اور ہنزہ ایک زمانے میں سکھوں کی ریاست کشمیر میں شامل تھے۔ ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے منصوبے کا مقصد بھی وسط ایشیا میں ایک ’’اسرائیل‘‘ کا قیام اور چائنا کا گھیرائو ہے۔مسز رابن رافیل امریکہ کی انڈر سیکریٹری آف سائوتھ ایشیا ہوا کرتی تھی۔ (جس کا شوہر امریکی سفیر رابن رافیل ضیاء الحق صاحب کے ساتھ حادثے میں ہلاک ہوا تھا) اُس نے باقاعدہ طور پر یہ بیان دیا تھا کہ ہم بھارت سے اس کا کشمیر لیں گے‘ پاکستان سے اس کا کشمیر اور شمالی علاقہ جات لیں گے اور پاکستان نے تبت کا جو علاقہ کبھی چین کو دے دیا تھا وہ بھی واپس لیں گے اور ان سب کو ملا کر ایک ’’گریٹر کشمیر‘‘ قائم کریں گے۔ وہ تو بھارت اُس وقت تک امریکہ کے پھندے میں پھنسا نہیں تھا اور اُس کے وزیردفاع نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہہ دیا تھا کہ کشمیر کے بارے میں امریکہ کی اپنی نیت خراب ہو چکی ہے‘ لہٰذا بھارت نے اس معاملے میں کوئی لچک نہیں دکھائی۔ اب تو ظاہر بات ہے کہ بھارت بھی اس کی جھولی میں ہے ‘لہٰذا امریکہ اسے اس منصوبے پر قائل کر سکتا ہے۔
ایک اور اسکیم بھی سامنے آئی ہے کہ شمالی علاقہ جات میں ایک اسماعیلی ریاست قائم ہوجائے۔ پاکستان آرمی کے ایک حاضر سروس میجر جو آج کل شمالی علاقہ جات کے اندر ہی کام کر رہے ہیں‘ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہاں اس کا شدید اندیشہ پیدا ہو رہا ہے۔ اسماعیلی وہاں بہت متحرک ہیں اور آغا خان ایک عرصے سے وہاں بہت زیادہ پیسہ لگا رہے ہیں۔ اس وجہ سے اس کا امکان موجود ہے کہ وہاں ایک گریٹر اسماعیلی ریاست قائم ہو جائے۔ بہرحال یہ ان کے آپشنز ہیں۔(جاری ہے )