(منبرو محراب) اللہ کے رسولﷺ کاراستہ - ابو ابراہیم

9 /

اللہ کے رسولﷺ کاراستہ

(سورہ یوسف کی آیت 108کی روشنی میں)

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظہ اللہ کے20جنوری2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
آج ان شاء اللہ ہم قرآن حکیم کی سورئہ یوسف کی آیت108 کا مطالعہ کریں گے ۔ اس کے ذیل میں نبی مکرم ﷺ کا راستہ، آپ ﷺ کا طریقہ، آپﷺ کی 23 برس کی مستقل سنت یعنی دعوت الی اللہ کے حوالے سے کچھ باتوں کی یاددہانی مقصود ہے۔ ارشاد ہوتاہے :
{قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ قف}(یوسف :108) ’’(اے نبیﷺ!) آپ ؐ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے‘ میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں‘‘۔
’’راستے ‘‘ کے لیے عربی میںلفظ سبیل بھی استعمال ہوتاہے ،صراط بھی ،طریق بھی ۔گوکہ لغوی اعتبار سے تھوڑا تھوڑا فرق ہوگالیکن سبیل،طریق اور صراط کم وبیش ہم معنی ہیںجن کامفہوم ہے: راستہ ۔تمام انبیاء ورسل کی دعوت کا بنیادی نکتہ اللہ کی طرف بلانا ہی رہا ہے۔ گویااصول کے اعتبار سے تمام پیغمبروں کی بنیادی دعوت بھی ایک ہے ، تمام انبیاء ورسل ؑکادین بھی ایک یعنی اسلام ہے۔ باقی تمام مذاہب کسی نہ کسی شخصیت کے نام پر ہیں ، کسی نہ کسی شریک کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جو رب کائنات کی طرف بلاتاہے ۔ اللہ فرماتاہے :
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلامُ قف} ’’یقینا ًدین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔‘‘ (آل عمران:119)
بہرحال دعوت الی اللہ کا قرآنی مفہوم وسیع تر ہے۔ اس میں تبلیغ بھی شامل ہے ، برائی سے روکنا اور نیکی کی طرف بلانا بھی شامل ہے ۔ اس میں شہادت علی الناس کا فریضہ بھی شامل ہے ، اقامت دین کی جدوجہد بھی شامل ہے ۔ مقصد ایک ہی ہے کہ بندوں کو اللہ کی طرف بلایا جائے ، انہیں آخرت کی جوابدہی کا احساس دلایا جائے ، اللہ کا پیغام انہیں سنایا جائے۔اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کے اس فریضے کو بڑے اہتما م کے ساتھ بیا ن فرماتاہے :
{یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا(45) وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا(46)} (الاحزاب:45،46)
’’اے نبیؐ !یقینا ہم نے بھیجا ہے آپ کو گواہ بنا کر اور بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا۔اوراللہ کی طرف بلانے والا اُس کے حکم سے اور ایک روشن چراغ بنا کر۔‘‘
اس آیت میں حضورﷺ کی پانچ شانیں بیان کی گئی ہیں: شاہد، مبشر ، نذیر ، داعی اور روشن چراغ ۔ یہ ساری کی ساری شانین ایک فریضہ کے تعلق سے ہیں اور وہ ہے : اللہ کی طرف بلانا۔وحی کا دروازہ بند ہو گیا لیکن وحی کے ذریعے نازل کی گئی ہدایت قرآن کی صورت میں موجود ہے۔یعنی نبوت خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہو گئی لیکن کار رسالت باقی ہے ۔لوگوں تک دین کی دعوت کو پہنچانا ، اللہ کی طرف بلانا ، یہ کاررسالت ہے اور یہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ اس کی ذمہ داری ختم نبوت کے بعد اس اُمت پر ہے ۔ ہرمسلمان اپنی استعداداور اپنے دائرہ کار کے اعتبار سے اس حوالے سے مسئول ہے ، اُس سے اس حوالے سے جواب طلب کیا جائے گا۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے داعی بننا ضروری ہے۔ ہرمسلمان عالم بنے شرط نہیں ہے، ہر مسلمان مفتی بنے ضروری نہیں ۔ کچھ بنیں گے توامت کی راہنمائی شرعی معاملات میں ہوتی رہے گی۔ ہرمسلمان امام مسجد،خطیب ، مفتی ، مدرس قرآن نہیں بن سکتا۔ لیکن ہر اُمتی پر داعی بننا فرض ہے ۔ اس میں کوئی استثنا ء نہیں۔ یہاں تک کہ خواتین بھی اپنے دائرے کار میںدین کی دعوت دیں گی ، خصوصاً اپنی اولاد کی تربیت انہوں نے ہی کرنی ہے ۔ اس حوالے سے ماں سے بھی پوچھا جائے گا۔باپ کی ذمہ داری ہے کے وہ گھر میں دین کو قائم کرے اور اپنی اولاد کو دین کا داعی بنائے ۔ اس حوالے سے اُس سے پوچھا جائے گا ۔
آج اُمت میں کیا ہورہا ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:ہربچہ فطرت پرپیدا ہوتاہے لیکن اس کے ماں باپ اس کویہودی یانصرانی یامجوسی بنادیتے ہیں۔اسی طرح آج اولاد کو گمراہ کرنے کا سبب خود والدین بن رہے ہیں۔ میڈیا کا قصور بعد میں ہے ۔مہنگے سے مہنگے موبائل اولاد کی محبت میں لے کر دیے جائیں گے لیکن ان کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے نہ وقت ہے اور نہ پیسہ۔ اس بارے میں بھی سوال ہو گا۔ بہرحال عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ ہراُمتی کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوت دین کے فریضے کو انجام دینے میں اپناکردار ادا کرے ۔ آج دعوت تو ہر بندہ دے ہی رہا ہے ۔ سمارٹ فون پر ہم جو کچھ شیئر کر رہے ہوتے ہیں ، یہ دعوت ہی تودی جارہی ہے۔حتیٰ کہ جو بندہ ان پڑھ ہے ، خاموش ہے وہ بھی اپنے کردار سے کوئی نہ کوئی دعوت دے رہا ہے۔ مثلاً چار دوست بیٹھے ہوئے ہیں ،اذان کی آواز آئی، ایک اُٹھ کرنماز کے لیے چلاگیا۔اس نے اپنے کردار سے خاموش دعوت دی کہ نماز اہم ہے اس کام سے جو ہم کر رہےہے ۔ تین بیٹھے رہے ، انہوں نے اپنے کردار سے کہ نماز اہم نہیں ہے اس کام سے جو ہم کر رہے ہیں۔ دعوت تو ہر بندہ دے رہا ہے مگر سوچنا چاہیے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان اور بحیثیت اُمتی کونسی دعوت دینے کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور ہم اپنے عمل اور کردار سے لوگوں کو کیا دعوت دے رہے ہیں؟ کل اس بارے میں بھی سوال ہو گا ۔اللہ کے نزدیک بہترین داعی کون ہے؟فرمایا:
{وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَO}(حم السجدہ:33) ’’اور اُس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو بلائے اللہ کی طرف‘اور وہ نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘
احسن superlativeڈگری ہے۔یعنی بیسٹ۔ اللہ کے نزدیک بیسٹ داعی کون ہے ؟ جو بلائے اللہ کی طرف ۔ لیکن آج کیا ہورہا ہے ؟ آج بیسٹ کونسلر (داعی) اُسے سمجھ لیا گیا جو لوگوںکو بتا رہا ہے : ورلڈفرام ہوم کرلو چار پراجیکٹس پکڑ لو،دس لاکھ کمالو۔ ذرا آئی ٹی کے اندر تھوڑاساآگے بڑھ جائو۔ فارن ایکسچینج اکائونٹنگ کے اندر چلے جائو،اب جنرلائزایم بی اے نہیںچلے گا، سپیشلائزیشن کی طرف جانا پڑے گا۔ بڑی بڑی کونسلنگ اس کے لیے ہورہی ہیں۔ بڑے بڑے کونسلر بیٹھے ہوئے ہیں۔ان سے وقت لیناپڑتاہے اوران کو pay کرنا پڑتا ہے اور ان میں سے بیسٹ کونسلر کو تلاش کیا جاتاہے۔ ان کی جائز بات ٹھیک ہو گی مگر قرآن تواللہ کاکلام ہے اور اللہ کس کو بیسٹ قرار دے رہا ہے ؟ یہ صرف فضیلت کامعاملہ نہیں بلکہ فرضیت کا معاملہ بھی ہے ۔یہ کاررسالت کاتقاضا ہے۔ یہ کوئی آپشنل کام نہیںہے کہ چلوکرلیاتو ٹھیک، یہ کام فلاں علماء کررہے ہیں ،فلاںجماعت کے لوگ کر رہے ہیں ، فلاں مسجد میں درس ہوجاتاہے وغیرہ ۔ اچھی بات ہے لیکن اگر میں اور آپ دعوت کا کام نہیں کر رہے تو یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ کیونکہ بحیثیت اُمتی اور مسلمان ہم سے بھی پوچھا جائے گا ۔ کہیں یہ غفلت ہمیں جہنم کے عذاب کی طرف ہی نہ لے جائے ۔ سوچنا چاہیے ۔ رسولوں نے توگواہی دے دی اوررسول اللہ ﷺ نے حجۃالوداع کے موقع پرگواہی دے بھی دی اور حاضرین سے گواہی لے بھی لی اوراللہ کو گواہ بھی بنالیاکہ اے اللہ! توگواہ رہ کہ میں نے تیرا پیغام پہنچادیاہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا : جو یہاں موجود ہے وہ اُس تک پہنچائے جو یہاں موجود نہیں ہے ۔ لہٰذا یہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے ۔ اس موضوع پرڈاکٹر اسرارا حمد ؒ کابہت اہم خطاب ’’دعوت الی اللہ ‘‘ کے عنوان سے کتابچے کی صورت میں موجود ہے ۔ اس میں ڈاکٹر صاحب نے بڑی شدومد کے ساتھ اس کاذکر فرمایاتھاکہ اللہ کے نبی ﷺ کااسوہ جامع ترین ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ہر سنت اہم ہے ۔ بعض سنتوں کے حوالے سے علمی نوعیت کا اختلاف رائے تو ہوسکتاہے کہ فلاں عمل زیادہ افضل ہے یا فلاں ترجیح میں مقدم ہے ، لیکن ایک ایسی متفقہ علیہ سنت جس میں کسی مکتب فکرکا کوئی اختلاف رائے نہیں ہے وہ آپ ﷺ کی 23برس کی مسلسل سنت ہے یعنی دعوت الی اللہ ۔ یہ حضورﷺ کی سب سے اہم سنت ہے ۔ کیا آج ہم اس سب سے بڑی سنت کو ادا کر رہے ہیں ؟
یاد رکھئے !بحیثیت اُمتی اس سنت کا ادا کرنا اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمے لگایا ہے ۔ کل یہ ذمہ داری یہود کے کندھوں پر تھی ۔ اسی وجہ سے اللہ نے انہیں بھی فضیلت دی تھی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَO} (البقرۃ:47) ’’اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت عطا کی تمام جہانوں پر۔‘‘
اُس وقت اُن کی یہ فضیلت پیغمبروں کادست وبازو کی بننے کی وجہ سے تھی لیکن جب انہوںنے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تواللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں بھی فرماتاہے :
{وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّــۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق} (البقرۃ:61) ’’اور ان پر ذلت ّو خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی‘گئی۔‘‘
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعوت الی اللہ کے لیے چنا :{ہُوَ اجْتَبٰـکُمْ} (الحج:85) ’’اُس نے تمہیںچُن لیا ہے۔‘‘
اللہ نے ہمیں کسی چھوٹے کام کے لیے کھڑا نہیں کیابلکہ بہت بڑا مشن جو انبیاء ورسل ؑکامشن تھااس کے لیے اللہ نے ہمیں کھڑا کیاہے ۔اگر کہیں ہماری صلاحیتیں لگنی چاہئیں تواس آفاقی مشن میں لگنے چاہئیں ۔ ہماری یوتھ میں ٹیلنٹ کی کمی نہیںہے۔ اگر یہی یوتھ آئی ایم ایف، ورلڈبنک،ناسا،اورآکسفورڈیونیورسٹ کواپنی صلاحیتیں دے رہی ہے تو بحیثیت اُمتی اپنے مشن کے لیے یہ صلاحیتیں کیوں صرف نہیں ہو سکتیں ؟ہمیں سوچنا چاہیے کہ ایک مسلمان اور اُمتی کی حیثیت سے ہماری صلاحیتیں کہاں صرف ہو رہی ہیں ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :
{وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ ط} (ابراہیم : 7) ’’اور یاد کرو جب تمہارے رب نے اعلان کردیا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تومیں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔‘‘
شکر یہ بھی ہے کہ اللہ نے ہمیں جو صلاحیتیں دی ہیں انہیں ہم اللہ کے راستے میں استعمال کریں۔اگر ہم ایسا کریں گے تو اللہ ہماری صلاحیتوں کو مزید نکھار دے گا۔ جیسے اللہ نے عربوں کی صلاحیتوں کو نکھار دیا تھا اور انہیں دنیا کا امام اور حکمران بنا دیا تھا ۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی زندگی، جان ، مال ہر چیز کو رسولوں کے مشن کے لیے صرف کیا تھا ۔ یہ حضورﷺ کی 23برس کی سنت تھی جس کو صحابہ ؓ نے اپنا یا تھا ۔ زیر مطالعہ آیت میں آگے فرمایا: { عَلٰی بَصِیْرَۃٍ }’’پوری بصیرت کے ساتھ۔‘‘
بصیرت کی ترجمانی Conviction،یقین، دلائل، براہین جیسے الفاظ سے کی جا سکتی ہے ۔ اس کاایک پہلویہ ہے کہ دعوت دینے والے کو پہلے خود دعوت پر پختہ یقین ہو۔ جیسے قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَـیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ O} (البقرہ: 285) ’’ایمان لائے رسول (ﷺ) اس چیز پر جو نازل کی گئی اُن کی جانب اُن کے ربّ کی طرف سے اور مؤمنین بھی (ایمان لائے۔)‘‘
اس کے ذیل میں سمجھیں کہ دعوت دینے والے کو اپنی دعوت پر شعوری،حقیقی،قلبی اوراکتسابی ایمان حاصل ہو ۔ ایمان زبان کے اقرار کانام ضرور ہے مگرکافی نہیں ،حقیقی ایمان کے لیے دل کی تصدیق بھی حاصل ہونی چاہیے اور شعوری طور پر بھی ذہن اس کو قبول کرتا ہو ۔ حقیقی ایمان دل میں ہوتاہے توعمل ثبوت پیش کرتاہے اوروہ عمل واقعتاً عمل ہوگا تووہ لازماً بندے کو دوسروں کی خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ دعوت دین کے عمل کی طرف لے کر جائے گا۔ پھرجودعوت پیش کرنی ہے تو وہ پورے وثوق ، یقین اور پوری convictionکے ساتھ پیش کرنی ہے جس کے لیے بصیرت کالفظ آیاہے۔اس کے لیے آپ کے پاس دلائل اور براہین بھی ہونے چاہئیں ۔ ایک عوام الناس ہیں جہاں وعظ ونصیحت کے ساتھ کام چل جاتا ہے مگر معاشرے میں اگر تبدیلی لانی ہے جس کے ہم خواہاں ہیں، انقلاب برپا کرنا ہے جوہماری چاہت ہے تومعاشرے کے ذہین طبقات پربھی فوکس کرنا ہوگا ۔ ان کو ان کی ذہنی سطح پرایڈریس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہاں دلائل اور براہین کی ضرورت پیش آئے گی اور اگر کچھ اشکالات اوراعتراضات ہیں ان کورفع کرنے کی بھی کوشش کرنا پڑے گی اوریہ سب کچھ بصیرت کے ذیل میں آئے گا جس کے ذریعہ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ زیر مطالعہ آیت میں فرمایا:
{قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِقف عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ ط} (یوسف :108)’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ یہ میرا راستہ ہے ‘میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں‘پوری بصیرت کے ساتھ‘ میں بھی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے میری پیروی کی ہے۔‘‘
حضور ﷺ سے کہلوایا جارہا ہے کہ یہ میرا راستہ ہے، یہ میراطریقہ ہے ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ اس بات میں بڑا زور ہے اوریہ رسول اللہﷺ کی 23 برس کی سنت ہے ۔ اگر ایک امتی یہ کام کرتاہے تواس کی نسبت انبیاء ورسل سے ہوجاتی ہے اوراس کی نسبت محمدرسول اللہﷺ سے ہوجاتی ہے ۔اتباع کرنے والوں میں اولاً نبی مکرمﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔پھر وہ اُمتی جو دعوت کا کام کر رہے ہیں اتباع کرنے والوں میں شامل ہوجائیں گے۔ اس سے ایک اورنکتہ بھی معلوم ہوا۔ حضورﷺ کی اتباع تواللہ کی محبت کی دلیل ہے۔ قرآن کریم میںارشادباری تعالیٰ ہے :
’’(اے نبیﷺ!) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو‘اللہ تم سے محبت کرے گااور تمہارے گناہ بخش دے گااور اللہ بخشنے والا ‘رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ (آل عمران:31)
اتباع میں توپوری زندگی آئے گی خواہ حضورﷺ نے کسی بات کاحکم نہ بھی دیاہومگر حضور ﷺ نے اس کواختیار کیا ہو تو حتیٰ الامکان اس کی پیروی کی کوشش کی جائے۔ اسی اتباع کے تعلق سے یہاں کیاذکر آرہاہے کہ وہ لوگ بھی اللہ کی طرف بلا رہے ہیں جو میری اتباع کرتے ہیں ۔سچی بات یہی ہے کہ اگر اللہ سے محبت کا دعویٰ ہے تو اتباع رسول ﷺ کاثبوت پیش کرنا ہوگا۔ خصوصاً جو حضور ﷺ کی 23برس کی سنت ہے ، جو دعوت الی اللہ کا کام ہے اور جو رسولوں کا مشن ہے اس میں بھی حضور ﷺ کی اتباع کرنا ہوگی ۔ کوئی امتی اس سے محروم نہ رہے ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے اس کو عموم کر دیاہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ((بلغوا عنی ولوآیۃ))’’میری جانب سے پہنچادو خواہ ایک ہی آیت ہو۔ ‘‘ ضروری نہیں کہ کوئی عالم ہے تو وہی دعوت دے گا ۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس کے لیے بنیادی معیار یہ دیا کہ اگر ایک آیت ، ایک حدیث بھی آتی ہے تو اس کو بھی آگے پہنچاؤ ۔ پہنچانا ضروری ہے چاہے کوئی قبول کرے یا نہ کرے ۔ رسول اللہﷺ کی دعوت کو اہل طائف نے رد کیا تو واپس آتے ہوئے وادی نخلہ میں جنات کی ایک جماعت نے فجر کی نمازمیں حضورﷺ کی تلاوت سنی توخود بھی ایمان لے آئے اور اپنی جماعت کو بھی دعوت دینے کے لیے روانہ ہوگئے ۔ یعنی اگر طائف والوں نے رد کیا تو جنات نے دعوت کو قبول کر لیا ۔طائف نے رد کیا تو اللہ نے یثرب کے دروازے کھول دیے ۔ بنیادی کام دعوت ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ساری زندگی یہی کام کیا ۔ حجۃ الوداع کے موقع پرسوالاکھ صحابہ کرام ؓ تھے توجنت البقیع میں زیادہ سے زیادہ آٹھ سے دس ہزار صحابہ ؓ دفن ہوئے ،باقی سب کی قبریں دنیا بھر میں ہیں کیونکہ صحابہ ؓ کا مشن دعوت الٰہی اللہ تھا۔ دعوت کی غرض سے پھیل گئے ۔ یہ حضور ﷺ کی اتباع کا سب سے بڑا تقاضا ہے کہ ہمیں جو صلاحیتیں اوروسائل اللہ نے دیے ہیں وہ دعوت کے کام میں لگ جائیں ۔ آخر میں فرمایا:
{ وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ط} (یوسف :108) ’’اور اللہ پاک ہے اور میں ہر گز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
اللہ ہرعیب ،کمزوری ،حاجت ،نقصان ،زوال سے پاک ہے ۔ اگر ہم دعوت کا کام نہیں کریں گے تو اللہ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا اور اگر ساری زندگی یہ کام کریں گے تو اللہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ البتہ اگر ہم دعو ت کا کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی کے راستے کھول دے گا اور اگر بحیثیت مسلمان اور بحیثیت اُمتی اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو آخر ت میں خود نقصان اُٹھائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے اورہمیں اپنے رسول ﷺ سے سچی محبت اوراتباع کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !