اندھیر نگری چوپٹ راج
ایوب بیگ مرزا
ویسے تو ہم ایک عرصہ سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے اور ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن آج بڑی ذمہ داری سے کہاجا سکتا ہے کہ موڑ کی نزاکت نے بالآخر کام دکھا دیا ہے اور تباہی کے دہانے سے بھی لڑھکتے ہوئے ہم تباہی کے دامن میں پہنچا چاہتے ہیں۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اندھیر نگری چوپٹ راج کا محاورہ ہماری موجودہ صورتِ حال کے بارے میں وضع کیا گیا تھا۔ وطنِ عزیز کو کسی بھی سمت سے اور کسی بھی زاویہ نگاہ سے دیکھ لیجیے ہماری دانست میں اس سے بہتر تبصرہ ممکن نہیں۔ انفرادیت پر ہم فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کرتے اجتماعی حوالے سے دیکھنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں یعنی سیاسی، معاشی اور معاشرتی سطح پر ملک اور قوم کس صورتِ حال سے دو چار ہے۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ جیسے ادارے ملک میں کیا رول ادا کر رہے ہیں۔ ان تمام حوالوں سے یہ فیصلہ کرنا کہ کون بدتر ہے انتہائی مشکل کام ہے۔
سب سے پہلے سیاسی حوالے سے ماضیِ قریب سے بات کا آغاز کرتے ہیں چھوڑ دیجیے اس بات کو کہ رجیم چینج کیسے ہوا؟ امریکہ اُس میں ملوث تھا یا نہیں تھا، اسٹیبلشمنٹ کا کیا رول تھا۔ سیاست دانوں نے جائز کیا ناجائز کیا، بہرحال نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جماعت تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی اور PDM نامی اتحاد کی حکومت قائم ہوگئی اور شہباز شریف وزیراعظم بن گئے۔ اب ہم اپنے تجزیے کو اگلے مراحل پر فوکس کرتے ہیں۔ ختم کی گئی حکومت کے خلاف نئی حکومت نے مہنگائی اور دوسرے ممالک سے تعلقات خراب کرنے کی چارج شیٹ بڑے زور دار انداز میں لگائی۔ تحریک انصاف نے پارلیمنٹ میں نئی حکومت کی مخالفت کرنے اور پارلیمانی لڑائی لڑنے کی بجائے پارلیمنٹ کو خدا حافظ کہہ دیا اور سڑکوں پر آگئی۔ جمہوری نقطۂ نظر سے یہ پسندیدہ عمل نہیں تھا۔ ہماری رائے میں اگر عمران خان جمہوری طرز حکومت پر یقین رکھتے ہیں تو اُنہیں دونوں محاذوں پر یعنی پارلیمنٹ اور سڑکوں پر بیک وقت محاذ آرائی کرنا چاہیے تھی لیکن اُنہوں نے جلسہ اور جلوسوں میں حکومت کو للکارنا شروع کیا ایک اندازے کے مطابق اُنہوں نے (60) ساٹھ کے قریب جلسے کیے۔ اِن جلسے جلسوں میں عوام کی حاضری غیرمتوقع طور پر بہت زیادہ رہی اور اُن کی مقبولیت میں شب و روز اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ اُنہوں نے قبل از وقت نئے انتخابات کا مطالبہ زوردار انداز میں کرنا شروع کر دیا۔ کبھی لانگ مارچ کیا اور کبھی شارٹ مارچ۔ اس دوران ایک جلسہ میں اُن پر فائرنگ ہوئی اور وہ زخمی ہوگئے۔ لیکن انتخابات کا مطالبہ اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ لاہور میں اپنے گھر میں بیٹھ کر تحریک چلاتے رہے اور وہ ہر قسم کے مذاکرات سے انکاری تھے جب تک انتخابات کی تاریخ نہ دی جائے۔
دوسری طرف حکومت بضد تھی کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی کرائے جائیں گے حالانکہ دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں تنازعے کا حل فریش مینڈیٹ ہی سمجھا جاتا ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے تھا کہ وہ سیاسی اور جمہوری انداز میں اپنے حریف کا مقابلہ کرتی اور عوام سے رابطہ کرکے اُس کی تائید حاصل کرتی لیکن اُس نے خود کو ڈرائنگ روم کی سیاست تک محدود کر لیا اور عمران خان کے خلاف سیاسی اور اخلاقی الزام تراشی شروع کر دی، عین ممکن ہے کہ اُن میں سے کچھ صحیح ہوں، لیکن عوام نے اس کا کوئی اثر قبول نہ کیا۔ دوسری طرف PDM کی حکومت میں مہنگائی ختم ہونے کی بجائے اور بڑھ گئی جس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہوئی۔ تحریک انصاف کا مطالبہ تھا کہ اسمبلی سے اُن کے استعفے منظور کیے جائیں لیکن سپیکر نے میڈیا پر اعلان کر دیا کہ استعفیٰ کی منظوری کے لیے ہر رکن اسمبلی کا اُن کے سامنے پیش ہونا آئین اور قانون کا تقاضا ہے اور میں کوئی کام آئین کے خلاف نہیں کر سکتا۔ لیکن چند روز بعد ہی اُنہوں نے اپنے قول اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے استعفے اجتماعی طور پر قبول کر لیے۔ یاد رہے سپیکر کا عہدہ جمہوری ممالک میں اتنا مقدس ہوتا ہے کہ بعض ممالک میں اگلے انتخابات میں اپوزیشن اُس کے خلاف امیدوار کھڑا نہیں کرتی۔ عمران خان نے ایک اور ترپ کا پتہ کھیلا پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں۔ اِن صوبوں میں 90 دن کے اندر انتخابات کرانا آئین کا تقاضا ہے۔ جس کا آغاز اس حد تک تو کر دیا گیا کہ ان صوبوں میں عبوری حکومتیں قائم کر دی گئیں لیکن قانون کا یہ تقاضا بھی ہے کہ ان صوبوں میں نئے انتخابات کی فوری تاریخ بھی دی جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
عبوری وزیراعلیٰ مقرر کرنا ECP کا آخری اور حتمی حق ہے لیکن ایک ایسے شخص کو پنجاب کا وزیراعلیٰ لگا دیا جس نے نیب سے پلی بارگین کی ہوئی ہے اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ کوئی مجرم پبلک آفس ہولڈ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ہماری سیاست پھر عدالتوں کا رخ کرے گی۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کی سیاست دن رات عدالتوں میں ہوتی رہتی ہے۔ ہماری عدلیہ عوامی نہیں سیاسی مسائل حل کرتی رہتی ہے۔ عدلیہ کا نام آیا تو کچھ اُس کا بھی ذکر خیر ہو جائے۔ 138 ممالک میں ہماری عدلیہ کا 130 واں نمبر ہے۔ حیرت ہے ہمارے بعد والے آٹھ (8) ممالک میں کیا ہوتا ہوگا۔ اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ دنیا بھر میں کہا جاتا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں کا قانون فیصلے سے پہلے ملزم کے سٹیٹس اور اثر و رسوخ کا دوربین اور خوردبین دونوں سے بھرپور جائزہ لیتا ہے۔ اہل پاکستان کا تجربہ یہ ہے کہ راؤ انور سمیت ہر طاقتور قانون سے بالاتر ہے۔ طاقتوروں کا ذکر آیا ہے تو یہ کہے بغیر بات نہیں بنے گی کہ ہمارے طاقتور انتخابات کے نتائج من پسند چاہتے ہیں تاکہ کاغذی اور ظاہری حکمرانوں کو بھی وہ بلندی سے دیکھیں۔
معاشی صورت حال پر ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے قلم کو کچھ لکھنے پر مجبور کر رہے ہیں اِس دور کے ’’عظیم حساب دان‘‘ محترم اسحاق ڈار ہم کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان کسی صورت ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ ہم جیسے اَن پڑھوں کو کیا معلوم ایسا ہی ہوگا۔ بہرحال قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ دنیا میں شاید ہی یہ ہوا ہو کہ کسی ملک کو IMF کے سامنے جعلی حسابات پیش کرنے پر جرمانہ ہوا ہو۔ ماضی میں موجودہ وزیر خزانہ کی وجہ سے پاکستان یہ اعزاز بھی حاصل کر چکا ہے۔ پچھلے دور حکومت میں اُنہیں جعلسازی پر پانچ ملین ڈالر جرمانہ ہوا تھا۔ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ نہیں ہو رہے ہیں لیکن براہِ کرم یہ بتا دیں کہ اگر کسی ملک کی بندرگاہ پر کنٹینروں کے ڈھیر لگ جائیں اور اُس کے پاس چھڑانے کے لیے رقم نہ ہو۔ کسی ملک کے بنک ایل سیز نہ کھول رہے ہوں کہ زرمبادلہ نہیں ہے۔ جس ملک کے زرمبادلہ ذخائر اتنے کم ہو جائیں کہ اس ملک میں دوسرے ممالک کی رکھی گئی امانتیں بھی اُس سے زیادہ ہوں جس ملک کی فیکٹریاں خام مال درآمد نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو رہی ہوں اور مزدور بے روزگار ہو رہے ہوں (یاد رہے کہ دو سال پہلے فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملز کے پاس اتنے آرڈر تھے کہ مزدور کم پڑ گئے تھے) جس ملک میں لوگ آٹے کی لائن میں لگے ہوئے جان کی بازی ہار جائیں۔ جس ملک میں فاقوں کے ہاتھوں خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں اچانک انتہائی اضافہ ہو جائے۔ جس ملک سے چند ماہ کے قلیل عرصہ میں کئی لاکھ لوگ معاشی بدحالی کی وجہ سے گھر بار چھوڑ کر نکل جائیں، جس ملک میں بجلی کا بریک ڈاؤن دو دن پر محیط ہو اور ڈیزل کی کمیابی پر اچھے دنوں میں بھی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہو اور جس ملک کا وزیراعظم دنیا بھر میں متعلقہ اور غیر متعلقہ لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہہ رہا ہو کہ ہماری مدد کرو، ہم پر یقین کرو، ہم تمہاری رقم واپس کر دیں گے اور IMF کو بغیر کسی میٹنگ کے میڈیا پر کہہ رہا ہو کہ ہماری مدد کرو، ہم تمہاری ہرہر شرط قبول کریں گے۔ جس ملک کا سرکاری بنک صرف نوماہ میں شرح سود کو 8% سے بڑھا کر 17% کر دے، اُسے ہم آپ کے کہنے پر ڈیفالٹر نہیں کہتے لیکن یہ تو بتا دیں اسے کیا کہیں۔ البتہ مالیاتی لحاظ سے ایک مثبت خبر بھی ہمارے سامنے آئی ہے جس سے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے قیامت تک ڈیفالٹ کرنے کے قطعی طور پر کوئی امکانات نہیں۔ وہ یوں کہ 27 کلومیٹر پر محیط حکومت اپنے 80 کے لگ بھگ وزیروں، مشیروں اور معاونین کے لیے جن میں سے ایک درجن وزیر بے محکمہ ہیں کئی ارب روپے کی لگژری گاڑیاں منگوا رہے ہیں۔ اللہ کرے یہ خبر سچی ہو تاکہ ہمیں اپنی معاشی صورتِ حال پر کچھ حوصلہ تو ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اور معاشی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہہ دینا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کے حوالے سے اب کوئی بڑا فیصلہ سالوں یا مہینوں نہیں ہفتوں دور ہے، ضروری نہیں کہ یہ فیصلہ کسی بڑے سانحہ کی صورت میں سامنے آئے اس شر سے خیر بھی برآمد ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ روشنی کی کرن پھوٹنے کے امکانات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب گھٹا ٹوپ اندھیر اچھاجائے اور آج اندھیرا ایسا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا، کاش یہ ہاتھ اشرافیہ اور مافیا کے گریبان تک بھی پہنچ جائے۔ بہرحال ہمیں خیر کی توقع صرف اللہ تعالیٰ سے ہے کہ وہ اپنے فضل سے ایسی کوئی سبیل پیدا کر دے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024