(منبرو محراب) زلزلے:وجوہات اورکرنے کے کام - ابو ابراہیم

9 /

زلزلے:وجوہات اورکرنے کے کام

(قرآن و حدیث کی روشنی میں )

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے10فروری2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
اس وقت شام اورترکی کے علاقے میں زلزلے کے نتیجے میں جو ایک بہت بڑا سانحہ پیش آیا ہے وہ ہم سب کے علم میں ہے ۔ یہ سب کچھ دیکھ کردل مغموم بھی ہوتاہے اور کبھی کبھی یہ فکر بھی لاحق ہوتی ہے کہ آخر یہ کیاہے۔ ایک وہ معاشرے یابے خدا تہذیبیں ہیں جہاں خالق کائنات اور وحی کاانکار ہے وہاں اس پرکلام مختلف نوعیت کاہوتاہے ۔ محض ایک ظاہری آنکھ ہی اس کودیکھتی ہے اور کہا جاتاہے کہ زمین کی پلیٹس میںکوئی معاملہ ہوا ، ہاٹ لائن پر علاقہ ہے تو زلزلہ آگیا وغیرہ ۔ دوسری طرف وہ افراد یا معاشرے ہیں جو خالق کائنات کو مانتے ہیں ، وحی کی تعلیم کو مانتے ہیں اور اس کی روشنی میں سارے معاملات کو دیکھتے ہیں ۔ خداکی قسم !اگر وحی کی تعلیم کی روشنی میں دیکھیں گے توجانے والے کم ازکم اگر ایمان پرگئے ہیں توان کے حوالے سے بڑا مثبت پہلو ہمارے سامنے آتاہے اورجورہ گئے ہیں ان کے لیے بہت کچھ کرنے کے کام ہیں۔
الحمدللہ!پاکستان میں اورپاکستان سے باہر مختلف علماء اور اہل علم نے اس پر کلام کیاہے۔جمعہ کا حاصل چونکہ وعظ، نصیحت،تذکیر،یاددہانی ہے، اور پھر موجودہ حالات کے حوالے سے وحی کی تعلیم کی روشنی میں رہنمائی مقصود ہوتی ہے اس لیے آج ہم اسی حوالے سے مطالعہ کریں گے کیونکہ اس سارے معاملے کی اصل حکمت اللہ کے علم میں ہے ،ہم پہنچ نہیں سکتے ۔
زلزلہ:آیات قرآنی کی روشنی میں
ارشادباری تعالیٰ ہے ـ:
{یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْجاِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ(1)}(الحج)’’اے لوگو! تقویٰ اختیار کروا پنے رب کا ‘ یقینا ًقیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہو گا۔‘‘
یہاں چند منٹ کے شاکس آئیں تو کیا ہو جاتا ہے۔ جب قیامت کا زلزلہ چھائے گاتوپھرپورے عالم کی کیاکیفیت ہوگی ؟ا س سے پہلے اللہ تقویٰ کی بات کر رہا ہے کہ بندے کے دل میں اللہ کا خوف ہونا چاہیے ، اللہ کی نافرمانی سے اپنے آپ کوبچانے کی فکرہونی چاہیے ۔ احادیث کو سامنے رکھیں توگناہوں کی وجہ سے بھی یہ مصائب آتے ہیں۔ اللہ قرآن میں بتارہا ہے کہ کبھی کسی قوم (آل فرعون)کوڈبو کر،کسی قوم(لوط علیہ السلام کی قوم) پر پتھر برسا کر،کسی قوم(شعیب علیہ السلام کی قوم) پرشعلے برسا کراورزلزلہ مسلط کرکے ہلاک کیا گیا ۔ یہ میٹافزیکل کازز بھی قرآن بیان کرتاہے۔پھر یہ کہ جو چھوٹے چھوٹے زلزلے آج آرہے ہیں یہ قیامت کے بڑے زلزلے کی یاددہانی کے لیے بھی ہوتے ہیں کہ دیکھ لو اللہ قادر ہے کہ قیامت کے دن سب کو ہلاک کردے ۔ البتہ ہمارا عقیدہ کہتاہے کہ ہلاکت کے بعد معاملہ ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اپنے اعمال کا مکمل حساب دینا ہوگا ۔
اسی طرح سورۃ الزلزال میں فرمایا :
{اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا(1)} ’’جب زمین ہلائی جائے گی جیسے کہ ہلائی جائے گی۔‘‘
آج ایک سلنڈر پھٹتا ہے توہمارا دل دھڑکتا ہے۔ ہمارے ہاں جب لوگ شادی کے موقع پرجاہلوں کی طرح فائرنگ کرتے ہیں توچھوٹے بچوں اور بزرگوںکے دل کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں ۔ اسی طرح بم بلاسٹ ہوتا ہےتو میل دور مضبوط سے مضبوط بندہ بھی ہل کر رہ جاتاہے ۔ جب اللہ پوری زمین کو ہلا دے گا تو عالم کیا ہوگا ۔
ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ ابھی قیامت تو بڑی دور ہے ۔ابھی توبڑا وقت ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کانزول بھی ہوناہے ۔ حضرت مہدی علیہ السلام بھی تشریف لائیں گے اور ساری زمین پراللہ تعالیٰ کادین غالب ہوگا۔ ان شاء اللہ!اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ نبی اکرمﷺ کی واضح احادیث موجود ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ہماری قیامت کیاہے ؟رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((من مات فقد قامت قیامتہ))جس کی موت ہوگئی اس کی توقیامت واقع ہوگئی ۔یعنی جو آج چلاگیا وہ کہاں قیامت کی ہولناکیاں دیکھے گا؟ سورۃالانفطارکے شروع میں الفاظ ہیں :
’’جب آسمان پھٹ جائے گا۔اور جب تار ے بکھر جائیں گے۔اور جب سمندرپھاڑ دیے جائیں گے۔اور جب قبریں تلپٹ کر دی جائیں گی۔‘‘
البتہ اس کواپنے وقت پردوبارہ کھڑا کیاجائے گا۔ رسول اللہﷺ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ یہ دعا بندے کو کرتے رہنا چاہیے : ’’اے اللہ! میں تیری پناہ میں آناچاہتا ہوں موت کی سختی سے ۔‘‘
اس لیے کہ معلوم نہیں کس حالت موت آجائے ، کئی لوگ قرآن کی تلاوت کر رہے ہوتے ہیں، نماز کی ادائیگی میں مصروف ہوتے ہیں تو موت آجاتی ہے ،اس کے برعکس کئی لوگ شراب وکباب کی محفلوں میں ،میوزک کنسرٹ میں بھی ہوتے ہیں تو موت آجاتی ہے ۔ ہمیں اپنی موت کس قدر یاد ہے یہ ہمارے لیے عملی مسئلہ ہے۔
مقصد زندگی:امتحان
اس زندگی کامقصد اورفلسفہ یہ ہے کہ یہ بنیادی طورپر امتحان ہے۔یہ نکتہ اس پرواضح ہوتاہے جو خالق کائنات کواوروحی کی تعلیم کو ماننے والا ہو۔ایمان کی دولت جواللہ نے ہمیں دی ہے ۔ خدا کی قسم ! یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ ہمیں اس کااندازہ نہیں ہورہا۔ آج مغربی معاشروںمیں لوگ جانور بننے کی کوششیں کررہے ہیں ۔ استغفراللہ!وہاں لوگ اپنی جائیدادیں کتوں اور بلیوں کے لیے چھوڑ کرجارہے ہیں ۔ اللہ نے انسان کوکیامقام دیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔‘‘ (التین:4) لیکن آج کاانسان،اورپڑھے لکھے لوگ ، کہنے کوترقی یافتہ ممالک میں رہنے والے لوگ مگر ان کا یہ حال ہے ۔ہم اللہ کا شکرادا کریں کہ اس نے ہمیں انسان بنایا،مسلمان بنایا، ایمان کی دولت دی ،محمدرسول اللہﷺ کاامتی بنایا۔ یہ ایمان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔
بہرحال ایک وہ آنکھ ہے جو مادہ پرستانہ نقطۂ نظر سے ہر چیز کو دیکھتی ہے اورایک وہ آنکھ ہے جو وحی کی روشنی میں ہر چیز کو دیکھتی ہے ۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط} (الملک:2)’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔‘‘
یہاں احسن عملا کے الفاظ کے متعلق علماء نے لکھا کہ اس سے اعمال کے ڈھیر مراد نہیں بلکہ اچھے اور اخلاص سے کیے گئے اعمال ہیں جو محض اللہ کی رضاء کے لیے ہوں اور رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں ہوں ۔
بعض لوگ اس طرح کے حادثات کے موقع پر جو ترکی میں پیش آیا ہے کنسرٹ کرکے فنڈریذنگ کرتے ہیں کہ فلاں گلوکار اور ناچنے والے کو بلالو۔ استغفراللہ!کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کاحکم ہے انسانیت کے ساتھ بھلاسلوک کرواورتھوڑا ساآگے مزیدجذباتی ٹچ دیتے ہیں : "Humanity is the best religion." حالانکہ اس کی گہرائی میں جائیں تویہ بہت بڑافتنہ ہے۔ کیااسلام انسانیت نہیں سکھاتاا وراسلام کوماننے والااگر اسلام پرعمل کرے تووہ بہترین انسان نہیں ہوگا؟اورمخلوق خدا کے ساتھ بہترین رویہ اختیار کرنے والا نہیں ہوگا؟یقیناً فنڈریزنگ اچھاکام ہے مگر ناجائز ذرائع کواختیار کرکے باطل طریقے پرفنڈریزنگ کرنا نیک عمل نہیں ہے۔
اس آیت میں فرمایاکہ یہ زندگی اورموت امتحان ہے ۔ یہ بدلتے حالات کیاہیں ؟ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’اور ہم آزماتے رہتے ہیں تم لوگوں کو شر اور خیر کے ذریعے سے۔اور تم سب لوگ ہماری ہی طرف لوٹا دیے جائو گے۔‘‘ (الانبیاء:35)
اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ان بدلتے حالات میںہمارا طرز عمل کیسا ہے ؟ دنیا اصل نہیں ہے ۔دارالجزاء نہیں ہے بلکہ دنیادارالامتحان ہے ۔ یہاں ہمیشہ کے لیے نہیں بھیجاگیا۔ اصل مسئلہ وہاں کاہے ۔ کامیاب وہ ہوگا جووہاں کامیاب ہوگا۔ناکام وہ ہے جو وہاںناکام ہو گیا۔ قرآن کہتاہے :
{ذٰلِکَ یَوْمُ التَّـغَابُنِ ط}(التغابن:9)’’ وہی ہے ہار اورجیت کے فیصلے کا دن۔‘‘
بہرحال امتحان میں بدلتے حالات آئیں گے۔ بعض مرتبہ کوئی بات ہمیں ناگوار لگتی ہے لیکن اللہ فرماتے ہیں کہ شاید اسی میں خیرہو۔ مثلاًقتال جیساحکم ہے اس کی اپنی شرائط ہیں ۔ سورۃالبقرۃ میں قتال کے حکم کے بعد اللہ فرماتاہے :
’’اورہو سکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرواور وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے ُبری ہو۔اور اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے۔‘‘ (آیت:216)
اللہ خالق ہے ،اللہ حاکم ہے ،اللہ مالک ہے ،جوچاہے سوکرے ۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ کل کائنات کااختیار اللہ کے پاس ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ایک پتااللہ کے اذن کے بغیرہل نہیں سکتا۔ (سورۃالانعام) البتہ عالم اسباب کے تحت اللہ دنیا چلارہاہے۔ جہاں بیماری بھی آتی ہے، ایکسیڈنٹ بھی ہوتاہے، کچھ اورمعاملات بھی ہوتے ہیں۔ اس کی نفی نہیں ۔ اصل سبب اللہ کااذن اوراللہ کی حکمت اوراللہ کا حکم ہے اوروہی بہتر جانتاہے۔ممکن ہے اس کے فیصلے بظاہرہمیں بہت عجیب لگ رہے ہوں،ہمیں بہت مغموم کر رہے ہوں مگر اللہ الحکیم بھی ہے ۔ اس کے فیصلے میں سراسر حکمت ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آسکتی۔ ارشاد ہوتاہے :’’نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے۔‘‘(التغابن:11)
بندہ اتناہی اللہ کے ہاں جواب دہ ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے بندے کواختیار عطا فرمایاہے ۔اصل سبب اس کااذن ہے مگر ظاہرکے اسباب بھی ہوا کرتے ہیں ۔ چنانچہ اس پر بھی قرآن کریم راہنمائی عطا فرماتاہے ۔ ارشاد ہوتاہے :
’’اور تم پر جو بھی مصیبت آتی ہے وہ درحقیقت تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی(اعمال) کے سبب آتی ہے اور (تمہاری خطائوں میں سے) اکثر کو تو وہ معاف بھی کر تا رہتا ہے۔‘‘(الشوریٰ:30)
اللہ ہربات پرنہیں پکڑتا بڑارحمان ورحیم ہے ۔ قرآن حکیم میں دومرتبہ ذکر آیاکہ اگر تمہارے ہرجرم ،کرتوت اور گناہ پر اللہ پکڑنے پر آجائے تواللہ زمین پرایک جاندار بھی باقی نہ چھوڑے لیکن اللہ مؤخرفرما تاہے ۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے علامات قیامت کے حوالے سے یہ بھی فرمایاہے کہ زلزلوں اورسرخ آندھیوں کی کثرت ہوجائے گی ۔ ایک اورطویل حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی نشانیوںکاتذکرہ کیاہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا؛’’جب مال ِغنیمت کو گھرکی دولت سمجھاجانے لگے ۔ امانت غنیمت سمجھ کردبالی جایاکرے ،زکوٰۃ کوتاوان سمجھاجانے لگے ،دینی تعلیم دنیا کے لیے حاصل کی جائے ،انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے اورماں کوستائے ،دوست کو قریب کرے اورماں باپ کودور کرے ،انسان کی عزت اس کے شر کی وجہ سے کی جائے،گانے بجانے والی عورتیں اورگانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے ، شرابیں پی جانے لگیں، بعدمیں آنے والے لوگ امت کے سلف پرلعنت کرنے لگیں۔جب یہ سب ہوتواللہ کے رسولﷺ نے فرمایاکہ اس زمانے میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کاانتظار کرو،زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہو جانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو۔اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کروجوپے درپے اس طرح ظاہرہوں گی جیسے کسی لڑی کادھاگہ ٹوٹ جائے اورپے درپے مستقل اس میں سے دانے گرنے لگیں ۔ ‘‘
آج کتنی ساری باتیں ہیں جواجتماعی سطح پر ہمارے سامنے آرہی ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کے دور میں بھی زلزلہ آیاتوآپﷺ نے فرمایاکہ تمہارا رب چاہتاہے کہ تم توبہ کرو۔اُس کی طرف پلٹو ،گناہوں کو چھوڑدو،نافرمانیوں کو چھوڑدو،اللہ کی اطاعت کی طرف آئو اوراللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کرو۔حضرت عائشہ صدیقہh سے زلزلے کے متعلق پوچھاگیاتوآپؓ نے فرمایا:زنا،شراب نوشی،رقص،گانابجاناجب لوگوں کا مزاج بن جائے توغیرت حق کوبھی جوش آتاہے۔ا گر معمولی تنبیہہ پرتوبہ کرلیں توٹھیک ورنہ عمارتیں منہدم اور عالی تعمیرات خاک کے ڈھیرکردیے جاتے ہیں۔ پوچھا گیا:کیازلزلہ عذاب ہے ؟فرمایا:مومن کے حق میں رحمت ، اورکافر کے لیے عذاب ہے ۔اس طرح کی بہت ساری باتوں کی طرف احادیث مبارکہ میں توجہ دلائی گئی ہیں ۔
کرنے کے کام
ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟دین نے بڑی پیاری تعلیم عطا فرمائی ہے ۔ زندگی امتحان ہے اور موت کا وقت معین ہے ،کیفیت بھی اللہ کے ہاں متعین ہے، اللہ جانتاہے ۔ہاں!ظاہر میں دیکھیں تودل مغموم ہوتاہے مگر رب سے بڑھ کرکون رحیم ہوگا۔ اسی لیے ہمارے بعض علماء بیان کرتے ہیں کہ کوئی حکمت بیان نہیں کرنی چاہیے ،بس اللہ کاحکم ہے اس کے فیصلے پر راضی رہو۔یہ توہم نے مان لیا۔ اس حوالے سے دوآیات میں ذکرآتاہے : {لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ(42)}(انعام) ’’ شاید کہ وہ عاجزی کریں۔‘‘{لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(41)} (الروم) ’’تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘
سوال آئے گاجانے والوں کامعاملہ کیا ہوا؟ احادیث مبارکہ سے بہت اہم رہنمائی ملتی ہے ۔دنیا میں اللہ کی طرف سے فیصلے اجتماعی طورپرنافذ ہوتے ہیں۔ آخرت میں ہرایک کامعاملہ انفرادی طورپرہوگا۔ احادیث میں موجود ہے کہ اگر کوئی ایمان پرتھا اور کسی ناگہانی آفت مثلاً زلزلہ،طاعون یاکسی اور وبائی مرض کی بدولت انتقال کر گیا یا کوئی خاتون بچے کو جنم دینے کے دوران انتقال کرجائے ، کوئی شخص جل کرانتقال کرجائے، کوئی شخص ڈوب کرانتقال کرجائے تویہ حکم کے اعتبار سے شہید ہو گا۔ حقیقت اور اصل کے اعتبار سے نہیں بلکہ حکم کے اعتبار سے شہید ہوگا۔لیکن شرط یہ ہے کہ ایمان پرجائے۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ ایک درجے میں اس کے لیے شہادت کا رُتبہ ہوگا۔دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کبھی کسی کے لیے یہ سزا کامعاملہ بھی ہوسکتاہے۔ البتہ مسلمان ہواوراس قدر بھاری مصیبت کا معاملہ ہوگیاتواحادیث کی روشنی میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ مصیبت اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گی، آخرت میں صاف کرکے اللہ اس کوکھڑا کرے گا۔ سبحان اللہ !کتنی بڑی نعمت ہے ایمان۔ کہیں یہ ثواب کا باعث بنتاہے، کہیں یہ کفارے کا باعث بنتاہے ۔ مشہور حدیث ہے کہ ایک شخص اللہ کے سامنے پیش ہوگا، اس کو بہت سارے اعمال کا اجر ملے گا مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ ڈھیروں بڑاا جراس کوعطا فرمائے گا۔ بندہ کہے گااے اللہ ! یہ اجر کس کا ؟ اللہ فرمائے گاتجھ پربیماری آئی تھی اورتونے بڑا صبرکیاتھا،یہ اس صبر کااجر ہے ۔ اس اجر کودیکھ کربندہ کہے گاکاش میں ساری زندگی بہت زیادہ بیمار ہوتا،میرے جسم کے ایک ایک حصے پر قینچیاں چلتیںاورمیںصبرکرتاہے اورآج میرا اجر اور زیادہ بڑھ جاتا۔یہ اجر اُن کے لیے ہے جو چلے گئے مگر کچھ کے لیے اس سے بڑھ کرسزا بھی ہوسکتی ہے ۔ اللہ سزا بھی دیتاہے۔البتہ وہ ہم طے نہیں کرسکتے ۔وہ اللہ خود طے کرے گا۔ اسی طرح جانے والوں کے گھروالے ہیں ان کے لیے بھی صدمہ آزمائش آتی ہے ان سب کو بتایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ صبرکی توفیق بھی دیتاہے اور جو صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اجروثواب بھی عطا فرمائے گا۔البتہ جو لوگ بچ گئے ہیں ان کے لیے یہ زلزلہ تنبیہہ بھی ہے ۔ اللہ زمین کو ہلارہاہے ۔ اللہ طوفان،سیلاب لے کر آرہاہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے ایسی صورتحال میں رہنمائی فرمائی کہ تمہارا رب چاہتاہے کہ تم اللہ کے حضور توبہ کرو۔ جو مہلت مل گئی ہے اس پر اللہ کا شکر کرو اور اپنے آپ کو بدلو ، اللہ کے دین کے لیے اپنی جان ، مال اور وقت لگاؤ ۔ انفرادی اوراجتماعی سطح پربھی توبہ کریں۔ ایک دوسرا پہلو بھی نمایاں ہے ۔ فرمایا :
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ}(الحجرات:10)’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں اگر مسلمان کے جسم میں تکلیف ہوتی ہے توپورا جسم تکلیف محسوس کرتاہے۔ اسی طرح امت ایک جسم کی مانند ہے ۔ ترکی اورشام میں زلزلہ آیاتوان حالات میں ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم ان کے لیے دعا کریں ۔پھر مالی طور پر جو تعاون ہم کر سکتے ہیں وہ کریں ۔ اللہ کا شکرہے ہماری قوم اس معاملے میں بانجھ نہیں ہے ۔ تنظیم اسلامی کاان ملکوںمیں کوئی نظم نہیں ہے لیکن آپ کوجس ادارے پراعتماد ہے اس کے ذریعے وہاں امداد بھیجیں ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایاکہ صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتاہے ۔ہم کل اللہ کے غضب سے بچناچاہیں توآج اللہ کی راہ میں صدقہ دیں ۔ یہ ایک ایسی ہنگامی صورت حال ہے کہ علماء نے فتویٰ دیا کہ یہاں پرزکوٰۃ بھی دی جاسکتی ہے۔ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے۔ اللہ ہم کوتوفیق عطا فرمائے۔ آمین!