(اداریہ) آئین پاکستان کی چیر پھاڑ - ایوب بیگ مرزا

9 /

اداریہایوب بیگ مرزا

آئین پاکستان کی چیر پھاڑ

1947ء میں ہندوستان انگریز سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن اب وہ دو ممالک بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہوگیا۔ بھارت ایک سیکولر ریاست کے طور پر سامنے آیا جبکہ پاکستان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہوگی۔ بھارت جلد ہی ایک آئین بنانے میں کامیاب ہوگیا لیکن پاکستان 1956ء تک یعنی نو (9) سال ایک بے آئین سرزمین ہی رہی۔ ایسا کیوں ہوا ؟یوں تو اُس کی بہت سی وجوہات بتائی گئیں۔ لیکن آج ہم اس کی کلیدی وجہ قارئین کے سامنے لائیں گے یعنی جسے کہتے ہیں کہ بیچ کی بات کیا تھی وہ عرض کریں گے۔
پنڈت نہرو کے اس اعلان کے بعد کہ آزادی کے فوراً بعد ہم بھارت سے جاگیرداری نظام ختم کر دیں گے تمام مسلمان جاگیردار جو پہلے کانگرس میں تھے اور تقسیم ہند کے خلاف تھے، مسلم لیگ میں در آئے اور پاکستان کے مطالبے میں شامل ہوگئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اُنہوں نے پاکستان کی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا اور مسلم لیگ کی قیادت میں مرکزی حیثیت حاصل کرلی۔ پھر یہ کہ وہ بیوروکریسی جسے انگریز نے ہندوستان پر اپنا تسلط اور حکمرانی مضبوط کرنے کے لیے تیار کیا تھا اُس نے سرکاری معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ان کی بڑی اکثریت مغربی پاکستان سے تعلق رکھتی تھی۔ لیکن مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی لہٰذا جو آئین بھی بنتا اُس میں آبادی کے زیادہ ہونے کی بنیاد پر مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان پر سبقت اور برتری حاصل ہوتی۔ یہ معاملہ ان مذکورہ جاگیرداروں اور بیوروکریسی کو قبول نہ تھا۔ لہٰذا نو (9) سال لیت و لعل کا سلسلہ چلتا رہا کہ کس طرح مشرقی پاکستان کی اس سبقت کو ختم کیا جائے لہٰذا منصوبہ سازوں کو یہ ترکیب سوجھی کہ مغربی پاکستان میں صوبے ختم کرکے ون یونٹ قائم کیا جائے اور مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان کو ایک ایک یونٹ قرار دے کر دونوں کی حیثیت مساوی کر دی جائے اور پھر ایک ایسا آئین بنایا جائے جس میں کسی ایک یونٹ کو آبادی کی بنیاد پر دوسرے یونٹ پر سبقت یا برتری حاصل نہ ہو یوں مشرقی پاکستان کی سبقت کو ختم کیا جا سکے گا لہٰذا 30ستمبر 1955ء میں مغربی پاکستان کے صوبے ختم کرکے ون یونٹ بنا دیا گیا لہٰذا رکاوٹ ختم ہوگئی۔ اس کے بعد چھ (6) ماہ سے بھی کم عرصہ میں 23 مارچ 1956ء کو نیا آئین بن گیا اور ملکہ برطانیہ کی ماتحتی سے نکل کر اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آگیا۔ گورنر جنرل سکندر مرزا اب صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلانے لگے۔
یہاں یہ کہانی تو ختم ہو جاتی ہے کہ پاکستان نو (9) سال تک آئین کیوں نہ بنا سکا تھا۔ لیکن ابھی ہماری مصیبت ختم نہیں ہوئی تھی اس لیے کہ 1956ء کے آئین سے تو اندرونِ ملک مفاد پرست عناصر اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے تھے اور اُس سیاسی عدم استحکام کے ختم ہونے کے امکانات پیدا ہوئے تھے جس سے بار بار وزیراعظم تبدیل ہو رہے تھے البتہ بیرونی طور پر پاکستان کو کنٹرول کرنے والے عناصرابھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکے تھے۔ یہ وہ بیرونی قوتیں تھیں جنہیں لیاقت علی خان کے امریکہ کے دورہ اور وہاں طے پا جانے والے معاملات نے بہت مضبوط کر دیا تھا۔ جنرل ایوب خان لیاقت علی خان کے اسی امریکی دورے کی پیداوار تھے جنہیں اس دورے کے بعد پے در پے ترقیاں دے کر آرمی چیف بنا دیا گیا تھا۔ 1958ء میں امریکہ کے دورہ سے واپسی پر آرمی چیف ایوب خان نے اڑھائی سالہ ننھے منے آئین کو اپنے بھاری بھر کم فوجی بوٹوں تلے کچل دیا اور 1956ء کا آئین دم توڑ گیا۔ اب پاکستانی قوم پر مارشل لاء مسلط کر دیا گیا اور اُن جاگیردار سیاست دانوں کی ایک اچھی بھلی تعداد نے آئین کے تحفظ کی بجائے آئین پاکستان کے قتل سے وفاداری اُستوار کر لی اور ایک فوجی آمر کے دست و بازو بن گئے۔
یکم مارچ 1962ء کو ’’جنرل ایوب خان کا یکطرفہ آئین‘‘ نافذ ہوا جس میں طاقت اور عقلِ کل صدر کی ذات تھی اور عوام محض رعایا اور تماشائی تھے۔ ستم ظریقی یہ ہے کہ اس آئین کی تیاری کے لیے بنائے گئے کمیشن کی سربراہی سابق چیف جسٹس شہاب الدین کر رہے تھے اور اس کمیشن کے ایک ممبر جناب ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے۔ ایوب خان کے دور میں امریکہ نے مدد کی، پاکستانی صنعت نے بہت ترقی کی۔ ایوب خان سمجھ رہے تھے کہ امریکہ یہ سب کچھ پاکستان اور اُن کی ذات یعنی ایوب خان سے محبت میں کر رہا ہے لیکن جلد اُن کی غلط فہمی دور ہوگئی اور اُنہوں نے Friends not Masters لکھ ماری لیکن پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک کے بارے میں بعد میں انکشاف ہوا کہ امریکہ اس تحریک کی پشت پر تھا۔ بہرحال ایوب خان کو اقتدار سے رخصت ہونا پڑا، لیکن اُس نے اپنے بنائے ہوئے آئین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اقتدار سپیکر کو منتقل کرنے کی بجائے آرمی چیف یحییٰ خان کو منتقل کر دیا۔ گویا دوسرا آئین بھی جان بحق ہوگیا۔
نئے انتخابات ایک عارضی آئین کے تحت ہوئے لیکن جیتنے والی جماعت کو اقتدار منتقل نہ کرنے پر 1971ء میں ملک دو لخت ہوگیا۔ یہ عارضی آئین ملک کی سلامتی کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام رہا کیونکہ اسے کسی طرح بھی عوامی حمایت حاصل نہ تھی۔ رہے سہے پاکستان کو ’نئے پاکستان‘ کا نام دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی نمائندوں کی مدد سے ایک متفقہ آئین بنانے کی کوشش شروع کر دی۔ آئین سازی کا مناسب بلکہ صحیح طریقہ یہی تھا۔ 1973ء میں ایک متفقہ آئین بن گیا۔ انفرادی سطح پر چند افراد کے سوا سب چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس آئین پر دستخط کر دیئے۔ بھٹو بڑے فخر کا اظہار کرتے تھے کہ وہ ایک متفقہ آئین بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ بات قابل فخرتھی بھی لیکن چند ماہ میں اُنہوں نے اس آئین میں اسمبلی میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر سات ترامیم کر دیں۔ اب یہ آئین متفقہ نہیں رہا تھا۔ 1977ء میں تحریک نظامِ مصطفےٰ ؐکے نتیجہ میں بھٹو اقتدار سے رخصت ہوئے۔ اُن کے اپنے چنیدہ آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ اب پاکستان میں آئین کے ساتھ ایک دوسری طرح کا کھلواڑ شروع ہوا۔ ظاہری طور پر آئین کو ختم تو نہ کیا گیا بلکہ آئین کی اُن شقات کو معطل کردیا گیا جو نئے حکمران ضیاء الحق کی حکمرانی میں حائل ہو سکتی تھیں گویا آئین بھی مبینہ طور پر زندہ رہا اور مارشل لاء بھی لگ گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے گیارہ سال حکومت کی۔ وہ کہا کرتے تھے جتنے مارشل لاء لگنے تھے لگ چکے اب کسی نئے مارشل لاء کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا اور پاکستان کو اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
ضیاء الحق کے بعد گیارہ (11) سال تک جمہوری حکومتیں رہیں جنہیں سول حکومتیں کہنا زیادہ مناسب ہوگا یہ سول حکومتیں بھی آئین سے چھیڑ چھاڑ کرتی رہیں۔ ہر فوجی اور سول حکمران آئین کو یوں توڑ مروڑنا چاہتا تھا جس سے اُس کی حکومت کو کسی طرح دوام حاصل ہو جائے۔ (دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں آئین کو جو تقدس حاصل ہے وہ کبھی آئین پاکستان کو حاصل نہ ہوسکا۔ جمہوری ادوار میں بھی بالواسطہ اور اشارے کنائے سے آئین کو بائی پاس کرنا ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔)
12 اکتوبر 1999ء کو آئین پر پھر عسکری حملہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آگئے۔ آئین کے حوالے سے حیلہ سازی میں اُنہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی بجائے صرف ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کا سابقہ اپنے نام کے ساتھ لگایا۔ ایک بار پھر آئین کو قتل کرکے ’’زندہ ہے زندہ ہے آئین زندہ ہے‘‘ کا نعرہ زوردار انداز میں لگایا گیا۔ اعلیٰ عدلیہ نے ایک مرتبہ پھر نظریہ ضرورت کو زندہ کرکے آئین شکن کو تقویت بخشی۔ مشرف کے بعد حکومت پھر ’عوام‘ کو منتقل ہوئی۔ ایک بار پھر آئین کے ساتھ بالواسطہ چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی، لیکن اس مرتبہ یہ بڑھتے بڑھتے اب ایک بلاواسطہ شکل اختیار کر گئی ہے بلکہ واضح اور اعلانیہ طور پر آئین شکنی کی نوبت آگئی ہے۔ ہوا یوں کہ 2018ء میں منتخب ہونی والی حکومت (یاد رہے کہ پاکستان میں کوئی ایک حکومت بھی آج تک قائم نہیں ہوئی ہے جس کے سر پر اسٹیبلشمنٹ کا دست شفقت نہ ہو۔ 2018ء میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کو بھی حسب معمول یہ سہولت حاصل تھی) کو اُس وقت کی اپوزیشن نے سلیکٹڈ حکومت کہا اور زور آزمائی شروع ہوگئی۔ PDM کی بڑی جماعتوں کو کرپشن کے مقدمات کا سامنا تھا۔ بہرحال وہ وقت بھی آگیا جب اپوزیشن کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہوگئی اور منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کا PDM کی مدد کرنا اس لیے بھی آسان ہوگیا کیونکہ عمران خان امریکہ سے تعلقات بگاڑ کر اپنا رخ روس کی طرف کر چکے تھے۔ لہٰذا ’’رجیم چینج‘‘ کے نتیجہ میں ایک ایسی حکومت بن گئی جسے امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ لیکن ہماری تاریخ میںجو بات انتہائی غیر معمولی اور ماضی سے مختلف ہوئی وہ یہ تھی کہ اقتدار سے فارغ ہونے والا عمران خان جو دورانِ اقتدار انتہائی غیرمقبول ہوگیا تھا۔ عوام نے اُسے سر پر بٹھا لیا اور اُسے اتنی مقبولیت حاصل ہوگئی جو شایدآج تک کسی بھی لیڈر کو حاصل نہ ہو سکی تھی۔ اب عوام والہانہ انداز میں اُس کی پشت پر ہے اور نئی حکومت انتہائی غیر مقبول ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ انتخابات کے انعقاد سے فرار حاصل کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ جو دو (2) صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوگئی ہیں اور جہاں نوے (90) روز میں انتخابات کرانا آئین کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک ہے، وہاں انتخابات نہیں کروائے جا رہے گویا اعلانیہ طور پر آئین شکنی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ حیلہ سازی کرکے عدالت کے احکامات ماننے سے بھی انکار کیا جا رہا ہے جس سے ملک بدترین آئینی بحران کا شکار ہو رہا ہے۔ آنے والے وقت میں کیا ہوتا ہے اس پر بھی آئندہ تبصرہ کریں گے۔ ان شاء اللہ!