(زمانہ گواہ ہے) پاکستان میں آئین شکنی کی تاریخ - محمد رفیق چودھری

9 /

مقررہ وقت پر انتخابات نہ کروانا کھلم کھلا آئین شکنی ہے۔ یہ صورتحال

آئینی بحران کو جنم دے سکتی ہے اور خدانخواستہ کوئی سانحہ رونما ہو

سکتا ہے :ایوب بیگ مرزا

سوشل میڈیا کی وجہ سے عوام بیدار ہوئے ہیں ، اگر عوام کے شعور کی

بیداری کو درست سمت نہ دی گئی تو اس کا نقصان ہو سکتاہے ۔ لیبیا ،

شام اور مصر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں : رضاء الحق

پاکستان میں آئین شکنی کی تاریخ کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :ڈاکٹر حافظ محمد حسیب اسلم

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:جمہوری طرز حکومت میں آئین سب سے اہم دستاویز کی حیثیت رکھتاہے ۔ پاکستان میں آئین سازی کی تاریخ کیاہے ؟
ایوب بیگ مرزا:آپ نے بالکل درست فرمایاکہ جمہوری طرز حکومت میں آئین بہت اہم حیثیت رکھتا ہے۔مغربی جمہوریت اور سیکولرزم ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ جہاں جمہوریت ہووہاں آئین کی حیثیت ان لوگوں کے لیے ایک آسمانی صحیفے کی سی ہے جوجمہوریت کے قائل ہیں اورجویہ سمجھتے ہیں کہ اب عمرانی سطح پرجمہوری طرزحکومت فائنل ہو گیاہے۔ اس کے بعد کوئی ایسا طرزحکومت آنے والا نہیں ہے جواس سے بہتر ہو۔ آپ نے دیکھاہوگاکہ امریکہ کی ریاست کو وجود میں آئے تقریباًاڑھائی سوسال ہوچکے ہیں لیکن اس کے آئین میں کتنی کم ترامیم ہوئی ہیں۔ جہاںتک پاکستان کاتعلق ہے توپاکستان ایسا ملک ہے جو ابتدائی 9سال تک تو بے آئین رہا ۔ یعنی کوئی آئین سرے سے تھاہی نہیں۔ اس کے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت فوری طور پر ایک آئین بنا کر آزاد ملک بن گیا ۔ جبکہ پاکستان آزادی کے بعد بھی نوسال تک تاج برطانیہ کا ڈومین رہا ۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے ۔ جب پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ ہم تقسیم کے فوراً بعد جاگیرداری سسٹم ختم کر دیں گے توکانگریس میںجتنے مسلمان جاگیردار تھے وہ مسلم لیگ میں آگئے اور پاکستان کے مطالبے میں شامل ہوگئے۔جب پاکستان بنا تواسی جاگیردار طبقہ نے سیاست میں حصہ لیناشروع کیا۔دوسری طرف سول اور عسکری بیوروکریسی تھی جس کی ترتیب انگریز نے کی تھی کہ کس طرح غلام قوم پرحکمرانی کرنی ہے ۔ان دونوں طبقات نے مل کر پاکستان پرحکومت کرنی شروع کردی اورنوسال آئین اس لیے نہ بنایاکیونکہ اس صورت میں اقتدار عوام کے نمائندوں کو منتقل ہو جاتا اور دوسری بات یہ تھی کہ ان دونوں طبقات کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا ۔ جبکہ مشرقی پاکستان یعنی بنگال میں بیوروکریٹ اور جاگیردار نہ ہونے کے برابر تھے۔اگر اقتدار پر براجمان یہ دو طبقات آئین بناتے تو کچھ اختیارات اور مراعات مشرقی پاکستان کو بھی منتقل کرنا پڑتیں کیونکہ مشرقی پاکستان (صوبہ) کی آبادی زیادہ تھی ۔ قومی اور آئین ساز اسمبلی میںبنگالیوں کو زیادہ نشستیں دینا ان کی مجبوری بن جاتی اور اقتدار مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان میں منتقل ہو جاتا۔ لہٰذا نوسال اس تذبذب میں گزر گئے کہ کیاسکیم بنائی جائے کہ اقتدار کو مغربی پاکستان میں ہی یہ دوطبقات اپنے کنٹرول میں رکھ سکیں۔ چنانچہ اس کا ایک حل یہ نکالاگیا کہ مغربی پاکستان کے صوبے ختم کرکے اسے ون یونٹ بنادیاگیا اوریہ قرار دے دیاگیا کہ پاکستان دویونٹس پرمشتمل ہے۔ یعنی مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ۔ دونوں کو آئین میں مساوی حقوق حاصل ہوںگے۔ یہ جھانسہ دینے کے ایک سال کے اندر اندر 23مارچ 1956ء کو پاکستان کا پہلا آئین بھی بنا دیا گیا جو اندرون ملک ان لوگوںکے مفادات کوپورے کرتا تھالیکن بیرونی قوتیں اس سے راضی نہ تھیں۔ لہٰذا 1958ء میں جنرل ایوب خان کے ذریعے اس آئین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے مارشل لاء لگا دیا گیا ۔ ایوب خان کو لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ کے نتیجہ میں ترقی دے کر آرمی چیف اور بعدازاں وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ اصل میں بیرونی قوتیں چاہتی تھیں کہ پاکستان میں ایسا بندہ اقتدار میں ہو جو آئین کا پابند نہ ہواورہم اس کو سیاسی اور خارجی طور پرجس طرح چاہیں استعمال کریں۔ لہٰذا ایوب خان کے ذریعے 1956ء کا آئین ختم کرکے مارشل لاء لگا دیا گیا اور پھر اسی کے ذریعے 1962ء کا آئین بنایا گیا ۔ یہ اصل میں بنیادی ڈیموکریسی کے اصول پر بنایا ہوا آئین تھا جو فرد واحد یعنی صدر کے گرد گھومتا تھا ۔ جب ایوب خان کا وقت ختم ہوگیا تو اس نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپیکر کی بجائے آرمی چیف کو اقتدار منتقل کر دیا اور اس طرح 1962ء کا آئین بھی وفات پا گیا ۔
سوال: 1973ء کے آئین کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ایوب بیگ مرزا:1973ء کا آئین سقوط ڈھاکہ کے بعد بنا جب انڈیاسے جنگ کے نتیجہ میں شکست ہوئی اور پاکستان دولخت ہو گیا تھا ۔ اس کے بعد مغربی پاکستان کو ’’نیا پاکستان‘‘ کہا گیا جس میں ذوالفقار علی بھٹو سب سے بڑی جماعت کے سربراہ تھے ۔ انہوں نے ہرسیاسی جماعت اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر پہلی دفعہ ایک متفقہ آئین(1973ء) بنایا ۔چند افراد نے انفرادی طور پر اختلاف کیا تھا تاہم کسی سیاسی جماعت نے اس آئین سے اختلاف نہیں کیااورتمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس آئین پرمتفقہ طورپردستخط کردیے تھے ۔
سوال: یہ سمجھاجاتاہے کہ آئین ریاست کو جوڑ کررکھنے والی چیز ہے اورریاست کے عوام کے حقوق کا محافظ ہوتا ہے۔ کیااس آئین کی حفاظت عوام ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے کیونکہ اگر عوام اس آئین کے پیچھے کھڑے نہیں ہوں گے تو پھرکوئی بھی طاقتور آئے گااوراس آئین کاوہی حشر کرے گاجوپہلے ہم کرتے آئے ہیں ؟
رضاء الحق:دراصل آئین کسی بھی ریاست کے قوانین کا ایسا مجموعہ ہوتاہے جو کہ ریاست کے مختلف سٹیک ہولڈرز (ریاست ، عوام ، مقننہ ، انتظامیہ ، عدلیہ ، فوج، میڈیا، دیگر) کے اختیارات کا تعین کرتاہے اور ان کی حدود طے کرتا ہے ۔ پھر یہاںپریہ بحث بھی آتی ہے کہ ایک منفی آئین پسندی ہے اور ایک مثبت آئین پسندی ہے ۔ منفی آئین پسندی یہ ہوتی ہے کہ آئین میں جو لکھ دیا گیا ہے اس سے ایک انچ بھی ادھر اُدھر نہیں ہٹنا ۔ مثبت آئین پسندی یہ ہوتی ہے کہ عوام کی بہبوداور فلاح کے لیے آئینی دائرے کے اندر رہتے ہوئے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے کیونکہ عمرانی معاہدے میں اصل چیزعوام کی فلاح اور ریاست کی بقا ء ہے ۔ جیسے آئین کاآرٹیکل 31ہے ،وہ ریاست کو اس بات کاپابند بناتاہے کہ عوام کے لیے ایسی سہولیات مہیا کرے گاکہ وہ اپنی زندگیاں اسلامی تشخص کے مطابق گزار سکیں۔ اسی طرح وفاقی شرعی عدالت نے سودکے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ اب مثبت آئین پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کے لیے آئین میں اگر کچھ بنیادی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں تو لازماً کرنی چاہئیں کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر قائم ہوااور اس کے آئین کے اندر آرٹیکل 2-Aمیں بڑے واشگاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اوریہاں کوئی قانون سازی قرآن وسنت کے منافی نہیںہو سکتی ۔ مثبت آئین پسندی میں ایک پہلو عوام کی مشاورت کا بھی ہے ۔ اس میں اصل مقصد عوام کی فلاح و بہبود ہے ۔ اس میں دنیوی نفع کی بات بھی آئے گی کہ معیشت کو بہتر کرنے کے لیے کرپشن ، رشوت ،سودی معیشت کاخاتمہ کریں ۔ ہمارا آئین اس لیے بھی مختلف ہے کہ یہ اسلام پر قائم ہونے والی ریاست کا آئین ہے۔لہٰذا اس بحث میں اُخروی نجات کی بات بھی آئے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سٹیک ہولڈرز،عمرانی معاہدہ اور اخلاقیات اپنی جگہ پرہیں۔ ہم نے دیکھاکہ ماضی قریب میںجب ترکی میں فوج نے حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی تو عوام سڑکوں پر نکل آئے اور اس کو ناکام بنا دیا ۔ اس لیے کہ ان کے آئین میں یہ لکھاہواہے کہ حکومت اور ریاست کا نظم ونسق کس نے چلاناہے۔لہٰذا عوام نے فوج کے اس اقدام کو قبول نہیں کیا۔ عوامی شعور کوبیدار کرناانتہائی اہم ہوتاہے۔ جب عوامی شعور بیدار ہوتاہے توپھراسمبلی کے ممبران خود کو عوام کے خادم بھی سمجھتے ہیںکیونکہ آئین کی رو سے یہ واضح ہوتا ہے انتظامیہ نے عوام کی خدمت کرنی ہے۔ وہ اپنی حدود وقیود کو سمجھتے ہیں۔ پھراسٹیبلشمنٹ بھی مداخلت نہیںکرتی۔کہایہی جاتاہے کہ یہ یوٹوپیا ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں ایسی مثالیں موجودہیں ۔ بہرحال آئین ایک Living breathing چیز ہے ۔ وہ ممالک جہاں پرجمہوری طرز حکومت نہیں بھی ہے وہاں بھی ایک شخص کااپناآئین چل رہا ہوتاہے ۔ چاہے کوئی بادشاہ ہویاچین یاروس کی طرح کی سنگل پارٹی کی طاقتورمرکزومحور والی حکومت ہو،وہ کبھی یہ نہیںکہتے کہ ہم عوام کو چھوڑ کراپنے لیے حکومت کررہے ہیں۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم ملک اور عوام کے مفاد کے لیے کر رہے ہیں ۔ ہماراجو مشاورت کا ایک طے شدہ طریقہ ہے وہ اسلامی شورائی نظام کے قریب تر ہے ۔ اس میں عوام کی ایک ذمہ داری ہے کہ وہ اس آئین کی حفاظت کے لیے بھی اور اس کی عمل داری میں بھی اپناایک ایکٹو رول ادا کریں ۔
سوال:ماضی میں آئین شکنی کے حوالے سے عدلیہ، اسٹیبلیشمنٹ اور سیاستدانوں کا کیا کرداررہا ؟
ایوب بیگ مرزا:یہ ایک روایتی بات ہے کہ آئین شکنی کے معاملے میں ساری قوم ذمہ دار ہے لیکن بہرحال جن کے پاس جتنی زیادہ طاقت اور اختیارات ہیں وہ اتنے ہی ذمہ دار ہیں ۔ 1973 ء کا آئین جب بن گیا تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دھڑلے سے اور بڑے زور دار انداز میں کہا کرتے تھے کہ میں نے پاکستان کا متفقہ آئین دیا ، میرا بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن خود انہوں نے ہی اپوزیشن کو اعتماد میں لیے بغیر چند سال کے اندر کم از کم سات ترامیم کردیں۔جب سات ترامیم کردیںتو وہ متفقہ کہاں رہا ؟ ان ترامیم کے بعد معاملہ کافی متنازعہ ہوگیا۔ حکومت اور اپوزیشن ہر وقت آپس میں دست و گریبان رہنے لگے ۔ پھراینٹی بھٹو تحریک چلی جس کا نام تحریک نظام مصطفیٰ رکھا گیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو کواقتدار چھوڑنا پڑا اور ضیاء الحق آگئے۔ضیاء الحق نے ایوب خان کی طرح آئین کو ختم نہیں کیا بلکہ صرف جزوی طور پر ان شقات کو معطل کر دیا جو اس کے اقتدار کا راستہ روکتی تھیں ۔ یعنی 1973ء کے آئین کو قتل نہ کیا گیا بلکہ اس کو زخمی کردیا گیا۔عدلیہ یقینی طور پر اس آئین شکنی میں حصہ دار تھی۔ جسٹس منیر نے جو نظریہ ضرورت ایجاد کیا تھا اس نے نہ قوم کی جان چھوڑی اور نہ عدلیہ کی ۔ اسی نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ نے پھر ضیاء الحق کو بھی قبول کیا ،مشرف کو بھی قبول کیا۔مثلاً ضیاء الحق کے دور میں یہ کہا گیا کہ جس طرح کی تحریک چل رہی تھی اگر یہ روکی نہ جاتی تو ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ۔
سوال: آمریت میں آئین شکنی تو بہرحال رہی لیکن کیا جب جمہوری حکومتیں آئی تب آئین کو تقدس ملا؟
ایوب بیگ مرزا:ہمیں سیاسی حکومتوں کو سویلین حکومتیں کہنا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ اس طرح کی جمہوری نہیں تھی۔اگر ایک طرف ضیاء الحق نے آئین میں آٹھویں ترمیم کر کے صدر کو یہ اختیار دے دیاکہ وہ جب چاہے اسمبلی توڑ دے۔ تو دوسری طرف نواز شریف نے اسی شق کوواپس لا کر ایک بار پھر صدر کا یہ اختیار ختم کر دیا ۔ پھر نوازشریف اور آرمی چیف کے اختلافات ہوگئے اور کچھ بیرونی قوتوں کے افغانستان میں کچھ عزائم تھے ان کو پورا کرنے کے لیے آئین کو ایک بار پھر مشرف کے پاؤں تلے روند دیا گیا ۔ یقیناً سیاستدان بھی آئین سے چھیڑ چھاڑ کرتے رہے ۔ ان کوحق تو تھا کہ وہ اسمبلی کے ذریعے ترمیم کرتے لیکن ہماری آئینی تاریخ بتاتی ہے کہ مختلف حکمرانوں نے ملکی مفادات کی بجائے اپنی ذات اور اپنے اقتدار کو تحفظ دینے کے لیے ترامیم کیں۔اللہ کا شکر ہے پندرھویں ترمیم نہ ہوسکی جب نواز شریف نے نام نہاد شرعی بل لا کر کوشش کی تھی کہ سویلین وزیر اعظم آمر بن جائے ۔ البتہ سویلین حکمرانوں نے کبھی کھلم کھلا آئین شکنی نہیں کی۔
سوال:ترقی یافتہ ممالک میں آئین شکنی ہوتی رہتی ہے یا وہاں پر آئین کو تقدس حاصل ہے ؟
رضاء الحق: 1930ء میں سپین میں سول وار کے دوران آئین شکنی ہوئی اورڈکٹیٹرشپ بھی رہی۔ جب دوسری جنگ عظیم چل رہی تھی تو فرانس کو یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ اس پر نازی جرمنی نے قبضہ کرلیا ۔ اس وقت چارلسی ڈیگال ایک ملٹری لیڈر کے طور پر ابھرااور 1958ء سے 1969ء تک بطورڈیکٹیٹر وہاں حکومت کی۔اس نے آئین شکنی بھی کی لیکن بہت سارے فیصلے اور کام فرانس کے حق میں بھی کیے۔لیکن اس کو اتنا برا سمجھا گیا کہ ایک عدالت نے اس کو سزائے موت دے دی ، اگرچہ اس پر عمل نہیں ہوا تھا ۔ اسی طرح برطانیہ کے لارڈ الیور کرامویل نے 1640ء میں بادشاہ چارلس اوّل کے خلاف بغاوت کی اور خود حکومت پر قبضہ کرکے چارلس اول کو سزائے موت دلوائی اور اُس کی گردن اُتار دی گئی ۔ سزا پر دستخط کرنے والوں میں الیور کرامویل بھی شامل تھا ۔ اس کے بارے میں دو متضاد آراء ہیں۔ چرچل اس کو ڈیکٹیٹر کہتاتھا جبکہ ملٹن اس کو ہیرو مانتا تھا۔بہرحال الیورکرامویل نے آئین شکنی کی اور اس وقت ان کا آئین میگنا کارٹا تھا ۔ پھرجب چارلس دوم نے تخت سنبھالاتو کرامویل کی لاش کو نکال کر پھانسی دی گئی ،اس کے سر کو نیزے پر رکھا گیا اورتین سال تک اس کی لاش کو لٹکائے رکھاگیا۔یوں آئین شکنوں کے لیے ایک نشان عبرت سیٹ کردیا۔ برطانیہ میںکوڈیفائیڈ لازنہیں ہیں وہاں پر کامن لاز ہوتے ہیں۔ کامن لاز کا مطلب کچھ نظیریں ،کچھ عدالتی فیصلے اور کچھ پارلیمان کی روایت ہیں جن کے مطابق ان کا پورا نظام آج بھی چل رہا ہے ۔ اسی تناظر میں دیکھیں تو اسرائیل نے آج تک اپنا دستاویزی آئین نہیں بنایا ۔ یہ اس کی دوسری انتہا ہے۔ اسرائیل کہتا ہے کہ تورات میں لکھا ہوا ہے کہ ہم نے کنگڈم آف گاڈ بنانی ہے ۔ اس بات پر ان سب کا اجتماع ہے۔لیکن اس کے باوجو د وہ آئین نہیں بناتے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنی ہوتی ہے۔ اگر انسانی حقوق طے کردیے تو کسی پر جرح کرنا بڑا آسان ہوتا ہے ۔جب آئین ہی نہیں تو اسی وجہ سے وہ ایسا ریاستی قانون لے آئے جس کے مطابق صرف یہودیوں کوپہلے درجے کے شہریوں کی سہولت حاصل ہے باقی سب دوسرے درجے کے شہری قرارپائے۔اس ساری بات کا نتیجہ اخذ کریں تو ہمارے ہاں جو آئین شکنی ہوتی رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جو طاقت کے مراکز ہیںان کی نیت میں کھوٹ ہے ۔ہمارے سیاستدان بھی اقتدار کی لالچ میں آئین کی پاسداری نہیں کرتے اور آئین کو روند کر کے اقتدار میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چلتی ہوئی جمہوری حکومت کو ساری جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ مل کر نکال دیتے ہیں ۔ البتہ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر جو ردعمل آیا ہے وہ خوش آئند ہے ۔
سوال: ہمارے ہاںآئین شکنی کی سزا کیوں نہیں ملتی ؟
ایوب بیگ مرزا: سیاستدانوں نے کبھی اعلانیہ اور کھلم کھلا آئین شکنی نہیں کی ۔آئین شکنی باقاعدہ اوراعلانیہ تو اسٹیبلشمنٹ نے کی ہے لیکن چونکہ وہ طاقتور اور مقتدر حلقے ہیں اس لیے ان کو سزا کون دے ۔مشرف پر مقدمہ چل رہا تھا،وہ عدالت کی طرف جارہا تھا تو راستے میں سے گاڑی موڑ دی گئی ۔ بعد میں اس پر مقدمہ چلا اور سزائے موت بھی پشاور ہائی کورٹ نے دی۔لیکن عمل درآمد کون کرائے ۔ پھر یہ کہ جمہوری حکومتوں کا تختہ اُلٹ کر اقتدار چھین لیا جاتاہے۔ مارشل لاء لگانے کے بارے میں فوج اورسیاسی جماعتوں کا رشتہ وہی ہے جو راشی اور مرتشی کا ہے۔ دونوں کا قصور ہے ۔دونوں ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں۔لیکن آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں پاکستان میں ایک سویلین حکومت کھلم کھلااوراعلانیہ طور پر آئین شکنی کررہی ہے۔مثال کے طور پر اگر پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں۔آئین میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اگروقت سے پہلے تحلیل ہوں تو نوے دنوں میں اور اگر بروقت تحلیل ہوں تو ساٹھ دنوں میں وہاں الیکشن کروائے جائیں ۔ یہاں تک لکھا گیا ہے کہ اگر صوبہ کا گورنر یاملک کا صدر اسمبلی کی تحلیل کو قبول نہ کرے تو اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔گورنر یا صدر کے دستخطوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اڑتالیس گھنٹوں کے بعد اسمبلی خود بخود تحلیل ہو جائے گی۔اتنی وضاحت ہونے کے باوجود موجودہ حکومت نے ابھی تک پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کروانے کا اعلان نہیں کیا۔یہ سیدھی سیدھی آئین شکنی ہو رہی ہے ۔ یہاں تک کہ ہائی کورٹ نے حکم دے دیا کہ فوری الیکشن کی تاریخ دی جائے لیکن ہائی کورٹ کا حکم اعلانیہ طور پر تسلیم نہیں کیا جارہا۔ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں تو جایا جا سکتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں کہ ہم مانتے ہی نہیں ۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارہورہا ہے ۔ یہ صورتحال آئینی بحران کو جنم دے سکتی ہے اور خدانخواستہ کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے ۔ پاکستان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو جب بھی کسی بڑی سیاسی پارٹی کو اقتدار دینے سے انکار کیا گیا تو اس کے دو نتیجے نکلے ہیں ۔ یا تو وہ پارٹی الیکشن میں اتنی بڑی اکثریت کے ساتھ جیت کر آتی ہے کہ مخالفین کے پاس بھاگنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا ۔ ورنہ کوئی اس طرح کا سانحہ ہو جاتاہے جس طرح 1971ء میں ہوا ۔ لہٰذا آئین کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے ۔ الیکشن کروائے جائیں اور جو پارٹی جیت کر آئے اس کو اقتدار منتقل کیا جائے ۔
سوال:قومی شعور اور آئین کے ساتھ کھلواڑ کسی قومی خطرے کا پیش خیمہ نہیں ہوسکتا ؟
رضاء الحق:دونوں صورتیں نکل سکتی ہیں ۔ اگر عوامی شعورکو صحیح سمت نہ دی جائے تو وہ نقصان کا باعث بنتا ہے ۔ جس طرح عرب سپر نگ میں ہم نے دیکھا کہ وہاں بھی تبدیلی کا نعرہ لگا تھا ۔ لیکن وہ نعرہ ان ممالک کی تباہی کا باعث بن گیا ۔ لیبیا،شام اور مصر کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ لہٰذا اگر عوامی شعور بیدار ہو جائے تو دونوں فریقوں کو معاملہ درستگی کی طرف لے کر جانا چاہیے ۔ ہم نے دیکھا کہ سابق وزیر اعظم کی حکومت ختم کی جارہی تھی تو اس وقت انہوں نے بھی ایک ایسا فیصلہ کیا جو آئین کے خلاف تھا۔سب یہ کہتے تھے کہ آئین کے خلاف فیصلہ ہے لیکن اس کو کبھی سرپیرائز کا نام دیا گیا، کبھی کہا گیا کہ اس سے کھیلو۔وہ چیزبھی عوام نے سمجھی ،پھر ایک ضمنی الیکشن میں انہوںنے موروثی سیاست کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا نمائندہ آگے بڑھایا تو عوام نے اس کو مسترد کر دیا ۔ عوام سمجھدار ہیں،ان تک سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات پہنچتی ہیں تو اس کے اثرات ہوتے ہیں ۔ لہٰذا عوامی شعور کو درست سمت دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ سمت اسٹیبلشمنٹ نہیں دے گی بلکہ آئین کی پاسداری سے یہ ممکن ہوگا ۔ آئین میں دو ایسی شقیں ہیںجو کہ صریحاً اسلامی احکامات کے خلاف ہیں۔ایک آرٹیکل 45 جو کہتی ہے کہ صدر کو اختیار ہے کہ وہ سزا معاف کردے ۔دوسرا آرٹیکل 248جس میں کہا گیا ہے کہ گورنراور اعلیٰ عہدیداران کو استثنیٰ حاصل ہے ۔ ان سے عدالت جواب طلبی نہیں کر سکتی۔ اس کے علاوہ بنیادی ڈھانچہ ہمارے پاس موجود ہے۔ ایسی شقیں مجرموں کے لیے چور دروازے مہیا کرتی ہیں ۔ جس طرح عدالت میں بات آئی تھی کہ آئین کا کوئی ایک آرٹیکل دوسرے کے اوپر حاوی نہیں ہے ۔ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جو ہمار اآرٹیکل 2A ہے اس کو سب کے اوپر حاوی کیا جائے ۔ ہمارا ایک سول لاء اورایک دیوانی قانون ہے، اسی طرح عائلی قوانین،پولیس اور فوجداری قوانین ہیں، ان کے ذریعے ہی نچلی سطح پرانتظامی امور میں فیصلہ سازی کرنی ہوتی ہے مگر وہ سب انگریز کے دور سے چلے آرہے ہیں ۔ان دو چیزوں کو ٹھیک کرکے ہم درست سمت میں چل سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے ڈرنے کی ایسی ضرورت نہیں ہے۔ اس کو مثبت طورپر عوامی شعور کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
ایوب بیگ مرزا:گزشتہ حکومت کے دور میں اسمبلی کی کارروائی میں ایک غیر قانونی کام ہوا تھا۔جواس وقت کے ڈپٹی سپیکر نے کیا تھا۔ اعلیٰ عدلیہ نے اس کے خلاف فیصلہ دیاکہ یہ رولنگ غلط ہے تو اس فیصلے کو تسلیم کیا گیا،لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عدلیہ کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کیا جارہا۔عدلیہ کہہ رہی ہے کہ الیکشن کی تاریخ دیں لیکن نہ گورنر تاریخ دے رہا اور نہ الیکشن کمیشن تاریخ دے رہا ہے ۔
حافظ محمد حسیب اسلم (اینکر): آئین ایک بہت بڑاعہد ہے اور آئین کی پاسداری کا سب حلف اٹھاتے ہیں۔جب اس کی عہد شکنی کی جاتی ہے تو بڑا خطرناک معاملہ ہوتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم عہد کر چکے ہو‘اور اپنی قسموں کو مت توڑو مضبوطی سے باندھنے کے بعد‘جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ ٹھہرا چکے ہو ۔‘‘ (النحل:91)
اللہ کو حاضرناظر جان کر جب ہم کوئی عہد کرتے ہیںاور جب اس کو توڑتے ہیں تو پھر اللہ کی طرف سے اس کی سزاآتی ہے ۔ اللہ ہمیں قومی سطح پر عہد وں کی پاسداری کرنے والا بنائے۔ تبھی ہم آئین کی پاسداری کرسکیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری ریاست اور عوام الناس کو اس پرمتفق ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین!