(گوشۂ تربیت) اسلام میں خیرخواہی کی اہمیت - ادارہ

9 /

اسلام میں خیرخواہی کی اہمیت
مولانا محمد عارف

خیر خواہی دین کی بنیاد ا ور اس کا جوہر ہے۔ دین دراصل خیر خواہی کا نام ہے۔ خیرخواہی اللہ کی، اس کے کتاب کی، اس کے رسول کی، مسلم ائمہ وحکمرانوں کی اور عامۃ المسلمین کی ہوتی ہے۔ پس جب ان تمام کے حق میں بندہ خیرخواہ ہوگا تو اس کا دین کامل ہوگا اور جس میں ان میں سے کسی کی خیرخواہی میں کمی و کوتاہی ہوگی تو اسی قدر اس کے دین میں نقص وکمی ہوگی۔ مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنی خیرخواہی میں امانت کو ملحوظ رکھے اور بغیر کسی مداہنت ومجاملت کے حق کو بیان کرے۔ یہی شخص اللہ کے نزدیک امین ہوگا۔
’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ! اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے فیصلہ کرو! یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت اللہ تعالیٰ تمہیں کر رہا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا ہے اور دیکھتا ہے۔‘‘
مذہب اسلام نے خیرخواہی اور امانت داری پر بہت زیادہ ابھارا ہے۔ نبی کریم ﷺ ایمان لانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بطور خاص نماز، زکوٰۃ اور ہر مسلمان کے لیے خیرخواہ بننے کی بیعت لیا کرتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری میں جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’میں نے رسول اللہﷺ سے نماز قائم کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہرمسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔‘‘
اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث میں عامۃ المسلمین کے لیے عمو می طور پر اور حکمراں طبقہ کے لیے خصوصی طور پر اور حکمرانوں کی جانب سے اپنی رعایا کے لیے خیرخواہی کی زبردست تلقین ونصیحت وارد ہے۔ قرآن کریم نے کئی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی صفتوں میں ایک خاص صفت ان کی اپنی امت کے لیے خیرخواہی کو بتایا ہے۔ نصح یا نصیحت کے معنی عام طور سے ہماری اردو زبان میں خیرخواہی کیا جاتا ہے۔ ویسے یہ لفظ ’’نصح العسل‘‘ سے ماخوذ ہے۔ شہد کو چھاننا اور اسے خالص بنانا کہ اس میں موم یا کسی دوسری شئ کی بالکل آمیزش اور ملاوٹ نہ ہو۔ یہ بڑا ہی جامع کلمہ ہے۔ خود عربی زبان میں یا دنیا کی دیگر زبانوں میں اس ایک لفظ کا ایک لفظ سے معنی ادا نہیں کیا جاسکتا۔ گویا ایک جامع ترین لفظ ہے جو زبان رسالتِ مآب ﷺ سے ادا ہوا ہے۔ بہرحال جیسا کہ عرض کیاگیا، نصیحت، نصح سے ہے جس کے معنی خالص، پیور، ہر قسم کی ملاوٹ سےپاک وصاف چیز کے ہیں۔ اور اس سے مرادیہ ہے کہ ہمارے اورآپ کے دل میں ہراس شخص کے لیےجس کے ہم خیر خواہ ہیں، کسی طرح کی کوئی کدورت اور دھوکہ وفریب نہ ہو اور ہم اس کے لیے ہر بھلائی کے خواہاں ہوں۔ اور جس طرح ہم خود ہر شر وفساد سے بچنا چاہتے ہیں، اسی طرح اسےبھی ہر فتنہ وشرسے بچا نے کے آرزو مند ہوں۔ یہی ایک مخلص مومن کی پہچان ہے۔
جیسا کہ ارشادنبویؐ ہے :
’’ تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہ نہ پسند کرے جو اپنے لیےپسند کرتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام جو انسانوں میں سب سے برگزیدہ اور افضل ہیں،اپنی قوموں کے لیے بڑے ہی ناصح اور امین ہوا کرتے تھے، کیوں کہ ان کی نبوت ورسالت کا مقصد ہی انسانوں کو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق سےآگا ہ کرنا اور خیر کی دعوت دینا اور ہرشر سے ڈرانا اور اس سے باز رہنے کی تلقین کرنا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی بابت فرمایا کہ انہوں نےاپنی قوم سے فرمایا:
{ أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنْصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ o} (الاعراف: 62)
’’تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیرخواہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں۔‘‘
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم عاد سے کہا:
{أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌo} (الاعراف: 68) ’’تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا امانتدار خیرخواہ ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے صالح علیہ السلام کے متعلق فرمایا کہ انہوں نے بھی اپنی قوم سے کہا تھا:
{فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلَكِنْ لَا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ o} (الاعراف: 79) ’’اس وقت (صالح علیہ السلام) ان سے منہ موڑ کر چلے، اور فرمانے لگے کہ اے میری قوم! میں نے تو تم کو اپنے پروردگار کا حکم پہنچادیا تھا اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم لوگ خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے۔‘‘
صحیح مسلم کے حوالہ سے تمیم داری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ((الدین النصیحۃ)) یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے، اس کے اندر مختصرالفاظ کے ذریعہ دین کی پوری حقیقت اور اس کا کمال بیان کردیا گیا ہے۔ دین اسلام ایمان اور احسان وغیر امور کے مجموعہ کا نام ہے۔ گویا دین کے اصول وفروع سب کے سب دین کا حصہ ہیں، انسانیت کی فلاح وبہود کے اسباب ہیں جن کو بروئے کارلا کر ہم ایک اچھے اور سچے مسلمان ہوسکتے ہیں اور دنیا کو امن وشانتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں نیز آخرت کے دائمی فوز وفلاح سےبہرہ ور ہوسکتے ہیں، گویا کل دین خیرخواہی کا نام ہے۔ تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ خیر خواہی کس کے لیے؟یعنی خیر خواہی کے مواضع اور مقامات کیا ہیں۔ تو آپؐ نےفرمایا: سب سے پہلی خیر خواہی اپنے رب تعالیٰ کے لیے جس نے ہمیں پیدا کیا اور ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا اور ہماری دینی تربیت کے لیے آسمان سے سب سے جامع اور کامل کتاب قرآن مجید سب سے برگزیدہ اور افضل رسول محمد عربی ﷺپر نازل فرمائی۔اس رب تعالیٰ کا حق ہم بندوں پر سب سے مقدم ہے اور اس کے حق کو خالص طور پر اسی کے لیے ادا کرنا رب تعالیٰ کی خیرخواہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق اعظم کاخلاصہ یہ ہے کہ ہم اسی ایک اللہ وحدہ لاشریک لہٗ کو اپنا معبود ومسجود اور حاجت روا ومشکل کشا سمجھیں۔ اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کریں، اسی سے اپنی حاجتوں کا سوال کریں، اس کے وہ تمام اسماء وصفات جو کتاب اللہ اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں، انہیں بلاتحریف وتاویل اور بلاتشبیہ وتمثیل مانیں اور ان ناموں اور صفتوں سے اللہ تعالیٰ کی عظمت شان کو سمجھیں اور خود کو بھی عمدہ صفات سے آراستہ کریں۔
رب تعالیٰ کے کسی نام یا صفت کا انکار، یا اس کے حقیقی اور ظاہری معنی سے تحریف وتاویل یا اس کی کسی صفت کو مخلوق سے مشابہت دینے یا اللہ تعالیٰ کی کسی مخلوق کے ذریعہ مثال دینے کی ہر گز جسارت نہ کریں کیونکہ یہ تمام حرکتیں ناجائز، بلکہ شرک کے مترادف ہیں ۔ اسی طرح جو عبادتیں اللہ پاک نے ہم پر واجب کی ہیں ان کو خاص اللہ تعالیٰ کے لیے ادا کریں۔ ریاکاری اور نام ونمود کی خواہش سے گریز کریں کہ یہ ضیاع عمل کا سبب ہے۔ واجبات کے علاوہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے قربت حاصل کریں، اور جن چیزوں سے اللہ نے منع فرمایا ہے، خاص کر جو چیز یں شریعت میں حرام ہیں ان سے لازماً اور کلی طور پر اجتناب کریں ۔ ساتھ ہی مکروہات سے بھی بچنے کی کوشش کریں ۔ کیوں کہ تمام حرام اور مکروہ اشیاء یا تو ہمارے دین کے لیے یا ہماری اپنی ذات کے لیے، ہمارے گھر اور خاندان کے لیے اور انسانی معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ان سے بچنے میں ہمارا ہی فائدہ ہے ۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق کو اور خاص کرحق توحید کو یعنی اللہ تعالیٰ کی خالص بندگی کے حق کو جو سب سے اوّل اور مقدم ہے، بجالا تے ہیں تو ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ اور دنیا وآخرت ہر دوجگہ میں امن وعافیت سے رہیں گے۔
آپ ﷺنے فرمایا :
اللہ تعالیٰ کی کتاب قران مجید کے لیے خیرخواہ بنو۔ قرآن کریم جو الفاظ ومعانی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس کے کلام الہٰی ہونے پر ایمان رکھو۔ “الحمد للہ” وہ ہر تحریف اور تبدیلی سے پاک ہے۔ یہ کتاب تمام سابقہ آسمانی کتابوں کے لیے ناسخ اور ان کی تعلیمات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئی ہے۔ جو قرآن کریم پر ایمان نہیں رکھتا وہ مسلمان نہیں ہے ۔ اس کتاب کو دنیا وآخرت کی فلاح ونجات کاذریعہ سمجھ کر پڑھنا، اس کو صحیح احادیث اور اقوال صحابہؓ اور ان کی تفسیر کی روشنی میں سمجھنا، اس پر عمل کرنا، اعمال حسنہ اور اخلاق کریمانہ کواختیار کرنا اور برے اعمال واخلاقِ سیّئہ جن کی قرآن نے نشاندہی کی ہے ان سے دامن بچانا، قرآن وسنت کی روشنی میں اپنے معاملات حل کرنا اور کرانا اور قرآن کو اپنے قلبی امراض شرک وبدعات اور معاصی وسیئات جیسے امراض خبیثہ اور اسی طرح مختلف جسمانی امراض کا علاج اور ذریعۂ شفا سمجھنا قرآن کریم کے ساتھ خیر خواہی ہے۔ مسلمانوں کا اس سے بڑا ہی گہرا اور مضبوط رشتہ ہونا چاہئے۔ اس کتاب پر عمل پیرا ہوکر اسلاف کرام نے دنیا پر حکومت کی اور اسلام کی عظمت وشوکت کے جھنڈے گاڑے اور ہم اس قرآن سے بے اعتنائی کے سبب ذلیل وخوار ہوئے ۔
رسول اللہ ﷺنے نصح وخیرخواہی کے مقامات میں یہ بھی فرمایا کہ نصیحت وخیر خواہی اللہ کے رسول کے لیے ہے۔ یعنی ہم آپ ﷺکی نبوت ورسالت پر ایمان لائیں اور آپ کو آخری نبی ورسول جانیں۔ آپﷺ کے بعد کوئی نبی ورسول قیامت تک نہیں آئےگا۔ اور جو اس قسم کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا ہوگا۔ آپؐ کی شریعت جو قرآن مجید اور آپؐ کی صحیح حدیثوں سے مکمل ہے، اس پر عمل پیرا ہوں۔ آپؐ کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کریں، آپؐ کے حکموں کو بجالائیں، آپؐ کی منع کردہ چیزوں سے بازرہیں ۔ آپ کے فرمودات پر کسی کے قول وفعل کو ترجیح نہ دیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی بندگی آپ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق کریں۔آپؐ کے فضل کا اعتراف کریں۔ آپ پر بکثرت مسنون درود پڑھا کریں اور خاص کر جمعہ کے دن درود شریف بکثرت پڑھنے کی حدیثوں میں ترغیب آئی ہے۔ آپؐ کا، آپؐ کی ازواج مطہرات اور آپؐ کے اہل بیت مومنین رضی اللہ عنہم اجمعین کا احترام اور توقیر واکرام ضروری سمجھیں۔ آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے محبت کو جزوایمان سمجھیں۔ یہ تمام باتیں حقوق مصطفیٰ ﷺکے اندر داخل ہیں ۔ ان حقوق کی ادائیگی اور مناسب توقیر کے منافی امور جو بےادبی اور بد تمیزی سے عبارت ہیں، ان سے ہر حال میں بچیں اور گستاخی کرنے والوں سے سختی سےنمٹیں ۔
نصح وخیرخواہی، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے بھی ضروری ہے اور اس کاتقاضا ہے کہ ان کے لیے صلاح واستقامت اور تمام معاملات میں درستگی اختیار کرنے کی دعا کی جائے۔ خیر کے کاموں میں ان کی اطاعت کو واجب سمجھیں اور جن کے ذمہ جو کام اور ڈیوٹی لگائی گئی ہے یا جو عہدہ ومنصب دیا گیا ہے اس کا پاس ولحاظ رکھیں اور مفوضہ ذمہ داریوں کو عمدہ طریقہ پر انجام دے کر اپنے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کریں۔ عہدوں اور ذمہ داریوں کو امانت سمجھیں۔ ملک کی سالمیت اور امن وامان کو برقرار رکھنے میں حکمرانوں کا بھر پور تعاون کریں۔
خیرخواہی عام مسلمانوں کے لیے بھی ہم سے مطلوب ہے اور اس کامطلب جیسا کہ ذکر کیاگیا؛ یہ ہے کہ ہم ان کےلیے وہ پسند کریں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور جن چیزوں کو اپنے لیے ناپسند کرتے ہیں، ان کے لیے بھی ناپسند کریں۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت کریں۔ گمراہوں کو راہ راست دکھائیں، جاہلوں اور غافلوں کی تعلیم وتذکیر کا فریضہ انجام دیں، بھلائی کا حکم کریں اور برائیوں سے روکیں، مشورہ دینے میں خیانت اور دھوکہ دہی سے ہرگز کام نہ لیں، بیع وشراء اور دیگر معاملات میں شرعی ہدایات کا ضرور خیال رکھیں۔ بدعہدی، وعدہ خلافی،غیبت وچغل خوری اور دوسروں کی حق تلفی اور عدل وانصاف میں منہ دیکھی وغیرہ سے پرہیز کریں ۔ مگر افسوس کہ اس طرح کی واجب خیر خواہی آج مسلمانوں سے مفقود اور عنقاہے، ہر طرف انانیت، خودغرضی، مکروفریب، تجارتی معاملات میں دھوکہ اور جھوٹ اسی طرح مقدمات میں جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہیاں پیش کرکے اپنے حق میں ناحق فیصلہ کرالینے کا چلن عام ہے۔ ہمارے بیشتر کاروبار اس پر قائم ہیں۔اعلیٰ عہدیداروں سے لے کر چپراسی تک کورشوت کاچسکالگ گيا ہے۔ مسلم معاشرہ میں بغض وحسد، کینہ کپٹ اور کبروغرور کا مظاہرہ عام ہے، العیاذ باللہ۔ حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے،انہوں نے قسم کھا کرفرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے محبوب اور چہیتا بندہ وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو اس کے بندوں کے پاس اور بندوں کو اللہ تعالیٰ کے پاس محبوب بنادے اور ہر طرف نصح وخیر خواہی کا معاملہ کرتا پھرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ نصح و خیر خواہی کے کاموں کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین!