(منبرو محراب) قیامت کی ہولناکی اورنتائج - ابو ابراہیم

9 /

قیامت کی ہولناکی اورنتائج

(سورۃ عبس کی آیات 33تا 42کی روشنی میں)

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی لاہورمیں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ  حفظ اللہ کے17فروری2023ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیا ت کے بعد!
جمعہ کے خطاب کاایک بڑامقصد تذکیراوریاددہانی ہوا کرتاہے ۔قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے ہردوسرے صفحے پر آخرت کے حوالے سے ہمیںمتوجہ فرمایاہے اوریہی وہ بنیادی نکتہ ہے کہ اگر آخرت سامنے ہوتوانسان کاعمل درست ہوتا چلاجاتاہے اورجتنا اس حوالے سے کمی اورکوتاہی اور غفلت کامعاملہ ہواتنا ہی کردار واعمال میں بگاڑ اورمعاشرے میں فساد بڑھتاچلاجاتاہے ۔ اسی تعلق سے آج ہم ان شاء اللہ سورۃ عبس کی آخری 10آیات کا مطالعہ کریں گے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی ہولناکی کانقشہ پیش کیاہے ۔وہاں خونی رشتوں کے حوالے سے کیاکچھ پیش آنے والاہے اس کا ذکرکیاگیاہے اوراس دن کے نتائج جوچہروں پر عیاں ہوں گے ان کو بھی بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتاہے :
{فَاِذَا جَآئَ تِ الصَّآخَّۃُ (33)} ’’توجب وہ آجائے گی کان پھوڑنے والی (آواز)۔‘‘(آیت:33)
قیامت کے لیے کئی اصطلاحات قرآن میں بیان ہوئی ہیں جیسے : القارعۃ:کھڑکھڑانے والی، الطامۃ:بہت بڑی آفت ، الساعۃ:قیامت کی گھڑی ، زلزلۃ: بہت بڑا زلزلہ ۔ اسی طرح یہاں الصاخہ کا لفظ آیا جو زور دار آواز کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ یہ وہ کیفیات ہیںجوقرآن حکیم قیامت کے تعلق سے بیان فرماتاہے۔ آگے فرمایا:
{یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ (34) وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ (35) وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ (36)}’’اُس دن بھاگے گا انسان اپنے بھائی سے اور اپنی ماں سے اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی سے اور اپنے بیٹوں سے۔‘‘(آیت :34تا 36)
اللہ تعالیٰ نے یہاں بہت ہی قریبی رشتوں کو گنوایاہے ، تمام رشتوں سے بڑھ کر انسان ان سے محبت کرتاہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی نفسیات کو جھنجوڑا ہے کہ جب بھی انسان پرکوئی مشکل وقت آتا ہے تو انسان انہی رشتوں سے توقع اور امید رکھتا ہے کہ وہ اس کے کام آئیں گے ، اس کا سہارا اور غمخوار بنیں گے ۔اس دنیا میں یہی رشتے ہیں جو اپنی جان پر کھیل کر بندے کی مدد کرتے ہیں ، لیکن قیامت کی ہولناکیاں ایسی ہوں گی کہ یہ قریبی رشتے بھی انسان سے دور بھاگیں گے ۔ ہوگاکیا:
{لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ(37)} ’’اُس دن ان میں سے ہر شخص کو ایسی فکر لاحق ہو گی جو اسے (ہر ایک سے) بے پروا کر دے گی۔‘‘(آیت :37)
اور وہ فکر یہ ہوگی کہ میں کسی طرح بچا لیا جاؤں ۔ آج کی ذلت ورسوائی سے بچالیاجائوں۔ جہنم کی ہولناکیوں سے مجھے کسی طرح بچا لیا جائے ۔ کچھ بھی ہوجائے مگر مجھے کسی طرح بچالیاجائے۔ اس سے اگلامعاملہ وہ ہے جوہم سورۃالمعارج میں پڑھتے ہیں :
{یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَـوْ یَـفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ م بِبَنِیْہِ(11) وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ(12) وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُـئْوِیْہِ(13) وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًالا ثُمَّ یُنْجِیْہِ(14)}’’ مجرم چاہے گا کہ کاش وہ اُس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو ‘اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو ‘اور اپنے کنبے کو جو اسے پناہ دیتا تھا‘اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ‘پھر یہ (فدیہ)اس کو بچا لے!‘‘
اس دنیا میں تو کئی دفعہ انسان اپنی اولاد کے لیے جان پر کھیل جاتا ہے ، خود کو اولاد کے لیے خطرات میں ڈال دیتا ہے لیکن قیامت کا وہ دن اس قدر خوفناک اور ہیبت ناک ہوگا کہ انسان اپنے ان پیاروں کو بھی قربان کرنے پر تیار ہو جائے کہ لیکن اس وقت اس کا کوئی اختیار نہیں ہوگا ۔
فرمایا:{کَلَّاط اِنَّہَا لَظٰی(15) نَزَّاعَۃً لِّلشَّوٰی (16) تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰی (17) وَجَمَعَ فَاَوْعٰی (18)}(المعارج)
’’ہرگز نہیں !اب تو یہ بھڑکتی ہوئی آگ ہی ہے۔جو کلیجوں کو کھینچ لے گی۔وہ پکارے گی ہر اُس شخص کو جس نے پیٹھ موڑ لی تھی اور رُخ پھیر لیا تھا ۔اور جو مال جمع کرتا رہا پھر اسے سینت سینت کر رکھتا رہا۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہم سب کواس شرمندگی سے محفوظ رکھے اورہمیں مال کی اس محبت سے محفوظ فرمائے جو ہمیں اللہ کی محبت اور اطاعت سے دور کردے ۔قیامت کی ہولناکیوں کے یہ نقشے قرآن میں جا بجا بیان ہوئے ہیں تاکہ انسان اس جہاں کو مدنظر رکھے ۔ یعنی دنیا کو ہی اصل زندگی سمجھ کر اس میں گم نہ ہوجائے بلکہ آخرت کی اصل زندگی کے لیے بھی تیاری کرے ۔ آج انسانوں کی عظیم اکثریت اس سبق کو بھلا بیٹھی ہے ۔حالانکہ انبیاء اوررسل کی بنیادی اور اوّلین محنت اسی سبق کو یاد کروانے پر ہوتی تھی ۔ قرآن میں اس پہلو پر خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتاہے :
{قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ وَاَہْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط}(الزمر:15) ’’آپؐ کہہ دیجئے کہ اصل میں خسارے میں رہنے والے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو خسارے میں ڈالا قیامت کے دن۔‘‘
قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہ دنیا کی کامیابیاں اور ناکامیاں تو عارضی اور وقتی ہیں جبکہ اصل کامیابی یا ناکامی تو آخرت کی ہے کیونکہ وہاںہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ قرآن آخرت کے حوالے سے ترغیب اور شوق بھی دلاتا ہے ۔ جیسے فرمایا :
’’اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی پیروی کی ایمان کے ساتھ‘ ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اس اولاد کو اور ہم اُن کے عمل میں سے کوئی کمی نہیں کریں گے۔‘‘(الطور:21)
مفسرین نے لکھاہے کہ جنت کے درجات توبہت سارے ہیں، کوئی اوپرہے ،کوئی نیچے ہے، کوئی درمیان میں ہے لیکن اگر کوئی گھرانہ ایمان پررہااورایمان کے تقاضوں پرعمل بھی کیا تو اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے ان کو جنت میں ایک دوسرے سے ملا دے گا ۔ اللہ فرماتاہے کہ ان کے عمل پرکمی نہیں کریں گے۔ یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ اوپر والوںکا درجہ کم کرکے انہیں نیچے والوں سے ملا دے گا بلکہ نیچے والوں کے درجات بلند کرکے اس گھرانے کو جوڑ دے گا ۔ جنت کا یہ نقشہ بھی قرآن کریم ہمارے سامنے رکھتاہے۔یعنی ہر طرح سے قرآن ہمیں تعلیم دے رہا ہے ۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کل کے لیے ، آخرت کی اصل زندگی کے لیے کتنی تیاری کرتے ہیں اور قیامت کے خوفناک اور ہولناک لمحات کا کتنا خوف اپنے دل میں رکھتے ہیں ۔ اپنے آپ کو اوراپنی فیملی کوہم کل کہاں دیکھناچاہتے ہیں ؟
آج دنیا جہاں کی فکر ہمیں لاحق ہے ، پی ایس ایل میں کون جیتے گا کون ہارے گا ؟فلاں ڈرامے کا اختتام کیا ہوگا لیکن کیا ہمیں یہ بھی فکر ہے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا؟ گھروالوں کو کتنا ہم نے ایمان اور آخرت کے لیے تیار کیا؟ کتنی نمازیں گھر والوں کی ضائع ہوگئیں ؟ کتنا قرآن سے دوری کا معاملہ پیدا ہوگیا ؟ اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیمات پر کتنا عمل ہو رہا ہے ؟ آپ ﷺ کا جو اصل مشن تھا جس کے لیے آپ ﷺ نے مسلسل 23برس جدوجہد کی اس مشن کے ساتھ ہمارا اور ہمارے گھر والوں کا کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں ؟ ابھی گرمی آجائے گی توگھر میں اے سی لگانے ہیں، سب کچھ انتظام کرناہے لیکن قبر کی گرمی اورجہنم کی آگ سے بچنے کے لیے کتنااہتمام کیا جا رہا ہے؟ کیا یہ بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے ؟ زندگی کے یہ وہ پہلو ہیں جو جابجا قرآن مجید ہمارے سامنے لاتاہے ۔ سورۃالتحریم کی آیت 6 میں فرمایاگیا:
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا}’’اے اہل ایمان! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے‘‘
یہ یاددہانی بھی قرآن ہمیں کراتا ہے ۔ قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ گھروالوںکے لیے گھربنائو،بیمار ہوتے ہیں تو دواکااہتمام کرو، یہ کام تو ہربندہ کررہاہے۔ چڑیابھی گھونسلہ بنالیتی ہے، اپنے بچوں کوپال لیتی ہے ۔ وہ بات جس کولوگ بھلادیتے ہیں ،جس کو فراموش کردیتے ہیں وہ اہم ترین پہلوہے جس کی طرف قرآن کریم بار بار راہنمائی کرتاہے ۔ پھرمثبت انداز سے سوچیں آج میری اولاد اورگھروالے ہیں ان کی کفالت کرنامیری ذمہ داری ہے ۔ بالکل صحیح ہے۔لیکن جس طرح ان کے جسم کی حاجات کوپورا کرنے کے لیے ہم فکرمند رہتے ہیں ۔وہیںاس سے بڑھ کران کی روح کی حاجات کوپورا کرنے کی کوشش کرناہمارا فرض بنتاہے ۔ان کو دنیا کی تکالیف اور پریشانیوں سے بچانے کے لیے فکرمندرہتے ہیں اس سے بڑھ کر اپنے آپ کواوران کوجہنم کی آگ سے بچانے کے بارے میں فکرمند رہنافرض بنتا ہے۔ یہ اہم ترین پہلو ہے جس کی طرف قرآن کریم بار بار توجہ دلاتاہے ۔یہ قرآن مجید کے مستقل موضوعات ہیں۔ یہاں تک کہ ہرنماز کی ہررکعت میں قرآن ہمیں یاد دلاتاہے :
{ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ0} ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اللہ بدلے کے دن کا مالک ہے ، قیامت کے دن مالک ہے ، لیکن باہرجاکرمعاملات کرتے ہوئے کیا ہمیں یاد رہتا ہے؟ یہ اصل پہلو ہے جو ہمارے مدنظر رہنا چاہیے۔ جو جہاں جہاں جس پوزیشن پرہے ، کوئی عدالت کی کرسی پر بیٹھا ہوا جج ہے ، کوئی پارلیمنٹ کی کرسی پربیٹھا ہوا سیاستدان ہے ، کوئی حکمران ہے ، کوئی کسی اور بااثر عہدے پر بیٹھا ہوا ہے تو ان سب کو یہ یاد رہنا چاہیے کہ اللہ بدلے کے دن کا مالک ہے ۔ ہمارے سارے فساد اوربگاڑ کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں ۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ مرنے کے بعد اللہ کو جواب بھی دینا ہے ۔ اسی یاددہانی کے لیے انبیاء کی محنت ہوا کرتی تھی جس کوقرآن کریم کبھی تقویٰ کے نام سے ہمارے سامنے رکھتاہے۔ ہرنبی اوررسول نے کہا: {فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ(110)}(الشعراء) ’’ پس تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو!‘‘
یہ ہماری زندگی کا بنیادی سبق اور بنیاد ی مسئلہ ہے جس پر ہمارا فوکس سب سے زیادہ ہونا چاہیے ۔ یقیناً جائز دنیوی ضروریات پر بھی فوکس ہونا چاہیے اس کی نفی نہیں ہے ۔دین جائز دنیوی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے بھی رہنمائی دیتاہے ۔ البتہ دین یہ بھی بتاتاہے کہ دنیاعارضی ہے ۔ ارشاد ہوتاہے :
{وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَـآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ(185)} (آل عمران) ’’اور یہ دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔‘‘
{وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ ۷ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(64)}(العنکبوت) ’’اور آخرت کا گھر ہی یقیناً اصل زندگی ہے۔ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!‘‘
اصل مسئلہ ہمار ا وہاں کے اعتبار سے ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے اپنے خاندان والوںکوجمع کرکے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچائو۔ دنیا میں کچھ دینادلانا ہے تومیرے ساتھ معاملہ کرلولیکن اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکرو کیونکہ کل میں تمہارے کسی کام آنے والا نہیںہوں ۔
ہم ایمان والے ہیں ،اللہ کی نعمت ہے۔ا لبتہ ایمان ایک اقرار کانام ہے اوراس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہے ۔ پھرایمان وہ ہے جودل میںگھرکرجائے اوراس کا اثر عمل میں آناشروع ہوجائے ،یہ ساری محنت مستقل کرنے والی ہے ۔ اس محنت میںلگیں گے توکل قیامت کی ہولناکیوں سے اللہ تعالیٰ محفوظ بھی رکھے گا۔ ان شاء اللہ !آگے فرمایا:
{وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ (38) ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَـبْشِرَۃٌ (39)} ’’کچھ چہرے اُس دن روشن ہوں گے۔مسکراتے ہوئے خوش و خرم۔‘‘(سورۃ عبس :38،39)
آج ایمان کی محنت ہے ،آج نیک اعمال کی محنت ہے اورآج اگر ایمان کے تقاضوں پرعمل ہے تویہی نورایمان اورنور عمل کل چہروں پرعیاں ہوگا۔ اللہ ہم سب کوعطا فرمائے ۔ کل الصراط سے بھی گزرناہے جس کوہم پل صراط کہتے ہیں ۔وہاں تاریکی ہے، وہاں کے لیے روشنی کااہتمام آج دنیا میں کرناہے ۔ اللہ کے رسولﷺ نے اماں عائشہ k کوفرمایاتھا:اے عائشہ !تین مواقع ایسے ہیںجہاں کوئی کسی کونہیںپوچھے گا۔ ان میں ایک موقع الصراط سے گزرنے کا بھی ہوگا ، اس کے لیے روشنی کا انتظام آج اس دنیا میں ہم نے کرنا ہے ، اپنے ایمان اور عمل کے ساتھ ۔ آگے فرمایا:
{وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْہَا غَبَرَۃٌ(40) تَرْہَقُہَا قَتَرَۃٌ(41)اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکَفَرَۃُ الْفَجَرَۃُ(42)} ’’اور کچھ چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے۔ان پر سیاہی چھائی ہوئی ہو گی۔یہی ہوں گے وہ کافر اور فاجر لوگ۔‘‘
آج جو لوگ کفر ، شرک ، نفاق اور فسق و فجور میں پڑے ہوئے ہیں ۔ان کے ان اعمال کی نحوست اور تاریکیاں کل قیامت کے دن اُن کے چہروں پر چھائی ہوئی ہوں گی۔ ہم تویہ نظارے دنیامیں بھی دیکھتے ہیں۔بچوںکے امتحانات میں اور خاص طور پر جب رزلٹ آنے والا ہوتاہے تو اُس سے قبل ہی چہروں کے انداز بتا دیتے ہیں ۔ جس نے اچھی تیاری کرکے ، اچھے طریقے سے امتحان دیا ہوتاہے تو وہ اُس صبح کا جلدی سے انتظار کرتاہے اور خوشی خوشی سکول جاتاہے لیکن کچھ بچے چاہتے ہیں کہ رات ختم ہی نہ ہو۔ کاش اگلی صبح نہ آئے ۔ اسی طرح روز قیامت بعض چہرے بجھے ہوئے ہوں گے ۔ آج ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم اُس دن اگر اپنے چہرے روشن دیکھنا چاہتے ہیں تو اس دنیا میں اپنے اپنے عمل کو ایمان کی روشنی میں سدھار لیں ۔ یہ موقع کسی وقت بھی ختم ہو سکتاہے ۔
{وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(102)}(آل عمران) ’’اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔‘‘
{وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ(99)}(الحجر) ’’اور اپنے رب کی بندگی میں لگے رہیں یہاں تک کہ یقینی شے وقوع پذیر ہو جائے۔‘‘
آج تیاری کرنے کا موقع ہے ۔ اس سے فائدہ اُٹھائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے ،کل کے سیاہ چہروں سے اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے اورکل کے روشن چہرے اللہ تعالیٰ ہم سب کو عطا فرمادے ۔آمین !