اداریہ
ایوب بیگ مرزاجہالت ِجدیدہ بمقابلہ جہالتِ قدیمہ
جہالت قدیم ہو یا جدید، انسانی معاشرے کے لیے ہمیشہ تباہ کن ثابت ہوئی۔ جہالت ِقدیمہ کیا تھی؟ غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں اور انسان کی خرید و فروخت سرِ عام اور سرِ بازار ہوتی تھی۔ ہوّا کی بیٹیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ حاکم ِوقت جس کی زبان قانون کا درجہ رکھتی تھی وہ اپنے کسی ناپسندیدہ شخص کو سزا دینے کا یہ طریقہ بھی اختیار کرلیتا تھا کہ اجتماع عام میںاُسے بھوکے شیر کے پنجرے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ جب شیر بنی آدم کی چیر پھاڑ کرتا تو یہ مجمع قہقہے اور ٹھٹھے لگا تاتھا۔ لیکن تب دنیا بہت بڑی تھی۔ پہیہ ابھی ایجاد نہیں ہوا تھا۔ مواصلاتی نظام انتہائی سست رو تھا۔ میڈیا نامی کوئی شے نہ تھی۔ بات سینہ بہ سینہ آگے پہنچتی لہٰذا اچھائیوں اور برائیوں کے اثرات محدود رہتے تھے۔ ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ تک پہنچ بھی جاتے تب بھی علاقائی حدود نہ پھلانگ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض برائیاں افراد اور نجی سطح پر ہونے کے باوجود اُسی معاشرے میں پوری طرح نفوذ نہ کرسکیں۔ مثلاً معاشی سطح پر سود تھا لیکن جب دو افراد قرض کا لین دین سود کی بنیاد پر کرتے تو وہی دو افراد یا زیادہ سے زیادہ وہی دو گھرانے متاثر ہوتے تھے۔ معاشرے اور سوسائٹی پر بحیثیت مجموعی اُس کے اثرات بہت کم اور جُزوی پڑتے تھے۔ ظلم تھا، کفر تھا، شرک تھا، کذب بیانی تھی، لڑائی جھگڑے تھے، لیکن جو کچھ تھا ظاہر و باہر تھا، منافقت نہ ہونے کے برابر تھی۔ لیکن آج کا دور جسے جدید دور کہا جاتا ہے، اس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو یہ کرّہ ارض کم پڑرہا ہے اور وہ انسان کے لیے چاند اور مریخ پر جگہ تلاش کررہی ہے۔ اور اپنے معاشرہ کو بزبانِ خود مہذب معاشرہ کہا جاتا ہے۔ بڑے پُرزور اور پُرجوش انداز میں یہ الفاظ ادا کیے جاتے ہیں Our Civilized Society۔ سیاسی اور عمرانی سطح پر جمہوریت کو اور جمہوری طرز حکومت کو ترقی کے زینہ کا آخری Step قرار دیا جاتاہے۔ گویا انسانی اجتماعیت نے اِس شعبہ میں چوٹی سر کرلی ہے اور منزل پالی ہے۔ لہٰذا فرمودہ مغرب یہ ہے کہ سیاسی اور عمرانی سطح پر یہ End of the History ہے۔ آئیے، ہم بھی اِس جدید دور پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ قرآنِ مجید کے اِس حکم کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے جو اُمت ِمسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے دیا گیا ہے اور جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ کسی فرد یا قوم کی دشمنی تمہیں انصاف کی راہ سے نہ ہٹا دے۔ اِس حکم کو ایک اصول تصور کرتے ہوئے ہم جدید دور کا جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی معاشرہ دورِ قدیم کا ہو یا جدید کا کلیتاً اچھائی اور خیر سے محروم نہیں ہوسکتا، اِس لیے کہ اچھائی انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اِسے مسخ کیا جاسکتا ہے، کُچلا جاسکتا ہے، ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہر معاشرے میں کسی نہ کسی درجے میں، کسی نہ کسی انداز میں موجود رہے گی، ناپید نہیں ہوگی۔ لہٰذا ہم نے نہ ہی دور قدیمہ کی اچھائیوں کا ذکر کیا ہے نہ ہی دور جدیدہ کی اچھائیوں کا ذکر کریں گے، یہ جتنی ہیں کم ہیں۔ اچھا معاشرہ وہ ہے جس میںا چھائی غالب ہو اور برا معاشرہ وہ ہے، جس میں برائی غالب ہو۔ لہٰذا قدیم اور جدید معاشرے کا ذکر اور تقابل برائیوں کی نسبت و تناسب سے ہوگا۔ جدید دور میں انسان کھلی منڈی میں خریدا اور بیچا نہیں جاتا۔ مالیاتی اداروں کے چمکتے دمکتے دفاتر میں انسانی گروہ، جماعتیں اور اقوام بِک جاتی ہیں اور خرید لی جاتی ہیں۔ یعنی فرد براہِ راست خریدا نہیں جاتا، گروہوں، جماعتوں اور اقوام کے واسطے سے فروخت ہوتا ہے۔ پھر جماعتوں اور قوموں کے سربراہ اُسے re-sale کرتے ہیں۔ منافع دو جگہ تقسیم ہونے کی وجہ سے دورِ جدید کے انسان کو دور قدیم کے انسان کی نسبت اپنی قیمت کم وصول ہورہی ہے۔ کیونکہ انسانوں کے لاٹ فروخت ہوتے ہیں۔ لہٰذا اُس کی مارکیٹ ویلیو کم ہوگئی ہے اور وہ پہلے کی نسبت سستے داموں فروخت ہونے پر مجبور ہے۔ سود آج کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جاہلیت جدیدہ میں سود (معاذاللہ) ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ بلا سود معیشت کا تصور بھی احمقانہ ہے (نقل کفر کفر نباشد) نظروں سے اوجھل ہی سہی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پرانے زمانے کا سود جو انفرادی طور پر لیا جاتا تھا ایک فرد یا ایک گھرانے کو تباہ و برباد کرتا تھا، آج قرض صنعت کار، سرمایہ دار اور حکومتیں لیتی ہیں۔ سوددر سود قوم کے ہر فرد کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ بنک میں سٹاک رہن سرمایہ دار رکھتا ہے۔ نتیجہ میں پیدا ہونے والی مہنگائی غریب کی گردن پر لاد دی جاتی ہے۔
سماجی سطح پر جائزہ لے لیں۔ پہلے عورتیں کنیزیں بنالی جاتی تھیں۔ اندرونِ خانہ عورتوں کی بے حرمتی کی جاتی تھی۔ آج آزادی نسواں کے نام پر اُنہیں بے لباس اور برہنہ کرکے شمع محفل بنا دیا گیا ہے۔ اُس کی عریاں تصاویر چوکوں میں آویزاں کی جاتی ہیں۔ قانونی اجازت کے ساتھ اُن کی البم ہوٹلوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ مرد کے مساوی مقام اور شانہ بشانہ کام کرنے کا دلفریب جھانسہ دے کر اُسے معاشی حیوان بھی بنا دیا گیا ہے۔ فحاشی، بے حیائی اور عریانی کو یوں گھر گھر میں داخل کردیا گیا ہے کہ غضِ بصر انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ مملکت ِخداداد پاکستان کو ہی لے لیجئے۔ ٹرانس جینڈر کے نام پر شرم و حیاء کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ نے گویا ہم جنس پرستی کے قبیح گناہ کو قانون کی محفوظ چھتری فراہم کر دی ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں بدترین جنسی گناہ (Sexual Perversion) پر مبنی فلموں کی کھلے عام نمائش جاری ہے۔ اسلام آباد کی ایک معروف نجی یونیورسٹی کے ایک ’ٹیچر‘ مقدس رحمی رشتوں کے مابین جنسی تعلق پر افسانہ نگاری کو طلبہ و طالبات کی ’تربیت ‘ کا حصہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت میں کچھ ہی دنوں کے وفقہ سے اجتماعی زیادتی کے دو دلخراش واقعات کا ہو جانا ہمارے مجموعی اخلاقی انحطاط کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جب وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہو تو ملک کے دور آفتادہ علاقوں میں کیا قیامت نہیں ڈھائی جا رہی ہوگی۔ عجب بات ہے کہ جب شرم و حیا کی بات کی جائے،ستروحجاب کی بات کی جائے، غیر مخلوط نظام تعلیم کی بات کی جائے، عورت کا محرم کے ساتھ گھر سے نکلنے کی بات کی جائے، عورت کا رات کو گھر سے باہر نہ رہنے کی بات کی جائے، نکاح کے ’’بندھن‘‘ کی بات کی جائے، عورت کا اصل میدان کار گھراور اگلی نسل کی پرورش قرار دیا جائے … تو ہمارے کچھ نام نہاد مہذب ذہنیت کے حامل لوگوں کو انسانی حقوق بہت یاد آتے ہیں۔ غیر انسانی رویے کی بات ہوئی تو بلوچستان کے ایک سردار جو حکومتی وزیر بھی ہیں وہ اپنی نجی جیل میں مردوں اور عورتوںکو جانوروں کی طرح باندھ کر رکھتے ہیں۔ جن میں سے 3 کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح مسل دیتے ہیں۔ بہرحال بدترین استحصال اور ظلم آج کے دور میں سیاسی سطح پر ہورہا ہے۔ جرمنی کے ہٹلر کو بدترین گالیوں سے نوازا گیا اُسے اور نازیوں کو نفرت کا سمبل تو بنا دیا گیا لیکن ہٹلر ہی کے نازی وزیرخارجہ گوئبلز کی سیاست کو آئیڈیل بنا لیا گیا ہے۔ گوئبلز کا ایمان اور عقیدہ تھا کہ جھوٹ اتنا زیادہ بولو، تسلسل سے اور زور دار انداز میں بولو کہ سچ اُس کے سامنے دب جائے۔ یقین کیجئے کہ جدید ترقی یافتہ نام نہاد مہذب مغربی معاشرہ نے اِس فیلڈ میں بعض معاملات میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے گوئبلز کو بھی مات دے دی ہے۔ گوئبلز اکیلا تھا یا شاید اُس کے چند ساتھی ہوں، لیکن آج پورا مغربی میڈیا اپنی حکومتوں کے اشارے پر یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ اِس حوالہ سے ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد صرف دہشت گردی کا معاملہ لے لیں، یہودیوں اور عیسائیوں نے مسلمان حکمرانوں کی مدد سے کس طرح سیاہ نہیں گہرے سیاہ کو سفید ثابت کیا اور کیسے صاف اور اُجلے دامنوں کو کیمرہ ٹِرک (Trick) سے دنیا کو داغدار اور گندہ دکھایا۔ دہشت گرد اور انتہاپسند کے الفاظ کا اتنا شور و غوغا کیا گیا کہ کانوں کے پردے جواب دے گئے۔
ہم چاہتے ہیں کہ جہالت قدیمہ اور جدیدہ کے عنوان کے تحت مغرب کی ان دو اصطلاحات سے بھی دو دو ہاتھ کرلیے جائیں۔ انتہا پسند (یعنی مغرب کا Extremist) ہمارا اپنا بیورو کریٹ اور ضرورت سے زیادہ پڑھا لکھا طبقہ یہ لفظ ناک اوپر کو چڑھا کر اور ہونٹ ٹیڑھے کرکے نفرت انگیز لہجے میں بولتا ہے، ہم اِس بارے میں اپنی مختصر سی رائے دیتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں اللہ اور رسولﷺ کے احکامات، نبی آخر الزماں ﷺ کی مبارک سنت اور صحابہ کرامj کے افعال ہمارے لیے حجت کا درجہ رکھتے ہیں، جو اعتدال اور توازن کی معراج ہیں۔ اِس سے کم، اِ س سے زیادہ اِس کے علاوہ سب انتہا پسندی ہے۔ اگر اللہ کے احکامات کی پابندی اور سنت ِرسول ؐکی پیروی (جس میں مختلف شکلوں میں جہاد بھی شامل ہے) انتہا پسندی ہے تو ہم دل کی گہرائیوں سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہر مسلمان کو انتہا پسند بنا۔ اے اللہ انتہا پسندی ہمارا مقدر بنا دے۔ رہ گئی بات دہشت گردی کی تو پہلے دہشت گرد کی تعریف تو متعین کرلیں۔ دہشت گرد کون ہوتا ہے؟ کسے کس عمل کے بعد دہشت گرد قرار دیا جائے گا۔ عملی طور پر امریکہ اور مغرب کا رویہ تو یہ ہے کہ وہ خود بمباری کرے توپوں کے گولے برسا کر ہنستی بستی انسانی آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ ڈیزی کٹر بموں سے انسانی جسموں کے پرزے اُڑا دے۔ انسانوں کو پنجروں میں بند کرکے اُن سے درندوں والا سلوک کرے۔ دوسری قوموں اور ملکوں پر بلا جواز اور ناجائز غاصبانہ قبضہ کرے۔ یہ سب کچھ امن کی خاطر ہے بلکہ یہی امن ہے اور اگر متاثرہ قوم یا افراد ردِ عمل میں ہتھیار اُٹھائیں، ظلم کے خلاف ڈٹ جائیں اور جوابی حملے کریں اور اپنے ملک کو آزاد کرانے کی جدوجہد کریں تو یہ دہشت گردی ہے اور ایسا کرنے والے دہشت گرد ہیں۔ ہم کسی قیمت پر یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
بہرحال ہمارا اصل موضوع جہالت ِقدیمہ اور جہالت ِجدیدہ تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جہالت ہر دور اور ہر طرح کی قابل مذمت اور قابل نفرت ہے، لیکن جہالت جدیدہ انسان پر ظلم و ستم ڈھانے اور اُسے انفرادی اور اجتماعی طور پر تباہ و برباد کرنے میں جہالت قدیمہ سے بازی لے گئی ہے اور اِس کا انجام کسی خطے کی نہیں عالمی سطح پر تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اپنے اور اپنے بندوں کے دشمنوں کو ہدایت دے اور اگر ہدایت اُن کی قسمت میں نہیں تو اِس سے پہلے کہ وہ عالمی سطح پر تباہی پھیلائیں وہ خود تباہ و برباد ہوجائیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024