(الہدیٰ) فرعون کی بیوی نے حضرت موسیٰ ؑ کو گود لے لیا - ادارہ

8 /

الہدیٰ

فرعون کی بیوی نے حضرت موسیٰ ؑ کو گود لے لیا


آیت 9{وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَلَکَ ط} ’’اور فرعون کی بیوی نے کہا کہ یہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہو گا میرے لیے بھی اور تمہارے لیے بھی۔‘‘
{لَا تَقْتُلُوْہُ ق } ’’تم اسے قتل مت کرو‘‘
{عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا} ’’ کیا عجب کہ یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں‘‘
یہ بالکل وہی الفاظ ہیں جو حضرت یوسف ؑ کے بارے میں عزیز ِمصر نے اپنی بیوی سے کہے تھے۔ (یوسف:21)
{وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(9)} ’’اور وہ (انجام سے) بالکل بے خبر تھے۔‘‘
انہیں اس وقت کوئی اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کررہے تھے اور ان کے اس فیصلے کا کیا نتیجہ نکلنے والا تھا۔
آیت 10{وَاَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰی فٰرِغًاط} ’’اور (ادھر) موسیٰ ؑکی ماں کا دل حوصلہ چھوڑ بیٹھا۔‘‘
ان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے جنم لے رہے تھے اورشدّتِ غم سے جذبات میں ایسا ہیجان برپا تھا کہ دل اُڑا جا رہا تھا۔
{اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ لَوْلَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِہَا لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(10)} ’’ قریب تھا کہ وہ اس (راز)کو ظاہر ہی کر دیتی اگر ہم نے اس کے دل کو مضبوط نہ کر دیا ہوتا ‘تا کہ وہ ہو جائے ایمان والوں میں سے۔‘‘
اگر ہم نے اس کی ڈھارس نہ بندھائی ہوتی تو وہ اپنی اس اضطراری کیفیت میں خود ہی بھانڈا پھوڑ دیتی۔

درس حدیث

حیا جنت میں لے جانے والا عمل

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ‌ ﷺ : ((اَلْحَیَائُ مِنَ الْاِیْمَانِ، وَالْاِیْمَانُ فِی الْجَنَّۃِ، وَالْبَذَائُ مِنَ الْجَفَائِ، وَالْجَفَائُ فِی النَّارِ)) (مسند احمد)
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’حیا، ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں (لے جانے والا) ہے اور بد کلامی و بد زبانی، اکھڑ مزاجی اور بدخلقی سے ہے اوراکھڑ مزاجی آگ میں(لے جانے والی) ہے۔‘‘
ہر انسان فطری طور پر زیور حیا سے آراستہ ہوتا ہے۔ اس کے اندر خیر اور بھلائی کے کاموں سے محبت ، عفت وپاکدامنی کے جذبات، سخاوت وفیاضی اور انسانی ہمدردی کی بنیادی صفات موجود ہوتی ہیں۔ حیا انسان کو بے حیائی کے کاموں، نازیبا اور خلاف ادب باتوں اور حرکتوں سے روکتی ہے، اس لئے کہا گیا ہے کہ جب حیااور شرم نہیں تو انسان جو چاہے کرے۔ اس کو روکنے والی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ہے۔