(اداریہ) پاکستان اور آئی ایم ایف - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزاپاکستان اور آئی ایم ایفتحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے اِس بیان نے کہ وہ IMF کو خط لکھ رہے ہیں کہ جب تک حالیہ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کی عملی طور پر تلافی نہیں کی جاتی IMF پاکستان کے ساتھ ہونے والے مالیاتی پروگرام کو روک دے۔ اِس بیان نے سیاست کے میدان میں زبردست ہلچل مچا دی ہے۔ موصوف کے سیاسی حریف اِس بیان کو ملک و قوم سے غداری اور وطن دشمنی قرار دے رہے ہیں اور اُن کے محاسبہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جبکہ اُن کی جماعت اُن کے مؤقف کو درست قرار دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ ایسا خط لکھنا کسی صورت معیوب نہیں بلکہ سابق وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو بھی ایسا خط لکھ چکی ہیں۔ پھر یہ کہ اس خط میں آئی ایم ایف کو قرض نہ دینے کی تجویز نہیں دی گئی وغیرہ وغیرہ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سیاست دانوں کی محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ ہے لہٰذا اِس پر تو ہم کوئی تبصرہ نہیں کرتے،یہ سیاست دان جانیں اور عوام جانیں۔ ہم صرف پاکستان کی مالی صورتِ حال پر تبصرہ کر دیتے ہیں اور علاوہ ازیں یہ کہ IMF کی فنڈنگ کے نفع و نقصان سے قطع نظر ہم دینی بنیادوں پر اپنا اصولی مؤقف قارئین کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔
پنجابی کی ایک ضرب المثل جس کے اصل الفاظ لکھتے ہوئے تو ہمیں گِھن آتی ہے، بہرحال مفہوم یہ ہے کہ گمراہ انسان کا مالی خسارہ جب تمام حدود کراس کر جاتا ہے تو وہ زندگی کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے دیانت، محنت اور خود داری کا سہارا لے کر مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے گھر کے برتن بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ پاکستان کے مالی معاملات تو یقیناً ایک عرصہ سے سدھر نہیں رہے تھے اور پسپائی اختیار کیے ہوئے تھے لیکن گزشتہ تقریباً دو سال سے مالی لحاظ سے ہم جس طرح اوندھے منہ گرے ہیں اس کی ماضی میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حیرت کی بات ہے دو سال قبل شرح نمو 5.97 فیصد یعنی قریباً 6 فیصد تھی اور اُس سے ایک سال قبل 5.37 فیصد تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر مارچ 2022ء میں 22.6 بلین ڈالر تھے۔ یقیناً صورتِ حال کوئی آئیڈیل یا قابل فخر نہیں تھی لیکن اکثر اقتصادی عشاریے مثبت دکھائی دے رہے تھے۔ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو 16 ماہ کی PDM حکومت نے اکنامک سروے 2022ء میں خود اپنے دستخطوں کے ساتھ شائع کیے۔ اُس وقت ڈیفالٹ کا کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں تھا۔ پاکستان نے IMF کا پروگرام بھی بعض سخت شرائط کی وجہ سے معطل کر رکھا تھا۔ لیکن پھر اپریل 2022ء کے بعد صورتِ حال تیزی سے بدلنا شروع ہوگئی اور اقتصادی صورتِ حال کے حوالے سے بُری خبریں آنا شروع ہوئیں۔ جولائی2022ء تک زرمبادلہ کے ذخائر سنگل ڈیجٹ میں جا چکے تھے۔ ڈالر، پیٹرول، بجلی، گیس، ادویات الغرض تمام بنیادی ضروریات کی اشیاء کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ شرحِ نمو گرتے گرتے صفر کی حد کو عبور کرتے ہوئے منفی میں جا پہنچی۔ افراطِ زر نے عام آدمی کو پیس کر رکھ دیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت اپنی اصلاح اور ایسے اقدامات کرتی جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی ٹل جاتا اور ہماری سلامتی کو بھی خطرہ لاحق نہ رہتا۔ لیکن افسوس کہ 2024ء کے تیسرے ماہ کے آغاز پر بھی ہماری معیشت بُری طرح دلدل میں دھنسی ہوئی ہے۔ حالات اس قدر دگرگوں کر دیے گئے ہیں کہ ہائبرڈ پلس یا پرومیکس حکومت بھی بُری طرح ناکام نظر آتی ہے۔
ہم قارئین کو تمام حقائق اور پس منظر سے آگاہ کرنے کے لیے بات 1980ء سے شروع کرتے ہیں جب پاکستان آئی ایم ایف کے Extended Facility Fund کا پہلی مرتبہ حصہ بنا تو اس کے بعد ملک کو بدترین معاشی بدحالی، افراطِ زر، بے روزگاری اور معیشت کے ہر میدان میں گراوٹ اور غلامی کے سوا کچھ نہ ملا۔ پاکستان 24 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کے جا چکا ہے اور ہر مرتبہ ایسی سخت سے سخت شرائط کے ساتھ قرضہ دیا جاتا ہے کہ نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی، سماجی، معاشرتی اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی ہماری خود مختاری سلب ہو جاتی ہے۔ ماضی میں آئی ایم ایف سے یہی چند ارب ڈالروں کی بھیک حاصل کرنے کے لیے ہم نے ملک کے اہم ترین اثاثہ جات کو گروی رکھوا دیا۔ ہرآنے والی حکومت نے ڈیفالٹ سے بچنے کے بیانیہ اور عالمی مالیاتی اداروں کو گارنٹی دینے کے نام پر کئی کئی مرتبہ موٹروے، ائیرپورٹس، بڑی شاہرائیں، ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی الغرض قومی اثاثوں کو گروی رکھوایا۔آئی ایم ایف کے گزشتہ پروگرام جو کہ PDM کے 16ماہ کی حکومت کے دوران لیا گیا اور جس کا تسلسل نگران حکومت کے دور میں بھی رہا۔ بلکہ اِسی کی پشت پر ایک نئے معاہدے کا بوجھ بھی ڈال دیا گیا تھا۔ اسی معاہدے کے تحت پاکستان کے قومی اثاثہ جات کی فروخت کے حوالے سے بھی بات سامنے آئی۔ پھر یہ کہ ہائبرڈ پلس یا پرومیکس ماڈل کے تحتSIFC (Special Investment Facilitation Council) قائم کی گئی۔ پارلیمانی نگرانی اور عوامی جواب دہی سے مبرا ایسے ادارے کا قیام کتنا موثر ہوگا اور اس کا ملکی مفادات پر کیا اثر ہوگا یہ فیصلہ تو تاریخ کرے گی۔ لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آج آئی ایم ایف پاکستان کو ماتھے کے بل گھسیٹ کر اُس کے خونی ناک سے لمبی لمبی اور گہری لکیریں نکلوا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور پاکستان کے دشمن امریکہ، اسرائیل اور بھارت کو کسی طرح ایک اسلامی ملک بطور ایٹمی قوت قبول نہیں۔ یہ ممالک پہلے بھی بہت سی ایسی تدابیر اختیار کر چکے ہیں جن سے پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم کیا جا سکے جس میں کہوٹہ پر حملہ کی کوشش وغیرہ بھی شامل ہے لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ناکام ہوئے۔ جنگ کا آپشن بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پاکستان اپنی سلامتی خطرے میں دیکھ کر ہمسایہ پر ایٹمی حملہ کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ لہٰذا اب ایک عرصہ سے اس پالیسی پر چلنے کا فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو معاشی طور پر تباہ و برباد کر دیا جائے۔ یہاں تک کہ پاکستان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے ایٹمی اثاثہ جات سرنڈر کر دے اور اپنی نظریاتی اساس سے تائب ہو جائے۔ یعنی ہمیں دینی اور دنیوی خودکشی کی طرف راغب کیا جا رہا ہے گویا ہمیں کہا جا رہا ہے کہ اپنی نظریاتی یعنی دینی بنیاد کو زمین میں دفن کر دو اور اپنی سلامتی ہمارے پاس گروی رکھ دو۔ ہم آنے والی حکومت سے بھی ہاتھ جوڑ کر استدعا کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے اثاثے فروخت نہ کرے اپنی پالیسیاں درست کرے، اپنے اخراجات میں کمی کرے۔ ہم پاکستان کے تمام ریاستی اداروں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھی عقل اور ہوش کے ناخن لیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ اُس نے انسان کی تخلیق بڑی اعلیٰ سطح پر کی ہے۔ انسان کی تخلیق کو تمام تخلیقات میں ذُروۃ السنام کی حیثیت حاصل ہے، اسی لیے اُسے اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی اِس بہترین تخلیق کو دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے کوئی رہنمائی نہ عطا فرماتا، اُسے نیک و بد نہ سمجھاتا۔ یہ رہنمائی اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں بھی دی اور جب اجسام کو ارواح کے ساتھ جوڑ کر دنیا میں پیدا کیا تب بھی اُن کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرf بھیجے، اُن کی صحیفوں سے مدد کی اور اُن میں سے کچھ پر کتابیں نازل کیں تاکہ انسان صراطِ مستقیم پر گامزن رہ سکے۔ اُسے بتایا کہ اِس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد کون سے اعمال اُسے ہمیشہ ہمیشہ کی جنت میں داخل کریں گے اور کون سے اعمال اُسے آتشِ دوزخ میں ایسے جلائیں گے کہ وہ موت کی دہائیاں دے گا لیکن موت بھی نہیں آئے گی اور مسلسل عذاب سے دوچار رہے گا۔ پھر جن گناہوں کی پاداش میں وہ اِس عذاب میں جھونکا جائے گا اُنہیں categorize بھی کر دیا یعنی چھوٹے اور بڑے گناہ۔ کون نہیں جانتا علمی، نظریاتی اور عقیدہ کے لحاظ سے سب سے بڑا گناہ شِرک ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بے شک شرک عظیم ظلم ہے (یعنی بدترین گناہ ہے) اور عملی طور پر سود کا لین دین بدترین گناہ ہے۔ قرآن پاک نے اِسے اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک للکار ہے جو کسی دوسرے گناہ کے لیے نہیں دی گئی۔ گویا اللہ تعالیٰ کا غضب اِس جرم پر شدت سے بھڑک اٹھتا ہے۔ اِس گناہ کے گھناؤنے پن کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ کے ایسے ایسے فرمودات ہیں کہ انسان لرز اٹھتا ہے۔ اللہ اپنی حفاظت میں رکھے۔ یقیناً سودی لین دین کا اصل ضرر اور شر کتنا وسیع اور خوفناک ہے یہ تو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ ہی جانتے ہوں گے ہم ایک عام انسان کی حیثیت سے جو کچھ جانتے ہیں اُس میں اہم ترین یہ ہے کہ سودی لین دین، انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا بدترین ذریعہ ہے۔ بعض لوگ انتہائی بھولپن یا حماقت عظمیٰ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اِس سے نجی سطح پر لیے دیئے جانے والا سود مراد ہے۔ بنک کا سود اِس زمرے میں نہیں آتا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ نجی سود تو ایک فرد یا اُس کے گھرانے اور خاندان کو متاثر کرتا ہے۔ بنک کا سود ملک و قوم کی بربادی کا باعث بنتا ہے۔ اور عالمی اداروں کا سود افراد ہی کو نہیں اقوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیتا ہے۔ قوموں کی وہی حالت ہوتی ہے جو زمانہ جہالت میں زر خرید غلاموں کی ہوتی تھی۔ لہٰذا ہمارے نزدیک IMF سے قرضہ لینے والے ممالک اپنے لیے آزاد پالیسیاں نہیں بنا سکتے۔ اِن ممالک کی حکومتیں دن دیہاڑے غیروں کے احکامات مان کر خود ہی اپنے ملک کی جڑوں پر بے دریغ کلہاڑا چلاتی ہیں۔ خود پاکستان اِس کی مثال ہے یہ ممالک اپنی اَنّا اور خود داری فروخت کر دیتے ہیں۔ ملک میں فساد پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ خون خرابے کی نوبت بھی آجاتی ہے لیکن اِس سب کچھ کے باوجود ہمارا مؤقف یہ ہے کہ ہم سودی نظام کی مخالفت صرف اِن نقصانات کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ اصلی اور حقیقی بات یہ ہے کہ سود کو ہمارے رب، ہمارے خالق اور مالک نے حرام قرار دیا ہے، اِس لیے ہمیں اِس کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہیے۔ وہ مسلمان اپنے ایمان کی خیر منائے جو یہ نہیں سمجھتا کہ انسان خود اپنا اتنا بہی خواہ نہیں جتنا ربِ کریم اُس کی بھلائی اور بہتری کو جانتا اور سمجھتا ہے۔ انسان کی زندگی کا ہر لمحہ اُس ہی کی رحمت کا محتاج ہے۔ گویا دنیا و آخرت کی فلاح اُس کے احکامات کی تعمیل میں مضمر ہے۔