(امیر سے ملاقات ) امیر سے ملاقات 24 - آصف حمید

8 /

ڈاکٹر اسراراحمد ؒ فرمایا کرتے تھے کہ مادہ پرستی کا توڑ کرنے کے لیے

جدید علم الکلام کی بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے ۔

اگر ہم modernization کی اصطلاح مغرب سے اٹھا کر لائیں گے

تو اس کی جڑ اور بنیاد میں وحی کی تعلیم کا انکار ملے گا۔

فلسطینی تو مسجد اقصیٰ کی حرمت کے لیے شہادتیں پیش کر رہے ہیں

لیکن باقی امت کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہی ہے ؟

وہ ریاست کیسے اسلامی ہو سکتی ہےجہاں بے عمل مسلمان ہوں ، سود کا

دھندہ ہو ، بے حیائی کا طوفان ہو اور غیر شرعی قوانین پاس ہورہے ہوں ؟

امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کے رفقائے تنظیم و احباب کے سوالوں کے جوابات

میز بان :آصف حمید

سوال:فلسطین کامسئلہ اسی طرح گرم ہےاور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم اس کے عادی ہو گئے ہیں۔البتہ پاکستان میں الیکشن مہم کے دوران یہ چیز بہت پس منظر میں چلی گئی اور لگتا یہی ہے کہ دنیا میں بھی پس منظر میں جا چکی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
امیر تنظیم اسلامی:یہ ہماری بے حسی کا معاملہ ہے۔زندگی اللہ تعالیٰ نےامتحان کے لیے دی۔اگر اہل فلسطین کا امتحان ہو رہا ہے اور روزانہ سو دوسو ڈھائی سو شہادتوں کا معاملہ ہے تو ان سے بڑھ کرآزمائش ہماری بھی ہورہی ہے اور پوری اُمت مسلمہ کی آزمائش ہے۔ کیا امت ان مسلمان بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کے درد کو محسوس کرتی ہے ؟یہ وقت تو گزر جائے گا، شہادتیں دینے والے تو اللہ کے ہاں اجر پا رہے ہیں اور ان کے گھر والے جو پیچھے رہ گئے وہ ان مصائب پر صبر کا اجر پائیں گے ان شاء اللہ ۔ وہ تو اقصیٰ کی حرمت کے دفاع کا گویا امت کی طرف سے فریضہ سرانجام دے رہے ہیں ۔ وہ تو اللہ کے ہاں سرخرو ہو جائیں گے ۔ ہم غور کریں کہ ہم کیا کر رہے ہیں ؟ ٹھیک ہے الیکشن اپنی جگہ تھا لیکن ہم نے فلسطین جیسے اتنے بڑے ایشو کو فراموش کر دیا ۔ ہماری ہیڈ لائنز نیوز میں فلسطین کہیں ذکر ہے اور نہ ہی ہماری اشرافیہ کے بیانات میں کوئی اس کا حوالہ ہے ۔حد یہ ہے کہ دینی طبقات کے ہاں دعاؤں تک کا اہتمام ختم ہو گیا۔یعنی کچھ عرصے پہلے ہم نے قنوت نازلہ کے اہتمام کی طرف توجہ دلائی تھی لیکن اچھے بھلے دینی حضرات کے ہاں بھی اس کا اہتمام نہیں اور اگر کہیں شروع بھی ہوا تو وہ ختم ہوگیا ۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم پر بے حسی غالب آگئی ہے ۔ سوچنا چاہیے کہ بحیثیت اُمت اپنے فریضہ کے حوالے سے روزقیامت اللہ کے سامنے کیا جواب دیں گے ۔ بہرحال جنہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہے انہیں اس مسئلہ کو زندہ رکھنا چاہیے ۔ رمضان المبارک آیا چاہتا ہے۔ پچھلے چند برسوں سے اسرائیلی مستقل طور پر رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد اقصیٰ کی حرمت کو پامال کر رہے ہیں ۔ وہاں مسلمانوں پر فائرنگ ہوتی ہے ، ان کے لیے دروازے بھی بند کیے جاتے ہیں ، ان پر لاٹھی چارج بھی کیا جاتاہے ۔ چند سال قبل عین عید الفطرکے روز وہاں مسلمانوں پر بمباری کی گئی اور مسلمان بچوں اور بڑوں کی لاشیں ہر طرف نظر آرہی تھیں ۔ ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی ہمیں کچھ نہیں ہوتا ۔ یہ وقت تو گزر جائے گا ۔ سوال یہ ہے کہ ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے ۔ یہ مملکت خداداد پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اور بانی پاکستان نے فرمایا تھا کہ اگر فلسطینیوں پر ظلم ہو گا تو اس کا جواب براہ راست پاکستان سے دیا جائے گا ۔ اللہ نے پاکستان کو ایٹمی قوت بھی عطا کی لیکن آج شاید ہم یہ بھول گئے ہیں ۔ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ گیا ہے ، کسی مسلمان ملک کو توفیق نہیں ہوئی ۔ عرب ممالک نے فلسطینیوں کے لیے تمام راستے بند کیے ہوئے ہیں جبکہ اسرائیل کے لیے آگے بڑھ بڑھ کر ہر طرح کے راستے اور مواقع کھولے جارہے ہیں ۔ بہرحال جن میں دینی حمیت ہے ان کے لیے عرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کریں ۔ کچھ کرنے کے کام تنظیم اسلامی نے اپنے پلیٹ فارم سے پہلے گنوائے ہیں اورآئندہ بھی گنواتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ
سوال:ا لیکشن مہم کے دوران بڑے بڑے دعوے کرنے والے سیاستدانوں نےمسئلہ فلسطین کانام لینا گوارا نہیں کیا۔اس کی کیاوجہ ہے ؟
امیر تنظیم اسلامی: یہ بے حسی کی انتہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا دین ہماری ترجیحات میں ہے ؟ کیا کسی نے اپنی انتخابی مہم میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہم سود کا خاتمہ کریں گے ؟ بے حیائی کا خاتمہ کریں گے بلکہ ٹرانسجینڈر کے نام پر ایل جی بی ٹی کو پروموٹ کرنے والی باتیں ان کے منشور میں لکھی ہوئی ہیں۔ پارلیمنٹ میں آ کر بیٹھتے ہیں تو نظریہ ٔپاکستان سے وفاداری کا عہد کر کے بیٹھتے ہیں۔ پاکستان کا نظریہ کیا تھا ؟ پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ ۔ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہم نے اس ملک کو حاصل کیا لیکن آج اس میں اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانی ہورہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہم سوچنے سمجھنے کی کوشش کریں کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟دنیا کے حصول کے لیے ، اقتدار کے لیے ، مال و دولت کے لیے ہمیں کتنی فکر مندی ہے ۔لیکن اللہ کے دین کے نفاذ کی ہمیں کتنی فکر ہے ؟ قرآن کہتا ہے کہ سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں ، لیکن آج ہمارے بھائیوں کا درد ہمیں محسوس ہوتاہے؟ ہمارے سوشل میڈیا پر بھی یہی بے حسی طاری ہے ، کہیں  فلسطین کا ذکر نہیں آرہا ہے ۔ وی لاگرز ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمارے چینلز بند نہ ہوجائیں ۔ یہی حال رہا تو کل آپ اسرائیل کے خلاف بھی بات نہیں کر سکیں گے ۔
سوال: میرا تعلق یو پی سے ہے۔ 2024ء میں انڈیا میںالیکشن ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹراسرار احمدؒ نے ووٹ دینے کی دو شرطیں بتائی ہیں: ایک جس کو ووٹ دیا جا رہا ہے وہ بظاہرگناہ کبیرہ سے بچتا ہو۔ دوسرا یہ کہ جس پارٹی کو ووٹ دیا جا رہا ہےاس کے منشور میں خلاف شریعت چیزیں نہ ہوں جبکہ انڈیا میں تو اکثر و بیشتر پارٹیاں فاسق و فاجر ہیں۔ کیا ایسی صورت میں ووٹ دینا جائز ہے جبکہ ووٹ ایک امانت بھی ہے؟( محمد طائف،انڈیا)
امیر تنظیم اسلامی:تنظیم اسلامی کی بنیادی پالیسی یہ ہے کہ نظام جب بھی بدلے گا وہ انقلابی جدوجہد کے ذریعے بدلے گا ،انتخابی سیاست سے چلتا ہوا نظام چل تو سکتا ہے لیکن بدل نہیں سکتا۔ اگر ہم پاکستان کے تناظر میں بات کریں تواس کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ یہاں اسلام نافذ ہوگا تو معاملات سدھریں گے لیکن جب تک اسلام غالب نہیں ہوتا تو ملک کا نظام چلانے کے لیے جمہوریت ضروری ہے اور اس کے لیے ووٹ دینا چاہیے ۔ البتہ امانت کو اہل لوگوں کے حوالے کیا جائے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے :
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا}(النساء:58) ’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو۔‘‘
اس لحاظ سے تنظیم اسلامی نے اپنے رفقاء کے لیے دو شرائط طے کی ہیں کہ جن کے تحت وہ ووٹ دے سکتے ہیں ۔ 1۔ اس کو ووٹ دیا جائے جو بظاہر فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو ۔ 2 ۔اس کا تعلق ایسی پارٹی سے نہ ہو جس کے منشور میں  خلاف شریعت چیزیں ہوں اور اس کی قیادت کے بیانات میں خلاف اسلام باتیں ہوں ۔ اگر یہ تقاضے پورے ہوتے ہیں توووٹ دینا چاہیے نہیں تو نہیں دینا چاہیے ۔ یہ تو پاکستان کے تناظر میں بات ہے کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور آئین میں بھی کچھ بنیادی دفعات اسلامی ہیں ۔ لیکن بھارت میں چونکہ مسلمان اقلیت میں ہیں لہٰذا وہاں کے معاملات کچھ اور ہیں ۔ بہتر یہی ہوگا کہ آپ وہاں کے مقامی علماء سے پوچھیں وہ بہتر رہنمائی دے سکتے ہیں ۔
سوال: میں انڈیا میں رہ کر تنظیم اسلامی میں کیسے شامل ہو سکتا ہوں؟( محمد طائف،انڈیا)
امیر تنظیم اسلامی:آپ جہاں ہیں وہاں رہ کر دین کے لیےمحنت کرسکتے ہیں ۔ جتنے دین پر آپ خود عمل کر سکتے ہیں فورا ًکیجیے۔ پھر اللہ کی کتاب فرماتی ہے :
{قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا}(التحریم:6) ’’ بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے۔‘‘
آپ اپنے گھر میں دین کی بات کر سکتے ہیں۔ اپنے دوست احباب ، رشتہ داروں ، آفس ، کمپنی ، کاروبار کی جگہوں پر دین کی بات کر سکتے ہیں ۔ اگر کچھ لوگ دین کے غلبے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو ان کا ساتھ دے سکتے ہیں ۔ آپ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کے بیان القرآن سے استفادہ کر سکتے ہیں ، اسی طرح ان کا منتخب نصاب ہےجس میں قرآن کے منتخب مقامات کی روشنی میں منہج انقلاب نبوی کو بیان کیا گیا ہے ۔ اگر آپ خود ڈاکٹر اسراراحمدؒ کو سن رہے ہیں تو اپنے دوست احباب کوبھی سنوائیں ۔ تنظیم اسلامی کا کوئی نظم انڈیا میں نہیں ہے۔ اس لیے ہم ان کو یہی مشورہ دیں  گے کہ خدمت قرآنی والے کام کو لے کر آگے بڑھیں اور اپنے ہم خیال ساتھیوں کو جمع کریں۔ پھر اللہ توفیق عطا فرمائے تو اس اجتماعیت کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں ۔
سوال:میںفرانس میں رہتا ہوں اور میں کبھی نماز شروع کرتا ، کبھی چھوڑ دیتا ہوں اور برے کام کرنے لگ جاتا ہوں۔ جب نماز شروع کرتا ہوں اور برے کام چھوڑتا ہوں تو میرا جسم تھکاوٹ اور سستی محسوس کرتاہے اور نیند آنا شروع ہو جاتی ہے ۔ پھربرائی میں پڑجاتاہوں ۔ ایسا کئی بار ہوا ہے۔ اب میں تھک گیا ہوں ۔برائے مہربانی کوئی طریقہ بتائیں؟ (زین محمد، فرانس)
امیر تنظیم اسلامی:غلطی کا احساس ہی اصلاح  کی جانب پہلا قدم ہوتاہے ۔ قرآن میں اللہ کہتاہے :
{اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِط} (العنکبوت:45)’’یقیناً نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور بُرے کاموں سے۔‘‘
بالفرض ایک بندہ چوبیس گھنٹے گناہ میں لگا ہوا ہے، اگر نماز شروع کردے تو کم ازکم ایک ڈیڑھ گھنٹہ برائی میں کمی آجائے گی ۔ اگر نماز میں پوری توجہ رہے گی اور معلوم ہوگا کہ میں اللہ سے کیا عہد کر رہا ہوں تو اس کے بعد وہ برائی سے خود بخود رُکنا شروع ہو جائے گا ۔ ان بھائی صاحب سے بھی یہی گزارش ہے کہ جب آپ نماز پڑھتے ہیں تو پورے شعور کے ساتھ پڑھیں ۔ گویا اللہ سے ملاقات ہو رہی ہےاور جو نماز میں تلاوت ہورہی ہے اس پر پوری توجہ ہو کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں تو ان شاء اللہ اس کے اثرات نماز کے بعد بھی آئیں گے۔ پھر یہ کہ اکیلا انسان برائی میں  جلدی پڑ سکتا ہے اس لیے دین نے اجتماعیت اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَO}(التوبہ) ’’اے اہل ِایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کی معیت اختیار کرو۔‘‘
صاحب ایمان لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوگا تو کچھ نہ کچھ ایمانی اثرات پیدا ہوں گے اور برائی سے بھی اتنا ہی دور رہیں گے ۔ خیر میں آگے بڑھنا آسان ہوگا۔ آخری اور اہم بات یہ کہ بندہ اللہ سے رو کر دعا مانگے ۔ جیسے حدیث میں دعا سکھائی گئی :
((اللھم اعنی علیٰ ذکرک وشکرک وحسن عبادتک))’’اے اللہ میری مدد فرما اپنے ذکر کے لیے اور اپنے شکر کی اور اپنی عمدہ عبادت کے لیے ‘‘
یہ حسن عبادت صرف نماز میں ہی مطلوب نہیں ہے بلکہ چوبیس گھنٹے اللہ کی بندگی کرنی ہے اور اس میں یہ خوبی چاہیے ۔ بندہ اللہ کے سامنے اپنی مجبوری رکھے ۔ اللہ کی ذات بہت قریب ہے اور قرآن کہتا ہے:
{وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَاط} (العنکبوت:69) ’’اور جو لوگ ہماری راہ میں جدّوجُہد کریں گے ہم لازماً ان کی راہنمائی کریں گے اپنے راستوں کی طرف۔‘‘
شیطان انسان کو ورغلانے کی بھرپور کوشش جاری رکھتا ہے مگر اس کے حملوں سے بچانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ لہٰذا اللہ سے رو رو کر دعامانگیں تو اللہ توفیق دے گا ۔
میزبان: نماز کی، دین پر عمل کی جس قدر توفیق ملی ہے اس پر اللہ کا شکر ادا کریں کہ میں اس قابل بھی نہ ہوتا اگر اللہ مجھے توفیق نہ دیتا ۔ شکر کریں گے تو اللہ مزید توفیق دے گا ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ }(ابراہیم:7) ’’ اگر تم شکر کرو گے تومَیں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘
دنیاوی اور دینی دونوں طرح کے معاملات کے لحاظ سے میرے خیال سے یہ ایک فائدہ مند چیز ان شاءاللہ !
سوال:اگر ہم معاشرتی اور مالی مسائل کی وجہ سے ایک مسلم ملک کو چھوڑ کر غیر مسلم ملک(یورپ ، امریکہ ) میں آباد ہو جائیں تو ہم بطور مسلمان کہاں کھڑے ہوں گے؟(حماد نسیم صاحب)
امیر تنظیم اسلامی:اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ2023ء میں پاکستان میں مجموعی طور پر65لاکھ پاسپورٹ (40 ہزار روزانہ) بنے ہیں۔ ان میں  سے بہت سارے لوگ اگرچہ حج ، عمرے ، بزنس اور سٹڈی کے لیے بھی جاتے ہیں لیکن زیادہ تر ان میں  تارکین وطن تھے۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ برس ساڑھے 8 لاکھ لوگ ملک چھوڑ چکے ہیں ۔ یہ ratio اب مزید بڑھ رہا ہے ۔ اس کی بنیادی وجوہات معاشی ہیں ، پھر عدل و انصاف نہیں ہے ۔ یہ الگ بحث ہے جانا چاہیے یا نہیں ۔
سوال: یورپ میں جو حالات ہیں بچے چاہے کچھ بھی کریں لیکن والدین انہیں روک نہیں سکتے ۔ فرض کریں  ماں نے اگر ٹرانسجینڈر کے خلاف بات کردی تو پولیس آکر بچوں کو لے جاتی ہے ۔ یعنی وہاں بچوں کے بگڑنے کے زیادہ چانسز ہیں ، اگر ملک چھوڑنے والوں کی اولادیں  وہاں جاکر بگڑ گئیں تو اس کے ذمہ دار والدین نہیں ہوں  گے جو وہاں لے کر گئے ؟
امیر تنظیم اسلامی:کیوں نہیں ہوں گے۔ ایک دفعہ میں ایک لائیو ٹیلی کاسٹ پروگرام میں تھا، پروگرام میں کچھ مفتی صاحبان اور علماء بھی موجود تھے ، اس دوران امریکہ سے ایک شخص کا لائیو فون آیا کہ میرے بچے بگڑ رہے ہیں ، آپ انہیں کچھ نصیحت کریں وہ سن رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا جناب آپ گئے کیوں تھے ؟ بولے معاش کے لیے ۔ میں نے کہا اب آپ بوڑھے ہورہے ہیں اور بچے بڑے ہورہے ہیں تو وہ یہی سوچیںگے کہ آپ کا بڑھاپا اب ان کی خواہشات کے راستے میں رکاوٹ بنے گا ۔ وہاں بوڑھے والدین کو اولڈ ہاوسز کے اندر ہی ڈالا جاتاہے ۔ لہٰذا ہمیںسوچنا چاہیے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں ؟ کیا ہم دین اور آخرت چاہتے ہیں یا پھر دنیا کا مال و دولت ہماری ترجیح ہے ۔ اگر آپ دین کو ترجیح دیتے ہیں تو آپ اب اس ملک کو چھوڑ دیں ۔ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے تھے کہ اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ جہاں ایمان کی حفاظت کرنے ،اقامت دین کی جدوجہد کرنے کے زیادہ مواقع ہیں وہاں رہائش کو ترجیح دینا چاہیے ۔ بالخصوص پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے ۔ باقی دنیا کے مقابلے میں یہاں اسلام پر عمل پیرا ہونے اور اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کے زیادہ مواقع ہیں ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے امریکہ میں ان مسلمانوں سے ایک زور دار خطاب کیا تھا جوپاکستان سے جاکر امریکہ میں سیٹل ہو گئے تھے ۔ راہ نجات کے عنوان سے یہ خطاب سورۃ العصر کی روشنی میں تھاکہ نجات کے لیے چار شرائط ہیں ۔ ان لازمی شرائط کو پورا کرنے کے حوالے سے مسلم ممالک میں زیادہ مواقع ہیں یا یورپ و امریکہ میں ؟ اس پر ہمیں غور کرنا چاہیے ۔ عموماً وہاں اگلی نسلیں دین سے دور ہو جاتی ہیں ۔
سوال:اگر کوئی شخص عیسائیوں کے ساتھ کرسمس کا تہوار کیک کاٹ کر اور گرجا گھر جا کر منائے تو کیا وہ مسلمان ہے؟ پاکستان میں غیر اسلامی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں ہے؟(حماد نسیم صاحب)
امیر تنظیم اسلامی:یہ ایک فقی مسئلہ ہے جس کا صحیح جواب مفتیان کرام ہی دے سکتے ہیں البتہ ایک پہلو کو واضح کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ کرسمس عیسائیوں کا ایک طبقہ اس عقیدے کے ساتھ منا تا ہے کہ اس دن تین خداؤں میں سے ایک یا خدا کا بیٹا آیا تھا ۔ یہ عقیدہ شرک پر مبنی ہے ۔کوئی بھی مسلمان یہ عقیدہ نہیں رکھتا ۔ اس کے باوجود ایسی شرکیہ رسومات میں شرکت کرنا گناہ اور فسق و فجور کی بات ہے ۔ اس پر ٹھیک ٹھاک فتاویٰ موجود ہیں ۔ اگر کسی اسلامی ملک میں غیر مسلم اپنی رسومات یا تہوار مناتے ہیں تو وہ اپنی عبادتگاہوں کی حد تک کر سکتے ہیں ، اسلامی ریاست ان کی حفاظت کرے گی لیکن مسلم حکمرانوں کی ان میں شرکت غیر شرعی ہے ۔ ہمارے ہاں سیاستدان جو طاغوت کو خوش کرنے کے لیے اس طرح کی حرکتیں کر رہے ہیں یہ انتہائی درجے کا گناہ ہے ۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
{ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف} (البقرۃ:256) ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘
اس آیت کا بھی لوگوں نے غلط مفہوم لیاکہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے ۔ جبر اسلام قبول کروانے میں نہیں ہے لیکن جس نے آزاد مرضی سے اسلام قبول کرلیا اب اس پر شرعی قوانین لاگو ہوں گے ۔ بچہ چھوٹا ہو تو اس کو نماز سکھائی جاتی ہے ، جب دس سال کا ہو جائے تو پھر سختی کی جائےگی ۔ سوال کا دوسرا حصہ کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے یا نہیں ؟وہ ریاست کیسے اسلامی ہو سکتی ہےجہاں بے عمل مسلمان ہوں ، سود کا دھندہ بھی چل رہا ہو ، بے حیائی کا طوفان ہو ، غیر شرعی قوانین پاس ہورہے ہوں ۔ اسلامی ریاست وہ ہوتی ہے جس میں اسلام نافذ ہو ، جہاں اسلام نافذ نہیں ہے لیکن مسلمانوں کی اکثریت ہے ، حکمران بھی مسلمان ہیں وہ مسلم ریاست کہلائے گی ۔
سوال:میں نے دیکھا ہے کہ آپ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کی ہر بات پر عمل کرتے ہیں کیا کوئی ایسا نکتہ ہے جس پر آپ کے خیالات ڈاکٹر اسرار احمد سے مختلف ہیں ؟( سعد امین، ابوظہبی)
امیر تنظیم اسلامی:کھلے الفاظ میں عرض کروں ڈاکٹر صاحب کا جو اشعار کا مزاج تھا میرا نہیں ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب کا مزاج تھاکہ وہ مغربی فلسفے پر نگاہ رکھتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ ان کے طلبہ میںسے کچھ اس کام میں آگے بڑھیں ،کچھ بڑھے لیکن ہم نہیں بڑھ سکے۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب کا مزاج تھا کہ وہ خطاب کی بھرپور تیاری کیا کرتے تھے، میرے اندر بہت کمزوری ہے۔جہاں تک ڈاکٹر صاحب ؒ سے اختلاف کی بات ہے تو ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے جب دین کی مغلوبیت کا دور ہو تو کم سے کم پراکتفا کرنا چاہیے اسی کے ذیل میں کہ شادی ایک ہی کرنی چاہیے۔البتہ ہمارے سابق امیر محترم عاکف سعید صاحب نے فرمایا کہ بھائی ڈاکٹر صاحب کے خیالات سر آنکھوں پر لیکن ہمارے لیے سب سے بڑے انقلابی رہنما اور ہمارے لیے اُسوہ رسول اکرم ﷺ ہیں انہوں نے تو متعدد نکاح کیے تھے۔ یہاں ہمارا اختلاف ہو گیا ۔اسی طرح ہماری تنظیم کے بعض رفقاء کا خیال ہے کہ سکول کھولنے چاہئیں لیکن ڈاکٹر صاحب اس کی نفی کرتے تھے ۔ سکول کسی نے کھولنا ہے تو کھول لے لیکن تنظیم اسلامی نہ کھولے ۔ مگر یہ کہ بچوں کی تعلیم اپنی جگہ ایک اہم معاملہ ہے، چاہے ہم خود پڑھائیں، اپنی اقدارکے مطابق پڑھائیں ۔ ہماری خواہش ہے اور اللہ تعالی نے راستہ بھی کھولا کہ سکول کے طلبہ و طالبات کے لیے قرآن حکیم کے سلیبس پر کام ہوا ۔اگرچہ وہ کسی اور ادارے کے تحت ہوا ۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ جب 2 لاکھ کی تعداد ایسی ہو جائے کہ جو دین پر عمل پیرا ہو تو اس کے بعد باطل نظام کو چیلنج کیا جائے گا ۔ ڈاکٹر صاحب یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ وقت اور حالات کی مناسبت سے اس تعداد میں کمی بیشی ہو سکتی ہے ۔ جب ڈاکٹر صاحب یہ بات کرتے تھے تو اس وقت پاکستان کی آبادی پندرہ سولہ کروڑ ہوگی لیکن آج پچیس کروڑ ہے ۔ وقت کے لحاظ سے تدبیر میں ردو بدل ہو سکتا ہے لیکن بنیادی اصول ایک ہی رہے گا کہ ہم نے منہج انقلاب نبوی کو ہر صورت میں مدنظر رکھنا ہے ۔
سوال:بحیثیت امیر تنظیم اسلامی کیا آپ پر پابندی ہے کہ آپ ڈاکٹر صاحب کی ہر بات سے اتفاق کریں؟
امیر تنظیم اسلامی: ڈاکٹر صاحب ؒ نے خود بھی ایسی کوئی پابندی عائد نہیں کی ۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بھی پڑھو، دوسروں کو بھی پڑھو ،بحث کرو، علمی اختلاف رکھ سکتے ہو۔لہٰذا ہر ہر بات کو ماننا قطعا ًکوئی ضروری نہیں۔ ہمارے ہاں بیعت کے الفاظ بھی یہ ہوتے ہیں کہ امیر کی ہر بات کو مانیں گے، سوائے ان باتوں کے جو شریعت کے خلاف ہوں ۔ یعنی میرا اختیار شریعت کے دائرے کے اندر ہے ۔
سوال: استعماری طاقتوں نے مختلف طریقوں سے امت مسلمہ میں گمراہ کن نظریات رائج کیے ہیں۔ان مفسد تصورات کے پھیل جانے سے مسلمانوں کی وحدت فکر ختم ہو گئی ہے اور ہم نظریاتی ٹولیوں میںبٹ گئے ہیں۔ یہ سارا خلفشار عقائد و نظریات کا ہے۔ اس بھنور سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے؟( راحیل گوہر صدیقی، کراچی)
امیر تنظیم اسلامی:اس حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمدؒکی بہت ہی ایک جامع تحریر ہے:’’ اسلام کی نشاۃ ثانیہ :کرنے کا اصل کام‘‘ کے عنوان سے ہے ۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ اس وقت پورے عالم پر مغربی تہذیب کا غلغلہ ہے۔ اس کا ایک حاصل یہ ہے کہ ہماری ایک آنکھ تو کھلی ہوئی ہے مادہ پرستی والی، ظاہری علوم والی ، جدید علوم والی لیکن دوسری آنکھ بالکل بند ہو چکی ہے جو وحی اور ہدایت کی روشنی میں دیکھنے والی آنکھ ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تین چیزوں کے مقابلے میں دیگر تین چیزیں آگئیں :
1۔ ظاہر کی آنکھ سے دیکھیں گے تو کائنات تو نظر آرہی ہے ، بہت exploreکر رہے ہیں لیکن خالق کائنات کہیں نظر نہیں آرہا ۔
2۔ دنیا کی طرف ساری توجہ ہے لیکن آخرت نظر نہیں آرہی ۔
3۔ ساری توجہ جسم پر ہے ، جسمانی خواہشات پر ہے لیکن روح نظر نہیں آرہی ۔ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے پہلی وحی میں ہی اس تضاد کو ختم کرنے کا درس دیا ۔ فرمایا :
{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(1)} (العلق) ’’پڑھیے اپنے اُس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔‘‘
آج یونیورسٹیاں بھی بہت ہیں ، کالجز اور ہر طرح کے سکول ہیں لیکن تعلیم سے اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کو نکال دیا ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے دن سے ہی انسانیت کو تعلیم کیا دی تھی ؟  آدمd کو اسماء کا علم سکھایا لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا :
{فَاِمَّا یَاْتِیَنَّـکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ38}(البقرۃ) ’’تو جب بھی آئے تمہارے پاس میری جانب سے کوئی ہدایت‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ حزن سے دوچار ہوں گے۔‘‘
اصل مسئلہ فکر وعمل کا ہے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ اس مادہ پرستی کا توڑ کرنے کے لیے جدید علم الکلام کی بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ میدان کھلا ہوا ہے ،اس میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ مرعوب ذہن اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ افراد کہ جو واقعتاً ایمان کی دولت سے، اللہ کی توفیق سے مالا مال ہوں اور دین کے ساتھ committed ہوں، اللہ کی ذات پر ان کا توکل ہو وہ کھڑے ہوں،علم و تحقیق میں ان کی supervision ہو تو وہ اس فکری سطح پر جواب دینے کی کوشش کریں ۔ فکری سطح پر یہ کام کرنے کا ہے اور ہور ہا ہے الا ماشاء اللہ ۔ ہم عملی طور پر اپنے آپ کو قرآن سے جوڑ لیںتو ان نظریات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے کہ تھوڑی بہت عربی سیکھ لو تاکہ قرآن براہ راست مخاطب ہو سکے۔ حدیث میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ عنقریب فتنے ہی فتنے ہوں گے توحضرت علیؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ!ان فتنوں سے نکلنے کا راستہ کیا ہوگا ۔ فرمایا: کتاب اللہ۔ اس کتاب میں غوروفکر کرو گے تو اللہ تعالیٰ ایمان بھی مضبوط کرے گا اور فتنوں سے نکلنے کا راستہ بھی عطافرمائے گا ۔
سوال:ہماری نوجوان نسل کی اکثریت اسلام کے اصول و عقائد کو فرسودہ سمجھتی ہے اور ذہنی اور عملی طور پر اسے اپنانے کو تیار نہیں۔ کیا نئے ذہنوں کو متاثر کرنے کے لیے اسلام کی جدید تعبیر ضروری ہے؟ ( راحیل گوہر صدیقی، کراچی)
امیر تنظیم اسلامی:حقیقت یہ ہے کہ جب یورپ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا تو اس وقت ہسپانیہ سمیت اسلامی علاقوں میں روشنی تھی ۔ یورپ کا نوجوان وہاں سے روشنی لے کر گیا اور اس روشنی میں اس نے اپنے عقائد کو چیک کرنا شروع کیا ۔ پادریوں سے سوالات کیے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تین خداؤں کی پرستش کی جائے ، انہیں ایک بھی مانا جائے اور تین بھی ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گناہ ہم کریں ، خدا کے بیٹے کو سولی چڑھایا جائے اور ہم بخشے جائیں ؟ پادریوں نے سوچا کہ سوالات اُٹھنے لگے ہیں تو انہوں نے ان کے علم کے حصول اور سوالات کرنے پر پابندی لگا دی۔وہاں سے یورپ میں سائنس اور مذہب کا تصادم شروع ہوا اور ہوتے ہوتے وہ اس انتہا کو پہنچے کہ دنیوی ترقی تو بہت کرلی لیکن اللہ سے باکل دور ہوگئے ۔ محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے اس بات کو سورۃ الکہف کی تفسیر میں بہت تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ سورۃ الکہف کی روشنی میں ہی ان کا ایک خطاب سائنس اور کلیسا کا تصادم کے عنوان سے تھا ۔ اس کا مطالعہ بھی بہت مفید ہوگا ۔ اگلی جو بات آئی کہ آج کے نوجوان کو اپیل کرنے کے لیے اسلام کی کوئی جدید تعبیر پیش کریں ۔ لفظ جدید اپنی جگہ question mark ہے۔ اگر ہم modernization کی اصطلاح کو مغرب سے اٹھا کر لائیں گے تو اس کی جڑ اور بنیاد میں وحی کی تعلیم کا انکار ملے گا۔اس معنی میں ہم اسلام کی کونسی تعبیر پیش کریں گے ؟ البتہ اگر ہم لفظ جدید کو اس معنی میں لیں کہ آج کے نوجوان کے ذہن کے مطابق دین کو پیش کیا جائے اور اس کے ذہن میں جو سوالات اور اشکالات ہیں ان کا تسلی بخش جواب دیا جائے تو یہ وقت کی ضرورت ہے ۔ حدیث میں ہے کہ لوگوں سے ان کے فہم اور عقل کے مطابق کلام کرو ۔ اگر ہم جدید کی بات کرتے ہیں تو اس صورت میں بھی وحی اور ہدایت کا پہلو مدنظر رہنا چاہیے ۔مصر میںپندرہ بیس جلدوں پر مشتمل قرآن کی ساری تفسیر سائنسی بنیادوں پر کر دی گئی۔ اب آپ سوچئے کہ قرآن کی 6 ہزار سے زائد آیات کے ساتھ کیامذاق ہوا ہوگا جب ہر آیت کے ساتھ سائنس کھینچ کر لانے کی کوشش کریں گے۔ قرآن سائنٹیفک فیکٹس کی بات ضرور کرتا ہے مگر اس کے ساتھ بھی قرآن ہدایت کو جوڑتا ہے اور اصلاً قرآن پاک اپنا تعارف کراتا ہے کہ وہ ہدایت کی کتاب ہے۔ اسی طرح جدید تعبیر یہ بھی نہیں ہونی چاہیے کہ ہم قرآن حکیم کو محض فلسفے کی کتاب بنا کر پیش نہ کریں۔ البتہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ ہم زبان اور terminology وہ استعمال کریں جو آج کا نوجوان سمجھتا ہے اور پھر اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے کی بھی کوشش کی جائےلیکن وہ انداز اختیار نہ کریں کہ دین کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑے ۔ جیسے سرسید جیسے لوگوں سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے جدید تعبیر کے چکر میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کا ہی حلیہ بگاڑ دیا ۔