(زمانہ گواہ ہے) قرآن مجید کی تفسیر اور قادیانیوں کے مذموم مقاصد - محمد رفیق چودھری

9 /

جہاں عقیدے کا تحفظ ضروری ہے وہیں حدود اللہ کا تحفظ بھی ضروری ہےلہٰذا دینی

جماعتوں کو نفاذ اسلام کے لیے بھی جدوجہد کرنی چاہیے :شجا ع الدین شیخ 

چیف جسٹس نے فیصلے میں جن قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے وہ موقع و محل

سے مناسبت نہیں رکھتیں :رضاء الحق

اگر اس پورے فیصلے کو واپس نہ لیا گیا تو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے

مسلمانوں کی ڈیڑھ سو سالہ جدوجہد پر پانی پھر جائے گا اور قادیانیوں کو اپنے

جھوٹے مذہب کو پھیلانے کی مکمل چھوٹ مل جائے گی : محمد متین خالد

قرآن مجید کی تفسیر اور قادیانیوں کے مذموم مقاصد کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:تفسیر صغیر کا مصنف کون تھااور سپریم کورٹ میں  مبارک ثانی کے خلاف جو مقدمہ چلا ہے اس کی کیا تفصیلات ہیں ؟
محمد متین خالد:قادیانی مرزا بشیرا لدین محمود کو اپنا دوسرا خلیفہ مانتے ہیں یہ تفسیر اس نے لکھی تھی جو کہ تحریف شدہ ترجمہ قرآن اور گمراہ کن تفسیر ہے مگر اس پر انہوں نے نام قرآن مجیدکا لکھا ہوا ہے۔ نعوذ باللہ۔ اس کتاب پر 2016 ء میں حکومت پنجاب نےپابندی عائد کر دی تھی لیکن اس کے باوجود آج تک یہ کتاب شائع ہورہی ہے ۔ یہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس نے ان کو چھوٹ دی ہوئی ہے ۔ 2019ء میں بھی اس کے خلاف ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر ہوئی اور اس پر جسٹس شجاعت علی خان نے بڑا واضح فیصلہ دیا تھا کہ کوئی غیر مسلم قرآن مجید کا ترجمہ شائع کر سکتا ہے اور نہ ہی قرآن کا کوئی حصہ شائع کر سکتا ہے ۔ اس کے باوجود بھی قادیانی باز نہیں آئے ۔ دو دن بعد ہی انہوں نے چناب نگر میں پروگرام کیا اور کہا کہ ہم ’’تفسیر صغیر‘‘ کو تقسیم کریں گے ۔ اس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی گئی لیکن اوپرسے آرڈر آگیا کہ FIRدرج نہیں ہوگی۔ بڑی مشکل سے 2022ء میں جا کرFIRدرج ہوئی لیکن پھر بھی ملزم کو گرفتار کرتے ایک سال لگ گیا ۔ اس کے بعد سیشن کورٹ میں اس کی ضمانت کا کیس آتا ہے ۔ کیس کو پوری طرح کھنگالا گیا ، چھان بین ہوئی اور سیشن جج نے ضمانت مسترد کر دی ۔ قادیانی ہائی کورٹ میں گئے وہاں بھی ضمانت کے لیے درخواست مسترد ہوگئی۔
سوال: اس متنازع تفسیر کا مصنف کوئی اور تھا لیکن گرفتار مبارک ثانی نامی شخص ہوا ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟
محمد متین خالد: FIR میں جن اصل ملزمان کے نام تھے ان کو کلیدی عہدوں پر بیٹھے ہوئے قادیانیوں نے گرفتار نہیں ہونے دیا ۔ مبارک ثانی اس لیے گرفتار ہوا کہ یہ وہی متنازع تفسیر دیہاتوں میں تقسیم کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا ۔ FIAکی فرانزک رپورٹ کے مطابق یہ متنازع تفسیر جہاں جہاں تقسیم ہوئی اور جہاں جہاں اپ لوڈ  ہوئی اس کا ذمہ دار مبارک ثانی تھا ۔ اب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس کی ضمانت منظور کر لی ہے۔ چیف جسٹس کوچاہیے تھا کہ وہ مدعی کے وکیل کی بات بھی سنتے اور اس کے بعد فیصلہ دیتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے سرکاری وکیل کو سننا ہے ۔سرکاری وکیل پیش ہوئے اور انہوں نے کہا مجھے ایک دن کی مہلت دی جائے تاکہ میں تیار ی کر سکوںلیکن چیف جسٹس نے ان کو بھی جھڑک دیااور نہیں سنا۔ چنانچہ صرف قادیانی وکیل کے دلائل سنے اوراس کے مطابق فیصلہ دے دیا۔ حالانکہ انہیں مسلمان وکیل کے دلائل کو بھی سننا چاہیے تھا ۔
سوال:6فروری 2024ء کو قاضی فائز عیسیٰ نے مبارک ثانی کو رہا کرنے کاحکم جاری کیا ۔ قاضی فائز عیسیٰ کے اس فیصلے میں قابل اعتراض نکات کون کون سے ہیں ؟ 
رضاء الحق :میں فیصلے کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اس کا تجزیہ کروں گا ۔ پہلی بات یہ ہے کہ عدالت کو مدعی کے وکیل کو بھی سننا چاہیے تھا اس کے بعد فیصلہ دینا چاہیے تھا لیکن عدالت نے FIRیا فردجرم میں جتنی دفعات لگی ہوئی تھیں ان سب کو خراج کر تے ہوئے فوج داری ترمیمی ایکٹ 1932ء کی دفعہ 5 کے تحت فیصلہ دے دیاجس میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ایسی کتاب کی اشاعت و ترسیل کرتا ہواپکڑا گیا جس پر پابندی لگ چکی ہوتو اس کوچھ ماہ کی قید ہوگی ۔ چیف جسٹس نے کہا ملزم کو چھ ماہ زائد قید میں ہو چکے ہیں لہٰذا س کو رہا کر دیا جائے ۔ حالانکہ یہ کسی عام کتاب کا معاملہ نہیں تھا بلکہ قرآن مجید کی توہین کا معاملہ تھا ۔ اسی لیے FIR میں پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ 2011 ء کا حوالہ دیا گیا تھا جس کی دفعہ 7 میں بڑی تفصیل کے ساتھ درج ہے کہ قرآن مجید کے جو مسلمہ ترجمے اور تفاسیر ہیں ان سے ہٹ کر کوئی تحریف شدہ ترجمہ ، تفسیر یا قرآن کا کوئی حصہ شائع کرے گا تو اس ایکٹ کی دفعہ 9 کے تحت اس کو باقاعدہ سزا ہوگی ۔ پھر یہ کہ فرد جرم میں 295 بی اور 298 سی کو بھی شامل کیا گیاتھا ۔ 295 بی کے مطابق اگر کوئی شخص جان بوجھ کر قرآن مجید کے کسی حصہ یا ترجمہ میں تحریف کرتا ہے اور اس کو شائع کرتا ہے تو اس کی سزا تین سال سے لے کر تاحیات قید ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح 298 سی کے مطابق قادیانی ، احمدی یالاہور گروپ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی اسلامی شعائر کو اپنا سکتے ہیں ، نہ اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی کتابوں کو قرآن کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن چیف جسٹس صاحب نے ان تمام دفعات کو نذر انداز کرتے ہوئے فیصلہ سنا دیا ۔ فیصلے کے دوسرے حصے میں چیف جسٹس نے آئین کے آرٹیکل 20اور 22 کی جو تشریح کی اس میں بھی سقم موجود ہیں ۔ ان آرٹیکلز میں مذہبی آزادی کے حوالے سے جو بات کی گئی ہے وہ قادیانیوں کے لیے نہیں ہے ۔ کیونکہ دونوں دفعات میں بیان کردہ مذہبی حقوق قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع ہیں جن کا سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں ذکر نہیں کہا اور قادیانی تو آئین اور قانون میں بیان ان دفعات کو مانتے ہی نہیں ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 260 کی شق 3A میں مسلم کی تعریف بھی موجود ہےاور 3Bمیں قادیانی کی تعریف بھی موجود ہے۔ لیکن قادیانی خود کو اقلیت نہیں  مانتے بلکہ وہ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر دھوکا دے رہے ہیں۔لہٰذا مذہبی آزادی کے حوالے سے جو قانون ہے وہ ان پر لاگو نہیں ہوتا۔ تیسری بات یہ ہے کہ جسٹس صاحب نے جو قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے وہ موقع و محل کے مطابق نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر انہو ں نے قرآن کی آیت :{ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف} (البقرۃ:256) ’’دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔‘‘ کا حوالہ دیااوراس کی غلط تشریح کرنے کی کوشش کی جس کا مفہوم یہ نکلا کہ کہ اگر کوئی شخص دین کے تمام جزیات پر عمل نہیں کرتا تو اس پر کوئی زبردستی نہیں ۔ حالانکہ آیت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ دین قبول کرنے میں کوئی جبر نہیں ہے ۔ جب تک بچہ سکول میں داخل نہیں ہوتا اس کے لیے نہ کوئی سزا ہے اور نہ جرمانہ۔ لیکن جب وہ سکول میں داخل ہو جاتاہے تو پھر سکول نہ جانے پر اس کو سزا بھی ہو سکتی ہے اور یونیفارم نہ پہننے پر جرمانہ بھی ہو سکتا ہے ۔ اسی طرح اسلام قبول کرنے میں کوئی جبر نہیں ہے لیکن ایک بار جس نے اسلام قبول کر لیا تو اس پر شریعت لاگو ہوگی ۔ اس کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میں رمضان کے پورے روزے نہیں رکھوں گا بلکہ 20 رکھوں گا یا پانچ نمازیں نہیں پڑھوں گا بلکہ 3 پڑھوں گا ۔ یا کوئی کہے کہ میں ختم نبوت کو نہیں مانتا تو پھر اس کے لیے باقاعدہ سزا ہے۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں زکوٰۃ نہ دینے والوں اور جھوٹے نبیوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کی گئی ۔ دوسری آیت جس کا چیف جسٹس نے حوالہ دیا وہ یہ ہے : 
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(9)} (الحجر) ’’یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے۔ اس نے قرآن پاک کی حفاظت کے لیے مختلف سبب پیدا کیے ہیں ۔ ان میں سے ایک سبب خود مومنین ہیں جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی حفاظت کرتاہے ۔ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے قرآن پاک کو تختہ مشق بنا لیا جائے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں دیگر کئی آیات قرآنی کا بھی بے موقع و محل حوالہ دیا گیا ہے۔ ان تمام حوالوں سے فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو نیم حکیم خطرہ جان والی بات صادق آتی ہے ۔ ہم تو الدین النصیحہ کے تحت خیر خواہی کے جذبے سے مشورہ دیں گے کہ جو علماء کا کام ہے اس کو علماء پر ہی چھوڑا جائے ۔ بہرحال یہ بھی اچھی بات ہے کہ انہوں نے رویو سننے پر آمادگی دکھائی ہے۔ غلطی کرنا بڑی بات نہیں لیکن غلطی پر قائم رہنا اصل میں بُری بات ہے ۔
محمد متین خالد: محترم جسٹس صاحب نے اپنی ججمنٹ میں ایک بات لکھ کر ایک قادیانی کو جس نے بہت بھیانک جرم کیا ہے، اسے مظلوم بنا دیا کہ وقوعہ 2011ء  میں ہوا اور قانون 2021ء میں بنا اس لیے ملزم کو سزا نہیں ہو سکتی ۔ سوشل میڈیا بھی اس بات کو ہوا دے رہا ہے ۔ حالانکہ قرآن ایکٹ 2011 ء میں بنا ہے اوراس میں اس کی سزا 3 سال اور جرمانہ 20 ہزار روپے تھا۔ 2021ء میں اس قانون میں معمولی سی ترمیم کرکے سزا بڑھائی گئی اور جرمانہ ایک لاکھ روپے کر دیا گیا اور پھرقرآن بورڈ گورنمنٹ کا ادارہ ہے وہ کہتا ہے کہ جب تک آپ رجسٹریشن نہ کروائیں آپ قرآن کا کوئی بھی نسخہ یا تفسیر شائع نہیں کرسکتے ۔ غیر مسلم کو تو بالکل بھی اجازت نہیں ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق قادیانی غیر مسلم ہے اس کو کس طرح اجازت دی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے آرٹیکل 20 کا ذکر کیا اس کے مطابق مذہبی آزادی تو ان کے لیے ہے جو قانون ، آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو مانیں ۔ قادیانی تو پہلی شق پر ہی عمل نہیں کرتے ، وہ قانون کو بھی نہیں مانتے جس میں ان کو غیر مسلم قراردیا گیا ہے ۔ پھر شق 298 سی کہتی ہے کہ کوئی قادیانی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتا ۔ وہ اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہہ سکتا اور نہ مرزا قادیانی کو صلی اللہ علیہ وسلم کہہ سکتا ہے۔لیکن قادیانی یہ سب گستاخیاں کرتے ہیں وہ مرزا قادیانی کی بیوی کو ام المومنین کہتے ہیں، اس کے دوستوں کو صحابہ کہتے ہیں، اس کی عبادت گاہ کو مسجدکہتے ہیں ۔ اس کی باتوں کو حدیث کہتے ہیں ،اس کے خرافات کو نعوذ باللہ قرآن کہتے ہیں۔ ہم عدالت میں قادیانیوں کی وہ کتاب پیش کریں  گے جس میں مرزا قادیانی نے گستاخانہ باتیں کی ہے کہ ہم نے قرآن مجید کو قادیان کے قریب نازل کیا۔ پھر ہم جسٹس صاحب سے کہیں گے کہ ان سے پوچھیں کہ یہ باتیں لکھی ہیں یا نہیں لکھی ۔ گویا بات تو وہیں ختم ہو جاتی اگر جسٹس صاحب یہ پوچھتے کہ پاکستان کے آئین کے مطابق آپ اپنے آپ کو غیر مسلم مانتے ہیں یا نہیں مانتے ۔
رضاء الحق :چیف جسٹس کے اس ریمارکس کے بعد کہ جو ایف آئی آر 2019ء میں درج ہوئی اس پر 2021ء کا قانون کیسے لاگو ہو سکتا ہے سوشل میڈیا پر سیکولر طبقہ اور وہ لوگ جو چیف جسٹس کا خواہ مخواہ دفاع کرنا چاہتے ہیں وہ اس کو اچھال رہے ہیں۔ حالانکہ قانون 2011ء  سے موجود ہے ، 2021ء میں سوشل میڈیا وغیرہ پر اس جرم کے ارتکاب کی روک تھام کی گئی اور سزا و جرمانہ بڑھایا گیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ جرم مسلسل ہے ، 2019ء  کے بعد بھی رکا نہیں بلکہ مبارک ثانی نامی قادیانی جب گرفتا ر ہوا تو اس وقت بھی یہ جرم کر رہا تھا ۔اس فیصلے میں خطرناک بات یہ بھی ہوئی کہ چیف جسٹس نے فیصلے کے نیچے لکھا دیا ہے approved for reporting اس کا مطلب ہے کہ آئندہ کے لیےعدالتیں اس فیصلے کو نظیر کے طور پر استعمال کریں گی ۔ لوگوں نے بلاوجہ اس فیصلے کو ایمان اور اسلام کے لیے خطرہ نہیں سمجھا بلکہ یہ ایک انتہائی خطرناک مثال بن سکتی ہے ۔ اس لیے اس فیصلے کو چیلنج کرنا اور ختم کروانا ضروری ہے ۔
محمد متین خالد: اگر اس پورے فیصلے کو چیلنج نہ کیا گیا تو ختم نبوت کے حوالے سے مسلمانوں کی سینکڑوں  سال کی جدوجہد سبوتاژ ہو جائے گی۔ وجہ یہ ہے کہ جسٹس صاحب فیصلے میں فرماتے ہیں :اگر ریاست کے ذمہ داروں ( یعنی جس نے ایف آئی آر کاٹی ،ڈی پی او ،ڈی سی، او ہوم سیکرٹری، چیف سیکرٹری)اور آئین پر غور کیا ہوتا تو FIR کاٹنے کی نوبت ہی نہ آتی ۔ اب اگر چیف جسٹس کے اس فیصلے کو نظیر بنا لیا گیا تو آئندہ ایسے جرم پر کون FIRکاٹے گا ؟ گویا کہ آپ قادیانیوں کو کھلی چھوٹ دے رہے ہیں ۔ چیف جسٹس نے اس کے لیے قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیا اس کے متعلقہ تو یہ کیس ہی نہیں ہے ۔ خود ملزم نے پورے چالان میں ، JITمیں ،DPOکے سامنے ، DCOکے سامنے یہ کہا ہی نہیں کہ اس پر جبر کیا گیا ۔ یہ جبر کا کیس ہی نہیں ہے ۔ یہ تو قرآن میں تحریف کا کیس تھا ۔ پھر چیف جسٹس کہتے ہیں کہ اللہ نے حفاظت کا ذمہ لیا ہے ، اللہ نے تو رزق کا بھی ذمہ لیا ہے ، پھر آپ گھر میں بیٹھ جائیں وہیں پر من و سلویٰ اُترے گا۔ کیا امر بالمعروف و نہی عن المنکر مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے ۔
سوال: 26 فروری کو اس کیس پر نظر ثانی کے لیے اپیل کی سماعت ہوئی ۔ تازہ صورت حال ہمیں بتائیے؟
محمد متین خالد: اپیل دائر کرنے والوں میں جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی، مکتب اہل حدیث ، تحریک لبیک اور دیگر مذہبی جماعتوں کے لوگ شامل ہیں ۔ جبکہ پنجاب حکومت صرف قرآن ایکٹ کو لے کر گئی ہے ، باقی وہ کہتی ہے کہ ہمارا 295بی یا 298 سی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ایک غلطی ہوئی کہ جماعت اسلامی کی طرف سے شوکت عزیز صدیقی صاحب پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے ان کے سامنے پریس ریلیز پڑھ کر سنائی اور پوچھا کیا اس میں آپ کو کوئی نقص نظر آتاہے۔ انہوں نے کہانہیں ۔ حالانکہ ہمیں اس میں تحفظات ہیں ۔ اصل میں شوکت عزیز صدیقی کو پیش نہیں ہونا چاہیے تھا کہ کیونکہ ان کا اپنا بحالی کا کیس شروع ہونے والا ہے ۔ لہٰذا وہ چیف جسٹس کے منہ پر ان کی غلطیاں کیسے نکالیں گے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نیا کوئی وکیل لے کر آئیں۔ دوسری بات یہ کہ انہوںنے آتے ہی کہا کہ ہمارا ضمانت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ حالانکہ ہمارا ضمانت پر اعتراض ہے کیونکہ 2011ء کے ایکٹ کے مطابق اس کو 3 تین سال کی سزا ہونی چاہیے ۔ اس کے بعد 298 سی ہے، 295 بی ہے، تعزیرات پاکستان ہے جن کے مطابق جو قرآن میں تحریف کرے گا تو اس کی باقاعدہ سزا ہے ۔ آپ کون ہوتے ہو اس کو ضمانت دینے والے ۔ حالانکہ مجرم نے بھی اپنی درخواست میں یہ نہیں کہا کہ ان دفعات کو ہٹا دیں ۔ آپ کس طرح ان دفعات کو ہٹا سکتے ہیں ؟مجرم نے کہا ہی نہیں کہ مجھ پر جبر کیا گیا۔ آپ نے قرآن کی آیت کو موقع اور محل سے ہٹ کر تشریح کی۔اصل میں ہونا یہ چاہیے کہ تمام دینی جماعتوں کو مل کر ایک مشترکہ جواب دینا چاہیے۔ جب تک یہ پورا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتاہے قادیانیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی شہ ملے گی ۔
سوال: کہا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں قرآن پاک کی بعض آیات کا جو مفہوم استعمال کیا ہے وہ موقع محل سے ہٹ کر اور غیر متعلقہ ہے ۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
شجاع الدین شیخ : کئی اہل علم اور مفتیان کرام نے بھی چیف جسٹس کو توجہ دلائی ہے جن آیات کا حوالہ آپ نے دیا ہے اُن کا یہ موقع نہیں تھا ۔ مثلاً ایک اس آیت کا انہوں نے حوالہ دیا :{لااکراہ فی الدین}
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کسی کو زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ جس مقدمے کی بات ہورہی ہے اس میں تو یہ بات ہے ہی نہیں کہ کسی نے ملزم کو گن پوائنٹ پر اسلام قبول کروانے کی کوشش کی ہو ۔ لہٰذا اس کیس میں اس آیت کا حوالہ دینا بالکل غلط ہے ۔ اسی طرح دوسرا حوالہ انہوں نے اس آیت کا دیا ۔
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(9)}
قرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا آخری کلام ہے اور رہتی دنیا تک اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے اُٹھایا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے عالم اسباب میں یہ کام ایمان والوں سے ہی لینا ہے۔ مسلمانوں کے بچے قرآن پاک حفظ بھی کرتے ہیں، مسلمانوں کے ہاں قرآن حکیم کی اشاعت اور تعلیم بھی صدیوں سے چلی آئی ہے ۔ اگر کوئی قرآن مجید میں تحریف کرے گا ، اس کے مفاہیم کو بدلنے کی کوشش کرے گا تو اس کو روکنا بھی مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔ اللہ نے رزق کابھی ذمہ لیا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں کام کرنا پڑتا ہے تو روزی ملتی ہے ۔
سوال: عقیدہ ختم نبوت کے بغیر ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا اور یہ واقعتاً ہماری ریڈ لائن ہے۔ اس حوالے سے ہمارے تمام دینی طبقات متحد اور یکجان نظر آتے ہیںجیسا کہ اس متنازعہ فیصلے کے بعد بھی یکجا نظر آرہے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ یہی دینی طبقات ملک میں نفاذ اسلام کے لیے ایک پلیٹ فارم پہ جمع نہیں ہوتے حالانکہ ملک میں نفاذ اسلام کی صورت میں ناموس قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کے قوانین کا بہترین دفاع کیا جا سکتا ہے؟
شجاع الدین شیخ : آپ نے بجا فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عقیدہ ختم نبوت ہماری ریڈ لائن ہے اور کوئی شخص مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ رسول اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول نہ مانے۔ فقہاء نے ایمان کی یہ تعریف بیان فرمائی ہے : تصدیق بما جاء النبی ﷺ یعنی ہر وہ خبرجو نبی اکرم ﷺ نے دی اس کی تصدیق کرنا ایمان ہے۔ اس عقیدے کا دفاع کرنا بھی ضروری ہے۔ اسی لیے 1974ء  میں باقاعدہ تحریک چلا کر قادیانی فتنہ کی سرکوبی کے لیے فیصلہ لیا گیا تھا۔ البتہ جہاں عقیدے کا تحفظ ضروری وہیں حدود اللہ کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ اللہ کی حدود سے مراد اللہ کے احکامات ہیں، اللہ کی شریعت ہے ۔ اس کا نفاذ بھی اتنا ہی ضروری ہے اور جب وہ نفاذ ہو جائے تو : 
{وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(112)}
 (التوبہ) ’’اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے۔ اور (اے نبیﷺ!) آپ ان اہلِ ایمان کو بشارت دے دیجیے ۔‘‘
امت کے افراد کو، طبقات کو ،اہل علم کو، مکاتب فکر کو متحد ہو کر نفاذ شریعت کی تحریک چلانی چاہیے۔ یہی تنظیم اسلامی کی مستقل دعوت ہے۔ لیکن آج معاملہ یہ ہورہا ہے کہ دین کے کچھ ایشوز کو اُٹھاتے ہیں جبکہ پورے دین کا معاملہ پیچھے چلا جاتاہے ۔ کہیں مسلک کا معاملہ مقدم ہو جاتاہے لیکن دین پیچھے رہ جاتاہے ۔ جبکہ ہمیں سب سے بڑھ کر نفاذ دین کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ انتخابی سیاست کا راستہ ہم دیکھ چکے، اس سے ہونے والا کام یہ نہیں ۔ اس کی بجائے سب دینی قوتوں کو مل کر ایک تحریک برپا کرنی چاہیے ۔ یہ ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ پاکستان جس کو ہم نے اسلام کے نام پر لیا اس کے استحکام اور بقاء کا معاملہ نفاذ اسلام سے جڑا ہوا ہے ۔ جب شریعت کا حکم نافذ نہیں ہوتا تو پھر اس طرح کے فتنے بھی جنم لیتے ہیں ۔ احکام شریعت نافذ نہ ہوں تو مصائب کا ہم شکار بھی ہوا کرتے ہیں ۔ اسی لیے قرآن ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ : {اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ ط} (الشوریٰ:13)’’کہ قائم کرو دین کو۔اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘
ہماری درد دل سے یہ تمنا ہے کہ تمام مکاتب فکر متفقہ نکات پر اتفاق کرتے ہوئے کوئی تحریک برپا کریں تاکہ اس مملکت خداداد کا مقصد بھی پورا ہو اور اس کو استحکام میسر آئے۔ شریعت کا نفاذ واقعتاً ہوگا تو اس طرح کے فتنوں کی سرکوبی کرنا بھی ہمارے لیے آسان ہو گا ۔
سوال:اس متنازع فیصلے کے خلاف دینی جماعتوں کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے اور قرآن اکیڈمی سمیت جن 10 اداروں سے چیف جسٹس نے معاونت مانگی ہے۔ آپ اس حوالے سے کیا تجاویز مرتب کر رہے ہیں؟
شجاع الدین شیخ :خوش آئند بات یہی ہے کہ ختم نبوت کے عقیدے کے تحفظ کے لیے پورے ملک سے آواز اُٹھی تو چیف جسٹس کو نظر ثانی کا احساس ہوا ۔ انہوں نے قرآن اکیڈمی سمیت تقریباً 10 اداروں کو رہنمائی کے لیے خط لکھا جس پر ہم انہیں تحسین پیش کرتے ہیں ۔ یہ اچھی بات ہے کہ نظرثانی کے لیے پٹیشن بھی داخل ہو چکی ہے اور اس حوالے سے کوئی کارروائی بھی آگے بڑھی ہے ۔ ان اداروں کو تین ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے کہ اس دوران اپنی آراء جمع کروائیں ۔ دو تین بڑے علماء  (جیسے مفتی منیب الرحمان صاحب ،مفتی تقی عثمانی صاحب) کی تحریریں اس حوالے سے اب تک سامنے آ بھی چکی ہیں ۔ ہم بھی ان شاءاللہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے کوئی لائحہ عمل طے کریں گے اور کوشش کریں گے کہ جس طرح عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اور قادیانی مسئلے کے خلاف امت متحد تھی اسی طرح اب بھی کوئی متفقہ لائحہ عمل طے ہو اوراس کے نتیجہ میں کوئی متفقہ فیصلہ بھی سامنے آجائے ۔ اس کے لیے جو ٹیکنیکل نکات درکار ہے وہ ٹیکنیکل لوگوں سے لیں گے اور دینی اعتبار سے جو رہنمائی درکار ہے وہ علمائے دین سے لیں گے اور علماء سے رابطے اور مشاورت بھی کریں گے ۔ اللہ کرے کہ اسی کے نتیجہ میں کل کوشریعت کے نفاذ کے لیے بھی مشترکہ تحریک چلانے کی اللہ پاک توفیق عطا فرما دے ۔
سوال: قادیانی پوری دنیا میں یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان میں ہمارے خلاف ظلم اور جبرکا رویہ اپنایا جارہا ہے ۔ جبکہ اس کیس میں تو ہمیں نظر آرہا ہے کہ قادیانی زبردستی قرآن میں تحریف کرنا چاہتے ہیں اور زبردستی اپنے مذہب کی تبلیغ اور اشاعت چاہتے ہیں ۔ آپ کیا کہیں گے؟
رضاء الحق : ہمارے اوپر IMFکا پریشر بھی ہوتا ہے ، امریکہ ، یورپی یونین اور جی ایس پی پلس وغیرہ ہر طرف سے پریشر آتاہے اور اس کے نتیجہ میں قانون میں ترمیم بھی ہوتی ہے اور نئی شقیں بھی شامل کی جاتی ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ جا کر پروپیگنڈا کرتے ہیں اور بیرونی قوتوں کی مدد حاصل کرتے ہیں ۔ سارا عالم کفر اس وقت اسلام کے خلاف متحد بھی ہے ۔ بھارتی وزیراعظم جب اسرائیل کا دورہ کرتا ہے تو اس کا استقبال کرنے کے لیے اسرائیلی وزیراعظم کے ہمراہ قادیانیوں کا لیڈر بھی ہوتا ہے۔ قادیانیوں کا ایک مرکز بھی اسرائیل میں ہے ۔ اس کے علاوہ ہمارا سیکولر اور دین بےزار طبقہ بھی اکثریت کے مقابلے میں اقلیت کی زیادہ حمایت کرتاہے ۔ حکومتیں بھی مندروں اور چرچوں کے لیے سرکاری خزانے سے فنڈز دیتی ہیں جبکہ مساجد اور مدرسوں کے لیے نہیں دیتیں ۔ یعنی 98 فیصد کے حقوق کسی کو نظر نہیں آتے لیکن 2 فیصد کے حقوق سب کو نظر آتے ہیں ۔ یقیناً اسلام میں اقلیتوں کے حقوق موجود ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ اکثریت کے حقوق کی بات ہی نہ کریں ۔ہمارے آئین کے مطابق یہ اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہے ۔ اس کے آئین کے آرٹیکل 2-Aمیں واضح ہے کہ یہاں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی ۔ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوگی ، آرٹیکل 31 کہتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کو اسلامی طرز زندگی اپنانے کے لیے حکومت سہولیات فراہم کرے گی ۔ آرٹیکل 38-Fکہتا ہے کہ سود کا خاتمہ کیا جائے گا ۔ ان سارے آئینی حقوق پر بھی بات ہونی چاہیے ۔ اپریل 2022ء کو وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دیا۔ ہم چیف جسٹس صاحب سے کہتے ہیں کہ اکثریت کے ان آئینی حقوق کے لیے سوموٹو ایکشن لیں۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف مختلف بینکوں نے اپیل کی ہوئی ہے ان کی بھی سماعت کریں تاکہ جلد سے جلد اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف اس جنگ کا خاتمہ ہو۔ ٹرانسجینڈر ایکٹ کے حوالے سے کیس کی بھی سماعت شروع کریں تاکہ اس غیر شرعی ایکٹ کا خاتمہ ہو ۔
سوال: کیا سپریم کورٹ کے اس متنازعہ فیصلے سے قادیانیوں کے پاکستان میں پہلے سے طے شدہ شرعی، آئینی اور قانونی سٹیٹس میں کوئی فرق پڑے گا؟
محمد متین خالد: بہت زیادہ فرق پڑے گا۔ آپ دیکھیں ! آرٹیکل 227 کہتا ہے کہ پاکستان میں کوئی فیصلہ ، کوئی قانون سازی قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو سکتی ۔ ختم نبوت کے حوالے سے مسلمانوں کی ڈیڑھ سو سالہ جدوجہد ہے ، صرف 1953ء کی قادیانیوں کے خلاف تحریک ختم نبوت میں 10 ہزار مسلمان صرف لاہور میں شہید ہوئے ۔ 1974ء  میں اتنی بڑی تحریک چلی ۔ 13 دن اسمبلی میں بحث ہوئی ۔ حالانکہ دومنٹ کا فیصلہ تھا لیکن سب کو موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا اور اس کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ لیکن چیف جسٹس کے اس فیصلے سے اس ساری جدوجہد پر پانی پھر جائے گا اور ہمارے آئین میں ختم نبوت کے حوالے جو دفعات ہیں وہ بھی غیر موثر ہو جائیں گی ۔ کیونکہ چیف جسٹس نے لکھ دیا کہ approved for repotingاس کا مطلب ہے کہ اب یہ فیصلہ قانون کی کتابوں میں شائع ہوگا اور اس کے بعد اگر کوئی مسلمان قادیانیوں کو کہے گا کہ تم تحریف شدہ قرآن کیوں تقسیم کر ر ہےہو ، اسلامی شعائر کا استعمال کیوں کر رہے ہو تو وہ اس فیصلے کی روشنی میں الٹا مسلمانوں کے خلاف کے خلاف کیس کر دے گا کہ یہ تو مجھ پر جبر کر رہے ہیں ۔ اسی طرح خود سپریم کورٹ کا ایک بہت جامع اور تفصیلی فیصلہ1993ء میں قادیانیوں کے خلاف آچکا ہے۔ اس وقت بھی قادیانی آرٹیکل 20 کو عدالت لے گئے تھے کہ اس کےتحت ہمیں مذہبی آزادی اور حقوق دیں ۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ان کا کیس سنا اور فیصلے میں تین باتیں لکھیں کہ آپ دھوکے باز ہو لہٰذا دھوکے بازوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے ۔ دوسری بات بنچ نے یہ لکھی کہ ہم نے اپ کی کتابوں کو بڑے غور سے دیکھا، آپ کے دلائل کو سنا ، اٹارنی جنرل کو بھی سنا ، آخر میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر ہم آپ کو تبلیغ کرنے کی اجازت دیں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم نئے سلیمان رشدی تیار کر رہے ہیں اور معاشرے میں فتنہ اور فساد برپا کر دیں گے۔ پانچ رکنی بنچ نے کہا کہ آئندہ کے بعد اگر تم لوگوں سے کلمہ برآمد ہو گیا تو تمہارے خلاف 298 سی کے تحت نہیں بلکہ 295 سی کے تحت پرچہ درج ہوگا جس کی سزا سزائے موت ہے۔ آج قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بھی خلاف جاتے ہوئے قادیانیوں کو چھوٹ دے دی ۔ اس کے نتیجہ میں جو فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری ہوگی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ ہم تو یہ فتنہ اور فساد نہیں چاہتے اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ آئیں پاکستان کے تمام لوگ بشمول مذہبی جماعتیں اور خود سپریم کورٹ آئین، قانون اورسپریم کورٹ کے 1993ء  کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرلیں ۔