(کارِ ترقیاتی) کیا ہے روشن چراغِ فردا - عامرہ احسان

9 /

کیا ہے روشن چراغِ فردا

عامرہ احسانعالمی یومِ نسواں اس سال بھی 8مارچ کو منایا گیا، دنیا بھر میں! بین الاقوامی طور پر اس کے مقاصد میں سرفہرست یہ تھا کہ ہم ایک ایسی دنیا بنا سکیں جو خواتین کو زیادہ سے زیادہ مقام دے سکے۔ (گھر سے باہر!) یہ خواتین کی معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی کامیابیاں جانچنے اور ان پر خوشی منانے کا دن ہے۔ اس دن کی جنم بھومی تو امریکا ہے مگر پھر بہت سی ملٹی نیشنلز کی طرح یہ بھی بین الاقوامی ہوگیا۔ ابتدائی احتجاج تو امریکی عورت کے معاشی، معاشرتی استحصال پر تھا۔ جہاں فیکٹریوں، نوکریوں میں کام زیادہ اور تنخواہ کم کا قضیہ تھا۔ ووٹ سے محرومی کا غم تھا۔ (ان میں سے کوئی غم بھی ہم پاکستانیوں یا مسلمانوں کا تو ہے نہیں۔) عالمی دن والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ قومی، نسلی، لسانی، معاشرتی، معاشی، سیاسی تقسیم سے بالاتر دن ہے۔ اس سال یہ دن منانے کا عنوان رہا: ’’عورت میں سرمایہ کاری کرو، ترقی کو مہمیز دو۔‘ ‘
پاکستان میں بھی! یہ الگ داستان ہے کہ 1902ء میں شروع کیے جانے والے اس دن کا ایک نتیجہ تو 1999ء میں یہ نکل آیا (بالآخر) کہ مردوں کا عالمی دن منایا جانے لگا، جو اب 80ممالک میں منایا جا رہا ہے۔ یوم ِنسواں میں ’’مرد ظالم اور عورت مظلوم‘‘ کا موضوع یا بیانیہ کارفرما تھا۔ یومِ مرداں کی وجوہات اب بیان کردہ یہ ہیں: بے گھری، خودکشی، تشدد، بدسلوکی! ایک تصویر میں دکھی مرد کے گال چھوٹا بچہ تھپتھپا رہا ہے۔ پس پردہ کہانی؟ اماں نے گھر سے نکال دیا؟ تشدد… کس نے کیا؟ اب جوڈو کراٹے، لمبے ناخنوں کے ہتھیار سے ہمہ وقت مسلح رہنے والی عورت کے ہاتھوں مرد بھی تشدد کا نشانہ بننے لگے! مرد سے بدسلوکی؟ راوی اگرچہ خاموش ہے مگر اشارہ یہاں ’عورت ظالم، مرد مظلوم‘ کہانی سنا رہاہے! اور رہی خودکشی تو اعداد وشمار کہہ رہے ہیں کہ مغربی دنیا میں تین تا چار گنا زیادہ مرد خودکشی کرتے ہیں عورتوں کی نسبت! نفسیاتی، جذباتی طورپر عورت زیادہ مضبوط اور حالات کے مطابق ڈھل جانے والی ہوتی ہے۔ (خواتین مردوں سے دوگنی تعداد میں بیوہ ہوتی اور سکون سے تنہا عمر گزار لیتی ہیں بنا شوہر۔) مرد کے لیے جذباتی صدمہ سہنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ سر چڑھی حقوق نسواں بھری عورت! بڑا صبر کیا دنیا بھر کے مردوں نے بالآخر 97سال بعد پھٹ پڑے اور اپنا دن منانا شروع کردیا۔ یومِ نسواں نے عورت کو طاقتور، بااختیار بنایا۔ گھر گھرہستی، خاندان، بچے، شوہر کے بندھن ڈھیلے کیے۔ اس سفر کے نتائج میں (Sufferکرتے) دکھ سہتے مرد نے بے راہ روی اختیار کی۔ جذباتی نفسیاتی تشنگی، گھر عورت (ماں، بیوی) سے خالی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتا رہا۔ اس نے اپنا گھر کسی دوسرے مرد سے آباد کرکے اس پر قوانین بھی بنوا ڈالے۔ یہ سب دیوانگیاں جاری رہتیں مگر ایک بہت بڑے دھماکے نے دنیا بدل ڈالی۔
پوری دنیا 7اکتوبر 2023ء کے اس دھماکے سے لرز اٹھی، جاگ گئی… جہانِ نو پیدا ہونے کو ہے، مگر ابھی بہت سے وہ بھی ہیں جو خوابِ خرگوش کے مزے لیتے، معمول کے مطابق گھسٹے چلے جا رہے ہیں۔ وہی ہے چال بے ڈھبی! یوم نسواں پچھلے ڈھب پر منانا اسی کا حصہ ہے۔ دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک کے سبھی مناظر انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ غزہ میں ریکارڈ توڑ ظلم اور ان ممالک میں ریکارڈ توڑ ہمدردی،غزہ سے یگانگت اور یکجہتی کا سونامی اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ سو اب یہ پینڈوپن ہے کہ غزہ کو نظرانداز کرکے نرا فرسودہ یوم نسواں منایا جائے۔ دنیا جس عورت کو تحفظ دینے کو اب دیوانی ہو رہی ہے امریکا برطانیہ جرمنی فرانس آسٹریلیا میں، وہ رفح میں کھڑی ہے۔ ہاتھ میں جڑواں ننھے پھول سے ماہ دو ماہ کے کفنائے بچوں کی لاشیں اٹھائے۔ کہتی ہے: 11سال اولاد کا انتظار کیا اور اللہ نے دو بیٹے عطا کیے۔ میں اپنے شوہر کو ابوالورد کہتی تھی، پھولوں کا باپ۔ زندگی رخصت ہوگئی۔ باپ بھی چلا گیا بیٹے بھی! رفح پر بمباری نے ’عورت‘ سے ساری دنیاوی خوشیاں چھین لیں۔ اگرچہ وہ کہتی ہے: ’واللہ! شہادت نقصان نہیں ہے۔‘ صبر ہے خوبصورت صبر! صبرِ جمیل۔ یہی فلسطینی عورتیں، بچے ہیں جو مغرب کو رلا، بے قرار کر رہے ہیں۔ وہ حسین مغربی عورت جو زاروقطار روتی، آنسوؤں کے بیچ کہتی ہے: ’درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ فلسطینی اتنا میٹھا، خوبصورت پھل دے رہے ہیں۔ خدا ہے تو فلسطینی اور مسلمان اس کے چنیدہ (بہترین) بندے ہیں! ان میں خداپرستی کی ہر علامت پائی جاتی ہے۔ ان کے دل مہربانی اور نرمی سے لبریز ہیں۔ بدی کی قوتیں ان میٹھے پیارے لوگوں پر قیامت ڈھا رہی ہیں۔‘ اس وقت رفح پر بمباری انسانیت کے نام پر کریہہ دھبا ہے۔ دو روٹیوں پر سینکڑوں میزائل برسانے کے مترادف۔ گھروں خاندانوں کے ملبوں، کھنڈروں پر جنگ زدہ، فاقہ زدہ انسانیت روٹی کے ایک ایک لقمے کو ترستی۔ نہایت قلیل تعداد میں پہنچنے والے امدادی ٹرک اور بھوکے انسانوں کو نشانہ بناتا اسرائیل اور پشت پناہ امریکا! عزازیل بھی اب تو رو دیا ہوگا۔ انہی کے سے پتھر دل ہیں یومِ نسواں والے، گومل یونیورسٹی میں اسرائیلی ڈریکولا، ویمپائر جیسے روپ بھرے بے حیا لڑکیاں لڑکے ہیلو وین مناتے۔ بیکن ہاؤس یونیورسٹی میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے اسرائیل سے اظہار یکجہتی کرکے ’اعلیٰ تعلیمی ادارے‘ کی ساکھ بڑھاتے ہولی مناتے لڑکے لڑکیاں! ایک دوسرے کے منہ پر سیاہ رنگ (اپنے اعمال کے ہم رنگ) ملتے بھوت بنے، دانت نکالتے! بزعمِ خود ترقی کی شاہراہ پر گامزن۔ جن ملکوں کی نقالی میں یہ کوے ہنس کی چال چلے تھے، اپنی چال بھول کر، ان کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے مناظر، ان کے نوجوانوں کے شب وروز سب بدل چکے۔
غزہ میں آٹے، روٹی کی تلاش میں ننگے پاؤ ں نکلا11سالہ بچہ،گھر بیٹھی ماں،بہنوں (خواتین!عالمی یومِ نسواں؟)کی خاطر! 12کلو میٹر بے فیض چل چل کر پریشان ،ہراساںبے حال بھوکا کھڑا ہے۔ کہتا ہے میں راستہ بھول گیا ہوں۔ میرے بچے!تم راستہ نہیں بھولے، امت ہے جو راستہ بھول چکی۔ اس پر بھی وہ نہ ہراساں ہے نہ پریشان! اگر وہ زندہ وبیدار ہوتی تو تم تک مدد نہ پہنچا پانے پر یہ ہوائیاں اس کے چہرے پر اڑ رہی ہوتیں، جو تمہارے چہرے سے ہویدا ہیں! گھبراؤ مت! یہ دیکھو تمہارے غمگسار نیویارک میں! شدید بارش اور ٹھندے برفانی موسم میں عالی شان بلڈنگوں کے درمیان چھتریاں لیے تاحد نظر انسانوں کا ایک دریا تمہارے لیے نعرے لگا رہا ہے۔ برطانیہ میں ایک ضمنی انتخاب میں تمہاری خاطر تمہارے نام اور تمہارے حق کی خاطر کھڑے ہونے والے جارج گیلوے نے غزہ سے منہ پھیرنے والوں کو چاروں شانے چت کردیا۔ برطانوی ووٹروں کی غیرمعمولی حمایت ملنے پر اس نے کہا: ’گزشتہ ساڑھے چار ماہ سے لاکھوں برطانوی، تمہاری(حکومتِ برطانیہ کی) اسرائیل نواز پالیسیوں سے بغاوت اور ایک مکمل ذہنی انقلاب کا اظہار کر رہے ہیں۔ روشڈیل میں اسی لیے سب پارٹیوں کو بری طرح ہرایا ہے۔ یہ اظہاریہ ہے غزہ پر ذبیحے کے خلاف!‘ غزہ کے غم میں جل کر مر جانے والے آرون بشنیل نے اپنا پیسہ وصیت میں تمہارے نام، غزہ کے بچوں کے نام کردیا۔ اور یہ بھی کہ فلسطین آزاد ہوگیا تو میری راکھ اس سرزمین پر بکھیر دی جائے (جن کے غم میں اپنی جان کھو دی! )ایک امریکی قیدی نے جیل میں 136گھنٹے صفائی کرکے، اس کے عوض ملنے والے 17ڈالر 14سینٹ تمہارے آٹے کے تھیلے کے لیے غزہ بھجوا دیے۔ لندن میں یونیفارم پہنے 2ہزار پولیس افسروں نے تمہارا فلسطینی جھنڈا اٹھاکر غزہ کے حق میں آواز بلند کی۔ پوری دنیا دن رات غزہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ حتیٰ کہ یو این کے سارے امدادی ادارے تاریخ میں پہلی مرتبہ سبھی چلا اٹھے ہیں۔ مسلمانوں کو مت دیکھو! تم غمگین ہو جاؤ گے۔ حرم میں یہی فلسطینی جھنڈا اٹھانے پر مسلمان عورت گرفتار کرلی گئی! مسلمان مدینہ میں میکڈونلڈ پرہجوم کیے اسرائیل کی محبت سے لیپے پوتے برگر کھا رہے تھے۔ وہ بھی ایک امریکی نومسلم تھا جو چیخ چیخ کر انہیں بائیکاٹ کرنے کو کہہ رہا تھا! حتیٰ کہ ایک جاپانی نوجوان اکیلا اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے کھڑا اسرائیل کو ڈپٹ رہا تھا چلا چلاکر کہ فلسطینیوں کے قتل سے باز آجاؤ۔ جرمنی کا مظاہرہ تاریخی تھا۔ اتنا بڑا کہ ناقابلِ یقین! دور دور تک پھیلے گنجان ترین مظاہرے میں غزہ پر ظلم کے خلاف شدید جذباتی اظہار تھا۔ دل کی گہرائیوں سے تمہارا درد محسوس کرتے یورپ کے قلب میں! ’دنیا جاگ اٹھی ہے‘ کے عنوان تلے سابق امریکی فوجی ’فلسطین فوری آزاد کرو‘ کے ساتھ اپنی فوجی وردیاں غم وغصے سے نذرِ آتش کر رہے ہیں۔ آٹھ، نو سال کے فلسطینی کے پیٹ پر بھوک سے بندھے پتھر امت کے خلاف ہولناک گواہی اور دوسری قوموں کو ایمان واسلام عطا کرنے کا سامان ہے ۔
میں تم پہ قربان اے شہیدو
تمہی ہو سرمایۂ تمنا
تمہی نے ماضی سے لے کر روغن
کیا ہے روشن چراغِ فردا
جہاں جہاں دی ہیں تم نے جانیں
حیاتِ نو ہوگی واں سے برپا