اداریہ
ایوب بیگ مرزاہم کدھر جا رہے ہیں!
انتخابی عمل جیسا کیسا بھی تھا اختتام پذیر ہوگیا۔نئی حکومتیں قائم ہوگئیں۔ مرکز اور تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں تو ایک ہی سیاسی دھڑے کی حکومت بنائی گئی البتہ خیبر پختونخوامیں دوسرے سیاسی دھڑے یعنی اُن انڈپینڈنٹ ارکان اسمبلی نے حکومت بنائی جو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ تھے۔آئین کے مطابق ہر اسمبلی کی مدت پانچ سال ہوتی ہے۔2013ء کے انتخابات کے نتیجہ میں تمام اسمبلیوں نےا پنی آئینی مدت پوری کی جبکہ 2018ء میں قائم ہونے والی اسمبلیوں میں سے پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیاں قبل از وقت ٹوٹ گئیں جبکہ مرکز ،سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی لیکن انتخابات کروانے کےلیے نگران حکومتیں تشکیل دی گئیں جو غیر آئینی طور پر Prolong کی گئیں اور آئین شکنی کا ارتکاب کرتے ہوئے نوے(90) روز میں انتخابات کرانے سے انکار کردیا گیا اور صریحاً آئین شکنی کے مرتکب ہوئے۔ یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا ،جو اپنے دیر پا اثرات چھوڑے گا۔بہرحال اگرچہ اپوزیشن واویلا کررہی ہے کہ نئی حکومتیں فارم45 نہیں بلکہ فارم47 کے مطابق بنائی گئی ہیں جو بہت بڑا الزام ہے ۔ہم نے اپنے قارئین کو چند ماہ پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اگرچہ قومی سلامتی کے لیے فوری انتخابات ناگزیر ہیں بصورتِ دیگر ملک کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے لیکن ہم بارباریہ واشگاف اعلان بھی کرتے رہے کہ جانبدارانہ، غیر شفاف اور بڑی سطح پر دھاندلی زدہ انتخابات قومی اور ملکی سطح پر ہلاکت خیز ثابت ہوں گے اگر سانحہ سقوطِ ڈھاکہ انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کرنے یعنی جیتنے والی پارٹی کو اقتدار منتقل نہ کرنے سے ہوا تھا تو ایسے انتخابات جو جیتنے والوں کو ہرا دیں اور ہارنے والوں کو جتا دیں تو یہ عمل قومی سلامتی کے لیے بھیانک زلزلہ کے مترادف ہوگا جو مستقبل میں انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔
ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ اِس حوالے سے ہماری رائے نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مترادف تھی کیونکہ اور بھی کئی تبصرہ نگاروں نے اِس حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا وہ یہ کہ غیر معمولی سطح پر اگر دھاندلی کی گئی تو سیاسی بحران اور معاشی بدحالی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ حقیقی عوامی مینڈیٹ کو اگر ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا گیا تو اِس سے مایوسی پھیلے گی اور وقت گزرنے کے ساتھ بدترین انداز میں شدید رد عمل سامنے آئے گا۔ بہرحال فیصلہ ساز اِس سے متفق نہ ہوئے اور اُنہوں نے اپنا فیصلہ صادر کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس وقت پاکستان کو جو سیاسی اور معاشی مسائل درپیش ہیں کیا اُنہیں ایسی حکومت حل کرسکے گی جو عوام کی حمایت سے یکسرمحروم ہے ۔سیاسی استحکام کی صورت حال تو چند دنوں میں سامنے آگئی ہے ابھی شروعات ہیں آگے نجانے کیا کچھ ہوگا۔ اسمبلیوں میں تُو تکار سے لے کر ایک دوسرے کو گالیاں دینے کا سلسلہ شروع ہے۔اپوزیشن نے باقاعدہ طور پر اعلان کردیا ہے کہ اگر ہم سے زبردستی چھینی ہوئی نشستیں واپس نہ کی گئیں تو ہم اسمبلی ایک دن نہیں چلنے دیں گے۔ اُدھر احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیاہے۔پہلے ہی مظاہرہ میں PTIکے درجنوں کارکن گرفتار کرلیے گئے ہیں، لاٹھی چارج بھی ہوا جس
سے ایک کارکن شدید زخمی ہوا ور تشویشناک حالت میں ہسپتال کے ICUمیں پڑا موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اُدھر حکومت نے اپوزیشن کے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپہ مارکر سیاسی استحکام کی طرف بڑھنے کی بجائے سیاسی عدم استحکام کی چنگاری کو خود ہی شعلہ بنانے کی ناپسندیدہ کوشش کی ہے ۔
گویا ہماری چند ماہ قبل دی گئی رائے درست ثابت ہورہی ہے کہ ایسے انتخابات سیاسی عدم استحکام کو بدترین سطح پر لے جائیں گے۔ جہاں تک معاشی چیلنج کا تعلق ہے اِس کا تو سوچتے ہی دل ودماغ پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ ہم پہلے بھی قارئین کو بتا چکے ہیں کہ پاکستان نے 2024ء میں ساڑھے چوبیس ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو سیدھا ٹانک لیں یا الٹا کسی مثبت طریقے سے یہ قرضہ ادا نہیں ہوسکتا ۔ہاں البتہ قومی سلامتی کی نیلامی سے ہی ان حالات میں اتنی بڑی رقم کا بندوبست کیا جاسکےگا۔ کون نہیں جانتا ہے کہ ہماری ایٹمی تنصیبات سے لے کر عسکری سطح پر ہر انداز سے حملہ آور ہونے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ کوششیں ناکام بنا دیں کیونکہ دشمن کو یہ خطرہ تھا کہ ایٹمی قوت کے ردِعمل سے وسیع سطح پر تباہی پھیل جائے گی اور وہ خود اِس تباہی کی لپیٹ میں آسکتے ہیں لہٰذاایک عرصہ ہوا یہ کوشش ترک کردی گئی پھر پاکستان کی اقتصادی تباہی پر فوکس کرلیا گیا اور روز بروزاِس حوالے سے دشمنوں نے اپنی کوششیں تیز سے تیز تر کر دیں۔ بدقسمتی سے مقامی سطح پر اُن سے تعاون ہواا وروہ بڑی تیزی سے معاشی طورپر پاکستان کو تباہ کرنے میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں۔ صرف ایک مثال کفایت کرے گی دو(2) سال قبل پاکستان کی شرح نمو 6فیصد تھی اور خزانے میں قریباً 18 ارب ڈالر تھے لیکن گزشتہ برس 0.2 فیصد رہ گئی اور آج خزانے کا انتہائی بُرا حال ہے۔ اب پاکستان دشمن عناصر جن کا سرغنہ شیطانِ بزرگ امریکہ ہے ہماری سلامتی کی قیمت لگائے گا اِس کے عوض ہمیں جھوٹی یقین دہانیاں کرائے گا۔ کوئی احمق ہی ہوگا جواِن یقین دہانیوں پر بھروسا کرلے گا اور یہ سمجھے گا کہ بھارت ہمیں بے دست وپا دیکھ کر بھی معاف کردے گا۔ یہ اِسی طرح ہے کہ کوئی احمق یہ سمجھے کہ اگر کسی ویرانے میں گوشت پھینک دیا جائے تو وہ گِدوں اور درندوں سے محفوظ پڑا رہ جائے گا ۔یہ حماقت کی نہیں پاگل پن کی انتہا ہوگی۔
اب آجائیے اِس سے بھی تشویشناک اور سنگین معاملے کی طرف! گزشتہ دو سالوں میں اِ س صورت حال پر جس صوبہ کے عوام نے بھرپور اور سخت ردِعمل دیا ہے، ان کا تعلق پاکستان کے شمال مغربی صوبہ پختونخوا سے ہے۔ بدطینت امریکیوں کو اِس ردِعمل کا پورا پورا اندازہ بلکہ پختہ یقین تھا۔ اُنہوں نےوقت سے پہلے پلاننگ کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو افغانستان سے تعلقات بگاڑنے پر مجبور کیا اور ہم سوچے سمجھے بغیر کبھی افغان پناہ گزینوں کو صرف ایک ماہ میں پاکستان سے نکل جانے کا حکم دیتے ہیں۔ پھر افغانیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بار بارطو رخم بارڈر بند کردیتے ہیں، کبھی یکدم یہ حکم دے دیتے ہیں کہ ٹریفک بغیر ویزے جاری نہیں رکھی جاسکے گی۔اُس میں اصل تکلیف دہ بات یہ ہے کہ عملد درآمد کے لیے کوئی مناسب وقت نہ دیا گیا۔پھر یہ کہ 10 فیصد ٹرائنزٹ ٹیکس لگا دیا گیا اور پاکستان میں کوئی بھی دہشت گردی کا واقعہ ہو تو فوری طور پر بغیر مکمل تحقیقات کے افغانستان پر الزام لگا دیا جانے لگا ۔ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ افغانستان کی طرف سے کوئی غلط اقدام نہیں ہواہوگا۔ یقیناً ہوا ہوگا لیکن افغان طالبان نے مفاہمت کے لیے مولانا فضل الرحمان کو افغانستان کے دورے کی دعوت دی تو نہ صرف حکومت پاکستان نے سردمہری کا مظاہرہ کیا بلکہ بعدازاں اِس دورے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ نے اپنی لاتعلقی کا کھلم کھلا اظہار کردیا۔ نتیجہ یہ کہ امریکہ کامیاب ہوگیاا ور اب دو برادر اسلامی ممالک جو ہمسائے بھی ہیں ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں اور امریکہ خوشی سے چھلانگیں مار رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ کامیابی سے ڈبل گیم کررہا ہے۔امریکہ پاکستان کے حکمرانوں کے ذریعے عمران خان اور اُ س کی جماعت پر ظلم کروا رہا ہے۔ یہ جو تحریک انصاف کو انتخابات میں زبردست کامیابی ملی ہے۔ اِس کی دوسری وجوہات بھی ہوں گی لیکن اِس ظلم کی وجہ سے اُسے ہمدردی کا ووٹ بھی بہت ملا۔ لیکن راتوں رات انتخابات کے نتائج الٹ دیئے گئے۔ جس کا اگرچہ رد عمل تو سارے ملک میں سامنے آیا لیکن پٹھانوں کا رد عمل ذرا مختلف انداز سے سامنے آتا ہے اور حُسنِ اتفاق کہہ لیں یا سوئے اتفاق عمران خان پٹھان ہے لہٰذا صوبہ خیبر پختونخوا میں رد عمل شدید ترین ہے ۔تشویش اور خطرے کی بات یہ ہے کہ پٹھان پر جب غصہ اور اضطراب طاری ہوتا ہے تو پھر وہ نفع نقصان کاحساب نہیں کرتا اوراُس کا ہاتھ بندوق کی طرف بڑھتا ہے۔ ایسی صورت میں جب افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں تو وہ اسلام آباد کے خلاف صرف زبان سے زہر نہیں اُگلیں گے بلکہ خدانخواستہ وہ خون خرابے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔بارڈر کے آر پا ر کے پشتونوں کا یہ گٹھ جوڑ پاکستان کی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا پاکستان کے فیصلہ سازوں کو اِس معاملے میں بڑی سوجھ بوجھ اور احتیاط سے کام لینا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ طاقت نہ ماضی میں مسائل حل کرسکی نہ مستقبل میں ایسا کر سکے گی۔ جہاں تک حالیہ انتخابات کے نتیجہ میں بننے والی حکومت ہے، یہ ایک ایسی کمزور دیوار کی مانند ہوگی جسے بنیادیں کھودنے کے بغیر زمین پر کھڑا کردیا گیا ہے۔ جو تیز آندھی کیا، ہوا کے جھونکے سے بھی گِر سکتی ہے۔ اس کا واحد سہارا اسٹیبلشمنٹ ہے۔ آنے والے وقت میں IMF سےجیسا بھی معاہدہ ہوگا وہ کچھ اور ہو نہ ہو مزید مہنگائی کا سبب لازماً بنے گا۔ اور عوام میں اب قطعی طور پر سکت نہیں ہے کہ وہ مزید مہنگائی برداشت کریں لہٰذا مستقبل قریب میں پاکستان کے حوالے سے ہمیں کوئی اچھی خبر سنائی نہیں دے رہی لہٰذا وقت ِدعا ہے ۔اللہ خیر کرے حقداروں کو اُن کا حق مل جائےا ور سب مل کر پاکستان کی ترقی اوراستحکام کے لیے شب و روز کام کریں ۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان میں امن وامان کے قیام اور سیاسی ومعاشی استحکام ہی میں سب کا بھلا ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024