(منبرو محراب) قرآن اور رمضان - ابو ابراہیم

9 /

قرآن اور رمضان


مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی،لاہور میں نائب امیر تنظیم اسلامی محترم اعجاز لطیف کےیکم مارچ 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
آج کی ہماری گفتگو کا عنوان ہے رمضان اور قرآن۔ میں نے آپ کے سامنے آغاز میں سورہ بقرہ کی آیت185 کی تلاوت کی ہے :
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ} ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ خود ہمیں رمضان المبارک کا تعارف کروا رہے ہیں ۔رمضان اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ بلکہ اگر میں یہ کہوںکہ رمضان کو رمضان المبارک بنانے والی چیز نزول قرآن ہے تو اس میں مبالغہ نہ ہوگا ورنہ سارے مہینے ہی محترم ہیں ۔ اس لیے رمضان کے ساتھ خاص طور پر قرآن کا ذکر آیا اور یہ قرآن کتنی بڑی نعمت ہے خودبھیجنے والا کیا کہتا ہے؟ آگے فرمایا:
{ہُدًی لِّلنَّاسِ } ’’لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر ۔‘‘
ہم نے اسے صرف ثواب کی کتاب سمجھ کر اختیار کر رکھا ہے جبکہ بھیجنے والا کہتا ہے کہ یہ ہدایت کی کتاب ہے ۔ لہٰذا جن کوبھی اللہ سعادت دے وہ رمضان کی راتوں میں قرآن سنیں ۔ قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھیں اور ہدایت کے حصول کے لیے اس میں غوروفکر کیجئے ۔ بھیجنے والے نے اس کو اسی غرض و غایت سے بھیجا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہرحرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں لیکن بھیجنے والے نے کہیں یہ نہیں کہا کہ اس کو صرف ثواب کے لیے پڑھیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہدایت نامہ ہے اورفرمایا:
{وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج } ’’ اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کی روشن دلیلوں کے ساتھ۔‘‘
آپ دیکھیے اللہ اس کے لیے الفاظ کیا استعمال کر رہا ہے۔ پہلےھدی للناس کہا،پھرالھدیٰ والفرقان۔یعنی مکمل اور حتمی ہدایت اور پھر یہ کہ حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کرنے کے لیے کسوٹی یہ قرآن ہے ۔اب جن کو اللہ یہ سعادت عطافرمائے ان کو کیا کرنا ہے :
{فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ طوَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط} ’’تو جو کوئی بھی تم میں سے اس مہینے کو پائے (یا جو شخص بھی اس مہینے میں مقیم ہو) اس پر لازم ہے کہ روزہ رکھے۔اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ تعداد پوری کر لے دوسرے دنوں میں۔‘‘
رحمان کی شفقت دیکھیے کہ جہاں بندہ کسی ایسی حالت میں ہے کہ وہ آسانی سے روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس کی اجازت دے دی کہ بعد میں رکھ لے ۔ حالانکہ وہ چاہتا تو حکم دے سکتا تھا کہ ہر حال میں روزہ رکھو۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ۔ کیوں ؟
{یُرِیْدُ اللہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَز} ’’اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ سختی نہیں چاہتا۔‘‘
ایک بندے کو 105ڈگری کا بخار ہو اور وہ کہے کہ میں نے روزہ نہیں توڑنا تو یہ کوئی تقویٰ کی بات نہیں ہے ۔ تقویٰ یہ ہے کہ اللہ کا حکم مانا جائے ۔ اللہ آسانی دے رہا ہے تو آپ آسانی کا راستہ اختیار کریں ۔ آگے فرمایا :
{وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ} ’’ تاکہ تم تعداد پوری کرو۔‘‘
اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے روزہ رہ گیاتو اس کی اولین فرصت میں قضا کی جائے گی ۔ یہ نہیں کہ رہ گیا تو رہ گیا ۔ حتیٰ کہ نفلی روزے بھی بعد میں رکھنے چاہئیں پہلے فرض روزوں کی قضا پوری کرنی چاہیے ۔فرمایا:
{وَلِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمْ} ’’اور تاکہ تم بڑائی کرو اللہ کی اس پر جو ہدایت اُس نے تمہیں بخشی ہے۔‘ ‘
اللہ کی طرف سے کوئی نعمت ملے تو اس پر اللہ کی بڑائی اور کبرائی کا اظہار ہونا چاہیے۔ قرآن کی صورت میں اتنی بڑی نعمت اللہ نے رمضان میں عطا کی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس پر اللہ کی کبرائی بیان کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے ۔ صرف زبان سے اللہ اکبر کہہ دینے سے اللہ کی کبرائی کا اظہار نہیں ہوگا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں بالفعل اللہ بڑا ہو ۔ انفرادی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ پارلیمنٹ میں بھی اللہ بڑا ہو۔سٹاک ایکسچینج میں بھی اللہ بڑا ہو ، بینک ، کمپنیوں میں ہر جگہ اللہ بڑا ہو لیکن بدقسمتی سے آج ہم نے سٹیٹ بینک کو کفار کے ہاںگروی رکھا ہوا ہے ، سٹاک ایکسچینج پر یہودیوں کا غلبہ ہے اور پارلیمنٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو سب کو نظر آرہا ہے ۔ آگے فرمایا : 
{ وَلَـعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ (185)} ’’اور تاکہ تم شکر کر سکو۔‘‘
رمضان اور قرآن دونوں ہی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ رجب کے مہینے سے دعا مانگنا شروع کر دیتے تھے :
((اللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فیِْ رَجَبَ، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ ))’’ اے اللہ! ہمارےلیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرمااور ہمیں رمضان المبارک تک پہنچا دیں۔‘‘
قرآن جیسی بہت بڑی نعمت بھی اسی ماہ میں نازل ہوئی ۔ یہ سمجھئے کہ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے ۔ اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ قرآن اور روزہ کا تعلق خاص ہے ۔ قرآن الٰہی ہدایت ہے ، اللہ کے احکام جاننے کا ذریعہ ہے اور روزہ انسان میں ضبط نفس ،self discipline کی صلاحیت پیدا کرتا ہے جس سے ان احکامات پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ قرآن مجیداللہ تعالیٰ کی ایک نعمت اور انعام ہےاور روزہ اس نعمت پر عمل کرنے کا ثبوت ہے۔ ان دونوں بڑی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں رمضان میں روزہ رکھا جائے وہاں قرآن کے ساتھ بھی وقت گزارا جائے ۔ قرآن مجید انسان میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا احساس پیداکرتا ہے اور روزہ عاجزی اور بندگی سکھاتا ہے۔ جتنا زیادہ اللہ کی عظمت کا احساس ہوگا اتنی ہی انسان کے اندر عاجزی پیدا ہوگی ۔ جتنا زیادہ اللہ کی نعمتوںکا ، اس کے احسانات کا شعور ہوگا اتنا ہی انسان کے اندر یہ احساس پیدا ہوگا کہ میں رب کی بندگی کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا ۔ خوداللہ کہتا ہے:
{وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَاط} (النحل:18)’’اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو اُن کا احاطہ نہیں کر سکو گے۔‘‘
قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ ہمیں برائیوں سے بچنے یعنی تقویٰ کا حکم دیتاہے جبکہ روزہ ہمیں تقویٰ کی عملی طور پر مشق کراتا ہے ۔ قرآن حکیم سب سے بڑی دولت ہے ۔ اللہ تعالیٰ خود کہہ رہا ہے :
{یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ قَدْجَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا} (یونس:57) ’’اے لوگو! آ گئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں (کے اَمراض ) کی شفا ‘‘
قرآن صرف باطنی امراض کے لیے ہی شفا نہیں ہے بلکہ ظاہری امراض کے لیے بھی شفا ہے ۔ اسی طرح روزہ اللہ کے رسولﷺ کی سنتوں کے مطابق رکھا جائے تو اس سے باطنی فوائد بھی حاصل ہوں گے اور ظاہری بیماریاں بھی کم ہوں گی ۔ جاپان کے ایک سائنسدان کو نوبل پرائز ملا اس نے تحقیق کی کہ اگر انسان ایک ماہ تک سولہ سے اٹھارہ گھنٹے بھوکا رہے تو اس کے اندر سے کینسر کے اثرات ختم ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ دنیا ٹھوکریں کھا کھا کرآج اسی نتیجے پر پہنچ رہی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ ساری باتیں بتا دیں ۔ اسی آیت میں اگلی دو چیزیں بھی بیان ہوئیں: 
{وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(57)} ’’اور اہل ِایمان کے لیے ہدایت اور (بہت بڑی) رحمت۔‘‘
قرآن مجید potentially انسانیت کے لیے ہدایت نامہ ہے لیکن اس سے ہدایت وہی پائے گا جس کے اندر تقویٰ ہوگا ۔ یہ شرط قرآن کے شروع میں ہی بتا دی : 
{ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(2)}(البقرۃ)’’یہ الکتاب ہے‘ اس میں کچھ شک نہیں‘‘۔ یا ’’یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت ہے پرہیزگار لوگوں کے لیے۔‘‘
قرآن سے ہدایت تقویٰ والوں کو حاصل ہوگی اور روزہ کا حاصل تقویٰ ہے ۔ یعنی جو روزہ رکھے گا تو اس کو قرآن سے ہدایت بھی حاصل ہوگی ۔ سورہ یونس میں آگے فرمایا :
{قُلْ بِفَضْلِ اللہِ وَبِرَحْمَتِہٖ}’’(اے نبی ﷺ! ان سے )کہہ دیجیے کہ یہ ( قرآن) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے‘‘
یہ نعمتیں اللہ کے فضل اور رحمت سے ملتی ہیں ۔ یہ اللہ کا فضل تھا کہ ہم مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ورنہ کسی ہندو کے گھر بھی پیدا ہوسکتے تھے اور ساری زندگی گائے کا پیشاب پیتے رہتے ۔ آگے فرمایا : 
{فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْاط}’’تو چاہیے کہ لوگ اس پر خوشیاں منائیں!‘‘
ویسے اسلام میں کسی بات پر فخر کرنے کی یا اترانے کی اجازت نہیں ہےلیکن قرآن کے معاملے میں اللہ خود کہہ رہا ہے کہ یہ اتنی بڑی نعمت تمہیں ملی ہے اس پر خوشیاں مناؤ ۔ فرمایا: 
{ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (58)}’’ وہ کہیں بہتر ہے ان چیزوں سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
لوگ کس بات پر خوش ہوتے ہیں ؟ زیادہ پیسہ ہو ، کار ، کوٹھی ، بنگلا ، بزنس ہو ۔ حالانکہ یہ سب چیزیں انسان کو بچا نہیں سکتیں اگر ہدایت نہ ہو اور ہدایت قرآن سے ملے گی ۔ دنیوی مال انسان کو آخرت میں کوئی فائدہ نہیں دے گا جبکہ قرآن آخرت میں انسان کے مرتبہ میں اضافے کا باعث بنے گا ۔ حدیث کا مفہوم ہے اللہ حافظ قرآن سے فرمائے گا قرآن پڑھتا جا اور منزلیں طے کرتا جا ، تیراآخری درجہ وہ ہوگا جہاں آخری آیت پڑھے گا ۔ معلوم ہوا کہ قرآن کی دولت زیادہ سے زیادہ سینے میں محفوظ کرنا چاہیے۔ ہم آج تک یہی سمجھتے آئے ہیں کہ قرآن اللہ کی آخری کتاب اور قیامت تک انسان کے لے ہدایت ہے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن کیا ہمارے ایمان کا یہ بھی حصہ ہے کہ اس آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر اس سےبڑی کوئی اور دولت نہیں ہے۔ یہ اگر آج تک نہیں تھا تو اب اس آیت کی روشنی میں اس کو بھی اپنے ایمان کا حصہ بنائیں اور اس دولت کو حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں کیونکہ دنیوی دولت تو ہم دنیا میں ہی چھوڑ جائیں گے ، یہی وہ دولت ہے جو ہمیں آخر ت میں کام آوے گی ۔ ہم سمجھتے ہیں جو دنیوی لحاظ سے کامیاب ہے وہی بہتر ہے حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ فرما رہے ہیں:
((خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُراٰنَ وَعَلَّمَہٗ ))(رواہ البخاری)’’تم میں سب سےبہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن کا علم حاصل کریں اور(دوسروں کو) اس کی تعلیم دیں۔‘‘
اگر بہترین لوگوں میں شامل ہونا ہے توقرآن سیکھنے یا سکھانے والوں میں سے ایک گروہ میں لازماً مجھے شامل ہوناچاہیے ۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کرم ہے، احسان ہے کہ اب یہ ایسا موسم بہار آ رہا ہے کہ ماضی میں اگر کسی کو ایسے کسی گروہ میں شامل ہونے کی توفیق نہیں ہوئی تو اب وہ کم ازکم سیکھنے والوں میں شامل ہو سکتاہے۔ڈاکٹراسرار احمدؒ کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے۔انہوںنے نماز تراویح کے وقفہ میں دورہ ترجمہ قرآن شروع کیا تھا۔ آج پورے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں کئی مقامات پر ہوتا ہےاور رمضان کے آخر تک پورے قرآن کا ترجمہ اور تشریح ہو جاتی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مسجد میں جا کر کلام اللہ کی دو آیتیں سیکھ لے یہ اس کے حق میں دو اونٹنیوں کے مل جانے سے بہتر ہے ۔آج کے زمانے میں جیسے آپ سمجھئے کہ دو پرائیویٹ ایئرکرافٹ آپ کو مل جائیں اس سے زیادہ بڑی دولت یہ ہے کہ آپ قرآن کی دو آیات سیکھ لیں ۔ اگر پورا قرآن کوئی سیکھ لے تو یہ کتنی بڑی دولت ہوگی ۔ پھریہ کہ قرآن جامع ترین ذکر اور افضل ترین کلام ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص قرآن میں اتنا محو ہو گیا کہ میرے ذکر اور مجھے مانگنے کی فرصت نہ ملی تو میں اس کو اس کو اس سے بہتر عطا کرتا ہوں جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں ۔‘‘ جب قرآن پڑھا جاتا ہے تواس میں بار بار اللہ سے سوال تو خود بخود آ رہے ہوتے ہیں ۔ جیسے :
{رَبَّـنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(201)}(البقرۃ) ’’پروردگار! ہمیں اس دنیا میں بھی خیر عطا فرما اور آخرت میں بھی خیر عطا فرما اور ہمیں بچا لے آگ کے عذاب سے۔‘‘
اللہ سے بڑھ کر ہماری ضرورتوں کو کو ن جاننے والا ہے ۔وہ سب سے بہتر عطا کرنے والا ہے۔ اگر ہماری راتیں  قرآن کے ساتھ گزریں گی تو اللہ ہمارے مسائل بھی حل کرے گا اور ہمیں بغیر مانگے ہمیں عطا بھی کرے گا ۔ اسی حدیث میں آگے فرمایا :اور تمام کلاموں کے مقابلہ میں کلام اللہ کو وہی عظمت و بزرگی حاصل ہے جو اللہ رب العزت کو اس کی تمام مخلوقات پر حاصل ہے۔ یعنی قرآن سب سے افضل ذکر اور سب سے افضل دعا بھی ہے ۔ پھراللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:’’نماز کی حالت میں قرآن کا پڑھناغیر نماز میں قرآن پڑھنے سے افضل ہے۔ ‘‘یعنی نماز میں قرآن کی فضیلت اور بڑھ جاتی ہے ۔ رمضان میں ہمیں یہ موقع ملتا ہے کہ ہم پورا قرآن نماز تراویح میں پڑھتے ہیں اور اگر آپ دورہ ترجمہ قرآن میں شریک ہوتے ہیں تو آپ نماز تراویح کے ساتھ ساتھ پورے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر بھی سن سکتے ہیں ۔ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:”جو بھی قوم (جماعت) اللہ کے گھروں یعنی مساجد میں سے کسی گھر یعنی مسجد میں جمع ہو کر کتاب اللہ کی تلاوت کرتی اور سمجھنے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے اس پر سکینت نازل ہوتی ہے، اسے اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے اسے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ان لوگوں میں کرتا ہے، جو اس کے پاس رہتے ہیں یعنی مقربین ملائکہ میں“۔
آج ہر شخص پریشانیوں اور ذہنی الجھنوں کا شکا ر ہے ۔ اگر ہم رمضان میں قرآن کی ایسی محفلوں میں شرکت کریں گے تو اللہ ہمیں ان الجھنوں اور پریشانیوں سے بھی نجات دلائے گا ۔ قرآنی محفل کا پہلا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس پر سکینت طاری ہو جائے گی ۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان پر اللہ کی رحمت چھا جائے گی ۔ فرشتے ایسی محفل کو پروٹوکول دیں گے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآنی محفل میں شریک لوگوں کا ذکر اپنے مقربین میں کرتا ہے ۔ کیا دنیا میں کوئی اور ایسا عمل ہے جس کو اس قدر فضیلت حاصل ہو ۔ جو بھی خواتین و حضرات دورہ ترجمہ قرآن میں شریک ہوں گے ان کو یہ ساری فضیلت حاصل ہوگی ۔ ان شاء اللہ
یہ قرآن مجید اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا زندہ جاوید معجزہ ہے ۔ معجزہ اسے کہتے ہیں جس کا جواب دینے سے انسان عاجز ہو جائے ۔ قرآن کے معجزہ ہونے کے ان گنت پہلو ہیں ۔ ایک پہلو جو اعداد و شمار کے حوالے سے ہے اس کی صرف چند مثالیںیہاں پیش کرنا مقصود ہیں ۔ یہ اللہ کا کلام ہے۔ اس میں اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی wider wisdom میں مختلف چیزوں کا تذکرہ کیا جیسا کہ سورہ آل عمران میں فرمایا :
{اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ طخَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ(59)} ’’بے شک عیسیٰ ؑکی مثال اللہ کے نزدیک آدمؑ کی سی ہے۔اُس کو مٹی سے بنایا ‘پھر کہا ہوجا تو وہ ہو گیا۔‘‘
آدم ؑ کو بھی اللہ نے پیدا کیا اور عیسیٰ ؑ کو بھی دونوں کے والد نہیں تھے ۔ یہ ایک مماثلت آگئی ۔ اسی طرح قرآن میں آدم ؑ کا ذکر پچیس مرتبہ آیا اور حضرت عیسیٰ ؑ کا ذکر بھی پچیس مرتبہ آیا ۔ اسی طریقے سے سورہ آل عمران کی ایک آیت میں ذکر ہےکہ لوگ کہتے ہیں سود بھی توتجارت کی طرح ہی ہے حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا سودکو حرام قرار دیا ۔ قرآن میں تجارت کے لیے بیع کا لفظ آتاہے جوکہ چھ مرتبہ آیا ہے جبکہ ربا ( سود ) کا لفظ سات مرتبہ آیا ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دونوں برابر نہیں ہیں ۔ اسی طرح الیوم کا لفظ قرآن میں 365مرتبہ آیا ہے اور سال کے بھی اتنے ہی دن ہوتے ہیں ۔ اسی طرح لفظ اشھر (مہینہ ) قرآن میں بارہ مرتبہ آیا ہے اور سال میں بارہ ہی ماہ ہوتے ہیں ۔ کیا کسی کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی کتاب لکھے اور اس کے اندر اس طرح کے معجزاتی پہلو ہوں ۔ اسی طرح قرآن میں لفظ الدنیا 115 مرتبہ آیا ہے اور الآخرہ بھی 115 ہی مرتبہ آیا ہے ۔ اس لیے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے جو یہاں بویا جائے گا وہی وہاں کاٹا جائے گا ۔ اسی طرح ملائکہ ( جو خیر کی قوتیں ہیں ) کا ذکر قرآن میں 88مرتبہ آیا ہے اور شیاطین ( جو شر کی قوتیں ہیں ) کا ذکر بھی 88 مرتبہ آیا ہے ۔ اسی طرح اور بھی بہت سے اعدادو شمار ہیں جوکہ برابر ہیں ۔ اس کے علاوہ ایسے اعداد و شمار بھی ہیں جن کی گہرائی میں جائیں تو سائنسی حقائق سامنے آتے ہیں ۔ جیسے قرآن میں البحر (سمندر) کا لفظ 32 مرتبہ آیا ہے جبکہ البر( خشکی )  کا لفظ 13 مرتبہ آیا ہے ۔ دونوں کو جمع کریں تو 45 بنتے ہیں ۔ اب 45 کا 71.11فیصد 32 ہے اورکرہ ارض پر 71.11فیصد ہی پانی ہے ۔ اسی طرح 45 کا 28.88 فیصد 13 ہے اور کرہ ارض پر 28.88فیصد ہی خشکی ہے ۔ اس قدر معجزاتی پہلو اللہ کے کلام میں موجود ہیں ۔ ہم نے قرآن پر غور ہی نہیں کیا ۔یہی ہمارے زوال کی وجہ ہے ۔ شاعر نے کہا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
رمضان میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں ایک بار پھر یہ موقع دے رہا ہے کہ ہم قرآن فہمی کے دور سے گزریں ۔ ہر انسان کوشش کرے کہ وہ اس رمضان میں ایک مرتبہ کم ازکم پورے قرآن کا ترجمہ کے ساتھ مطالعہ کرے ۔ الحمدللہ !تنظیم اسلامی کے تحت ملک بھر میں 150مقامات پر دورہ ترجمہ قرآن اور خلاصہ مضامین قرآن ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ 25 مقامات پر بانی تنظیم اسلامی ؒ کے دورہ ترجمہ قرآن کی ویڈیوز دکھائی جاتی ہیں ۔ ان شاءاللہ ۔ اس حوالے سے ہم ایک ایپ بھی جلد متعارف کروانے والے ہیں جس کے ذریعے آپ کو ان سارے مقامات کا پتہ چل جائے گااور گوگل میپ کے ذریعے آپ اپنے قریب ترین مقام پر دورہ ترجمہ قرآن میں شرکت کر سکیں گے ۔ ہم سب کو ارادہ کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے جو قرآن جیسی سب سے بڑی نعمت نازل کی ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں تاکہ ہماری زندگیوں میں بھی انقلاب آسکے اور ہمارے معاشرے میں بھی انقلاب کا ذریعہ بن سکے ۔ اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ:{لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ } ’’ اگر تم شکر کرو گے تومَیں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘
شکر کی عملی شکل یہ ہے کہ جو نعمت عطا کی گئی ہے اس سے بھرپور استفادہ حاصل کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مزید عطا فرمائے گا ۔ بصورت دیگر : {وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(7)} (ابراہیم)’’اور اگر تم کفر کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بھی بہت سخت ہے۔‘‘
اگر ہم نعمت کی ناقدری کریں گے تو پھر ہم پر اللہ کا عذاب بھی آئے گا ۔ آج ہم بالفعل اس عذاب کا شکار ہیں۔ طرح طرح  کے بحرانوں میں ہمارا ملک گھرا ہوا ہے ۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ ہم قرآن سے استفادہ حاصل کریں ۔جو گزشتہ رمضان میں حیات تھے وہ آج ہم میں نہیں ہیں ۔ ہوسکتاہے یہ ہم میں سے کسی کا آخری رمضان ہو ۔ اس لیے بھی یہ بہترین موقع ہے کہ ہم قرآن سے ہدایت پائیں اور اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین !