طاغوتی طاقتیں چاہتی تھیں کہ مسلمانوں کو تقسیم کرکے ان کی
طاقت ختم کر دی جائے : خورشید انجم
سقوط خلافت عثمانیہ کے وقت سے ہماری اشرافیہ اس غلط فہمی
میں مبتلا ہے کہ مغربی نظام ہی اصل نظام ہے جبکہ اسلام کے
اندر جدید دور کے تقاضوں کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں : رضاء الحق
دشمن یہی چاہتا تھا مسلمان کچھ نہ کر سکیں اس لیے اس نے امت کو
تقسیم کرکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور ہر ٹکڑے پر اپنا
ایک وائسرائے بٹھا دیا جو طاغوتی قوتوں کے ایجنڈے کو
آگے بڑھا رہا ہے : ڈاکٹرمحمد عارف صدیقی
خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور عالم اسلام کے زوال کے 100 سال کے موضوعات پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
محمد رفیق چودھری
سوال:سلطنت عثمانیہ کے زوال کے اسباب کیا تھے ؟
رضاء الحق:تاریخ اورفلسفہ ٔتاریخ کی بنیاد پر اگر ہم مسلمانوں کے عروج و زوال اور پھر مغرب کے عروج کے محرکات کا جائزہ لیں تو یہ بات بڑی واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ طاقت کا توازن کس طرح مسلمانوں سے مغرب کی طرف منتقل ہوا ۔بنیادی طور پر اسلام اور مسلمانوں کو پہلا عروج تو نبی کریمﷺ کے دور مبارک میں اور پھر خلافت راشدہ کے دوران حاصل ہوا ۔ اس کے بعد جب ملوکیت آگئی تو اسلام کے سیاسی نظام میں اگرچہ زوال کا آغاز ہوگیا لیکن اس کے باوجود بھی اسلامی نظام کی برکت سے مسلمانوں کا عروج بڑھتا چلا گیا ۔وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں زوال آجانے کی وجہ سے سقوط بغداد جیسے سانحات رونما ہوئے ۔لیکن پھر جیسا کہ اقبال نے کہا ؎
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سےوہی لوگ جنہوںنے خلافت عباسیہ کو شکست و ریخت کا شکار بنایا تھامسلمانوں کے عروج کے دوسرے دور کا ذریعہ بنے اور خلافت عثمانیہ کا آغاز ہوا ۔ اس دوران بھی اسلام مختلف علاقوں میں پھیلا لیکن بالآخر دوسرے زوال کا دور شروع ہوا اور پھر تین مارچ 1924 ء کو خلافت عثمانیہ کا سقوط ہو گیا۔تاریخ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب مسلمان سپین میں عروج پر تھے تو اس وقت پورا یورپ ڈارک ایجزمیں تھا۔سپین کی مسلم یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد یورپ کے طلبہ نے واپس جاکر یورپ کو بیدار کیا ، انسانی آزادی اور حقوق کی شمع روشن ہوئی۔ لیکن صہیونیوں نے اس آزادی میں سیکولرازم کے بیج بونا شروع کر دیے جس کی وجہ سے تین تبدیلیاں یورپ میں آئیں۔ خدا کی جگہ کائنات ، آخرت کی جگہ دنیا اور روح کی جگہ بدن کو اہمیت دینا شروع کر دیا ۔ یورپ کے عروج کے بعد یہی اثرات عالم اسلام میں بھی پھیلنا شروع ہوئے۔ چنانچہ پھر ہمارےنظریاتی نقطہ نظر میں تبدیلی جو پہلے علمی تھی آہستہ آہستہ عملی صورت میں آنا شروع ہوئی اورمسلمانوں کا عملی طور پر یہ زوال بالآخر 1924ءمیں خلاف عثمانیہ کے خاتمے کا باعث بن گیا ۔ اس کے بعد سے آج تک ہماری اشرافیہ مغرب کے نظام کو اپنا خیرخواہ سمجھتی ہے اور اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ اسلام کے اندر جدید دور کے تقاضوں کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں ۔
ڈاکٹر عارف صدیقی: ہم آج کے دور میںسنتے چلے آ رہے ہیں کہ ففتھ جنریشن وارفیئر، سائیکلوجیکل وارفیئر، ڈرٹی وارفیئروغیرہ جاری ہیں ، یہ ٹرمز تو آج ایجاد ہوئیں۔مگر حقیقت میں جب یہود نے دیکھا کہ وہ کسی بھی طرح دنیا پر اپنا قبضہ نہیں جما سکتے تو انہوں نے 1777ء کے آس پاس ففتھ جنریشن وار فیئر کا آغاز کیا۔ جوزفین اور میری مار تھا دو خواتین تھیں جن میں سے ایک کوفرانس کے محل میں داخل کیا گیا اور دوسری (میری مارتھا ) کو عثمانی حرم میں داخل کیا گیا جو عثمانی خلیفہ کی بیوی بن کر نقش دل کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اسی طرح کی یہودی عورتیں آج بھی کئی مسلم حکمرانوں کے گھروں میں موجود ہیں لہٰذا نتائج وہی نکلنے والے ہیں ۔ میری مارتھا نے عثمانی حرم میں پہنچنے کے بعد چوکیدار سے لے کر افواج کے سالاروں تک یہودی جاسوسوں کا نیٹ ورک بچھایا اور مزید یہودی عورتوں کو عثمانی امراء اور جرنیلوں کے محلوں میں پہنچایا ۔ اسی طرح شریف مکہ اور عبدالعزیز ابن سعود کے کردار کا کس کو نہیں پتا کہ کس نے 75 لاکھ پاؤنڈ لیے اور کس نے 5 ہزار پاونڈ ماہانہ کے عوض خلافت عثمانیہ کے خلاف غداری کی ۔ وہ لالچ جس نے اس وقت امت مسلمہ کو نقصان پہنچایا وہی لالچ آج کے حکمرانوں سے بھی امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد کے خلاف کام لے رہا ہے ۔ اس وقت بھی یہودی سازشیں پس پردہ کارفرما تھیں ، چاہے فری میسنری ہو ، ایلومیناتی ہو، یا کوئی اور تنظیم ہو آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔
خورشید انجم: بظاہردکھائی دیتاہے کہ خلافت عثمانیہ کا خاتمہ عیسائی دنیا نے کیا لیکن حقیقت میں اس کی وجہ یہودی تھے ۔ 1799 ء میں یہودیوں نے اپنے علماء کا ایک وفد یروشلم کے دورے پر بھیجا ، واپس آکر انہوں نے رپورٹ دی کہ اس سرزمین پر یہودی قبضہ کے لیے بڑے پیمانے پر تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ مقابلہ سخت ہے ۔ اس کے بعد سے انہو ںنے بھرپور منصوبہ بندی سے تیاری کی اور پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کو پیسہ دے کر بالفور ڈیکلیریشن پاس کروالیا ۔ برطانیہ نے عربوں کو لالچ دی کہ ہم آپ کو ایک وسیع تر عرب ریاست بنا کر دیں گے لیکن شرط یہ ہے کہ تم سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردو۔ پھر اس بغاوت کو ہوا دینے کے لیے آل سعود اور شریف مکہ کو رقوم دی گئیں ۔ اس کے بعد عربوں نے حرم میں ترکوں کا قتل کیا ، ان کی پوری پوری ٹرینیں جلا دی گئیں ، لارنس آف عریبیہ کا کردار کسی سے مخفی نہیں۔ پھر جب سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا تو عربوں سے وعدہ خلافی کرتے ہوئے انہیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا اور ان کے درمیان اسرائیلی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ پھر دوسری جنگ عظیم میں مزید یہودیوں کو لا کر فلسطین میں بسایا گیا۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک عالمی طاقتیں اس کی مکمل پشت پناہی کر رہی ہیں جبکہ دوسری طرف عالم اسلام تقسیم ہو کر عالمی طاقتوں کے آگے ہتھیار ڈال چکا ہے ۔ جبکہ خلافت کے ہوتے ہوئے اسرائیل کبھی قائم نہیں ہو سکتا تھا ۔ حالانکہ اس وقت بھی یہودی تنظیم کا سربراہ عثمانی خلیفہ عبدالحمید دوئم کے پاس یہ درخواست لے کر آیا تھا کہ ہمیں فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کی اجازت دی جائے ۔ خلیفہ نے زمین سے تھوڑی سی مٹی اٹھائی اور کہا کوئی ریاست یا مملکت تو بڑی بات ہے ، اگر تم فلسطین کی اتنی سی مٹی مانگو گے وہ بھی تمہیں نہیں دوں گا۔ وہاں سے جواب ملنے کے بعد یہودیوں نے سازشی منصوبہ تیار کیا اوربالآخر اسی یہودی رہنما کو اتاترک نے خلافت کے خاتمے کا لیٹر دیا ۔
ڈاکٹر عارف صدیقی: ڈیڑھ ہزار سال سے یہ نظریے کی ہی جنگ تھی ۔ آج ہمارے لبرلز ، ماڈرن لوگ کہتے ہیں کہ مذہب کے نام پر کیوں لڑتے ہو ، انہیں یہ کہنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ سلطان عبدالحمید کے پاس تھیوڈور ہرزل کیوں گیا تھا ؟ یہ سب کے سب کس بنیاد پر لڑ رہے تھے ؟ انہیں خلافت کے نام سے چڑ کیوں تھی ؟حتیٰ کہ وہ نام کا خلیفہ بھی نہیں چاہتے تھے ۔ گیلی پولی کے محاذ پر وہ جعلی ہیرو( اتاترک) کو سامنے لائے جس کے ذریعے انہوںنے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی اوراس کے ذریعے خلافت کا خاتمہ کر دیا ۔ کیونکہ یہ مذہب کی جنگ تھی اور تاقیامت مذہب کے نام پر ہی لڑی جائے گی۔
سوال: خلافت کے خاتمے کے لیے جو سازشیں کی گئیں اس میں اصل میں مفادکس کا تھا؟
رضاء الحق: عالمی صہیونی تنظیم کا اجلاس 1898ء میں ہوا اور اس کے ساتھ ہی یہودی پروٹوکول بھی طے ہوگئے ۔ اس کے بعد پہلی جنگ عظیم ہوئی جس میں خلافت عثمانیہ کے ساتھ اصل دشمنی روس کی تھی کیونکہ جب سلطنت عثمانیہ قائم ہوئی تھی تو اس وقت قسطنطنیہ سے آرتھوڈاکس عیسائیوں کو نکال کر ماسکو جلا وطن کر دیا گیا۔ 1906ء میں برطانیہ نے روس کو یہ لالچ دیا کہ تم سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ دو ہم تمہیں آیا صوفیہ اور باسفورس کا علاقہ دے دیں گے ۔ روس نے جب سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ چھیڑی تو عثمانی حکمران جرمنی کا ساتھ دینے پر مجبور ہوگئے اور اس طرح جنگ عظیم اول میں سلطنت عثمانیہ کو شکست ہوئی ۔ اس سازش کے پیچھے راتھ چائلڈ فیملی اور تھیوڈورہرزل کا ہی نام آتاہے ۔ 1917ء میں جب بالفور ڈیکلیریشن منظور ہوا تو منظوری کا لیٹر راتھ چائلڈ کے نام ہی لکھا جاتاہے ۔ اس فیملی کے انٹرویوز بھی ریکارڈ پر موجود ہیں اور اسرائیل کے پہلے دارالحکومت تل ابیب میں راتھ چائلڈ بلیو وارڈ بھی موجود ہے ۔ راتھ چائلڈ کے نام سے سڑک بھی موجود ہے ۔ یہی فیملی تھی جس نے فلسطینیوں کی زمینیں خرید کر یہودیوں کو دیں اور بعد ازاں دہشت گردی کے ذریعے فلسطینیوں کا قتل عام کیا اور فلسطینیوں کی کچھ زمینوں پر قبضے کیے ۔ آخر 1948ء میں اسرائیل قائم ہو گیا ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے سے امریکہ ، روس ، برطانیہ کو بھی فائدہ ہوا ، اسی طرح شریف مکہ اور آل سعود نے بھی کچھ فوائد اٹھائے کہ ان کو حکمرانیاں مل گئیں لیکن اصل فائدہ یہودیوں کو ہوا اور آج بھی اس کا فائدہ وہی اٹھا رہے ہیں ۔
ڈاکٹر عارف صدیقی:آپ کو یاد ہوگا کہ سال ڈیڑھ سال پہلے ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی کہ ایک آدمی ایک فلسطینی خاتون کو اس کے گھر سے نکال رہا تھا۔ وہ خاتون کہہ رہی تھی کہ یہ مکان میرا ہے جبکہ وہ شخص کہہ رہا تھا کہ اگر میں نے نہ لیا تو کسی اور نے لے لینا ہے لہٰذا تم جاؤ یہاں سے ۔ یعنی یہود کے نزدیک غیر یہودی گوئم ہیں ، جنٹائل ہیں ، ان کا حق کھانا ، ان پر ظلم کرنا یہودیوں کے نزدیک کوئی گناہ نہیں ہے ۔
سوال: بیسویں صدی کے آغاز میں جب خلافت کے خاتمے کے لیے پوری دنیا میں سازشیں ہو رہی تھیں تو اس وقت برصغیر پاک وہند میں خلافت کے حق میں ایک توانا تحریک اور توانا آواز ابھر رہی تھی۔ اس تواناآوازکی کیا تفصیلات تھیں؟
خورشید انجم:اس وقت جو آواز یہاں سے اُبھری اس کا عشرعشیربھی پوری دنیا میں نہیںملتا ۔ سب سے اہم کردار تو مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کا تھا اور بڑا مشہور نعرہ تھا : بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پر دے دو۔اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد کا نام بھی اسی تحریک کی بدولت اُبھر کر سامنے آیا ۔ یہ تحریک اتنی مقبول ہوئی کہ گاندھی کو بھی اس میں شامل ہونا پڑا ۔
ڈاکٹر عارف صدیقی: بر صغیر کے مسلمانوں اور ان کے قائدین نے جو قربانیاں دیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھی ترک ہندوستان ، پاکستان کے مسلمانوں کی عزت کرتے ہیں ۔ میں جب ترکی گیا تو انہوںنے بتایا کہ جب خلافت ختم ہورہی تھی تو ہندوستان کے مسلمانوں نے چندہ کرکے اور مسلمانوں عورتوں نے اپنے زیورات اور گھر کے برتن بیچ کر خلافت عثمانیہ کا قرضہ اتارنے کے لیے پیسے ترک حکام کو بھیجے تھے ۔ترک قوم آج تک اس کو نہیں بھول سکی۔
سوال: خلافت کی وجہ سے مسلمانوں کی اجتماعیت قائم تھی ، جب خلافت ختم ہوگئی تو اس کے بعد 57 مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر اُبھرے لیکن مسلمانوں کی اجتماعیت قائم نہیں ہے ۔ جس اُ مت مسلمہ کا خواب آج ہم دیکھتے ہیں وہ کہیں نظر نہیں آرہی ۔ اگر کمزور ترین خلافت بھی اس وقت موجود ہوتی تو کیا اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ یہ سلوک کر رہا ہوتا جو آج کر رہا ہے ؟
ڈاکٹر عارف صدیقی: جب تمام مسلم ممالک کسی ایک یونٹ کے تابع ہوتے اور سارے صرف ایئرسپیس ہی بند کر دیتے ،تجارتی راستے بند کردیتے یا صرف تجارت ہی بند کر دیتے تو اسرائیل جنگ بندکرنے پر مجبور ہو جاتا ۔ لیکن دشمن یہی چاہتا تھا مسلمان کچھ نہ کر سکیں اس لیے اس نے ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر اپنے وائسرائے وہاں بٹھا دیے۔ وہ طاغوتی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور ان کے ایجنڈے کو لے کر چلتے ہیں ۔ آپ دیکھ لیں جس جس جگہ بھی یہ مسلم حکمران موجود ہیں وہاں اسلام پر، مسلمانوں پر کیسی کیسی پابندیاں لگ رہی ہیں ۔ آپ کھلم کھلا اسلام پر عمل نہیں کر سکتے ۔
خورشید انجم:طاغوتی طاقتیں چاہتی تھیں کہ مسلمانوں کو تقسیم کرکے ان کی طاقت ختم کر دی جائے ۔ جب خلافت کمزور تھی تو تب بھی یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں مل سکی تھی ۔ اسی طرح ایک مرتبہ فرانس میں ایک تھیٹر میں شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کی کوشش کی گئی ۔ عثمانی خلیفہ نے فرانسیسی سفیر کو بلایا اور کہا کہ اس تھیٹر کو فوراً ختم کرو ورنہ ہم اپنی افواج کو جنگ کا حکم جاری کر دیں گے ۔ فرانس نے فوراً تھیٹر ختم کر دیا ۔ اسی طرح شیخ الہند جب قید میں تھے تو ایک انگریز افسر سے انہوں نے کہا کہ آپ خلاف کے پیچھے کیوں پڑے ہو ، یہ تو ویسے بھی لولی لنگڑی خلافت ہے ۔ انگریز افسر نے کہا مولانا !سادہ نہ بنیں ، اس لولی لنگڑی خلافت نے بھی اگر جہاد کا فتویٰ دے دیا تو پوری دنیا کے مسلمان اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ یعنی یہ ان کو پتا تھا اسی لیے انہوں نے امت کو تقسیم کیا ۔
سوال: خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل ڈیموکریسی نے جڑ پکڑ لی۔ کیایہ دونوں نظام اسلام کی ضد نہیں ہیں؟
رضاء الحق: خلافت ِاسلام کی پوری عمارت ہوتی ہے جس کے اندر اسلام کا سیاسی نظام بھی ہوتاہے ، معاشی اور معاشرتی نظام بھی ہوتا ہے ۔ اس عمارت کو گرانے کے لیے باطل قوتوں نے باطل نظریات کی ترویج کی ۔ مغربی جمہوریت کی داغ بیل تیرہویں صدی میں ڈالی گئی ۔ اس تحریک کے پیچھے اٹلی کے شہر فلورنس کی میڈیچی فیملی تھی۔ انہوں انسانیت کے نام پر اس تحریک کو اٹھایا کہ انسانیت کی بات کرو ، مذہب کے نام پر انسانیت کو تقسیم مت کرو وغیرہ وغیرہ ۔ آج کل بھی یہی نعرے ہمارے سیکولر اور لبرل طبقات میں سنائی دیتے ہیں ۔ بعد میں اسی فیملی نے بینک آف انگلینڈ سمیت تین سینٹرل بینکس بھی قائم کیے ۔اس خاندان سے چرچ کے تین پوپ بھی آئے۔ پھر لبرل ازم کا فلسفہ سامنے آتا ہے اور اس کے مبلغوں میں جان لاک اور جان سٹیور مل جیسے لوگوں کا نام آتاہے ۔ پھر سیکولرازم کا نظریہ سامنے آتا ہے ، میٹریلزم کی بات آتی ہے ۔ ان تمام میں تھوڑے اختلاف کے ساتھ اصل بات وہی ہوتی ہے کہ خدا، آخرت ، روح کی بات نہ کی جائے ، سارا فوکس ظاہر پر کیا جائے ۔ یہی چیز لبرل ڈیموکریسی کی بنیاد دکھائی دیتی ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں میں بھی یہی نظریہ نظر آتاہے ۔ ہوسکتا ہے ان میں انسانیت کے لیے کچھ فوائد بھی ہوں لیکن مجموعی طور پر یہ چیزیں انسانیت کے خلاف جارہی ہیں ۔ مثال کے طورپر ہم جنس پرستی ، ایل جی بی ٹی کیو وغیرہ جیسے قوانین بن رہے ہیں جو معاشرتی تباہی کا باعث ہیں ، سود معاشی تباہی کا باعث ہے ۔ لیکن طاغوتی قوتوں کا ایجنڈا رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ سے بھی واضح ہے کہ جیسا کہ مسلمانوں کو بھی چار مختلف گروہوں (بنیاد پرست ، روایتی ، ماڈرن، سیکولر) میں تقسیم کرتے ہیں ۔ ان کے مطابق بنیاد پر ست مسلمان تو دہشت گرد ہیں ان کو ختم کر دیا جائے اور روایتی مسلمانوں سے بھی نہ ملنے دیا جائے کیونکہ اگر یہ مل گئے تو ہمارے لیے بہت بڑا خطرہ بن جائیں گے ۔ پھر یہ کہ طاغوتی طاقتیں گمراہ کن نظریات پھیلانے کے لیے بھی سرمایہ کاری کرتی ہیں ۔ جیسا کہ قادیانیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کے بعد ایک نام نہاد مذہبی سکالر اور ان کے داماد نے اسلام کے اصول ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ کفر کو کفر اور شرک کو شرک کہا جاسکتا لیکن کسی کو کافر یا مشرک نہیں کہا جا سکتا ۔ اسلام پر ایسے حملے طاغوتی قوتوں کی فنڈنگ سے ہوتے ہیں ۔ رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق ماڈرنسٹ کو زیادہ سے زیادہ پروموٹ کرو اور ان کو سیکولرز کے ساتھ ملاؤ جو کہ پہلے ہی لبرل سوچ کے اندر رنگے جا چکے ہیں اور ان کے لیے ایک عورت مارچ بھی کرواؤ وغیرہ۔
سوال:مسلم معاشروں میں ماڈرنائزیشن کے نام پر الحاد اور سوشل انجینئرنگ اپنے عروج پر ہے۔ اتنے بڑے چیلنج سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے ؟
ڈاکٹر عارف صدیقی: نمٹنے سے پہلےہمیں سمجھنا چاہیے کہ ان کے مقاصد کیا ہیں ۔ ان کا بیسک پرنسپل یہ ہے کہ انسانی عقل آسمانی وحی سے بالاتر ہے۔ باطل کے ہر نظام کی بنیاد اسی سوچ پر ہے ۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ میں فیصلے اللہ کے حکم کے مطابق نہیں بلکہ پارلیمنٹیرینز کی رائے کے مطابق ہوں گے ۔ گویا باطل نظام میں اللہ بڑا نہیں بلکہ پارلیمنٹیرین بڑا ہے ۔ اصل میں ماڈرنائزیشن کے نام پر یہ ہمارے دلوں سے روح محمد ﷺ ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ ایک آدمی رسول اللہﷺ کو آخری نبی مانتا ہے ایک نہیں مانتا ، سیکولر لوگ پوچھتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ فرق پڑتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺکی شریعت میں جہاد فرض ہے ، فلسطینیوں کے لیے ، مظلوم مسلمانوں کے لیے کھڑا ہونا فرض ہے ۔ لیکن قادیانی جس کو نبی مانتے ہیں اس نے جہاد کو حرام قرار دے دیا ۔کوئی اور جھوٹا اُٹھے گا وہ سود کو جائز قرار دے دے گا تو فرق تو پڑے گا ۔ فیشن انڈسٹری اس وقت کھربوں ڈالر کی انڈسٹری ہے ، اسی طرح سپورٹس انڈسٹری ہے، میڈیا انڈسٹری ہے ، ان تمام انڈسٹریز کو پروموٹ کر کے وہ مسلمانوں کے دلوں سے روح محمد ﷺ نکالنا چاہتے ہیں ۔ مغرب سوشل انجینئرنگ اس لیے کر رہا ہے کہ ان کی کارپوریٹ کمپنیاںاور اسلحہ ساز فیکٹریاں اسی صورت میںقائم رہ سکتی ہیں ۔ مغرب کی سوشل انجینئرنگ کے نتیجہ میں خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، آپس میں لڑائیاں ہو رہی ہیں ، رشتوں کا تقدس ختم ہو گیا ۔ آج بھی اگر ہم اسلام کا احیاء چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی بنیاد سے جڑنا ہوگا اور ان سب خرافات کو خیر آباد کہنا ہوگا ۔
سوال:کہاجاتا تھا کہ 2024ء میں ترکی سے دوبارہ خلافت کا احیاء ہوگا اور اس ضمن میں ایک 100 سالہ معاہدہ کی بھی بات کی جاتی تھی کہ وہ 2024ء میں ختم ہوجائے گا ۔ کیا اب بھی اس طرح کی باتیں ہو رہی ہیں اور خلافت کے احیاء کا کوئی امکان ہے ؟
رضاء الحق: خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد ترکی میں اتاترک کی سرکردگی میں سیکولر حکومت قائم ہوئی ۔ کافی عرصہ بعد نجم الدین اربکان کے دور میں اسلام کی طرف کسی حد تک پیش قدمی نظر آئی اور انہوں نے کچھ اقدامات اٹھائے لیکن جس طرح ترکی کو احیاء اسلام کی طرف آنا چاہیے تھا اس طرح وہ نہیں آسکا کیونکہ ترکی کا سیکولر طبقہ ، سیکولر عدلیہ اور سیکولر فوج اس میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔ پھر یہ کہ یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش بھی اس میں رکاوٹ رہی ۔ ابھی بھی آپ دیکھیں کہ ایک طرف سویڈن میں قرآن پاک کی جو بے حرمتی ہوئی اس کے خلاف طیب اردگان نے آواز اٹھائی لیکن دوسری طرف سویڈن کو نیٹو میں شامل ہونے کے لیے اجازت بھی ترکی نے دی ۔ اسی طرح غزہ کے خلاف اسرائیلی جنگ کے خلاف بھی ترکی نے بیانات دیے لیکن دوسری طرف اسرائیلی جہازوں کو فیول بھی ترکی فراہم کر رہا ہے ۔ لوزان ٹو معاہدہ جس کو 2023ء میں سو سال پورے ہوگئے، اس میں ایسی کوئی شق نہیں تھی کہ سوسال کے بعد یہ معاہدہ ختم ہو جائے گا ۔ البتہ ترکی کی جغرافیائی پوزیشن بہت اہم ہے ۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ مستقبل میں کوئی ایسا مسلم بلاک بن جائے جس میں ترکی بھی اپنا کردار ادا کرے ۔
سوال: اس وقت جو مسلمان ریاستیں موجود ہیں یہ اگر آپس میں یورپی یونین طرز کا سیاسی ، اقتصادی اتحاد کرلیں تو اس سے کیا ممکنہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ؟
ڈاکٹر عارف صدیقی: ان 57 مسلم ممالک میں سے چند ملک بہت اہم ہیں ۔ان میں ایک پاکستان ہے جس کے پاس پروفیشنل آرمی ہے ، ایٹم بم ہے ، مضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک ہے ۔ دوسرا افغانستان ہے جس کےپاس گوریلا وار کا سب سے زیادہ تجربہ ہے ، چار نسلوں سے مسلسل گوریلا وار لڑ رہے ہیں اور دنیا کی تین سپرپاورز کو شکست دے چکے ہیں ۔ تیسرا ملائشیا ہے جس کااکانومک وزڈم بہت زبردست ہے ۔ اس کی جو اکانومک گروتھ ہے وہ اس وقت امریکہ ، جاپان اور سنگا پور کی بھی نہیں ہے ۔ چوتھا ترکی ہے جس کے پاس لیڈرشپ کی وزڈم ہے ۔ برے سے برے حالات میں بھی اگر کوئی مسلم بول رہا ہے تو وہ ترکی ہے ۔ اس کے بعد معدنی وسائل عربوں کے پاس ہیں ۔ اگر یہ پانچ مسلم ممالک متحد ہو جائیں تو دنیا کو لیڈ کر سکتے ہیں ۔ پھر ہمیں آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ، اور نیٹو فورسز کی ضرورت بھی نہیں رہے گی ۔ ان ممالک کا اتحاد باقی مسلم ممالک کو بھی ان کے ساتھ جوڑ دے گا ۔ 50 ممالک کے اتحاد کے بعد طاغوتی قوتیں ، صہیونی وغیرہ سب ان کی اجازت کے مرہون منت ہوں گے ۔
سوال: قیامت سے قبل نظام خلافت قائم ہوگا ان شاءاللہ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ، اس کی کیا ہیت ہوگی اور تنظیم اسلامی نظام پاکستان میں اور پوری دنیا میں خلافت کے قیام کے حوالے سےکیا موقف رکھتی ہے ؟
خورشید انجم: خلافت عمومی طور پر پوری نوع انسانی کی ہےجیسا کہ فرمایا :
{وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓـئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط}(البقرۃ:30) ’’اور یاد کرو جب کہ کہا تھا تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ۔‘‘
خلافت کے قیام کے حوالے سے ہم نے 75 سال انتخابی راستہ بھی دیکھ لیا اور اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنے میں بُری طرح ناکام رہے۔ اصل میں آج کے دور میں بھی خلافت کا قیام منہج انقلاب نبوی کے مطابق ہوگا ۔ بانی تنظیمی اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ 1985ء سے یہ بات کہہ رہے تھے ۔2010 ءمیں جب ان کی وفات ہوئی تو علمائے دیوبند کے ایک اجلاس میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ پاکستان میں اسلام کا نفاذ تحریک کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ جامعہ اشرفیہ کے اعلامیہ میں بھی یہی بات آئی ہے ۔ یعنی سب نے تسلیم کر لیا ہے کہ راستہ ایک ہی ہے اور وہ انقلابی تحریک کا راستہ ہے۔ اس کے لیے ایک مضبوط اجتماعیت کی ضرورت ہے جس کے ہر فرد نے اپنی ذات اور زندگی میں اسلام نافذ کر لیا ہو ۔ یہ مل جل کر ایک تحریک کا راستہ اختیار کریں۔ کاش ہمارے دینی رہنماؤں کو یہ بات سمجھ میں آجائے اور وہ اس راستے پر گامزن ہو جائیں ۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2024