(الہدیٰ) حضرت موسیٰ ؑ کو اندیشہ اور اسرائیلی کی دوسری لڑائی - ادارہ

8 /

الہدیٰ

حضرت موسیٰ       ؑ  کو اندیشہ اور اسرائیلی کی دوسری لڑائی


آیت 18{فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَۃِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ} ’’تو اُس نے صبح کی شہر میں (اس کیفیت میں)کہ وہ خوف زدہ بھی تھا اور چوکنّا بھی‘‘
قتل کے بعد شہر میں ہر طرف قاتل کو ڈھونڈنے کی دھوم مچی ہو گی۔اس لیے حضرت موسیٰ ؑ خوفزدہ بھی تھے کہ کہیں راز نہ کھل جائے اور محتاط و متجسس بھی۔{فَاِذَا الَّذِی اسْتَنْصَرَہٗ بِالْاَمْسِ یَسْتَصْرِخُہٗ ط} ’’تو اچانک (اُس نے دیکھا کہ) جس شخص نے کل اُس سے مدد مانگی تھی وہی آج پھر اُس سے فریاد کر رہا ہے۔‘‘
وہی شخص آج پھر کسی سے اُلجھا ہوا تھا اور حضرت موسیٰ ؑ کو دیکھ کر اس نے پھر آپؑ کو مدد کے لیے پکارنا شروع کر دیا۔
{قَالَ لَہٗ مُوْسٰٓی اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ (18)} ’’موسیٰ ؑنے اُس سے کہا کہ (معلوم ہوتا ہے) تم ہی ایک کھلے ہوئے شریر آدمی ہو۔‘‘
کہ کل بھی ایک قبطی سے تمہاری لڑائی ہو رہی تھی اور آج پھر تم نے کسی سے جھگڑا مول لے رکھا ہے۔ لگتا ہے تمہاری فطرت ہی ایسی ہے اور تم ہر کسی سے زیادتی کرتے ہو۔
آیت 19{فَلَمَّآ اَنْ اَرَادَ اَنْ یَّبْطِشَ بِالَّذِیْ ہُوَ عَدُوٌّ لَّہُمَالا} ’’پھر جب اُس نے پکڑنا چاہا اُس کو جو اُن دونوں کا دشمن تھا‘‘
حضرت موسیٰ ؑ آگے تو بڑھے تھے اس قبطی کو پکڑنے کے لیے تاکہ اُسے اپنے اسرائیلی بھائی کو مارنے سے روک سکیں‘ لیکن چونکہ آپ ؑ کے غصے کا رخ اسرائیلی کی طرف تھا اور اس کو سختی سے ڈانٹتے ہوئے آپؑ نے اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ کہا تھا‘اس لیے وہ سمجھا کہ آپؑ اس کی پٹائی کرنا چاہتے ہیں ‘چنانچہ:{قَالَ یٰمُوْسٰٓی اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا م بِالْاَمْسِ ق} ’’وہ چیخ اٹھا : اے موسیٰ ؑ ! کیا تم مجھے بھی قتل کرنا چاہتے ہو جس طرح تم نے کل ایک شخص کو مارڈالا تھا!‘‘
گویا اُس نے اپنی حماقت سے بھانڈا ہی پھوڑ دیا کہ کل والا قتل موسیٰ ؑنے کیا تھا۔
{اِنْ تُرِیْدُ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ} ’’تم صرف یہ چاہتے ہو کہ تم اس ملک میں بڑے جابر بن جائو‘‘
{وَمَا تُرِیْدُ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ(19)} ’’اور تم نہیں چاہتے کہ تم اصلاح کرنے والوں میں سے بنو۔‘‘
گویا اس مکالمے سے اُس اسرائیلی نے ثابت کر دیا کہ وہ خود ایک منفی سوچ کا حامل اور گھٹیا کردار کا مالک شخص تھا۔

درس حدیث 

سارا سال رمضان کی خواہش


عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ ؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ ذَاتَ یَوْمٍ وَأَهَلَّ رَمَضَانُ فَقَالَ:(( لَوْ یَعْلَمُ الْعِبَادُ مَا رَمَضَانُ لَتَمَنَّتْ أُمَّتِي أَنْ یَکُوْنَ السَّنَةَ کُلَّهَا))( رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ)
حضرت ابو مسعود ؓ  بیان کرتے ہیں، رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا کہ ایک دن میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اگر لوگوں کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کا پتہ ہوتا تو وہ خواہش کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔‘‘