اداریہ
ایوب بیگ مرزااور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
14 اگست 1947ء کی نصف شب جب مصطفیٰ علی ہمدانی کی آواز ریڈیو سے گونجی کہ ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے‘‘ تو رمضان المبارک کی 27 ویں شب تھی جس کے بارے میں گمانِ غالب ہے کہ وہ لیلۃ القدر ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ حسنِ اتفاق ہو سکتا ہے لیکن ہم اسے خالصتاً مشیت ِایزدی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اُمت ِ مسلمہ کا فرد دنیا کے جس گوشہ میں بھی ہے رمضان المبارک نزول قرآن کے حوالے سے اُس کے لیے انتہائی اہم ہے۔ لیکن رمضان المبارک میں قیام پاکستان کی صدا گونجنے سے اہلِ پاکستان کا رمضان اور قرآن سے اضافی تعلق بھی اُستوار ہوگیا۔ اگرچہ 1946 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ یہ ثابت کر چکی تھی کہ وہ برصغیر کے مسلمانوں کی حقیقی نمائندہ جماعت ہے لیکن پھر بھی1947ء کے آغاز میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان اسی سال دنیا کے نقشہ پر ایک حقیقت بن کر اُبھر سکے گی۔ انگریز حاکموں اور برصغیر کی اکثریتی قوم ہندو کی شدید ترین مخالفت کے باوجود اس کا قائم ہوجانا ہی کچھ نا قابل فہم سا محسوس ہوتا تھا‘ لیکن تشکیل پاکستان کے تاریخی واقعات کو مرحلہ وار دیکھیں تو اُس سال ستائیس رمضان المبارک کی نصف شب کے قریب قیام پاکستان کا اعلان واقعتاً کُنْ فَیَکُوْن کا مظہر محسوس ہوتا ہے۔1940ء کی قراردادِ لاہور میں پاکستان کا ذکر نہیں تھا بلکہ اس میں آزاد مسلمان ریاستوں کا ذکر ہے۔ اس پس منظر میں ایک ہزار میل سے زائد زمینی فصل رکھنے والے دو حصوں پر مشتمل ایک ریاست کا قائم ہو جانا معجزہ محسوس ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کو بجا طو رپر مملکت خداداد کہا جاتا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان بنا کر ہندوئوں سے ہزار سالہ رفاقت ختم کی‘ ان کی دشمنی مول لی۔ نتیجہ کے طو رپر ہندوئوں اورسکھوںکے ہاتھوں لاکھوں مسلمان بے گھر ہوئے‘ بے شمار قتل ہوئے اور اَن گنت مسلم خواتین کی بے حرمتی ہوئی‘ یعنی پاکستان پر جان‘ مال اور عزت جو انسان کا کُل سرمایہ ہوتا ہے‘ سب کچھ لٹا دیاگیا۔’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ‘‘ اتنا پُرکشش نعرہ تھا اور نظریۂ پاکستان کی اصطلاح اتنی دل پزیر تھی کہ یہ قربانیاں حقیر محسوس ہوتی تھیں۔
نظریۂ پاکستان یعنی اسلام کے یوں تو دو بنیادی ماخذ ہیں: قرآن اور حدیث‘ لیکن یہ دو بھی اس طرح اکائی بن جاتے ہیں کہ حضورﷺ قرآنِ مجسم اور قرآنِ ناطق بھی تو کہلاتے ہیں۔ حضرت عائشہk سے مروی ایک حدیث کے مطابق قرآن سیرتِ رسولﷺ اور خُلقِ رسولﷺ ہی کا تو بیان ہے۔ یعنی قرآن دین متین کا اصل منبع‘ سر چشمہ اور ماخذ ہے۔ لہٰذا نظریۂ پاکستان کی آبیاری کے لیے پاکستان میں جو پہلا کام ہونا چاہیے تھا‘ وہ یہ تھا کہ قرآن کی تعلیم کو عام کیا جاتا‘ قرآن کی زبان کو سیکھا اور سکھایا جاتا۔ آخر انگریزی زبان میں مہارت حاصل کی جاسکتی ہے تو قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے عربی کیوں نہیں سیکھی جاسکتی تھی؟ اگرچہ قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اسے سمجھے بغیر بھی پڑھا جائے تو بھی ایک لطف‘ سرور اور کیف محسوس ہوتا ہے‘ لیکن عملی زندگی میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر صراطِ مستقیم پر چلنے کے لیے احکامِ قرآنی کو اپنا امام بنانے کی ضرورت تھی۔ اس کے اوامر پر عمل کیا جاتا اور اس کے نواہی سے رُکا جاتا۔ لیکن صد افسوس کہ عوامی
اور حکومتی دونوں سطحوں پر عملی زندگی سے اسلام کو خارج کر دیا گیا۔ ہم مصنوعی روشنیوں کے ذریعے عزّت ووقار کا راستہ ٹٹولنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ فطری روشنی کے مینار قرآن مجید پر ریشمی جزدانوں کے بے شمار غلاف چڑھا دیے ہیں اور شعوری یا غیرشعوری طو رپر کوشاں ہیں کہ حق کو دبیز ریشمی پردوں میں چھپا دیا جائے۔ نتیجتاً ہم صراطِ مستقیم سے بہت دور ہوچکے ہیں۔ اسلام کے عادلانہ نظام کو اپنانا تو دُو رکی بات ہے‘ ہم عام انسانی اخلاقیات سے بھی عاری ہو چکے ہیں۔ رمضان اور قرآن کے ساتھ مسلمانانِ پاکستان نے کیا سلوک کیا‘ یہ ایک دل فگار کہانی ہے۔ رمضان کو تاجروں‘ ذخیرہ اندوزوں اور صنعت کاروں نے لوٹ کھسوٹ اور چور بازاری کا مہینہ بنا لیا۔ اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو ظلم‘ نا انصافی‘ کرپشن‘ خیانت‘ جھوٹ‘ بددیانتی اور منافقت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔ سیاسی اور معاشی سطح پر ہماری کوئی کل سیدھی نہیں۔ بیرون ملک ہماری پہچان ایک بھکاری ملک کی ہے۔ دولت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے طبقاتی خلیج کو بہت وسیع کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو نزلہ و زکام کے علاج کے لیے یورپ میں ہسپتال بک کرواتے ہیں اور اپنے کتوں کے لیے ایئرکنڈیشنڈ کمرے تعمیر کرواتے ہیں جبکہ دوسری جانب ایک ایسا طبقہ ہے جو بھوک او ربیماری کے ہاتھوں رسی باندھ کر چھت سے جھول جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حال ہی میں وجود میں لائی جانے والی حکومت اپریل2022ء کے بعد ملک میں مسلط کی گئی پی ڈی ایم اور اُس کے بعد کے نگرانوں ہی کا تسلسل ہے۔ موجودہ جوڑ توڑ والی حکومت کے پشت پناہ تک وہی ہیں۔ ٫ ہماری سیاست ‘ معیشت اور معاشرت اللہ اور اس کے رسولﷺ سے سرِعام بغاوت کا اعلان کر رہی ہے ۔ سود کو قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا مگر ہماری معیشت کی پوری عمارت ہی اسی بنیاد پر کھڑی ہے۔ رہی سہی کسر اب ظاہری اور اصل حکمرانوں کی جانب سے محمد اورنگ زیب کی بطور وزیر خزانہ تعیناتی سے پوری ہو گئی ہے جنہیں آج بھی ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا نمائندہ سمجھا جاتاہے۔ معاشرے میں فحاشی‘ بے حیائی ‘ جھوٹ ‘ کرپشن اور لوٹ مار کا دور دورہ ہے۔ ہمارا پورے کا پورا سیاسی اور حکومتی نظام اسلام کے بنیادی اصولوں کو چیلنج کرتا ہوا سیکولرازم اورلبرل ازم کی طرف جارہا ہے ‘ حالانکہ یہ ملک اس وعدے پر حاصل کیا گیاتھا کہ ہم یہاں اسلام کو نافذ کریں گے ۔ بجائے اس کے ‘اسلام کے لیے یہ دھرتی تنگ ہو تی جارہی ہے ۔
قِصّہ مختصر‘اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہم بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں لیکن مایوسی کفر ہے۔ ضرورت ہے واپس لوٹنے کی‘ قرآن کی طرف رجوع کرنے کی جو نسخہ کیمیا ہے۔اسی میں ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ یہ ہمیں ماضی سے بھی آگاہ کرتا ہے اور مستقبل کے لیے رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ رمضان کا بابرکت مہینہ ہمیں دعوت ِفکر دیتا ہے کہ ہم غور کریںکہ ہماری ذلت و رسوائی کی اصل وجہ کیا ہے! ہم یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ اللہ کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا گیاہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا اسلامی ممالک میں سے صرف پاکستان ہی نے قرآن حکیم سے اعراض کیا ہے اور اسے پس پشت ڈالا ہے جس کے نتیجہ میں یہ اس حال کو پہنچا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جس کے قیام کا جواز اسلام بتایا گیا تھا۔ کسی اور ملک نے اپنے نام کا مطلب ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ نہیں بتایا تھا۔ علاوہ ازیں اگر دوسرے اسلامی ممالک نے بھی قرآن کو ترک کیا ہے تو کون سی دنیا میں عزت کمائی ہے! آج پوری دنیا میں ایک اسلامی ملک بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا دعویٰ کر سکے اور وقت کی سپرپاور سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ اسرائیل غزہ کے مسلمانوں پر بدترین اور غیرانسانی ظلم و ستم ڈھا رہا ہے‘ مسلمانوں کی بستیاں اجاڑ رہا ہے اور بوڑھوں‘ عورتوں‘ بچوں اور جوانوںکو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل رہا ہے‘لیکن 57 اسلامی ممالک ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ اسرائیل‘امریکہ اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کا ہاتھ صرف اور صرف ایک اسلامی فلاحی ریاست روک سکتی ہے۔ ہر کلمہ گو کا اوّلین دینی فریضہ ہے کہ مذکورہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے تن من دھن لگا دے۔ یہی حالات کا تقاضا ہے‘ یہی کرنے کا اصل کام ہے‘ یہی جہاد ہے۔ اِسی غرض کو پورا کرنے کے لیے اگر بات جان کا نذرانہ پیش کرنے تک پہنچے تو جان ہتھیلیوں پر رکھ کر نکلنا ہو گا۔
پندرہ سو سال قبل مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست چند سالوں میں اگر یورپ‘ ایشیا اور شمالی افریقہ تک پھیل گئی تو اُس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے قرآن کو اپنا امام بنا کر انفرادی اور اجتماعی زندگی کی راہیں متعین کی تھیں۔ آج اگر اسلام کے نام پر بننے والی دوسری ریاست پاکستان ناکامیوں اور محرومیوں سے دوچار ہے تو اُس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم نے قرآن سے حقیقی اور عملی تعلق منقطع کر لیا ہے۔ ہم اگر رمضان کی حقیقی برکات سے بہرہ ور ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قرآن کو اوڑھنا بچھونا بنانا ہو گا۔
اے کاش! رمضان میں جنم لینے والا پاکستان قرآن کی عملی تعبیر نظر آئے۔ اے کاش! رمضان کے روزے ہمیں ایسی توانائی بخش دیں کہ ہم موجودباطل نظام کا سرکچل سکیں جس نے دنیا میں ہمیں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیا اور ہماری اُخروی فلاح بھی مشکوک کر دی ہے۔ ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ آج مسلمانانِ پاکستان جتنا قرآن پڑھتے ہیں‘ آج جتنے بچے قرآن حفظ کر رہے ہیں اِس حوالہ سے ماضی قریب کی نسبت ہماری صورتِ حال بہت بہتر ہے‘ پھر ہماری یہ ذلت و رسوائی کیوں ؟ یقیناً یہ بات درست ہے کہ تلاوتِ قرآن اور حفظ ِقرآن میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے فائدے سے ہم محروم نہیں رہیں گے ۔اس کے روحانی اثرات مرتب ہونے کے بھی ہم مکمل طور پر قائل ہیں۔ البتہ ایک مثال جو اگرچہ پوری طرح تو منطبق نہیں ہوتی لیکن صرف متوجہ کرنے کے لیے عرض کیے دیتے ہیں کہ کیا کبھی کسی مریض کو ڈاکٹر کا نسخہ صرف پڑھ لینے سے یا دوائیوں کے نام رٹ لینے سے افاقہ ہوا ہے؟اس سے صرف اُس کے علم میں اضافہ ہو سکتا ہے کہ اس مرض کے لیے یہ دوائیاں کار آمد ہیں۔ اسی طرح جب تک ہم اپنی عملی زندگی میں قرآن سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے اور اس کتابِ ہدایت کواپنے دل و دماغ میں انڈیل نہیں لیں گے‘ اس کے حکم پر آگے نہیں بڑھیں گے اور جس سے روک دے گا اس سے رک نہیں جائیں گے‘ کسی قسم کے لیت ولعل میں اور کسی قسم کی دلیل بازی میں نہیں پڑیں گے تب تک ہم قرآن پاک سے حقیقی اور مکمل فائدہ حاصل نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی ہم حاملِ قرآن ہونے کے دعویٰ میں سچے ہوں گے۔یہ ایک ایسا راز ہے جسے اِفشا ہوئے پندرہ سو سال ہو چکے ہیں۔ مسئلہ ہماری بیداری کا ہے‘ مسئلہ ہماری نیت کا ہے اور مسئلہ صرف عمل کا نہیں ضعف ِ ایمان کا بھی ہے۔ آخر میں علامہ اقبال کا یہ شعر عرض کیے دیتے ہیں ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024