(منبرو محراب) انفاق ومواسات - ابو ابراہیم

8 /

انفاق ومواساتمقصد رمضان و پاکستان

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی،کراچی  میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 22 مارچ 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
رمضان المبارک کی سعادتوں سے فائدہ اُٹھانے کا نادر موقع ہے ۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ کہیں فائدہ اُٹھانے سے محروم نہ رہ جاؤں ۔ لہٰذا ہرایک کو چاہیے کہ وہ اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ قیمتی بنائے ۔ اس کے لیے جو محنت مطلوب ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ! اس حوالے سے چار باتیں آپ کے سامنے پیش کرنا مقصود ہیں ۔
انفاق فی سبیل اللہ
سورۃ البقرہ کے رکوع 36 اور 37میں انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت اور فضیلت کا ذکر آیا ہے ۔ کونسا انفاق اللہ کے ہاں مقبول ہے اور انفاق کے سب سے بڑے حقدار کون لوگ ہیں ؟ یہ سب موضوعات بھی ان دو رکوعوں  میں بیان ہوئے ہیں ۔ آیت 261میں فرمایا : 
{مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْـبُـلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍط وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ ط وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (261)} (البقرۃ) ’’مثال اُن کی جو اپنے مال اللہ کی راہ میں (اللہ کے دین کے لیے) خرچ کرتے ہیں ایسے ہے جیسے ایک دانہ کہ اُس سے سات بالیاں (خوشے) پیدا ہوں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔اللہ جس کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے۔اور اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
اللہ خوب جانتا ہے کون اخلاص کے ساتھ خرچ کر رہا ہے؟ کون کتنے مشکل حالات میں خرچ کر رہا ہے۔اس کا اجر دس گنا سے لے کر 700 گنا تک بڑھ جاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ  اس سے بھی زیادہ عطا فرمانے پر قادر ہے ۔ انفاق کے معنی ہیں خرچ کرنا لیکن قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ صرف مال کا انفاق مطلوب نہیں بلکہ جو بھی اللہ نے عطا کیا ہے اس میں سے اللہ کے لیے خرچ کرو۔ جیسے سورۃ الحدید میں آتا ہے: {وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ط} (الحدید:7)’’ا ور خرچ کرو اُن سب میں سے جن میں اُس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے۔‘‘
اللہ نے جان دی ہے، مال دیا ہے،صلاحیتیں دی ہیں ، جسمانی قوت دی ہے ، ہنر دیا ہے ، دماغ دیا ہے ، عقل دی ہے ، منصوبہ بندی کی صلاحیت دی ہے ۔ ان سب نعمتوں میں سے اللہ کے لیے خرچ کرو ۔ اللہ کی بندگی کے لیے اور بندگی والے نظام کو قائم کرنے کے لیے ان سب صلاحیتوں کو بروئے کار لاؤ ۔ یہ سب مطلوب ہےتاہم اموال کے خرچ کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں اس لیے زیر مطالعہ آیت میں خصوصی طور پر اموال کے خرچ کا ذکر آیا ۔ ما ل کے خرچ کی دو بڑی categories ہیں جو قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے ۔ ایک قرض حسن ہے ۔ قرض حسن کی اصطلاح عام طور پر اللہ کے دین کے لیےخرچ کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور اس کا بھی اللہ تعالیٰ ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ دوسری بڑی category صدقات ہیں ۔ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دو تو یہ بھی صدقہ ہے ۔ کسی کو خیر کی تعلیم دے دو ، کسی کی بھلائی کے لیے مشورہ دے دو تو یہ بھی صدقہ ہے ۔ تم سبحان اللہ پڑھو ،الحمدللہ پڑھو ،اللہ اکبر پڑھو یہ بھی صدقہ ہے۔ ایک اعتبار سے ہر نیکی کو صدقہ کہا جا سکتا ہے۔صدق سچائی کو کہتے ہیں۔ بندے کے دل میں  اگر ایمان کی سچائی موجود ہے تو عمل اس کا ثبوت پیش کرے گا۔ نیک اعمال گواہی ہیں کہ بندے کے دل میں کسی درجے میں ایمان موجود ہے۔ وہ صدقات جو فرض ہیں ان کو ہم زکوٰۃ کہتے ہیں ۔ سورہ توبہ کی آیت 60 میں زکوٰۃ کے مصارف بیان ہوئے ہیں کہ یہ کس کس کو دی جا سکتی ہے۔ وہاںپر لفظ زکوٰۃ نہیں آیابلکہ فرمایا:{اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ }(التوبۃ:60)
’’ صدقات تو بس مفلسوں اور محتاجوںکے لیے۔‘‘
کس کس کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے یہ بیان فرمانے کے بعد اللہ فرماتاہے : 
{فَرِیْضَۃً مِّنَ اللہِ ط}(التوبۃ:60)’’یہ اللہ کی طرف سے معین ہو گیا ہے۔‘‘
وہ صدقات جو فرض ہیں وہ زکوٰۃ ہیں ۔ اس کے بعد کچھ ایسے صدقات ہیں جو واجب ہیں ۔ جیسے صدقہ فطر ہے ۔ صدقہ فطر کی اہمیت حضورﷺ نے بیان فرمائی۔ اس کے دو بڑے فائدے ہیں۔ 1۔ رمضان کے روزوں میں اگر کوئی کمی کوتاہی رہ جاتی ہے تو اس کا کفارہ ادا ہو جاتاہے ۔ 2۔ غریب، مسکین کو بھی عید کی خوشی میں شامل ہونے کا موقع مل جاتا ہے ۔صدقہ فطر گندم کے حساب سے 300 روپے بنتا ہے ۔ جن کو اللہ نے وسعت دی ہے تو وہ کھجور کے نصاب کے مطابق بھی دے سکتے ہیں ، کشمش کے نصاب کے مطابق بھی دے سکتے ہیں ۔ جتنا آپ اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے ، اتنا ہی آپ کا فائدہ ہے ، خیر کے کاموں میں بھی لالچ کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ آخرت میں اجر ملے ۔کوشش کریں کہ صدقہ فطر رمضان کے پہلے عشرہ میں ہی دے دیں تاکہ وقت پر تیاری کرکے غریب ، مسکین ، یتیم بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہو جائیں۔ اسی طرح بعض لوگ کمزوری ، بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے تو وہ فدیہ دیں گے ۔ فدیہ کے مسائل بیان بھی ہوتے ہیں، سیکھنے بھی چاہئیں۔ فدیہ بھی واجب کے درجے میں ہے ۔ ایک روزے کا فدیہ کم ازکم صدقہ فطر کے برابر ہوتاہے ۔ اسی طرح کبھی کبھی کوئی نذر مان لیتا ہے کہ میرا فلاں کام ہو گیا تو میں اتنے پیسے اللہ کی راہ میں خرچ کروں گا ۔ نذر کو ادا کرنا بھی واجب ہے ۔البتہ نذر ماننا جائز ہے لیکن پسندیدہ عمل نہیں ہے ۔ ایک بڑی دلچسپ حدیث میں حضورﷺ نے فرمایا کہ نذر ماننا اللہ کے فیصلے کو ختم نہیں کر سکتا ۔ البتہ اللہ کی اپنی مشیت کے معاملات ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی نفلی صدقات بھی ہیں جن میں خیرات وغیرہ شامل ہے ۔ خیرات کا لفظ برا نہیں ہے قرآن کریم میںہے :
{فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط}(البقرۃ:148)
’’تو (مسلمانو!) تم نیکیوں میں سبقت کرو۔‘‘
فلاحی کاموں کے لیے ، غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، بیواؤں کی مدد کے لیے جو کچھ ہم اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں وہ خیرات ہے ۔یہ نفلی صدقات ہیں ۔
زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ فرض ہے ۔ ضروری نہیں کہ رمضان میں ہی دی جائے گی بلکہ نصاب پر ایک سال پورا ہو گیا تو زکوٰۃ فرض ہو جائے گی ۔ لوگ زیادہ ثواب کی نیت سے رمضان میں ہی دیتے ہیں تو یہ بھی ٹھیک ہے ۔ زکوٰۃ کے معاملے میں اہم بات یہ ہے کہ حلال کے مال سے ادا ہو ، حرام مال سے زکوٰۃ اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگی ۔ احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بھی پاک ہے اور پاک چیزوں کو قبول فرماتاہے ۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا حرام مال سے پلا ہوا جسم جہنم کا مستحق ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ یہ جوبعض لوگوں کا خیال ہے کہ دن بھر حرام خوری کرتے رہو، سود خوری کرتے رہو ،لوگوں کا مال لوٹتے رہو اور شام میں جا کر چار غریبوں کو کھاناکھلا دو اور افطار کرا دوتو یہ خیال باطل ہے کہ اس طرح ان کی حرام کی کمائی حلال ہو جائے گی ۔ صدقات و خیرات کے معاملے میں نیت کا خالص ہو نا بھی ضروری ہے ۔ فرمایا :
((انماالاعمال بالنیات))
نیت یہ ہو کہ میں صرف اللہ کی رضا کے لیے دے رہا ہوں ، لوگوں کی خوشنودی یا دکھاوا مقصود نہ ہو ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
((من تصدق یرای فقد اشرک)) ’’جس نے دکھاوے کا صدقہ دیا اس نے شرک کیا۔‘‘
اللہ کو خوب معلوم ہے کون کس نیت سے دے رہا ہے ۔ صرف اللہ کو پتا ہونا چاہیے ۔ پھر یہ کہ جب ہم اللہ کی راہ میں خرچ کریں تو سب سے پہلے اپنے قریبی لوگوں کو ترجیح دیں ۔ حدیث میں آتاہے کہ سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دیکھو ان میں سے کوئی مستحق ہے تو ان کو دو ۔ دوسری حدیث میں ہےاس کا دہرا ثواب ہے ۔ ایک صدقہ کا ثواب اور دوسرا رشتہ داری کا حق ادا کرنے کا ثواب ۔ آج خیراتی ادارے بن رہے ہیں ، دور دراز علاقوں میں جاکر خیرات تقسیم ہو رہی ہے ، تصویریں بن رہی ہیں میڈیا پر دنیا کو دکھایا جارہا ہے لیکن اپنے پڑوس میں اپنا بھائی ضرورت مند ہے اس کو کوئی نہیں پوچھ رہا ۔ کراچی میں کچھ لوگوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ جناب آپ تیس چالیس منٹ کی تقریر کرتے ہیں دوچار منٹ آخر میں گھریلو ملازمین کے حقوق پر بھی بات کرلیں ۔ گھریلو ملازمین میں چوکیدار ہے ، کوئی ڈرائیور ہے ، کوئی خانسامہ ہے ، کوئی مالی ہے ۔ اسی طرح آفس کے ملازمین ہیں ، ان کے بارے میں ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ان کو ہم کتنی سیلری دے رہے ہیں اور آج اخراجات کتنے بڑھ گئے ہیں ۔ رشتہ داروں کے بعد ان ملازمین کا حق ہے ۔ اگر ان میں سے کوئی مستحق ہے تو اس کو دیں ۔ اسی طرح آج اللہ کا دین مغلوبیت کے دور سے گزر رہا ہے ، آج اللہ کی کتاب سے دوری ہے ، شریعت سے دوری ہے ۔ اللہ کے دین کے لیے اللہ کی کتاب کی تعلیم کے لیے خرچ کرنا بھی ترجیح میں شامل ہونا چاہیے ۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: بے شک مال میںزکوٰۃ کے علاوہ بھی حصہ ہے۔ یہ نہیں کہ گن گن کر زکوٰۃ ادا کر دی تو بس کافی ہوگیا ، ذرا سوچئے کہ اگر اللہ نے بھی ہمیں گن گن کر دینا شروع کر دیا تو ہمارا کیا حشر ہوگا ۔ لہٰذ اگن گن کر نہیں بلکہ آگے بڑھ بڑھ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے ۔ اللہ غیور ہے وہ آخر ت میں تو دے گا ہی لیکن وہ دنیا میں بھی لوٹا تا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ ہر دن اللہ کی طرف سے دو فرشتوں کا نزول ہوتا ہے ۔ ایک دعا کرتاہے یا اللہ جس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اس کو مزید عطا کر ۔ دوسرا کہتا ہے جس نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکا تو اس کا رزق روک دے ۔ اللہ تعالیٰ  ہمیں خرچ کرنے والوں میں شامل فرمائے ۔ آمین !
شھرالمواساۃ

اللہ کے پیغمبر ؑ نے رمضان کو شہر المواسات یعنی غمخواری کا مہینہ قرار دیا اور حضورﷺ تورحمت اللعالمین ہیں۔ ان سے بڑھ کر مخلوق کے درد کو کون محسوس کر سکتا ہے ۔ حضور ﷺ عام حالات میں بھی اللہ کی راہ میں اتنا خرچ کرتے تھے کہ کبھی زکوٰۃ دینے کی نوبت ہی نہیں آئی ۔ یعنی اتنا مال جمع ہی نہیں ہوا کہ زکوٰۃ لگتی ۔ حدیث میں ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے اور حضور ﷺ جبرائیل امینؑ کے ساتھ قرآن کا دور فرماتے تو آپ ﷺ کی سخاوت والی کیفیت تیز رفتار آندھی سے بھی بڑھ جاتی ۔ روزہ جہاں روح کو بیدار کرکے بندے کو اللہ سے جوڑتا ہے وہاں یہ اللہ کے بندوں سے جڑنے کا ذریعہ بھی بنتاہے ۔ روزہ رکھ کر ہمیں  غریبوں مسکینوں کی بھوک پیاس کا اندازہ بھی ہو جاتاہے ، ہمیں ان کے دکھ درد کو محسوس کرنے کا موقع بھی ملتا ہے اور اپنے مال میں سے ان پر خرچ کرنے کی ترغیب ملتی ہے ۔ اسی لیے حضور ﷺ نے رمضان کو شھرالمواساۃ بھی قرار دیا ۔ یہ پورا مہینہ ہمیں وہ مواقع فراہم کرتا ہے کہ ہم غریبوں ، مسکینوں اور ضرورتمندوں کے درد کو محسوس کریں اور ان پر خرچ کریں ۔ حضور ﷺ کی سخاوت والی کیفیت اس مہینے میں تیز رفتار آندھی سے بھی بڑھ جاتی تھی ۔
انسان کی سب سے بڑی ضرورت صرف کھانا پینا اور جسمانی خواہشات کی تکمیل نہیں ہے ۔ فرعون ، نمرود ، قارون ، ابو جہل ، ابو لہب کے پاس سب کچھ تھا لیکن ہدایت نہیں تھی توراندہ درگاہ ہوگئے۔ہم ہر نماز میں اللہ سے یہی ہدایت مانگتے ہیں : 
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ0}
’’اے اللہ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے۔‘‘
یہ قرآن رمضان میں ہی نازل ہوا اور ا س کے بارے میں اللہ کے نبیﷺ فرماتے ہیں : 
((وھو الصراط المستقیم ))’’یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘
یہ قرآن انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ صحابہ کرامj پوری رات رمضان میں قرآن کے ساتھ گزارتے تھے ، اس کو پڑھنا ، اس کو سمجھنا اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کرنا مطلوب ہے ۔ یہی قرآن انسان کو سیدھا راستہ دکھاتاہے ۔ آج دنیا میں انسانوں کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ انہیں انصاف ملے ، ان کو حقوق ملیں ، ظلم و ستم کا خاتمہ ہو ، بندوں کی غلامی سے چھٹکارا ملے ، باطل نظام سے جان چھوٹے ۔ امن و امان ہو ، دین پر عمل پیرا ہونے کا موقع ملے ۔ آج موبائل میں مسلسل میسجز آرہے ہیں کہ اپنے فلیٹس کی سکیورٹی بڑھائیں ، بہت لوٹ مار ہورہی ہے ، نئے نئے گینگز پیدا ہورہے ہیں ، جان و مال محفوظ نہیں ہے ۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جس کی عیاشیاں ختم نہیں ہورہیں اور دوسری طرف لوگ آٹے کی لائن میں لگے ہیں ۔ ایک طرف اشرافیہ کے کتوں کا علاج بھی باہر کے مہنگے ہسپتالوں میں ہوتا ہے اور دوسری طرف غریب کے بچے کو دوائی بھی میسر نہیں ہے ۔ اسی ظلم کے نظام کے خلاف اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفیﷺ کو کھڑا کیا۔ فرمایا : {وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ط} (الشوریٰ:15) ’’اور (آپؐ کہہ دیجیے کہ) مجھے حکم ہوا کہ مَیں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔‘‘
باطل کا نظام ہٹانے کے لیے ہی بدر کا میدان سجا اور فتح مکہ کے بعد باطل کو شکست ہوئی اورعدل و انصاف کا نظام قائم ہو گیا ۔ لیکن حق اور باطل کے درمیان فرق کو واضح کرنے والی کتاب یہ قرآن تھی جس کے ذریعے اللہ کے رسول ﷺ نے صحابہ کرام کی تربیت کی اور ایک انقلابی جماعت تیارہوئی۔ اسی لیے اس قرآن کو الفرقان کہا گیا ۔ قرآن رمضان میں نازل ہوا ، رمضان میں ہی بدر کا معرکہ سجا اور رمضان میں ہی مکہ فتح ہوا ۔
{وَرَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللہِ اَفْوَاجًا(2)}(النصر)’’اور آپؐ دیکھ لیں لوگوں کو داخل ہوتے ہوئے اللہ کے دین میں فوج در فوج۔‘‘
جب حق کا نظام قائم ہو گیا تو اس کی برکات تھیں کہ کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ملتا تھا اور اکیلی عورت ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتی تھی اور کوئی اس کو حراساں کرنے کی جرأت نہیں کرتاتھا ۔ شہریوں کو حقوق ان کی دہلیز پر حاصل تھے ۔ حضرت عمرؓ کے دور میں ایک بوڑھا یہودی بھیک مانگ رہا تھا ۔ آپؓ نے پوچھا کیوں مانگتے ہو ۔ کہا بوڑھا ہو گیا ہوں کما نہیں سکتا ۔ آپؓ نے فرمایا جب تک تو کمانے کے لائق تھا ریاست کو جزیہ دیتا تھا اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ تیری کفالت کرے ۔ فرمایا تو اپنے گھر جا ۔ تیراوظیفہ تجھے گھر میں ہی ملا کرے گا ۔ اسی طرح آج کے دور میں بھی انسانوں کو ان کے حقوق ملیں گے جب حق کا نظام غالب ہو گا ۔ ہم اور آپ بڑے آرام سے جمعہ کا خطاب کر لیتے ہیں ،سن لیتے ہیں ۔ بہت سے لوگ جن کو بھوک نے ستا رکھا ہے، جن کے بچوں کو دوائی نہیں مل رہی، وہ بے چارے ٹینشن میں کہاں دین کی بات سمجھیں گے ۔ اس ظلم کا خاتمہ حق کے نظام سے ہوگا ۔ عدل کا نظام ہوگا ، لوگوں کو جینے کا حق ملے گا تبھی بندے اللہ سے لو لگائیں گے۔ تبھی تو اللہ کو راضی کر سکیں گے۔ تبھی آخرت کے بارے میں سو چ سکیں گے ۔ یہ اتنا پیارا دین ہے، روزہ رکھوا کر بھی مخلوق کی خدمت پر توجہ دلاتا ہے اور اس ماہ مبارک میں فتح مکہ کروا کر تمہارے سامنے عدل کے نظام کے قیام کی جدوجہد کو رکھتا ہے جو انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت ہے اورانسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے۔