(زمانہ گواہ ہے) سود کے خلاف عدالتی فیصلہ اور ملکی معاشی بحران - محمد رفیق چودھری

10 /

ہمیں اس طرح کے حکمران ملے ہیں جن کو ملک کے نظریہ سے کوئی دلچسپی

ہے اور نہ ہی ملک اور قوم سے کوئی ہمدردی ہے ۔ وہ صرف عیاشی کرنے اور

اپنی کرپشن کا تحفظ کرنے کے لیے اسمبلیوں میں آتے ہیں : ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

جب تک ہم اپنے اصل نظریہ کی طرف لوٹ کر نہیں جاتے جس کی بنیاد پر ملک

قائم ہوا تھا تب تک سیاسی بحران ختم ہوں گے اور نہ ہی معاشی بحرانوں سے

ملک نکلے گا : رضاء الحق

سود کے خلاف عدالتی فیصلہ اور ملکی معاشی بحران کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:دوسال قبل رمضان المبارک کی اسی طرح کی مبارک ساعتوں میں فیڈرل شریعت کورٹ نے حرمت سود کے حوالے سے تاریخ ساز فیصلہ دیا کہ پاکستان کی معیشت کو سود سے پاک کیا جائے ۔ اور اس کو اسلامی حدودمیں لانے کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ نے تین سال کی مہلت دی تھی۔ 26 رمضان کو قمری اعتبار سے دو سال ہو جائیں گے۔ اب تک اس حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی ہے اور اگر نہیں ہوئی تو اس کی کیا وجہ ہے ؟
ڈاکٹرفرید احمد پراچہ:یہ بہت ضروری تھا کہ اس موقع پر اس طرح کا پروگرام کیا جائے اور حکومت کو یاد دلایا جائے کہ اس کے ذمہ عدالت نے کچھ کام لگائے تھے ۔ ویسے تو عدالت نے 2027ء تک کا ٹائم دیا تھا لیکن اس سے قبل بھی کچھ کرنے کے کام حکومت کے ذمہ لگائے تھے۔ جیسا کہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ 30 جون 2022ء  تک10 قوانین کالعدم ہو جائیں گے جن کو پہلے فیصلوں  میں بھی کالعدم قرار دیا گیا تھا ۔ اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ۔ پھر 31 دسمبر 2022 ء کا عدالت نے ٹائم دیا تھا کہ اس سے پہلے سارے سودی قوانین کو ختم کرکے ان کے متبادل قانون سازی کی جائے گی ۔ اس پر بھی عمل درامد نہیں ہوا۔اس کے بعد31 دسمبر 2027ء کی حتمی تاریخ دی گئی کہ اس سے پہلے پورے معاشی نظام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے گا ۔ حکومت نے اس پر کوئی عمل نہیں کیا ۔ بجائے اس کے یہ ہوا کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر شرح سود مزید بڑھاکر 22 فیصد کر دی گئی کہ اس سے افراط زر ختم ہو گی ۔ ہم نے گورنر سٹیٹ بینک سے ملاقات کرکے انہیں دعوت دی کہ آپ ماہرین کو بلا کر ہمارے ساتھ گفتگو کرلیں کہ ایسا کون سا معیشت کا اصول ہے کہ جس کے مطابق اپ شرح سود بڑھا دیں تو افراط زراور مہنگائی میں کمی ہوگی ؟پہلے حکومت سٹیٹ بینک سے قرض لیتی تھی ،پھر کمرشل بینکوں سے قرضے لینا شروع کیا گیا ۔ اب حکومت عوام کے پیسے سے 22 فیصد سود ان بینکوں کو دے رہی ہے جو کہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہیں ۔اس سے مہنگائی میں بھی بے تحاشا اضافہ ہوا اور سرمایہ کاری کے بھی سارے راستے رُک گئے ، فیکٹریاں ، کارخانے بند ہوتے گئے کیونکہ لوگوں نے اپنا پیسہ بینکوں  میں رکھنا شروع کر دیا ۔ بہرحال سٹیٹ بینک سمیت 27 اداروں نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں جمع کروا دیں جن میں سے 14 درخواستیں تو واپس ہو چکی ہیں لیکن 13 ابھی بھی موجود ہیں ۔ یہ امتیازی سلوک بھی صرف وفاقی شرعی عدالت کے ساتھ روا رکھا ہے کہ جیسے ہی اس کے فیصلے کے خلاف درخواست جمع کروائی جاتی ہے تو از خود سٹے آرڈر ہو جاتاہے ۔ باقی تمام صورتوں میں سٹے آرڈر لینا پڑتا ہے ، اس کے لیے باقاعدہ بحث ہوتی ہے ۔ اب کافی عرصہ ہو گیا سپریم کورٹ کا شریعت اپیلٹ بنچ بن ہی نہیں سکا کہ وہ سماعت کرے ۔ ہم نے چیف جسٹس سے بھی رابطہ کیا کہ آپ قرآن و حدیث کے حوالے دیتے ہیں تو اسی قرآن میں سود کو اللہ نے اپنے اور اپنے رسولﷺ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے ۔ آپ شریعت اپیلٹ بنچ بنا دیں تاکہ سماعت شروع ہو سکے ۔ اگر آپ نہیں بنا رہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اس جنگ کو ختم کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ بہرحال حکومت اور دوسرے اداروں کی بدنیتی کی وجہ سے اس معاملے میں تاخیر ہو رہے ہی ۔ صرف آئی ایم ایف کے پروگرامز کے تحت ساری پالیسیز چل رہی ہیں۔ روزقیامت جس کے پاس جتنا اختیار ہے اس کے مطابق جواب دینا پڑے گا ۔
سوال: پاکستانی معیشت کی حالت گزشتہ کئی دہائیوں سے ICUمیں پڑے مریض کی طرح ہے کہIMFسے قسط کی صورت میں آکسیجن ملتی ہے تو یہ ملک چلتا ہے ۔ 1980ء کے بعد سے اب تک یہ 24 واں پروگرام ہے جو حکومت IMFسے لے رہی ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان کی معیشت ٹھیک کیوں نہیں ہوئی ؟
رضاء الحق :IMFسے رجوع کرنے کا فائدہ تب ہوتا جب یہ ادارہ ملکوں کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے قائم کیا گیا ہوتا ۔ IMFاور ورلڈ بینک جیسے ادارے دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی استعماری ایجنڈا کے تحت بنائے گئے تھے جن کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کی معیشت کو کس طرح اپنے کنٹرول میں کرنا ہے اور کس طرح ان کے ذریعے بعض ممالک کو جکڑ کر ان کو تباہ و برباد کرنا ہے ۔ IMFکے ایک سابق ڈائریکٹر نے اپنی کتاب Confessions of an Economic Hit Man میں لکھا ہے کہ IMF مختلف ممالک کوجو سہانے خواب دکھا کر قرضہ دیتاہے اس کے پیچھے اس مقصد ان ممالک کو غلام بنانا ہوتا ہے ۔ پاکستان کے معاملے میں ہم نے دیکھا کہ ہر دفعہ IMF اپنی شرائط سخت سے سخت کر دیتاہے ۔گزشتہ دور حکومت میں جب 6thریویو لیا گیا تو اس وقتIMF نے سٹیٹ بینک کو خود مختار بنانے کی شرط رکھی تھی اگرچہ یہ عمل 1990 سے IMFکی مرضی سے جاری تھا لیکن چھٹے ریویو کے دور میں سٹیٹ بینک کو جو خود مختاری ملی اس کے نتیجہ میں شرح سود کو بڑھانے کا مکمل اور غیر مشروط اختیار بھی اس کے پاس چلا گیا اور اس نے بڑھا کر 22 فیصد کر دیاحالانکہ شرح نمو کم ہورہی تھی اور اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں ۔ ایسی صورت میں دنیا بھر کی حکومتیں شرح سود کم کرتے ہوئے صفر تک لے آئیں لیکن پاکستان میں IMFکی مرضی سے بڑھا کر 22 فیصد کر دیا جس سے ایک طرف مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور دوسری طرف پاکستان مزید سودی قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے ۔ اب خبریں یہ آرہی ہیں کہ پاکستان IMFسے اگلا پروگرام مصر کے ماڈل پر 8 بلین ڈالرز کا لے رہا ہے ۔ اس وقت پاکستان پر بیرونی قرضہ 132 بلین ڈالرز ہے ۔ ہمارا پچھلا بجٹ جوکہ ساڑھے 14 کھرب روپے کا تھا نصف سے بھی زیادہ سود اور قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوا ۔ ہمارے ریو نیو صرف 60 فیصد بجٹ پورا کر پاتے ہیں باقی 40 فیصلے کے لیے ہمیں مزید قرضے لینے پڑتے ہیں ، اگر وہ قرض ہم 22 فیصد شرح سود پر لے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان معاشی طور پر تیزی سے ڈوب رہا ہے ۔ پھر IMFیہ شرائط بھی لگا دیتا ہے کہ پٹرول ، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھاؤ ۔ ابھی عام ریٹیلر پر بھی کم ازکم 1200 روپے کا ٹیکس لگا دیا جبکہ اشرافیہ پر کوئی ٹیکس نہیںہے ۔ حالیہ رپورٹ ہے کہ پاکستان ہر سال افسروں کو مراعات پر 18 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے ۔ 800 ارب روپے سے زائد پینشنرز پر خرچ ہوتاہے جن میں سے 70 فیصد سے زائد عسکری اداروں سے ہیں ۔ جب بجٹ سودی قرضوں پر زیادہ خرچ ہوگا تو ڈیفنس کا بجٹ کم ہو گا اور اس کے نتیجہ میں ہمارا دفاع بھی کمزور ہوگا ۔ بہرحال IMFکے چنگل میں پھنسنے کے بعد ہماری اکانومی مسلسل خودکشی کی طرف جارہی ہے اور مزید بھی اگر ہم نے IMFپر انحصار کیا تو پھر ملک کا بچنا مشکل ہو جائے گا ۔
سوال: پی ڈی ایم کی حکومت کے دور میں پاکستانی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسلٹیشن کونسل SIFC قائم کی گئی۔اس کی پالیسی کے تحت وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملکی ایئرپورٹس کی بھی نجکاری کرنے جارہے ہیں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ملکی اثاثوں کی نجکاری سے پاکستان کی معاشی مشکلات دور ہو جائیں گی ؟
ڈاکٹرفرید احمد پراچہ:یہ جو کاسمیٹک سی کارروائیاں ہیں ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے چند بنیادی فیصلے لینے کی ضرورت تھی جو کہ نہیں لیے جارہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ IMFسے قرض  ہم کیوں لے رہے ہیں اور کہاں خرچ کر رہے ہیں ؟آپ دیکھیں کہ جس ملک میں دریا ہیں ،دھوپ ہے ، ہم مفت بجلی پیدا کر سکتے وہاں ہم نے مہنگے تھرمل معائدہ کے تحت لگائے کہ وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں ہم ان کو ڈالرز میں پیمنٹ کریں گے اور فیول ایڈجسٹمنٹ بھی دیں گے ۔یہ ہمیں 60 روپے فی یونٹ بجلی دے رہے ہیں حالانکہ 60 روپے یونٹ میں نہ تو کوئی انڈسٹری چل سکتی ہے اور نہ ہی زراعت آگے بڑھ سکتی ہے ۔اسی طرح ہمارے ساتھ انڈیا ہے وہ اپنی گاڑیاں بنا کر ایکسپورٹ کر رہا ہے جبکہ ہم گاڑیاں اسمبل کرنے کے لیے جاپان سے پرزے منگواتے ہیں اور جاپانیوں کو ڈالرز میں پیمنٹ کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم جو تیل منگواتے ہیں اس کی ادائیگی بھی ہم ڈالرز میں کرتے ہیں ۔ اب ایکسپورٹ تو ہم کر نہیں رہے تو ڈالرز آئیں گے کہاں سے ؟ لہٰذا ہم IMFسے قرضہ لیتے ہیں ۔ بجائے اس کے اگر ہم ایران سے سستا تیل لیں ، مہنگے تھرملز کی بجائے اپنی بجلی پیدا کریں ، اپنی گاڑیاں بنائیں اور اپنی ایکسپورٹ بڑھائیں تو ہمیں  IMFکے پاس جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اسی طرح فضول خرچے ہیں ۔ وفاقی حکومت کے پاس 90ہزار گاڑیاں ہیں جو انہوں نے ججوں، جرنیلوں، افسروں اور پارلیمنٹرینز کودی ہیں ، ان تمام گاڑیوں کو مفت پٹرول دیا جاتاہے اور اس کی قیمت عوام بھرتے ہیں ۔ 17ویں  گریڈ والے افسر کے پاس دد ڈھائی کروڑ والی گاڑی ہوتی ہے ۔ جب تک یہ فضول خرچیاں کم نہیں ہوتیں تب تک آپ نجکاری کرلیں ، کچھ بھی کرلیں معیشت ٹھیک نہیں ہوگی۔نجکاری کے نام پر آپ نے اپنی موٹرویز بھی بیچ دیں، ایئرپورٹس بھی دے دیے۔وہ ادارے جن کے ساتھ ملک کی سلامتی کا تعلق ہے ان کو بھی آپ دے رہے ہیں تویہ پالیسی بہتر نہیں ہے۔
سوال: سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو اس سال تقریباً 28 ارب ڈالر قرضہ بمعہ سود ادا کرنا ہے،اگلے تین سال میں 78 ارب ڈالرز پاکستان کوادا کرنا ہے ، ایک طرف ملک IMFکے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے دوسری طرف ہم چائنہ کے بھی مقروض ہو چکے ہیں ۔ ان حالات سے پاکستان کیسے نکل پائے گا ؟
رضاء الحق : معاشی اور سیاسی پالیسی سے زیادہ اہم اور بنیادی کسی ملک کی نظریاتی اور اخلاقی پالیسی ہوتی ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ نظریاتی اور اخلاقی لحاظ سے ہمارا ملک اپنی اصل سے بالکل ہٹ چکا ہے ۔ جس کا جس قدر اختیار ہے وہ اسی قدر ملک اور قوم کو لوٹ رہا ہےاور یہی چیز ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ چین نے اپنی بنیاد جس نظریہ پر رکھی تھی وہ اب بھی اس پر قائم ہے ، وہاں کرپشن زیرو ٹالرنس ہے ۔ انہوں نے ملکی مفاد کے مطابق معاشی پالیسی بنائی اور اس میں وہ کامیاب ہیں ۔ اسی طرح اہل مغرب نے اپنے اپنے ملک اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائی اور سرمایہ دارانہ نظام کے تحت پوری دنیا کو کنٹرول کیا ۔ ہمارے پاس سب سے عمدہ نظام اور نظریہ تھا لیکن ہم اس پر قائم نہیں رہ سکے ۔ ہمیں یہ تنبیہ کر دی گئی تھی :
{وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی(124)}(طٰہٰ) ’’اور جس نے میری یاد سے اعراض کیا تو یقیناً اُس کے لیے ہو گی (دنیا کی)زندگی بہت تنگی والی‘اورہم اٹھائیں گے اسے قیامت کے دن اندھا (کرکے)۔‘‘
جب ہم نے اللہ کے دیے ہوئے نظام کو چھوڑ دیا تو اب ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کیا کریں ، کبھی ادھر جاتے ہیں ، کبھی اُدھر جاتے ہیں لیکن قدم سنبھل نہیں پارہے اور نہ ہی سنبھل سکتے ہیں جب تک کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ نہ آئیں جس کی بنیاد پر ہم نے ملک حاصل کیا تھا ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 1948 ءمیں سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر واضح کہا تھا کہ مغرب کا معاشی نظام لاینحل مسائل کا باعث بنا ہے۔ ہمیں اسلام کے اصولوں کے مطابق اپنا معاشی نظام ترتیب دینا ہوگا اور میں اس کام کی نگرانی کروں گا ۔ لیکن قائد کی وفات کے بعد ہم ان کی پالیسی پر قائم نہیں رہ سکے ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اب ملک 132ارب ڈالرز کابیرونی قرضہ دینا ہے اور اس سے دگنا اندرونی قرضہ ہے ۔ کم ازکم اندرون ملک جو قرضہ ہے اس پر 22 فیصد سود دینے کی کیا ضرورت ہے ۔ وہ تو ختم کیا جاسکتاہے ۔ وفاقی شرعی عدالت نے بھی یہی فیصلہ دیا تھا کہ ملکی معیشت کو سود سے پاک کیا جائے اور یہ عمل اندرون سے شروع کیا جا سکتا ہے ۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو پھر نہ ہمیں امریکہ کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی IMFکی۔
سوال: اگر ہم پاکستان کے ماضی پرنظر ڈالیں تو کبھی کسی ٹیکنو کریٹ کو وزیر خزانہ بنا دیا جاتاہے ، کبھی کسی بینکر کو وزیرخزانہ بنا دیا جاتا ہے، کبھی IMF کے حاضر سروس ملازم کو گورنرسٹیٹ بینک لگا دیا جاتا ہے، کبھی ٹیکس کنسلٹنٹ کو FBR کا چیئرمین لگا دیا جاتا ہے ، اب بھی ہماری حکومت نے ایک ٹیکنو کریٹ کو وزیر خزانہ بنا دیا ہے ۔ یہ بتائیں کہ ان پالیسیوں سے کبھی غریب آدمی کو بھی ریلیف مل سکے گا ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: وہ ایک شعر ہے کہ؎
اب روزنوں سےآتی ہے باہر کی روشنی
گل کر گیا ہے کون میرے گھر کی روشنی
ہمارے ہاں جو نظریاتی بحران ہے اس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو یہاں بڑے عہدوں پر بھیجا جاتاہے جن کے پاس یہاں کا شناختی کارڈ بھی نہیں ہوتا ۔ معین قریشی کوجب یہاں بھیجا گیا تو اس کے پاس پاکستان کی شہریت بھی نہیں تھی ۔ ایک دن کے اندر ان کا شناختی کارڈ بنایا گیا ۔ یہ جو باہر سے لوگوں کو بھیجا جاتاہے ، یہ باہر والوں کے ہی مقاصد پورے کرتے ہیں ان سے کسی بہتری کی توقع نہیں رکھنی چاہیے ۔ ہماری حکومتوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اسی ڈگر پہ ملک کو چلا رہے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں کسی بہتری کی کوئی امید نہیں ہے ۔ ہماری سرحدوں کے پاس ایران اور انڈیا گیس اور تیل نکال رہے ہیں جو کہ ہمیں نکالنا چاہیے تھا ۔ چائنہ ون روڈ ون بیلٹ اپنے عالمی مقاصد کے لیے بنا رہا ہے لیکن اس کا قرضہ پاکستان پر چڑھ رہا ہے ۔ کہا جارہا تھا کہ اس روڈ کے اردگرد انڈسٹریل زون بنے گا لیکن ابھی تک کہیں نظر نہیں آرہا اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کوئی ایسا اقدام نظر آرہا ہے کہ ہم اس منصوبے سے اپنی صنعت کو ترقی دے سکیں یا پاکستان کی زراعت کو کوئی فائدہ پہنچے۔ چاہے ٹیکنوکریٹ کو لائیں یا جس کو بھی لائیں  اس کا ہمیں کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے ۔
سوال: پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ جیسے آئینی ادارے موجود ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ ادارے پاکستان کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے کوئی فعال رول ادا نہیں کر پارہے ؟
رضاء الحق :یہ سب ہماری بدنیتی کا معاملہ ہے ۔ ہمارے آئین میں لکھا ہوا ہے : "No legislation will be done repugnant to the Quran and Sunnah"۔ لیکن آپ دیکھیں  کہ اکثر قانون سازی اس سے منافی ہورہی ہے ۔ یہاں  ٹرانسجینڈر بل بھی پاس ہو جاتاہے ، سودی قوانین بھی موجود ہیں ۔ تحفظ خواتین کے نام پر ایسا بل لایا جاتاہے جس سے بے حیائی اور بے راہ روی کو فروغ ملتا ہے ۔ کبھی گھریلو تشدد کے نام ایسا بل لایا جاتاہے جس سے ہمارا خاندانی نظام تباہ ہورہا ہے ۔ شاید ہماری پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ اس قدر نااہل ہیں کہ جب ان کے سامنے کوئی بل آتاہے تو بغیر دیکھے پاس کردیتے ہیں ۔ فیڈرل شریعت کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل بنانے کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ جو قانون سازی شریعت کے خلاف ہو اس کی اصلاح کی جائے ۔ اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہر قانون سازی کے متعلق اسلامی نظریاتی کونسل کانقطہ نظر بھی طلب کیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ اس ادارے نے آئین میںموجو دغیر شرعی قوانین کی اصلاح کے متعلق بہت سارا کام کیا ہوا ہے لیکن اس کی سفارشات پر کوئی عمل نہیں کیا جارہا کیونکہ آئین میں سقم رکھے گئے ہیںکہ اسلامی نظریاتی کونسل غیرموثر رہے ۔ اسی طرح وفاقی شرعی عدالت کو قائم کرتے ہی قانونی بیڑیاں پہنا دی گئیں ۔ پھر اس کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر ہوتے ہی سٹے ہو جاتاہے ۔ یہی معاملہ سود کے خلاف فیصلے پر بھی ہوا ۔ اب سپریم کورٹ درخواستوں پر سماعت کے لیے بنچ بنانے کو بھی تیار نہیں ہے ۔ یہی معاملہ ٹرانسجینڈر ایکٹ کے خلاف فیصلے پر بھی ہوا ۔ اس پر بھی اب سپریم کورٹ سماعت کرنے کو تیار نہیں ۔ جب تک اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت جیسے اداروں کو قانونی لحاظ سے بااختیار نہیں بنایا جائے گا تو یہ اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے ۔
سوال:پاکستان کو بیک وقت سیاسی اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے آپ کی نظر میں اس سے نکلنے کا حل کیا ہے؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: جس طرح کی غیر نمائندہ حکومتیں 8فروری کے الیکشن کے بعد بنی ہیں تو یہ صرف سٹیٹس کو کو لے کر چل سکتی ہیں ۔ اس طرح کے ممبران اسمبلی سے کیا توقع رکھیں جن کے سامنے اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات رسی سے باندھ کر میزوں پر رکھی جاتی ہیں اور وہ ان کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے ۔ اس طرح کے حکمران ملے ہیں کہ جن کو ملک کے نظریہ سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ملک اور قوم سے کوئی ہمدردی ہے ۔ وہ صرف اپنا سٹیٹس انجوائے کرنے ، پروٹوکول انجوائے کرنے اور اپنی کرپشن کا تحفظ کرنے کے لیے اسمبلیوں میں آتے ہیں ۔ ایسے حکمران ہی ہمارے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی بحرانوں کی اصل وجہ ہیں ۔ یہ بحران بڑا گہرا ہے اور ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔ معیشت اسی طرح چلتی رہے گی ، سود بڑھتا رہے گا ۔ حل قرآن نے بتا دیا ہے کہ : ’’اگر یہ لوگ ایمان لائیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم ان پر زمین و آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ مگر ہمارےحکمران IMF کی یقین دہانی پر ملک کا بیڑا غرق کر رہے ہیں لیکن اللہ کی یقین دہانی پر انہیں کوئی یقین نہیں ہے ۔ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ بحرو برمیں جو فساد پھیلا ہوا ہے کہ انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔ عوام اپنے ہاتھوں سے ایسے لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو صرف تباہی لاتے ہیں ۔
رضاء الحق : ایمان اور تقویٰ بنیادی چیز ہے۔ مسلمانان پاکستان کے لیے سہولت یہ ہے کہ ہمارا ملک اسلام کے نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے ۔ 73 کے آئین سے دو شقیں نکال دیں تو باقی سارا آئین اسلامی بن سکتاہے ۔ مسئلہ اس کے نفاذ کا ہے ۔ لیکن اگر نفاذ کرنے والے ہی بے ایمانی سے کام لیں گے اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے ملکی اور قومی مفاد کو بھینٹ چڑھا دیں گے تو ملک کبھی ترقی نہیں کر سکے گا ۔ پھر سیاسی بحران بھی ہوگا ، معاشی بحران بھی آئیں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم واپس اپنی اصل کی طرف لوٹ کر نہیں جاتے تب تک ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکے ۔