(گوشۂ تربیت) کسبِ حلال - سعد عبداللہ (استاد قرآن انسٹیٹیوٹ لطیف آباد)

10 /

کسبِ حلال

سعد عبد اللہ (استاذ قرآن انسٹیٹیوٹ ،لطیف آباد، حیدر آباد)

ہاتھ سے کما کر کھانا اور کسی ہنر، کاریگری اور صنعت کو معاش کے طور پر اختیار کرنا کوئی معیوب بات نہیں بلکہ سوال سے بچنے اور رزقِ حلال کمانے کی نیت سے پیشہ اختیار کرنا بڑی فضیلت اور ثواب کا کام ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ سچے اور امانت دار تاجر کا انجام قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ نمونے کے طور پر چند انبیاءِ کرام ؑ کے پیشے اور ذریعہ معاش ذیل میں درج ہیں:
حضرت آدم ؑ ہل چلاتے تھے۔ حضرت نوح ؑ بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ حضرت ادریس ؑ کپڑے سیتے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ حضرت شعیب ؑ و موسیٰ ؑ بکریوں کی نگہبانی کرتے تھے۔ حضرت داؤدؑ لوہے کی زِرہ بناتے تھے۔ حضرت سلیمان ؑ امورِ سلطنت چلاتے تھے۔ ہمارے نبی حضرت محمدﷺ مقامِ اجیاد پر بکریوں کی نگہبانی فرماتے تھے۔
سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{یٰٓــاَیـُّـہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًاز وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِطاِنَّـہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(168)} ’’ اے لوگو! کھاؤ جو چیزیں زمین میں ہیں حلال اور پاکیزہ اور شیطان کے نقشِ قدم پر مت چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
حضرت امِ سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ فجر کی نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یہ دعا مانگتے: ((اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلًا ))(ابن ماجہ)’’ اے اللہ! میں آپ سے علمِ نافع، پاکیزہ و حلال رزق اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
ذیل میں حلال اور پاکیزہ رزق کے حصول کے لیے چند رہنما اصول درج کیے جا رہے ہیں جنہیں اختیار کر کے دنیوی نفع کے ساتھ آخرت کی فلاح بھی حاصل کی جا سکتی ہے:
تجارت میں برکت :
رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ خریدنے اور بیچنے والوں نے اگر سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول کر بیان کر دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے اور اگر کوئی بات چھپا رکھی تو برکت ختم کر دی جاتی ہے۔‘‘(بخاری)
شراکت داری میں نصرتِ خداوندی:
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جب تک دو شراکت داروں Partners میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہیں کرتا ، میں ان کے درمیان تیسرا ہوتا ہوں (یعنی میری تائید و نصرت اور برکت ان کے ساتھ شاملِ حال رہتی ہے)، لیکن جیسے ہی کوئی ایک خیانت کرتا ہے میں ان کے درمیان سے نکل جاتا ہوں۔ المستدرک علی الصحیحین للحاکم
پورا پورا ناپ / تول کر دینا:
{وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (35)} (بنی اسرائیل)’’اور جب (کوئی چیز) ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرو اور (جب تول کردو) تو ترازو سیدھا رکھ کر تولو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے۔‘‘
{وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ (1) الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ (2) وَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ (3)}(المطففین)’’تباہی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے، جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں توپورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں، کیا یہ لوگ اس بات کا یقین نہیں رکھتے کہ وہ (مرنے کے بعد دوبارہ) ایک بڑے سخت دن کے لیے اٹھائے جائیں گے ، جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔‘‘
حضرت سعید بن قیس ؒ فرماتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی مقامِ ھجر سے کپڑے کا بنا ہوا سامان فروخت کرنے کے لیے آئے۔ نبیﷺ بھی ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے ایک پاجامے کا بھاؤ تاؤ فرمایا: میرے پاس ایک وزن کرنے والا شخص تھا جو اجرت لے کر وزن کیا کرتا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے اس وزن کرنے والے شخص کو نصیحت فرمائی:’’ تولو اور جھکتا تولو۔‘‘(سنن ترمذی)
عیب بتا کر مال فروخت کرنا:
حضرت ابو ہریرہ ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اناج کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے، آپﷺ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو انگلیوں پر تری آگئی۔ آپﷺ نے پوچھا:’’ اے اناج کے مالک! یہ کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: یا رسول اللہﷺ! یہ بارش میں بھیگ گیا۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ پھر تو نے اس بھیگے ہوئے اناج کو اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ دیکھ لیتے؟ (اور عیب پر آگاہ ہو جاتے) ‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص دھوکہ دے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ ‘‘(مسلم)
ایک اور جگہ آپﷺ نے فرمایا:’’ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو کوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو سوائے اس کے کہ وہ اس عیب کو اس کے سامنے واضح کر دے۔ ‘‘ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم)
قسمیں کھا کھا کر مال فروخت نہ کرنا:
سیدنا ابو قتادہ ؓ نے رسول اللہ ﷺکو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’تم لوگ خرید و فروخت میں زیادہ قسمیں کھانے سے بچو اس لیے کہ اس سے مال گھٹ جاتا ہے اور برکت ختم ہو جاتی ہے۔‘‘( مسلم)
دھوکہ دہی اور ملاوٹ سے بچنا:
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘( مسلم)
ذخیرہ اندوزی پر سخت دنیاوی اور اخروی پکڑ:
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جو شخص مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ اور تنگدستی کے مرض میں مبتلا فرمادیتے ہیں۔ ‘‘ (ابنِ ماجہ)
قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرنے کا وبال:
رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’ جس نے قیمتوں میں کسی قسم کی دخل اندازی کی تاکہ مسلمانوں پر چیزیں مہنگی کر دے تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ ایسے شخص کو قیامت کے دن آگ کے ہولناک حصے پر بٹھائے۔‘‘(مسند احمد بن حنبلؒ)
سلفِ صالحین
سلفِ صالحین کے زمانے میں جب مرد گھر سے کمانے کے لیے نکلتا تھا تو گھر کی خواتین اسے کہتی تھیں کہ حرام کمانے سے بچنا! کیونکہ ہم بھوک پر تو صبر کر سکتے ہیں مگر دوزخ کی آگ پر صبر نہیں کر سکتے۔
حرام آمدنی والے کی دعا قبول نہیں ہوتی:
نبی اکرمﷺ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ دور دراز کا سفر کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بکھرے بال اور غبار آلود کپڑوں والا بھی ہے۔ یہ شخص اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے:’’ اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار! لیکن اس کا کھانا بھی حرام، پینا بھی حرام، لباس بھی حرام اور حرام سے ہی اس کے جسم کی نشوونما ہوئی تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟‘‘( مسلم )