(منبرو محراب) سچی توبہ اور قرآن - ابو ابراہیم

10 /

سچی توبہ اور قرآن(سورۃ الزمر کی آیات 53تا55 کی روشنی میں)

 


مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے29 مارچ 2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
انسان خطاکار ہے ۔ہر انسان سے غلطی ہوسکتی ہے ، بڑے سے بڑے گناہ بھی سرزد ہو جاتے ہیں تو اب کیا کریں ؟ قرآن مجید اس حوالے سے رہنمائی دیتاہے ۔ فرمایا : 
{قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ ط اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاطاِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(53)}
’’(اے نبیﷺ!)آپ کہیے : اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے!اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔ یقیناً وہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ قرآن کا سب سے امید افزا مقام ہے ۔ احادیث میں ذکر آتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! سارے گناہوں کو اللہ معاف فرمادے گا یا معاف فرما نے پرقادر ہے ۔ حضور ﷺ فرمایا کہ اللہ چاہے تو سارے گناہوں کو معاف فرما دے۔صحابہؓ نے پھر پوچھا :یا رسول اللہ ﷺ !کیا شرک اور کفر بھی؟ حضور ﷺ فرمایا کہ ہاں بس شرط یہ ہے کہ بندہ توبہ کرلے ۔
سچی توبہ کیا ہے ؟ اللہ کی طرف بندہ پلٹ آئے ، اپنے گناہوں کی جہاں معافی مانگیں وہاں آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کرے اور اللہ کی کتاب کو رہنما بنا کر زندگی گزارے ۔ یہ توبہ کا پورا پیکج ہے ۔جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا : 
{وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(54)}(الزمر ) ’’اور اپنے رب کی طرف رجوع کرو‘ اور اُس کے فرمانبردار بن جائو‘اس سے پہلے کہ تم پر عذاب مسلط ہوجائے ‘پھر تمہاری کہیں سے مدد نہیں کی جائے گی۔‘‘
ہمارے ہاں توبہ کا ایک حصہ بیان ہوتا ہے لیکن دوسرا بیان نہیں ہوتا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ غفورو رحیم ہے ۔ اس کی رحمتوں اور وسعتوں کا اندازہ ممکن نہیں ہے۔ مسلم شریف میں حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سو حصے فرمائے، ایک حصہ مخلوق کو عنایت فرمایا اور 99 حصے اپنے پاس رکھے ۔ مخلوق میں صرف انسان نہیں ہیں بلکہ جتنی بھی کائنات میں مخلوقات ہیں سب کو ایک حصہ دیا ۔ یہ جتنی بھی رحمت ، شفقت ، محبت مخلوقات میں دکھائی دیتی ہے ، ماں باپ اور اولاد کے رشتے میں ،بہن بھائیوں ، دیگر رشتہ داروں کے درمیان ، حتیٰ کہ جانوروں میں بھی اپنے قریبی رشتوں میں رحم کا مادہ نظر آتا ہے ، یہ سب اس ایک حصہ کا ظہو رہے ۔ ذرا سوچئے کہ 99حصے رحمت جو رب کے پاس ہے اس کا عالم کیا ہوگا ۔ یہ بات طے ہے کہ اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے۔ہمارے گناہ آسمانوں کی بلندیوں کو چھو لیں، زمین و آسمان اس سے بھر جائیں تب بھی رب کی رحمت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اللہ رحمان ہے ، رحیم ہے ، غفور ہے ، غفار ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے اللہ کی رحمت کا بیان ہونا چاہیے ۔ قرآن مجید جہاں اللہ کا یہ تعارف کرواتا ہے : 
{اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo }
رب کامطلب ہے تمام حاجات کو پورا کرنے والا، حاجت تو یہ بھی ہے کہ وہ بندے کو معاف کردے ، حاجت یہ بھی ہے کہ وہ بندے کو ہدایت دے لیکن وہی قرآن کا اللہ کا یہ تعارف بھی کرواتاہے : 
{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}
اللہ جہاں غفور و رحیم ہے وہاں وہ جلد حساب لینےوالا ،سخت سزا دینے والا، انتقام و بدلہ لینے والا اور پوراغلبہ رکھنے والا بھی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی دونوں شانوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ حدیث میں آیا:
((الایمان بین الخوف والرجاء)) ایمان خوف اور امید کی درمیانی کیفیت کا نام ہے۔
اللہ کی رحمت کی امید بھی بندہ رکھے اور اللہ کی پکڑ کا خوف رکھے۔ ایک نوجوان صحابی کی وفات کا وقت قریب آیاتو اللہ کے رسولﷺ تشریف لے گئے اورکیفیت دریافت فرمائی۔ صحابی فرمانے لگے : یا رسول اللہ ﷺ ڈرتا لگتا ہے کہ کہیں رب کی پکڑ میں نہ آجاؤں لیکن یہ امید بھی ہے کہ اللہ رحمت کا معاملہ فرمائے گا ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس کی یہ دونوں کیفیات بیک وقت ہوں تو اللہ اس پر رحم فرمائے گا ۔ معلوم ہوا کہ اللہ کا خوف بھی ہونا چاہیے مگر اس کی رحمت کی امید بھی رکھنی چاہیے ۔ بعض علماء نے لکھا کہ اللہ سے رحمت کی اُمید رکھنا فرض ہے اور اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا کفر ہے۔ جیسے سورہ یوسف میں یعقوب علیہ السلام کے الفاظ ہیں۔ فرمایا:
{اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ (87)} ’’یقیناً اللہ کی رحمت سے مایوس تو بس کافر ہی ہوتے ہیں۔‘‘
زیر مطالعہ آیت (الزمر 53) میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر فرماتاہے کہ اگر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا یعنی کوئی بڑے سے بڑا گناہ بھی کرلیا ہے تو تب بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ ۔ احادیث میں بھی آیا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺفرماتے ہیں : بالفرض اگر تم ایسے ہو جاؤ کہ تم سے گناہ نہ ہو تو اللہ کسی اور مخلوق کو لے آئےگا، وہ گناہ کریں گے مگر توبہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کومعاف فرمائے گا ۔ انسان سے گناہ ہو سکتاہے ، مگر گناہ پر ندامت کا احساس آدمیت ہے جبکہ گناہ پر اڑنا شیطنت ہے ۔ شیطان گناہ پر اڑ گیا تھا تو اللہ کی رحمت سے دور ہو گیا۔ آدم علیہ السلام سے بھی خطا ہوئی ، آپ ؑ نے توبہ کرلی تو اللہ نے خلافت کا بلند مقام دے کر زمین پر بھیج دیا ۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اللہ معاف کردے گا تو گناہ کرتے جاؤ ۔ ہرگز نہیں ۔ بلکہ توبہ کا اصل تقاضا یہ ہے کہ آئندہ غلطی سے باز آجاؤ ۔ ورنہ گناہ کی حالت میں موت آگئی تو کیا ہوگا ؟ اس کے لیے تو توبہ کا دروازہ بند ہو گیا۔حدیث ہم نے پڑھی ہے کہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اور اس سے رحمت کی امید بھی رکھتا ہے اللہ اس پر رحم فرماتاہے ۔ ایک بندہ کافر اور مشرک تھا ، اسلام قبول کرلیا تو سارے گناہ معاف ہو گئے ۔ اسی طرح بندہ سچی توبہ کرلے تو قرآن میں اللہ فرماتاہے : 
{فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ط} (الفرقان :70) ’’تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ صرف معاف ہی نہیں کرے گا بلکہ اس کی برائیوں کو بھی نیکیوں میں بدل دے گا ۔ اللہ اس پر قادر ہے۔ سورہ تحریم میں ذکر آیا:
{یٰٓــاَیـُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًاط}(آیت:8) ’’اے اہل ِایمان! توبہ کرو اللہ کی جناب میں خالص توبہ۔‘‘
رمضان ہمیں بہترین موقع فراہم کر رہا ہے کہ ہم اللہ کے سامنے جھک جائیں ، توبہ کرلیں اور اللہ کی طرف رجوع کرلیں ۔ روزہ کی وجہ سے دل نرم ہو جاتاہے ، انسان کے اندر تقویٰ پیدا ہوتا ہے ، نماز، قرآن اور نیکی کی طرف بندے کی توجہ ہو جاتی ہے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ زیر مطالعہ دوسری آیت (الزمر :54) میں اسی جانب توجہ دلائی جارہی ہے:
{وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ(54)}(الزمر )
اللہ ہدایت کسے دیتا ہے؟ سورہ شوریٰ میں فرمایا:
{وَیَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ(13)}(الشوریٰ) ’’اور وہ اپنی طرف ہدایت اُسے دیتا ہے جو خود رجوع کرتا ہے۔‘‘
اللہ تو ہدایت دینے کو تیار ہے مگر اس کے لیے رجوع ہمیں خود کرنا پڑے گا ۔اللہ کے سامنے جھکنے کا نام ہی اسلام ہے۔ اسلام جہاں نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، حج کا حکم دیتاہے وہاں سود ، جوئے ، حرام ، امانت میں خیانت اور ہر گناہ سے منع بھی کرتا ہے ۔ اسلام جہاں رشتوں کے تقدس اور حقوق کا درس دیتا ہے وہاں عدل کا حکم بھی دیتاہے ۔ فیصلے شریعت کے مطابق ہونے چاہئیں ، گھریلو زندگی اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہونی چاہیے ۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام پر عمل ہوگا تو سچی توبہ ہوگی ۔
پاکستان رمضان کی ستائیسویں شب اللہ نے ہمیں عطا کیا ، اسلامی جمہوریہ پاکستان اس کا نام رکھا گیا ، آرمی چیف بھی آیات سناتے ہیں ، چیف جسٹس بھی آیات سناتے ہیں ، اللہ انہیں جزائے خیر دے مگر یہ قرآن صرف سنانے کے لیے نہیں ہے ، کہیں عدالتوں کے باہر لکھا ہوتاہے :
{لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج }(الحدید:25) ’’تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘
یہ صرف دکھانے کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ قرآن اپنا نفاذ چاہتا ہے ۔ انہی عدالتوں میںختم نبوت کا کیس چل رہا ہے ، سود کا کیس چل رہا ہے ، ان کا فیصلہ بھی قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیے ۔ معاشرت ، سیاست اور معیشت سمیت ہر جگہ قرآن نافذ ہوناچاہیے ۔ مگر آج رمضان میں کرکٹ چل رہا ہے ، عورتیں مرد ، لڑکیاں لڑکے مخلوط ماحول میںکھیل تماشے کو دیکھ رہے ہیں ، ٹی وی سکرینز پر نظر پڑ جائے نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں ۔ رمضان میں بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو بتائیے رمضان کا تقدس کہاں گیا ، روزے کا مقصد کہاں گیا ؟ پھر ہمارا شکوہ ہوتاہے کہ اللہ کی مدد نہیں آرہی ۔ اللہ کی مدد اور رحمت چاہیے تو اللہ کی طرف پلٹ آؤ ، سرکشی اور بغاوت کی روش چھوڑ دو ۔ سورہ البقرہ میں فرمایا : 
{ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص}(البقرۃ:208)
’’ اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر گوشے میں اسلام نافذ ہو ۔ ہم کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ رو دھو کے تکمیل قرآن میں دعا کر لی تو ہم پاک صاف ہوگئے ، اب پورا سال قرآن کو دیکھنا بھی نہیں ہے ، عید کا چاند نظر آتے ہی مسجدیں خالی ہو جائیں، ہرگز نہیں ۔ پاک صاف ہونا ہے تو سچی توبہ کرنی ہوگی اور سچی توبہ تب ہوگی جب پورے کے پورے اسلام میںد اخل ہو جاؤ ۔ زیر مطالعہ آیات میں آگے فرمایا : 
{وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(55)}(الزمر) ’’اور پیروی کرو اس کے بہترین پہلو کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے‘اس سے پہلے کہ تم پر عذاب اچانک آ دھمکے اور تمہیں اس کا گمان تک نہ ہو۔‘‘
رب کی طرف سے یہ قرآن نازل کیا گیا ہے ، اس پر عمل کرو ، یہ صرف تلاوت کرنے یا تراویح میں سننے کے لیے نازل نہیں کیا گیا ، ہاں اس کا بھی ثواب ہے مگر اصل تقاضا یہ ہے کہ اس کو اپنی زندگیوں پر نافذ کیا جائے ۔ تب اللہ کی مدد اور رحمت آئے گی ۔ فرمایا :
{اَلرَّحْمٰنُ (۱)عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (2)}(الرحمٰن)’’رحمٰن نے‘قرآن سکھایا ۔‘‘
رحمت کے مستحق بننا چاہتے ہوتو قرآن کی تعلیمات پر عمل کرو ۔ عدالت میں ، پارلیمنٹ میں ، اداروں میں ہر جگہ قرآن کی رٹ قائم ہو ۔ ہمارے مقتدر حلقے ، ریاستی ادارے کہتے ہیں کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تو ہم یہ کردیں گے ، وہ کردیں گے ، تمہیں شرم نہیں آتی ملک میں اللہ کی رٹ کو چیلنج کیا ہوا ہے ، سود کا دھندہ سرعام چل رہا ہے ، میڈیا پر فحاشی اور بے حیائی کی کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے ، عدالتیں کہتی ہیں عدالت کی توہین نہ ہو ۔ اللہ کی توہین ہو جائے ، اس کے کلام کی توہین ہو جائے عدالتوں کو ، اداروں کو کوئی پروہ نہیں ۔ کہا جاتاہے آئین کی پامالی نہ ہو ، بھئی اللہ کے حکم کی پامالی کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی ۔ اپنے دل سے پوچھو شریعت کے نفاذ کے لیے تم کیا کررہے ہو؟ ہمارے استاد محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ بارہا یہ آیات سنایا کرتے تھے : 
{وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(44)} ’’اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ(45)}’’ اور جو فیصلے نہیں کرتے اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق وہی تو ظالم ہیں۔‘‘
{وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(47)}(المائدہ)’’اور جو لوگ نہیں فیصلے کرتے اللہ کے اُتارے ہوئے احکامات و قوانین کے مطابق‘ وہی تو فاسق ہیں۔‘‘
آج کفر کاسارا نظام چل رہا ہے ، سود ، فحاشی ، بے حیائی ، اللہ کے احکامات کے ساتھ سرعام کھلواڑ سب کچھ چل رہا ہے ، ان حالات میں عدالتوں کو ، اداروں کو اپنے تقدس کی پڑی ہے ، عدالتوں کی توہین نہ ہو جائے ، اداروں کے خلاف بات نہ ہو جائے ، کیا اللہ کے قرآن اور اللہ کے نظام کی بھی کوئی فکر تمہیں ہے ؟
دوروزے
ایک روزہ رمضان کا ہے اور ایک روزہ پوری زندگی کا ہے ۔ جب انسان شرعی اعتبار سے بالغ ہو جاتاہے تو زندگی بھر کا روزہ شروع ہو جاتاہے ۔ جیسے رمضان کے روزے میں کھانا پینا، زوجین سے تعلق منع ہے اسی طرح پوری زندگی کے روزے میں بھی کچھ پابندیاں ہیں ۔ جن چیزوں سے شریعت نے منع کیا ہے ان سے باز رہنا ہے اور جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان کو کرنا ہے ۔ رمضان کا روزہ افطاری کے وقت کھلے گا اور رمضان ختم ہوتے ہی ہم عید منائیں گے ۔ لیکن زندگی کا روزہ موت کے بعد جام کوثر سے کھلے گا اور عید تب ہو گی جب رب کا دیدار ہوگا ان شاء اللہ ۔
رمضان کے روزے کا حاصل تقویٰ ہے ۔ زبان ، آنکھ ، کان ، ہاتھ ، پیر کا غلط استعمال نہ ہو ، انسان کسی برائی میں مبتلا نہ ہو ۔ اگر یہ سب نہیں چھوڑ رہے تو پھر کاہے کا روزہ ہے ۔ حدیث میں ہے کہ پھر بھوکے ، پیاسے رہنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ۔ پھر وہ حدیث بھی سامنے رہے کہ جبرائیل ؑ بد دعا دے رہے ہیں کہ تباہ و برباد ہو جائے وہ شخص جو رمضان میں اپنی بخشش نہ کروا سکا ۔ حضور ﷺ نے اس پر آمین کہا ۔ جس کو بددعا جبرائیل امین دیں اور آمین امام الانبیاء ﷺکہیں تو اس کی بدقسمتی کا کیا عالم ہوگا ؟ رمضان کا آخری عشرہ ابھی باقی ہے ، اگر اب تک ہم سے کوتاہی ہوئی ہے تو اب بھی موقع ہے اللہ کے حضور جھک جائیں ،سچی توبہ کرلیں ، اپنی زندگی میں اسلام کو غالب کریں تو اللہ تعالیٰ بخش دے گا ۔ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺرمضان کے آخری عشرہ میں پوری رات قیام فرماتے تھے اور گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے تھے ۔ حضور ﷺ کا معمول تھا کہ ہر سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کے لیے بیٹھتے تھے ۔ ایک سال غزوہ کی وجہ سے آپ ﷺ اعتکاف میں نہ بیٹھ سکے تو دوسرے سال بیس دن اعتکاف کے لیے بیٹھے ۔ اعتکاف کیا ہے ؟ دنیا سے کٹ کر بیٹھ جانا اور اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ۔ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں وہ مبارک رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے اور جس میں قرآن نازل ہو ا تھا ۔وہ تقدیروں کو بدلنے والی رات ہے ، قبولیت کی رات ہے ۔ لہٰذا چاہیے کہ اس پورے عشرہ میں اللہ کی عبادت کریں ، قرآن کو پڑھیں ، سمجھیں اور اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین یا رب العالمین !