(زمانہ گواہ ہے) یوم القدس: فلسطینیوں کا جذبہ جہاد اور قربانی - محمد رفیق چودھری

9 /

پوری امت مسلمہ پر لازم ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو بچانے کے لیے ہر ممکن

کوشش کرے : ڈاکٹر خالد قدومی ( ترجمان حماس )

ریڈ ہائفرز کی قربانی کے بعد اگلا ہدف مسجد اقصیٰ کی شہادت ہے اور

اس کے بعد انہوں نے تھرڈ ٹمپل تعمیر کرنا ہے : رضا ء الحق

ہمیں حماس کی مزاحمت کا ہرحال میں ساتھ دینا چاہیے ۔ اگر خدانخواستہ وہ ختم

ہو گئے تو کوئی مسلم ریاست بچے گی اور نہ ہی مسلم حکمران بچیں 

گے :پروفیسر یوسف عرفان

یوم القدس: فلسطینیوںکا جذبہ جہاد اور قربانی کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

 

سوال: اسرائیلی جاریت اپنے عروج پر ہے، UNO کی قراردادیں ، عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اپنی جگہ ، دنیا بھر میں مظاہرے بھی آپ کے سامنے ہیں مگر اسرائیل کسی کی پرواہ نہیں کر رہا اور جنگ بندی تو دور کی بات ہے سیزفائر پر بھی آمادہ نہیں ہورہا ۔ ان حالات میں اہل فلسطین پر اسرائیلی مظالم کا توڑ کیا ہے اور کیا اب بھی وہ حالات پیدا نہیں ہوئے کہ اُمت مسلمہ پر جہاد فرض ہو ؟
پروفیسر یوسف عرفان:اُمت مسلمہ پر جہاد فرض ہے البتہ اس جہاد کی مختلف شکلیں ہیں ۔ ایک کامیاب جہاد کی مثال افغان جہاد ہے جس کو وہاں کی آرگنائزیشن نے کامیاب ، منظم اور موثر بنایا اور دنیا کی سپر پاور ز کو شکست دی ۔ جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے تو وہاں بھی جہاد فرض ہے اور ہوبھی رہا ہے مگر اس کا دائرہ بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ جیسا کہ حماس نے کہا بھی ہے کہ اب اُمت مسلمہ کو مسجد اقصیٰ کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا کرنا چاہیے ۔ یہ امت مسلمہ کا فرض بھی ہے اور فلسطینیوں کو مدد کی ضرورت بھی ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ جہاد تھوڑے ہی لوگ کریں گے مگر جیسا کہ قرآن میں ہے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار بن کر لڑرہے ہوں گے ۔ اسرائیل کا علاج یہ ہے کہ اس کے لیے سرزمین تنگ کی جائے ۔ اب تک وہ اپنا ناجائز قبضہ پھیلاتا رہا ہے ، فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضے کرکے یہودیوں کو یہاں بسایا گیا ۔ اسرائیل کے قیام کے پیچھے تین بڑی طاقتیں امریکہ ، برطانیہ اور سوویت یونین تھیں ۔ قرآن میں ہے کہ اگر مسلمان استقامت دکھائیں تو کفریہ طاقتیں بکھر جائیں گی کیونکہ ان کے دل جدا جدا ہیں ۔ آفرین ہے حماس پر جس نے استقامت دکھائی اور اسرائیل کو ابھی تک کھویا ہوا امیج واپس نہیں حاصل کرنے دیا ۔ فلسطین کے مسلمان چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہیں لیکن ان کے ایمان کی کیفیت یہ ہے کہ وہ مار کھا کھا کے کندن بن چکے ہیں۔ ایسا جذبہ جن میں ہو ان کی جیت ہوتی ہے لیکن اس جیت کو یقینی بنانے کے لیے باقی اُمت کو بھی پنجہ یہود سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔ ان کے مالیاتی ادارے ہیں ، ورلڈ بینک ہے ، ایشن ڈویلپمنٹ بینک ہے ، آئی ایم ایف ہے۔ جس کے ذریعے انہوں نے مسلم حکمرانوں کو جکڑا ہوا ہے۔ پھر UNOاور عالمی عدالت انصاف بھی ان کے ہیں جن کے ذریعے وہ ہمیں بہلاتے ہیں۔ ہمیں اس جال سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔
سوال:غزہ کی تازہ ترین صورتحال کیا ہے اور یہ معاملہ کس طرف جاتاہوا نظر آرہا ہے ؟
ڈاکٹر خالد قدومی:7 اکتوبر کے بعد سے اب تک تقریباً 40 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے تقریباً ساڑھے 7 ہزار لاپتہ ہیں ، شاید ملبے کے نیچے ہیں ۔ ان چالیس ہزار میں سے تقریباً 75 فیصد عورتیں اور بچے ہیں ۔ غزہ کا 65٪فیصد انفراسٹریکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے ۔ اسرائیل باقاعدہ طور پر فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے اور اس کے لیے وہ ہسپتالوں پر بھی بمباری کر رہا ہے ۔ چند دن قبل شفا ء ہاسپیٹل پر بمباری کرکے 200 نہتے لوگوں کو شہید کردیا ۔ کوئی انسانی حقوق کا ادارہ مداخلت نہیں کر رہا ، کوئی روک نہیں رہا ۔امریکی صدر بھی سامنے کچھ کہتا ہے اور میدان میں کچھ کر رہا ہے ۔ ایک طرف امریکہ جنگ بندی کے لیے کہتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کو اسلحہ اور امداد بھی دے رہا ہے ۔ چند دن قبل 2 بلین ڈالرز اسرائیل کے لیے منظور کیے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ سب مل کر فلسطینیوں کی نسل کشی کرنا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف فلسطینیوں کا حوصلہ ہے کہ انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے ۔ 7 اکتوبر سے پہلے صرف فلسطینی شہید ہوتے تھے لیکن اب الحمد للہ 6 فلسطینی شہید ہوتے ہیں تو ایک اسرائیلی بھی لازمی جہنم واصل ہوتاہے ۔ اسرائیلیوں کے لیے اب اس جنگ کو جیتنا اتنا آسان نہیں رہا ۔وہ غیر یہودیوں کے مذاہب کا مذاق اڑاتے ہیں ، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتے ہیں ، وہاں جاکر شراب پیتے ہیں ، نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ، نمازیوں کو زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں، ان کے منسٹرز اور خود نیتن یاہو کھلے الفاظ میں کہتاہے کہ ہم نے مسجد اقصیٰ کوگرانا ہے اور فلسطینیوں کو ختم کرنا ہے کیونکہ فلسطینیوں کا یہاں کوئی حق نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے غزہ کو ہر حال میں خالی کرنا ہے اور ہم نے سمندر تک پہنچنا ہے ۔ دوسری طرف اہل غزہ کا کہنا ہے کہ ہم کسی صورت 6 اکتوبر والی ذلت کی پوزیشن پر نہیں جانا چاہتے ، ہم لڑنا چاہتے ہیں اور عز ت کی موت مرنا چاہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ جنگ اس لیے شروع کی ہے تاکہ فلسطینیوں کو آزادی ملے ، مسجد اقصیٰ کو آزاد کروایا جائے ، یہ مقصد جب تک پورا نہیں ہوگا تب تک ہم جنگ ختم نہیں کریں گے ۔ 11 ہزار فلسطینی اس وقت اسرائیلی جیلوں میں ہیں جب تک ان کو رہا نہیں کیا جاتا تب تک ہم ایک بھی اسرائیلی قیدی کو رہا نہیں کریں گے ۔
سوال:آج یوم القدس ہے۔حماس کے مجاہدین کا جذبہ جہاد کیسا ہے ؟ اور اسرائیل UNO کی قراردادوں پر عمل درامد کیوں نہیں کرتا؟
ڈاکٹر خالد قدومی:ہر سال رمضان کا آخری جمعہ یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے منعقد کیے جاتے ہیں۔اللہ کے آخری نبیﷺ جب معراج پر تشریف لے گئے تھے تو بیت المقدس سے ہی آسمانوں کا سفر شروع ہوا تھا ۔ اس لحاظ سے بیت المقدس کی مسلمانوں کے لیے خاص اہمیت ہے اور حضور ﷺکی حدیث کے مطابق تین مساجدکی فضیلت سب سے زیادہ ہے ان میں مسجدالحرام ،مسجد نبویﷺ اور مسجد اقصیٰ شامل ہیں ۔ لہٰذا پوری امت مسلمہ پر لازم ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو بچانے کے لیے ہرممکن کوشش کرے ۔ حماس بھی اسی لیے یہ جنگ لڑ رہی ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے ا س کا نام طوفان الاقصیٰ رکھا ۔ اسی لیے مجاہدین کا مورال بلند ہے کیونکہ وہ ایک بلند مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ باقی امت کا فرض ہے کہ وہ حماس کی کمر کو مضبوط کرے ۔ اسرائیل جب مجاہدین کا سامنا نہ کر سکا تو اس نے غزہ کی عورتوں اور بچوں کو شہید کرنا شروع کر دیا تاکہ مجاہدین کے حوصلے توڑ سکے ۔ ابھی تیسرے حربے کے طور پر وہ بھوک کا ہتھیار استعمال کرنا چاہتاہے ۔ آپ خود اندازہ لگالیں مجاہد بھلے جتنا مرضی بہادر اور ثابت قدم ہو لیکن جب اس کا ایک چھوٹا بیٹا یابیٹی بھوک اور پیاس سےتڑپ رہا ہوگا تو اس کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے ۔ اس لیے میں تمام مسلمانوں سے یہ التجا کر رہا ہوں کہ وہ مجاہدین کے حوصلہ ٹوٹنے نہ دیں ، ان کی مدد کریں ، ان تک خوراک اور ادویات پہنچائیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایاجس کسی نے کسی مجاہد کے خاندان کو سنبھالا تو اس کو بھی جہاد کا ثواب ملے گا ۔ اسی لیے یوم القدس کے موقع پر لبیک یا غزہ اور لبیک یا اقصیٰ کے نعرے لگ رہے ہیں کہ ہم نے مجاہدین کا حوصلہ بننا ہے ، ان کی ہر طرح سے مدد کرنی ہے ۔
سوال: سات دن کے لیے رفح بارڈر کھولا گیا ہے ،کتنے فلسطینیوں نے مصر کی طرف ہجرت کی ہے اور اہل غزہ ہمسائے ممالک میں پناہ اور ہجرت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر خالد قدومی:بجائے اس کے کہ لوگ ہجرت کرتے جو گئے تھے وہ بھی واپس آرہے ہیں کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے گھر میں عزت کے ساتھ جینا ہے اور عزت کے ساتھ مرنا ہے ۔ یہاں تک کہ رفح کے مہاجرین جن کے گھر تباہ ہو چکے ہیں وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے ٹوٹے گھروں میں واپس جانا ہے ۔ ایک سروے میں پوچھا گیا آپ پر حملہ ہوا تو آپ کہاں جائیں تو 70 فیصدنے کہا کہ ہم اپنے گھروں کے اندر شہید ہونا پسند کریں گے ۔ ساڑھے 22 لاکھ غزہ کی آبادی ہے ، ان میں سے 65فیصد حافظ قرآن ہیں ۔ 7 اکتوبر کو جن 12 سو مجاہدین نے حملہ کیا ان میں سے 500 حافظ قرآن تھے۔ ان کا اپنے دین کے ساتھ تعلق اور عقیدہ مضبوط ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ ان کو صبر کا جذبہ دے رہا ہے ۔ اتنی تکالیف اور شہادتوں کے بعد بھی ان کے لبوں پر اللہ سے کوئی شکوہ نہیںہے۔ یہ مجاہدین پوری امت کی جنگ لڑے رہے ہیں، اگر خدانخواستہ سقوطِ غزہ کا سانحہ ہو گیا یا حماس کو ختم کر دیا جائے تو اس کے بعد اسرائیل نے مسلم ممالک پر چڑھائی کرنی ہے ۔ وہ تو ابھی سے شام ، عراق ، اردن پر حملے کر رہا ہے ۔ پھر دوسرے مسلم ممالک کا نمبر بھی آئے گا۔
سوال: حماس کے نمائندے اور ترجمان کی حیثیت سے آپ مسلمانان پاکستان کو اس عید الفطرپر حماس کی طرف سے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ڈاکٹر خالد قدومی:اہل پاکستان بالخصوص علماء کرام، خطباء اورعوام الناس سے یہی عرض ہے کہ وہ غزہ کے شہدا کے خاندانوں کی مدد کریں ، ان کے بیٹے بیٹیوں کو اپنے بیٹے بیٹیاں سمجھیں ۔ مجاہدین کی کمر مضبوط کریں تاکہ بھوک کا جو ہتھیار دشمن استعمال کرکے مجاہدین کی کمر توڑنا چاہتا ہے وہ کامیاب نہ ہو سکے ۔ دوسرا یہ کہ فلسطین کے لیے آواز اٹھانا بند نہ کریں ، آپ کے الفاظ مجاہدین کے ہتھیار ہیں ۔ آپ کے بولنے کی وجہ سے آج امریکہ ، یورپ اور تمام غیر مسلم ممالک میں عوام سٹرکوں پر ہیں ۔ اس کے علاوہ میری درخواست ہے کہ اہل غزہ کے زخمیوں کے علاج کے لیے کوشش کریں ۔ پاکستان گورنمنٹ لیگل طور پر راستہ نکالے کہ کم ازکم 100 زخمیوں کو علاج کے لیے پاکستان بھیجا جا سکے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی درخواست ہے کہ اسرائیل کے خلاف ساؤتھ افریقہ جو عدالتی کارروائی کر رہا ہے اس میں آپ بھی شریک ہو جائیں ۔ پاکستانیوں کے لیے مجاہدین کا پیغام ہے کہ آپ نے جو کچھ بھی ان کی مدد کے لیے بھیجا وہ ان تک پہنچ چکا ہے اور اس کے لیے ہم شکر گزار ہیں لیکن اہل غزہ کو مالی امداد پہنچانے کی ابھی بھی سخت ضرورت ہے۔ پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ اسرائیل پر ڈپلومیٹک اور پولیٹیکل پریشر بڑھائے ۔
سوال:اسرائیل میں سرکاری سطح پر ریڈ ہائفر کی قربانی کا آپ کی نظر میں مسجد اقصی اور یہودیوں کےمذموم مقاصد سے کیا تعلق ہے؟
رضاء الحق:یہودیوں کو 70 ءکے بعد فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔ اب ساڑھے 18 سو سال بعد وہ وہاں آباد ہونے کے لیے آئے ہیں تو کسی مقصد کے تحت آئے ہیں ۔ عالمی صہیونی تنظیم کے تحت 1898ء میں ایک اجلاس ہوا جس میں سارا روڈ میپ تیار ہوا ۔ 1917 ء میں بالفور ڈکلیریشن کروا لیا اور 1948ء میں اسرائیل قائم ہو گیا ۔ 1967ء کی جنگ میں اس کی مزید توسیع ہوگئی ۔ اس وقت 2024ء میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ غزہ کو بھی نقشہ سے مٹانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ قرآن پاک ہمیں ان کے بارے میں رہنمائی دیتاہے کہ :
{فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا(104)} (بنی اسرائیل) ’’پھر جب آئے گا پچھلے وعدے کا وقت تو ہم لے آئیں گے تم سب کو سمیٹ کر۔‘‘
جب آخری وعدے کا وقت آئے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں سمیٹ کر اس جگہ پہ لے آئے گا۔ صہیونیوں کا جو پانچ نکاتی ایجنڈا تھا اس میں پہلا نکتہ یہی تھا کہ وہ واپس اسرائیل میں آکر آباد ہوں گے ۔ ان کے ایجنڈے کا دوسرا نکتہ گریٹر اسرائیل کا قیام ہے ۔ تیسرا نکتہ ایک عالمی جنگ ہے تاکہ اس کے ذریعے ان کی پوری دنیا پر حکمرانی قائم ہو سکے ۔ اگرچہ احادیث میں بھی ایک بڑی جنگ(الملحمۃ الکبریٰ) کی پیشین گوئی ہے۔ عیسائیوں کے ہاں بھی آرمیگاڈان کے نام سے ایک بڑی جنگ کی پیشین گوئی ملتی ہے۔ نیوکون اور پروٹیسٹنٹ عیسائی بھی صہیونیوں کو اس طرف دھکیل رہے ہیں ۔بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ یہودی پیچھے بیٹھ کر ان کی ڈوریں کھینچ رہے ہوں گے ۔ چوتھا نکتہ مسجد اقصیٰ کو گرا کر تھرڈ ٹمپل کو تعمیر کرنا ہے جو ان کےلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہےکیونکہ وہ اپنے مسایاح (دجال)کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ ریڈ ہائفرز کی قربانی پیش کریں گے ، ان کے ربائیز بھی وہاں موجود ہوں گے اور ان کی موجودگی میں دجال آکر وہاں چارج سنبھالے گا۔ ان کی مذہبی کتابوں کے چند حصوں جن کو ہم سمجھتے ہیں کہ تحریف شدہ ہیں میں ریڈ ہائفرز کا ذکر ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ سرخ رنگ کی ایک ایسی گائے جس کی عمر تین سال ہو اور اس میں کوئی نقص نہ ہو ، نہ ہی حاملہ ہوئی ہو اور نہ ہی اس سے کوئی کام لیا گیا ہو اس کو وہ اپنے مسایاح کے لیے قربان کریں گے ۔ ایسی پانچ گائیں ستمبر 2022 ء میں ٹیکساس سے مغربی کنارے لائی گئی ہیں اور 22 سے 30 اپریل کے درمیان ان کا سالانہ فیسٹول پاس اوور ہوتاہے اس میں ان کو کوہ زیتون پر اپنے مسایا ح کے لیے قربان کریں گے اور پھر ان کو جلائیں گے ۔ پھر ان کی راکھ کو چھڑکا جائے گا تاکہ پاک کہا جا سکے اور پھر مسجد اقصیٰ کو گرا کر تھرڈ ٹمپل کی تعمیر شروع کی جائے گی تاکہ جلد ان کا مسایاح آکر حکومت کر سکے ۔ یہ اُن کا منصوبہ ہے لیکن ہو گا وہی جو اللہ کو منظور ہو گا۔
سوال:اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک قرارداد پاس کی جس میں باقاعدہ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ۔ امریکہ نے ووٹ نہیں دیاجس پر اسرائیل اتنا ناراض ہوا کہ اپنا وفد امریکہ بھیجنے سے انکار کر دیا ۔ اس کے باوجود بھی امریکہ اسرائیل کو مالی امداد اور اسلحہ بھیج رہا ہے ۔ امریکہ کی ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ اسرائیل کے آگے اتنا بچھا ہوا ہے ؟
پروفیسر یوسف عرفان:اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے صہیون ازم کو سمجھنا ہوگا ۔ صہیونی مال کے ذریعے حکمران خریدتے ہیں ۔ آپ نے دیکھا کہ سوویت یونین بھی ختم ہوگیا ، خلافت عثمانیہ کے بھی ٹکڑے ہوگئے اور ایک ٹکڑے پر اسرائیل بھی قائم ہوگیا ۔ اس سے پہلے صہیونیوں نے مال کے ذریعے مغربی حکمرانوں کو خریدا اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔ اسی طرح امریکہ بھی مجبور ہے ۔ جرمنی میں حالیہ دنوں میں اسرائیل کے خلاف اتنا بڑا مظاہرہ ہوا کہ انتظامیہ روک نہ پائی ،ا سی طرح امریکہ اور برطانیہ میں بھی لوگ اسرائیلی مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکل رہے ہیں لیکن ان ممالک کی حکومتیں اسرائیل کے ہاتھوں مجبور ہیں ۔ یہی حال مسلم حکمرانوں کا بھی ہے ، وہ صہیونیوں کے عالمی معاشی نظام کے ذریعے جکڑے ہوئے ہیں ۔ اس کا حل ایک ہی ہے کہ نیا عالمی نظام لایا جائے جو قرآن کی آفاقی اقدار پر مبنی ہوگا ۔ جس نے ماضی میں بھی روشن مثالیں قائم کیں ۔ اس کے لیے ہمیں قرآن اور اُسوہ رسول ﷺ سے مخلصانہ اور جرات مندانہ وفاداری کا رویہ اپنانا ہوگا ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اسرائیل باز کیوں نہیں آرہا تو اصل میں اس نے اپنا گرائونڈ ورک سارا کر لیا ہے ۔ اسرائیل کے اردگرد جو مسلم ریاستیں تھیں وہ انہوں نے اپنے کنٹرول میں کر لی ہیں ، مصر میں صدر مرسی کو ہٹا کر یہودی ماں کے بیٹے سیسی کو لایا گیا ، سعودی عرب میں ان کے مرضی کے مطابق سارا کچھ ہورہا ہے ، قطر امریکہ کا اڈا بن چکا ہے ۔ اب اسرائیل اپنے اہداف کی تکمیل چاہتا ہے ، بھارت سمیت کافر طاقتیں اس کے ساتھ ہیں ، اسرائیلی استعمار کی ایک ٹانگ اگر یروشلم یا تل ابیب ہے تو دوسری ٹانگ دہلی ہے، بھارت اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دور رُخ ہیں ۔ اس ٹانگ کو توڑنا بہت ضروری ہے ۔ اسی طرح اگر وہ فلسطین اور لبنان کا مکمل قبضہ حاصل نہیں کرتے تو ان کا استعمار وہیں رک جائے گا اس لیے وہ سرتوڑ کوشش کررہے ہیں کہ ان پر قبضہ مکمل کیا جائے اور کسی کی نہیں سن رہے ۔ صرف حماس ان کے راستے میں ایک دیوار بنی ہوئی ہے وہ اُمت مسلمہ کی سپورٹ کے بغیر کتنی دیر کھڑی رہے گی ۔ اسرائیل نے سرخ گائے کی قربانی کے بعد جو کچھ کرنا ہے وہ بہت ہی خطرناک ہوگا ۔ پاکستان کے لیے بھی خطرہ ہے ۔ گاؤماتا کے پجاری بھی ان کے اتحادی ہیں ۔ کشمیر کو انہوں نے برننگ پوائنٹ رکھا ہوا ہے ۔ پاکستان کی تمام سرحدوں پر جنگی کیفیت ہے ۔ عوام کو آئی ایم ایف نے جکڑ رکھا ہے ، ان ساری چیزوں کا اسرائیل کے ساتھ ایک تعلق ہے ۔ تمام مسلم ممالک کے برعکس پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے ، اس کے اندر پوٹینشل بھی ہے ۔ وہ اس کی پوٹینشل کو متاثر کر رہے ہیں ۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ اگر غزہ نہیں بچے گا تو پاکستان بھی نہیں بچے گا ۔
سوال:یہودیوں کی جو پلاننگ ہے کہ ریڈ ہائفر کی قربانی کے بعد تھرڈ ٹمپل کی تعمیر اور پھر مسایاح کے ذریعے عالمی حکومت وغیرہ ۔ کیا یہودی اور عیسائی دونوں اس سلسلے میں ایک پیج پر ہیں ؟
رضاء الحق:جسے ہم عیسائی دنیا کہتے ہیں وہ اصل میں سیکولر دنیا ہے اور وہ صہیونی کنٹرول میں ہے ۔ جہاں عیسائیت کوئی ایسی پوٹینشل رکھتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر کوئی ایسا کردار ادا کر سکتی ہے جس سے مسلمانوں کو خطرہ ہو تو وہ پروٹیسٹنٹ اور نیوکون ہیں ۔یہ یہودیوں کے ساتھ ایک پیج پر ہیں ۔ حتیٰ کہ امریکن نیوکونز کو کرسچن ذائنسٹ کہا جاتا ہے۔ چند دن پہلے صدر کلنٹن ،اوباما اور بائیڈن نے مشترکہ بیان دیا ہے کہ اگر غزہ کا معاملہ ختم ہو جائے تو عرب ممالک اب بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے لیے تیار ہیں ۔ امریکہ میں کوئی بھی پارٹی برسراقتدار آجائے یا کوئی بھی صدر بن جائے وہ یہودیوں کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ۔ ٹرمپ نے باقی تمام جگہوں سے اپنی فوجیں واپس بلوائیں لیکن اس کے دور میں ہی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کا یہودی داماد کشنر عملی طور پر وائٹ ہاؤس کو چلا رہا تھا ۔ اسرائیل جس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے تو عوامی رائے عامہ اس کے خلاف ہوتی جارہی ہے ۔ روایت میں تذکرہ ہے کہ جب آخری جنگ ہوگی اور مسلمانوں کو فتح ہوگی تو پتھر بھی بول پڑیں گے کہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے اسے قتل کر دو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی سے نفرت اتنی بڑھ جائے گی ، انہوں نے کام ایسے کیے ہوں گے ۔ وہ نفرت آج بھی پوری دنیا میں عوام کے اندر آپ دیکھ سکتے ہیں مگر حکومتیں آج بھی اسرائیل کے ساتھ ہیں ۔ امریکہ نے چند دن پہلے 18 ارب ڈالر کے ایف 15 اسرائیل کو دینے کی منظوری دی ہے ، بھارت سےبھی ڈرونز جارہے ہیں ۔لیکن سب سے بڑی ہلاکت عربوں کے لیے ہے ۔جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:((ويل للعرب من شر قد اقترب)) قرآن میں جس طرح فرمایا گیا ہے کہ :
{اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ(22)} (السجدۃ) ’’یقیناً ہم ایسے مجرموں سے انتقام لے کر رہیں گے۔‘‘
تاریخی طور پر اگر آپ دیکھیں تو وہ مجرم یہودی بھی ہیں ، عیسائی بھی ہیں، ان سے بھی اللہ نے انتقام لینا ہے لیکن اس وقت سب سے بڑے مجرم عرب ہیں ۔ اس لیے کہ ان کی زبان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ۔ آخری بنی ان میں بھیجے ۔ دوسرا بڑا مجرم پاکستان ہے۔ اسلام کے نام پر قائم کیا گیا لیکن اسلام کے مطابق فیصلے نہیں ہورہے ۔ ادھر غزہ میں مسلمان شہید ہورہے تھے ادھر PSLہورہا تھا اور اس میں فلسطین کا جھنڈا لہرانے کی اجازت نہیں تھی ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ تو سیم پیج پر ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان بھی سارے ایک پیج پر ہیں ؟ اگر ہم ایک پیج پر نہیں آتے تو مستقبل میں ہمارے لیے بڑے خطرات ہیں ۔
سوال:عالمی عدالت انصاف کےانٹرم فیصلہ میں اسرائیلی جارحیت کو فلسطینیوں کی نسل کشی قراردیا گیا تھا ، اب اس کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں جانے والی امداد کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے کیونکہ غزہ میں قحط جیسی صورتحال ہے بچے بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر مر رہے ہیں ۔ کیا اسرائیل عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے پر عمل کرتا ہوا نظر آتا ہے؟
پروفیسر یوسف عرفان:اسرائیل اس پر عمل نہیں کرے گا کیونکہ یہ سارے اسی کے ہی پھیلائے ہوئے ادارے ہیں جو پوری دنیا کو بہکاتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں اور پھر ہدف کو گھیر کے مار دیتے ہیں۔اس وقت حماس کی مزاحمت خطرے میں ہے۔ وہ آخر کب تک لڑیں گے، چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں، کوئی ریاست بھی ان کی مددکو تیار نہیں۔ اس وقت ان کے لیے پورے عالم اسلام سے سنجیدہ آواز اُٹھنی چاہیے ۔ اگر حکمران ان کا ساتھ نہیں دیتے تو عوام ساتھ دیںاور ایسی آواز اٹھائیں کہ عالمی عدالت انصاف بھی کچھ کرنے پر مجبور ہو جائے ۔ اگر یہ جنگ جاری رہتی ہے تو عالم عرب کے اندر ایک کیفیت پیدا ہوگی ۔ عرب حکمران اگر اسرائیل کا ساتھ دیں گے تو آخر میں خود بھی جائیں گے کیونکہ گریٹر اسرائیل ان کی ریاستوں کو برداشت نہیں کرے گا۔ رہا پاکستان تو یہود پاکستان کو دشمن نمبر ایک کہتے ہیں ۔ باقی تو ان کے کھلونے ہیں ۔ پاکستان سپرپاورز کی افغانستان میں شکست کا باعث بن چکا ہے ۔ لہٰذا س کو اپنی روشن تاریخ کو مدنظر رکھ کر اپنی پالیسی از سر نو بنانی چاہیے ۔
سوال: آج یوم القدس ہے اور غزہ لہو لہان ہے ۔ ان حالات میں اپ اپنے فلسطینی بھائیوں اور امت مسلمہ کو کیا پیغام دیں گے ؟
رضاء الحق:اسرائیل اپنے اہداف کی طرف بڑھتا جا رہا ہے اور ہم بتدریج پسپائی اختیار کرتے جا رہے ہیں ۔ لہٰذا صرف دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا ۔ حدیث میں وہن کی بیماری کا ذکر ہے جس سےمراد دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ہے ۔ اس وقت امت مسلمہ کو یہ بیماری لاحق ہے ۔ 57 مسلم ممالک ہیں لیکن کوئی آواز اُٹھانے کو تیار نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ غزہ کا معاملہ جلد ختم ہو اور ہم آگے بڑھ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کریں ۔ اگر57 مسلم ممالک متحد ہو کر صرف تجارتی اور سفارتی بائیکاٹ کر دیں  اور عوام بھی ان کا ساتھ دیں تو اسرائیل سمیت پوری دنیا کی طاقتیں گھٹنوں کے بل گر جائیں گی ۔ OICکے مینڈیٹ  میں شامل ہے کہ فلسطینیوں کی عسکری اور مالی مدد کی جائے گی ۔حماس اور فلسطین مجاہدین و عوام کا بھرپور ساتھ دیا جائے۔ امت مسلمہ اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے یا تو اسی طرح ذلیل و خوار ہوتے رہیں یا پھر اللہ کے دین کے لیے متحد ہو جائیں ۔ نبی کریم ﷺکی احادیث مبارکہ میں واضح خبریں موجود ہیں کہ وقت آئے گا جب کل روئے ارض پر اللہ کا دین غالب ہوگا لیکن اس میں ہمارا کردار کیا ہے یہ سوال اہم ہے ۔ دعائیں تو بہت ہورہی ہیں ۔قنوت نازلہ کا اہتمام بھی ہوا لیکن اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔